[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: ڈاڑھی اور اسبال ازار یعنی ٹخنوں پر لباس کے بارے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر کیا ہے؟(فضل کریم بھٹی)
جواب: ڈاڑھی اور ٹخنوں پر لباس وغیرہ کے حوالے سے غامدی صاحب نے اپنا نقطۂ نظر اپنی کتاب ’’اخلاقیات‘‘ میں ’’غرور و تکبر‘‘ کے عنوان کے تحت درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی (تکبر کی ) بنا پر ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے جن سے امارت کی نمایش ہوتی ہو یا وہ بڑائی مارنے، شیخی بگھارنے، دون کی لینے، دوسروں پر رعب جمانے یا اوباشوں کے طریقے پر دھونس دینے والوں کی وضع سے تعلق رکھتی ہوں۔ ریشم پہننے، قیمتی کھالوں کے غلاف بنانے اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے آپ نے اسی لیے روکا ہے۔ یہاں تک کہ چھوٹی ڈاڑھی اور بڑی بڑی مونچھیں رکھنے والوں کو بھی یہ متکبرانہ وضع ترک کر دینے کی نصیحت کی اور فرمایا ہے کہ وہ اپنا یہ شوق ڈاڑھی بڑھا کر پورا کر لیں، لیکن مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھیں۔ (اس نصیحت کا صحیح مفہوم یہی تھا، مگر لوگوں نے اسے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم سمجھا اور اس طرح ایک ایسی چیز دین میں داخل کر دی جو اس سے کسی طرح متعلق نہیں ہو سکتی۔)‘‘ (۶۲)
شلوار یا ازار اب ٹخنوں سے اوپر رکھنا اسی صورت میں ضروری ہے، جبکہ اسے ٹخنوں سے نیچے رکھنا آج بھی تکبر کی علامت ہو۔ جو چیز ہمیشہ کے لیے ممنوع ہے، وہ لباس میں تکبر کے کسی پہلو کا موجود ہونا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں تہ بند باندھنے میں تکبر کے پہلو کی نفی کرنے کے لیے یہ حکم دیا تھا کہ اسے ہر شخص ٹخنوں سے اوپر رکھے۔ یہ حکم اصولاً لباس میں موجود تکبر کے ہر پہلو کی نفی کرنے کے لیے تھا۔
سوال: کیا جان دار کی تصویر بنانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟ تصویر کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟(فضل کریم بھٹی)
جواب: تصویر کے بارے میں عمومی نقطۂ نظر یعنی یہ کہ جان دار کی تصویر ناجائز اور بے جان کی جائز ہے، یہ درست نہیں ہے۔ صحیح نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر وہ تصویر ناجائز ہے ، جو کسی بھی درجے میں مظہر شرک ہے۔ یہی بات قرآن مجید کی واضح رہنمائی سے ہمارے سامنے آتی اور یہی احادیث صحیحہ سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے۔ صحابہ اور تابعین کا فہم بھی یہی حکم لگاتا اور ان کا عمل بھی اسی کے مطابق دکھائی دیتا ہے ۔ یہی بات قدیم آسمانی مذاہب میں پائی جاتی ہے۔
قرآن و حدیث میں تصاویر پر جتنی تنقید بھی کی گئی ہے، وہ سب مشرکانہ تصاویر کے حوالے سے ہے۔ عام نوعیت کی تصاویر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ وہ تصاویر جن میں شرک کے علاوہ کوئی اور دینی یا اخلاقی خرابی پائی جاتی ہے،وہ بھی دینی طور پر بالکل ممنوع ہیں۔ لیکن تصویر پر بحیثیت تصویر، خواہ وہ جان دار کی ہو یا بے جان کی، دین کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ خدا کا دین تصویر بنانے کو صرف اور صرف اس وقت ممنوع قرار دیتا ہے، جب اس میں کوئی دینی یا اخلاقی خرابی پائی جاتی ہو۔
سوال: ڈاکٹر عبدالغنی صاحب نے برمودا مثلث کے بارے میں ملنے والی معلومات کی بنا پر اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کیا ہے کہ برمودا مثلث دراصل، سجین کی طرف جانے والا راستہ ہے اور اس علاقے میں جو اڑن طشتریاں دکھائی دیتی ہیں ، وہ درحقیقت وہ فرشتے ہیں جو ارواح کو سجین کی طرف لے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اس خیال کو ڈاکٹر رے مونڈ اے موڈی (Dr. Raymond A Moodi)کی کتاب ’’موت کے بعد زندگی‘‘ میں بیان کردہ واقعات سے موکد کرتے ہیں۔ اس کتاب میں ڈاکٹر موڈی نے کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں معلومات دی ہیں، جنھیں ‘Clinically Dead’ قرار دیا گیا، لیکن کسی وجہ سے وہ دوبارہ زندہ ہو گئے، چنانچہ ان کے ذریعے سے ہمیں موت کے بعد ہونے والے بعض واقعات کے بارے میں پتا چل گیا۔ برمودا مثلث کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون حیدرآباد سے شائع ہونے والے رسالے ’’بیداری‘‘ کے مئی ۲۰۰۶ کے پرچے میں چھپا ہے۔ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ کے خیال میں کیا ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کی یہ تحقیق درست ہے؟ (عبدالوحید خان)
جواب: ڈاکٹر عبدالغنی فاروق صاحب نے برمودا مثلث کے بارے میں موجود معلومات کی جو توجیہ بیان کی ہے، یہ ان کی ایک رائے ہے، جس پر کوئی شخص غور و فکر کر سکتا ہے۔
البتہ اس بات میں پریشانی کی کوئی چیز نہیں کہ خدا کی کائنات کے بہت سے راز تاحال سر بستہ ہیں، ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ان میں سے کچھ انسان پر منکشف ہو جائیں اور بہت سے کبھی منکشف نہ ہوں۔
ڈاکٹر صاحب نے جس وادی میں قدم رکھنے کی کوشش کی ہے، ہمارا خیال ہے کہ اس میں قدم رکھنا درست نہیں ہے۔ فرشتے کیا اس طرح کا اپنا کوئی ظہور رکھتے ہیں، ہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ ہو سکتا ہے کہ یہ جنات کی کوئی دنیا ہو یا ہو سکتا ہے کہ یہ خدا کی کوئی ایسی مخلوق ہو جس کے بارے میں ہمیں خدا کی طرف سے کوئی علم دیا ہی نہیں گیا۔
ڈاکٹر موڈی کی ’’موت کے بعد زندگی‘‘ کے حوالے سے کی گئی تحقیقات دراصل، ان کے اس خیال پر مبنی ہیں کہ ایک آدمی کچھ دیر کے لیے واقعتا مر کر دوبارہ اس دنیا میں واپس آ سکتا ہے۔ وہ جن لوگوں کو ‘Clinically Dead’ قرار دے رہے ہیں، ان کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جوفی الواقع مر چکے تھے اور فرشتے ان کی روحیں نکال چکے تھے، لیکن پھر کسی وجہ سے ان کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹا دی گئیں۔ چنانچہ اس صورت حال میں ہمیں عالم برزخ کے احوال کے بارے میں کچھ انسانوں کے مشاہدات جاننے کا موقع مل گیا۔
ہمارے خیال میں یہ سرتاسر لغو بات ہے۔ قرآن مجید موت کے بعد عالم برزخ میں داخل ہونے والوں کے بارے میں ہمیں یہ خبر دیتا ہے:
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کچھ نیکی کماؤں۔ ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے، جو وہ کہنے والا بنے گا اور ان کے آگے اُس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا، جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘ (المومنون۲۳: ۹۹۔۱۰۰)
نیز فرمایا:
’’اور اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو ڈھیل دینے والا نہیں، جبکہ اس کی مقررہ مدت آ پہنچے گی۔‘‘ (المنافقون۶۳: ۱۱)
ڈاکٹر عبدالغنی فاروق صاحب کا خیال ہے کہ ڈاکٹر رے مونڈ اے موڈی نے کچھ دیر کے لیے مر کر دوبارہ زندہ ہو جانے والے جن افراد کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، یہ دراصل، وہ دوزخی افراد ہیں جنھیں پہلے وفات دے دی گئی اور فرشتے ان کی روحوں کو سجین کی طرف لے گئے، لیکن پھر کسی وجہ سے ان کی ارواح ان کے جسموں میں لوٹا دی گئیں۔
ہمارے خیال میں اس تصور سے قرآن کا بیان باطل ہو جاتا ہے۔
سوال: حلالہ کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کیا ہے؟ کیا اسلام میں اس کی گنجایش ہے؟ (احمد اختر)
جواب: تیسری طلاق اور اس کے ضمن میں حلالہ سے متعلق بحث کو استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی کتاب ’’قانون معاشرت‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’ ایک رشتۂ نکاح میں دو مرتبہ رجوع کے بعد تیسری مرتبہ پھر علیحدگی کی نوبت آ گئی اور شوہر نے طلاق دے دی تو اس کے نتیجے میں عورت ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو جائے گی ، الا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہو اور وہ بھی اسے طلاق دے دے۔
ارشاد باری ہے:
’’پھر اگر اُس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اِس کے بعد وہ عورت اُس کے لیے جائز نہ ہوگی، جب تک اُس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے ۔ پھر اگر اُس نے بھی طلاق دے دی تو اُن دونوں کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضایقہ نہیں، اگر یہ توقع رکھتے ہوں کہ اب وہ حدودالٰہی پر قائم رہ سکیں گے۔ اور یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں جنھیں وہ اُن لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے جو جاننا چاہتے ہیں۔‘‘ (البقرہ ۲ : ۲۳۰)
پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کے لیے قرآن نے اس آیت میں تین شرطیں بیان فرمائی ہیں :
ایک یہ کہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے ۔
دوسری یہ کہ اس سے بھی نباہ نہ ہو سکے اور وہ اسے طلاق دے دے ۔
تیسری یہ کہ وہ دونوں سمجھیں کہ دوبارہ نکاح کے بعد اب وہ حدود الٰہی پر قائم رہ سکیں گے ۔
پہلی اور دوسری شرط میں نکاح سے مراد عقد نکاح اور طلاق سے مراد وہی طلاق ہے جو آدمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا فیصلہ کر لینے کے بعد اپنی بیوی کو دیتا ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’اصل یہ ہے کہ لفظ نکاح شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا اطلاق ایک عورت اور مرد کے اس ازدواجی معاہدے پر ہوتا ہے جو زندگی بھر کے نباہ کے ارادے کے ساتھ زن و شو کی زندگی گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ ارادہ کسی نکاح کے اندر نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک سازش ہے جو ایک عورت اور ایک مرد نے باہم مل کر کر لی ہے ۔ نکاح کے ساتھ شریعت نے طلاق کی جو گنجایش رکھی ہے تو وہ اصل اسکیم کا کوئی جزو نہیں ہے ، بلکہ یہ کسی ناگہانی افتاد کے پیش آ جانے کا ایک مجبورانہ مداوا ہے ۔ اس وجہ سے نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے ۔ اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض ایک معین و مخصوص مدت تک ہی کے لیے ہو تو اس کو متعہ کہتے ہیں او رمتعہ اسلام میں قطعی حرام ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس نیت سے کسی عورت سے نکاح کرے کہ اس نکاح کے بعد طلاق دے کر وہ اس عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لیے جائز ہونے کا حیلہ فراہم کرے تو شریعت کی اصطلاح میں یہ حلالہ ہے اور یہ بھی اسلام میں متعہ ہی کی طرح حرام ہے ۔ جو شخص کسی کی مقصد بر آری کے لیے یہ ذلیل کام کرتا ہے ، وہ درحقیقت ایک قرم ساق یا بھڑوے یا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ’کرایے کے سانڈ‘ کا رول ادا کرتا ہے اور ایسا کرنے والے اور ایسا کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۷)‘‘ (۶۲۔۶۴)
_______________