HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


بھولا اور سیانا مومن

سوال: احادیث میں ہے:’المؤمن غر کریم...‘(مومن مہربان بھولا ہے...)،’لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین...‘(مومن ایک بل سے دوبار نہیں ڈسا جاتا...)،’اتقوا فراسۃ المؤمن فإنہ یری بنور ربہ...‘(مومن کی فراست سے بچو وہ اپنے رب کے نور سے دیکھتا ہے...)۔بظاہر ان روایات میں تناقض ہے۔ ان روایتوں کوکس طرح جمع کریں گے؟(وحدت یار)

جواب:دونوں باتوں کا محل الگ الگ ہے۔ شارحین نے بالکل صحیح بیان کیا ہے کہ اس سے فریب اور چالاکی کی نفی کی گئی ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ مومن سمجھ دار نہیں ہوتا۔ مومن خدا کے حضور جواب دہی کے احساس کے تحت فریب اور سازش جیسے مکروہ کاموں سے گریزاں رہتا ہے۔ دوسرے وہ حسن ظن اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت خود غرضی اور موقع پرستی جیسے عوارض سے بھی بلند ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے رویے اور عمل میں ایک سادہ آدمی نظر آتا ہے۔ غالباً یہی بات ہے جس کے لیے ’غر کریم‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ دوسری روایتوں میں مومن کے سمجھ دار ہونے کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی سمجھ کا اعلیٰ ترین اظہار اخلاق کی درستی اور جذبات کے صحیح رخ پر استوار ہونے میں ہے۔ دین کی تعلیمات دل و دماغ میں اتر جائیں اور عمل اس کے مطابق ڈھل جائے تو وہ فراست حاصل ہو جاتی ہے جسے فراست مومن سے تعبیر کیا گیا ہے۔ باقی رہے دنیا کے شر تو اللہ تعالیٰ ان سے حفاظت کا بند وبست ایسے صالحین کے لیے اپنی جناب سے کرتے رہتے ہیں۔

 

امریکہ سے جہاد

سوال: موجودہ حالات میں افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا اس کو جہاد کہہ سکتے ہیں۔ کیا کسی خاص شرائط میں انفرادی جہاد جائز ہے۔ مثلاً کسی اسلامی ملک پر کافر یلغار کریں اور حکومت وقت بزدل ہو کرکفار سے ہم نوا ہوجائے۔ اس صورت حال میں دین کا تقاضا کیا ہے؟ (وحدت یار)

جواب:ہماری رائے میں حالات خواہ کچھ بھی ہوں، انفرادی جہاد جائز نہیں ہے۔حکومت کا بزدل ہونا یا جہاد کی ذمہ داری ادا نہ کرنا کسی مسلمان کو اس کا مکلف نہیں ٹھہراتا کہ وہ خود جہاد کرنے لگے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ حکومت کو اس کی ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ کرے اور جب تک حکومت آمادہ نہ ہو کوئی قدم آگے نہ بڑھائے۔ سیاسی گروہوں کی سیاسی جدوجہد دنیوی سیاست ہے ۔ اسے خواہ مخواہ دینی عنوانات دینے سے صورت حال پیچیدہ ہوتی ہے۔ اسلامی جہاد صرف وہ ہے جو باقاعدہ حکومت کے تحت کسی ظلم کے استیصال کے لیے ہو یا مسلم وطن کے دفاع کے لیے کیا جائے۔ باقی رہی سیاسی جدوجہد تو اس کے لیے کسی کی جان لینا دین کی رو سے جائز نہیں۔ مزیدبرآں امت مسلمہ کی حالت زار کے پیش نظرتدبیر کی سطح پر بھی یہ نقصان کا باعث ہے اور منزل دور سے دور ہوتی جارہی ہے۔

 

محتاجی سے بچنے کی دعا

سوال:میرے ہاتھ میں آپ کا رسالہ ماہنامہ’’ اشراق‘‘ ماہ جون ۲۰۰۶ ہے۔ اس کے ٹائٹل پر درج ہے : ’’اللہ تعالیٰ نے یہ نظام اس طرح قائم کیا ہے کہ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کے محتاج اور محتاج الیہ کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں۔ ‘‘ میں ہی نہیں، سب لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم غلط دعا کرتے ہیں؟(برکت علی )

جواب:آپ کی دعا بالکل درست ہے۔ ہماری بھی دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کسی کا محتاج نہ کرے۔ آمین۔ محولہ عبارت میں جو محتاجی بیان ہوئی ہے، اس میں اور ہماری دعا کی محتاجی میں فرق ہے۔ ہم تو صحت اور اپنی کمائی کے جاری رہنے کی دعا کرتے ہیں۔ صحت اس لیے کہ ہم موت تک اپنے سارے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہوئے رخصت ہوں۔ کسی کی ذمہ داری نہ بن جائیں۔ اپنی کمائی اس لیے کہ ہمیں کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ محولہ عبارت میں محتاجی سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے دونوں طرح کے لوگوں کی ضرورت ہے۔ ایک وہ جو سرمایہ فراہم کریں اور انتظام کریں اور دوسرے وہ جو ان کے لیے کام کریں۔ اس طرح لوگ مختلف خدمات انجام دیتے ہیں اور معیشت کی گاڑی رواں دواں رہتی ہے۔غرض یہ کہ اس عبارت میں اس نوعیت کی خدمات کے لیے محتاج اور محتاج الیہ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

 

قومی بچت سرٹیفکیٹ

سوال: عمر کے ساتھ ساتھ میرے سب جوڑ ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔میں صرف ۲۴۰۰ روپے پنشن حاصل کرتا تھا۔ اس وقت میری عمر صرف ۸۱ سال ہے۔ بے کاری کی مدت بھی تقریباً چھ سال ہو گئی ہے۔ اب پنشن ۳۰۰۰ روپے ملتی ہے۔ جو اس زمانے میں گزارے کے لیے ناکافی ہے۔ مزید یہ کہ کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔ میں نے اپنی رقم سے جو رکھے رکھے کم سے کم ہوتی جارہی تھی، قومی بچت کے دفتر سے سرٹیفکیٹس بہبود اسکیم لے لیے ہیں۔ ان سے بھی تقریباً ۳۰۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ اس طرح چھ ہزار روپے سے کچھ گزارہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کے ساتھ کاروبار میں لگا دوں تو آپ کے علم میں ہو گا کہ قرآن چھاپنے والے ادارے بھی لوگوں کے پیسے ہضم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ سرٹیفکیٹ کی آمدنی حرام ہے۔ بتائیے میں کیا کروں؟ (عبداللہ)

جواب:سرٹیفکیٹ سے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے، وہ سود کی آمدنی ہے۔ حکومت نے عوام سے قرضہ لینے کے لیے یہ اسکیم بنائی ہوئی ہے۔ حکومت اس قرض پر عوام کو سود ادا کرتی ہے۔ آپ نے جیسے اپنے حالات لکھے ہیں، ان میں آپ کو کوئی دوسرا مشورہ دینا مشکل ہے۔ بہرحال، اگر آپ اپنے آپ کو اس معاملے میں معذور سمجھتے ہیں اور آپ کے لیے کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے تو آپ اس آمدنی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ آپ کے عذر کے پیش نظر آپ کے اس معاملے سے درگزر فرمائیں گے۔لیکن یہ فیصلہ آپ ہی نے کرنا ہے کہ آپ معذور ہیں اور آپ کو یہ روپے لے لینے چاہییں۔

آپ کا سوال یہی تھا،جو میں نے اوپر نقل کر دیا ہے۔ باقی آپ نے ان لوگوں کی مثالیں دی ہیں جو لوگوں کے ساتھ دھوکا اور فریب کر کے انھیں لوٹ رہے ہیں۔ آپ یہ مثالیں دے کر اپنا یہ خیال موکد کرتے ہیں کہ سرٹیفکیٹ کی آمدنی لینا، اس طرح لوگوں کو لوٹنے سے بہتر ہے۔ دیکھیے، جس طرح ان لوگوں کی آمدنی حرام ہے، اسی طرح سود کی آمدنی بھی حرام ہے۔ صورت واقعہ کے پہلو سے اگر کچھ فرق ہے تو وہ اس کو جائز نہیں بنا سکتا۔ ہاں، ایک معذور آدمی کے نقطۂ نظر سے آپ کا اسے ترجیح دیناسمجھ میں آتا ہے۔

 

حضرت نوح علیہ السلام کی عمر پر اشکال

سوال:قرآن مجید میں آتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال دعوت وتبلیغ کا کام کیا۔ اب تک میرا خیال تھا کہ انسان کی اوسط زندگی اور قد کاٹھ ایک جیسا ہی ہے۔ دوچار انچ یا پانچ دس سال کا فرق تو سمجھ میں آتا ہے ۔ لیکن روایات میں عوج بن عنق کے قد کاٹھ کے بارے میں جس طرح مبالغہ آرائی پائی جاتی ہے، وہ حقیقت نظر نہیں آتی۔ چونکہ ان کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے، اس لیے ہم آسانی سے اس کی تردید کر سکتے ہیں۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی ۹۵۰ سال تبلیغ کا ذکر قرآن مجید میں ہے جس کو ہم کسی صورت نہیں جھٹلا سکتے۔ کیا حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے تمام افراد کی عمریں اتنی ہی تھیں؟ اس قوم کے قد کاٹھ ہمارے جیسے تھے یا ان کی نوعیت کچھ اور تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ اب سے چار پانچ ہزار سال پہلے بتاتے ہیں۔ چار پانچ ہزار سال انسانی تاریخ میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ یہ بات کسی طور سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف چار ہزار سال پہلے کسی کی عمر ہزار سال ہو۔ قرآن سے کسی اور پیغمبر کے بارے میں اس طرح کی بات معلوم نہیں ہوتی۔ (محمد عارف جان)

جواب:حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ قبل تاریخ کا زمانہ ہے۔مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بائیبل میں دیے گئے شجرۂ نسب سے حضرت آدم اور حضرت نوح وغیرہ کے زمانے کا اندازہ لگانا درست نہیں ہے۔ اس شجرۂ نسب میں وہی نام باقی رہ گئے ہیں جو بہت معروف ہو گئے تھے اور بیچ کی کئی نسلیں غائب ہیں۔ ان کے خیال میں یہ درحقیقت بڑے بڑے سرداروں کے نام ہیں۔ ایک اور دوسرے شخص کے بیچ میں ممکن ہے، کئی سو برس کا فاصلہ ہو۔ ان کی اس رائے کو سامنے رکھیں جو واضح طور پر درست لگتی ہے تو حضرت نوح کے زمانے کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اگر کوئی خارجی شواہد موجود ہوتے تو ہمیں کوئی رائے قائم کرنے میں مددمل سکتی تھی۔ لیکن حضرت نوح کے حوالے سے ایسے کوئی شواہد میرے علم کی حد تک ابھی تک نہیں ملے۔

اب ہمارے پاس واحد یقینی ذریعہ قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید میں بھی صرف حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ہی کا ذکر ہے۔ کوئی اور بات اس زمانے کے انسانوں کے حوالے سے مذکور نہیں ہے۔ بائیبل کتاب پیدایش کے باب۵اور ۶ میں جو تفصیل منقول ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لمبی عمروں کا یہ سلسلہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ختم کر دیا گیا۔ قرآن مجید کے بیان کی روشنی میں ہم یہ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ بائیبل کا یہ بیان درست ہو۔ لیکن یقینی رائے کے لیے سائنسی شواہد کی دستیابی ضروری ہے، البتہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان حتمی ہے اور ان کے بارے میں ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی عمر یہی تھی۔

یہ سوال کہ اس زمانے کے لوگوں کے قد کاٹھ کیا تھے، اس کا واحد ماخذ اسرائیلی روایات ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اس سلسلے میں جو کچھ مروی ہے، وہ انھی روایات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس باب میں خاموشی ہی بہتر ہے۔ جو خارجی شواہد ابھی تک سامنے آئے ہیں، ان سے تو قد کاٹھ کے بارے میں ان بیانات کی تائید نہیں ہوتی۔ لیکن قبل تاریخ کے انسان کے بارے میں ان تصورات کی قطعی تردید بھی شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔

معلوم تاریخ کے انسان کی عمر اور قد کاٹھ کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آج کے انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔خارجی شواہد یعنی عمارتیں اور دوسرے آثار سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا اس کی روشنی میں ہم قرآن کے بیان کی نفی کر سکتے ہیں۔ یقیناًاس نفی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ قرآن کے بیان کو ماننے کے بعد ہم یہ اندازہ بھی قائم کر سکتے ہیں کہ ان کے زمانے میں عام عمریں بھی ایسی ہی تھیں۔ اس اندازے کی تائید بائیبل کے بیان سے بھی ہوتی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر کو ایک معجزہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔ باقی رہا قد کاٹھ تو اس باب میں کوئی یقینی بات ہمارے پاس نہیں ہے۔ خارجی شواہد کی روشنی میں ہم ان اسرائیلی روایات کو رد بھی کر سکتے ہیں۔

______________

B