(گذشتہ سے پیوستہ)
نبی جس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں، اس کے لحاظ سے عبادت و ریاضت میں بعض اوقات ان سے زیادہ اہتمام کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ اس سے مقصود جمعیت خاطر بھی ہوتی ہے۔ تبتل الی اللہ کے ذریعے سے قلب و نظر کی تطہیر بھی اور علم و عمل میں استقامت بھی۔ موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ انھیں جب تورات کی الواح دینے کا فیصلہ کیا گیا تو اس سے پہلے وہ اس بار عظیم کو اٹھانے کے لیے ذہنی اور قلبی تیاریوں کی غرض سے چالیس دن تک جبل طور پر معتکف رہے۔۶۷ سیدنا یحییٰ اور سیدنا مسیح نے رہبانیت کی حد تک زہد و تجرد اختیار کیے رکھا، اس لیے کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ وہ اس قوم پر اتمام حجت کی جد و جہد میں صرف کرنا چاہتے تھے، جس کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی مقصد سے ہر سال اعتکاف کرتے اور وقتاً فوقتاً روزے رکھتے تھے۔ آپ کو انذار عام کا حکم دیا گیا تو پانچ نمازوں کے ساتھ مزید ایک نماز آپ پر فرض کر دی گئی۔ اس کے لیے تہجد کا وقت مقرر کیا گیا اور آپ کو ہدایت کی گئی کہ آدھی سے کچھ کم یا زیادہ رات تک اس میں قرآن کی تلاوت کریں۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اس کا حکم آپ کے لیے ’وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ‘۶۸ (اور رات میں تہجد کا اہتمام کرو، یہ تمھارے لیے مزید برآں ہے) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح مزمل میں فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ، قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً، نِصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً، اَوْ زِدْ عَلَیْْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً، اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً، اِنَّ نَاشِءَۃَ الَّیْْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً، اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلاً، وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْْہِ تَبْتِیْلاً.(۷۳: ۱۔۸)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے، رات کو کھڑے رہو، مگر تھوڑا۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لو یا اس پر کچھ بڑھا دو، اور (اپنی اس نماز میں) قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ اِس لیے کہ عنقریب ایک بھاری بات کا بوجھ ہم تم پر ڈال دیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ رات کا اٹھنا دل کی جمعیت اور بات کی درستی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اِس لیے کہ دن میں تو (اِس کام کی وجہ سے) تمھیں بہت مصروفیت رہے گی۔ (لہٰذا اِس وقت پڑھو) اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو، اور (رات کی اس تنہائی میں) سب سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہو۔‘‘
نبی کو ایک عمومی فضیلت تمام انسانوں پر حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ انبیا علیہم السلام کا ذکر کرنے کے بعد ایک جگہ فرمایا ہے: ’وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ‘ ۶۹ (اور اِن میں سے ہر ایک کو ہم نے دنیا والوں پر فضیلت دی تھی)۔ لیکن قرآن کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ ایک خصوصی فضیلت ان میں سے بالخصوص رسولوں کو کسی نہ کسی پہلو سے ایک دوسرے پر بھی حاصل ہوتی ہے اور اس کے اعتبار سے وہ دوسروں پر ممتاز ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ، مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ، وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ، وَاٰتَیْْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ، وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.(البقرہ۲: ۲۵۳)
’’یہ جو رسول ہیں، ہم نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی، اس طرح کہ ان میں سے کسی سے اللہ خود ہم کلام ہوا اور کسی کے درجے اس نے (بعض دوسری حیثیتوں سے) بلند کیے اور (آخر میں) مریم کے بیٹے عیسیٰ کو نہایت واضح نشانیاں دیں اور روح القدس سے اس کی تائید کی۔‘‘
اس سے واضح ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا۔ یہ ان کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔ مسیح علیہ السلام کو کھلے کھلے معجزات دیے اور روح القدس سے ان کی تائید فرمائی۔ یہ ان کے مخصوصات میں سے ہے۔ دوسرے پیغمبروں کے درجات و مراتب کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق فرمایا ہے:
فضلت علی الانبیاء بست: اعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی الغنائم، و جعلت لی الارض طھورا و مسجدًا، وارسلت الی الخلق کافۃ، وختم بی النبیون.(مسلم، رقم ۵۲۳)
’’مجھے چھ باتوں میں نبیوں پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع اور مختصر بات کہنے کی صلاحیت دی گئی۔ (۲) مجھے رعب کے ذریعے سے نصرت بخشی گئی ۔ (۳) میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ (۴) میرے لیے زمین کو مسجد بنایا گیا اور پاکیزگی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی۔ ۷۰ (۵) مجھے تمام دنیا کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا۔ (۶) میرے اوپر نبوت ختم کر دی گئی۔‘‘
انبیا و رسل کی فضیلت کے باب میں صحیح رویہ یہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض موقعوں پر لوگوں کو اس معاملے میں متنبہ بھی فرمایا ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے آپ کو ’یا خیرالبریۃ‘ (اے بہترین خلائق) کہہ کر خطاب کیا۔ آپ نے فرمایا: وہ تو ابراہیم علیہ السلام تھے ۔۷۱ ایک موقع پر پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے معزز کون ہے؟ فرمایا: یوسف پیغمبر بن پیغمبر بن پیغمبر بن ابراہیم خلیل اللہ۔۷۲ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ کسی مسلمان نے اپنی قسم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا والوں پر فضیلت کا ذکر کیا تو ایک یہودی نے جواب میں کہا: اس ذات کی قسم، جس نے موسیٰ کو دنیا والوں پر فضیلت دی ہے۔ مسلمان نے یہ سنا تو اسے غصہ آ گیا اور اس نے یہودی کو ایک تھپڑ کھینچ مارا۔ یہودی نے حضور کی خدمت میں جا کر شکایت کی تو آپ نے فرمایا: مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ قیامت کے دن میں ہوش میں آؤں گا تو وہ عرش کا کونا پکڑے ہوئے ہوں گے۔ شاید بے ہوش نہیں ہوں گے، یا مجھ سے پہلے ہوش میں آ جائیں گے۔ ۷۳
یہ تعلیم اس قدر واضح ہے، لیکن انبیا علیہم السلام کی امتوں نے بالعموم اسے قبول نہیں کیا، بلکہ اس کی جگہ ایک بالکل غلط رویہ اختیار کر لیا جس کی وجہ سے ان کے درمیان تعصبات کی دیواریں کھڑی ہو گئیں اور وہ ایک دوسرے کے دشمن ہو کر باہم جنگ و جدل میں مبتلا ہوئے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...ان انبیا کی امتوں نے جو روش اختیار کی، وہ یہ ہے کہ ان میں سے جس نے جس نبی و رسول کو مانا، سارے فضائل و خصوصیات کا جامع تنہا اسی کو بنا کر رکھ دیااور دوسرے کسی نبی و رسول کے لیے کسی فضیلت کا تسلیم کرنا ان کے نزدیک ایمان کے منافی قرار پا گیا۔ اس تعصب و تنگ نظری کا نتیجہ یہ ہوا کہ پچھلی امتوں میں سے ہر امت اپنے اپنے خول میں بند ہو کر رہ گئی اور اس کے لیے دوسرے نبیوں اور رسولوں کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی راہ مسدود ہو گئی۔ اگر وہ صحیح روش اختیار کرتیں تو ہر رسول ان کا رسول اور ہر ہدایت ان کی ہدایت ہوتی اور وہ اس ہدایت میں سے بھی حصہ پاتیں جو اب قرآن مجید کی صورت میں آخری ہدایت کی حیثیت سے دنیا کے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔ اسی حقیقت کی طرف سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اشارہ فرمایا ہے: وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ، وَّاٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا‘۷۴ (اور ہم نے انبیا میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عنایت کی) ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۸۳)
نبی کونبی مان لینے کا لازمی نتیجہ ہے کہ خدا کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنی کتاب میں خود واضح فرما دی ہے کہ نبی صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اس کو نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ.(النساء۴: ۶۴)
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اس کے نبیوں کی اطاعت کی جائے۔ ’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ، فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ‘ ۷۵(جو رسول کی اطاعت کرتا ہے، اس نے درحقیقت خداکی اطاعت کی ہے) اور اس مضمون کی دوسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ پھراس کی یہ آخری حد بھی واضح کر دی ہے کہ اپنے درمیان پیدا ہونے والی نزاعات تک میں نبی کے فیصلے کو بے چون و چرا اور پورے اطمینان قلب کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
فَلاَ وَرَبِّکَ، لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ، ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْْتَ، وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.(النساء ۴: ۶۵)
’’تیرے پروردگار کی قسم، یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کو حکم نہ مانیں اور جو فیصلہ تم کر دو، اپنے دلوں میں تنگی محسوس کیے بغیر اس کے آگے اپنے سر نہ جھکا دیں۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے، جب تک یہ اپنے درمیان پیدا ہونے والی تمام نزاعات میں تمھی کو حکم نہ مانیں اور پھر ساتھ ہی ان کے اندر یہ ذہنی تبدیلی نہ واقع ہو جائے کہ وہ تمھارے فیصلے کو بے چون و چرا پورے اطمینان قلب کے ساتھ مانیں اور اپنے آپ کو بلا کسی استثنا و تحفظ کے تمھارے حوالے کر دیں۔ رسول کی اطاعت خود خدا کی اطاعت کے ہم معنی ہے، اس وجہ سے اس کا حق صرف ظاہری اطاعت سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے دل کی اطاعت بھی شرط ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۳۲۹)
لہٰذا یہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کامطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اورا نتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔ انسان کو خداکی محبت اسی اطاعت اور اسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے:
قُلْ: اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ، یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ، وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ، وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(آل عمران۳: ۳۱)
’’ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہوں کو بخش دے گا اور (یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ) اللہ بخشنے والا ہے، اس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حقیقت خود بھی مختلف طریقوں سے واضح فرمائی ہے۔ ایک روایت میں آپ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک متحقق نہیں ہو سکتا، جب تک وہ مجھے اپنے باپ بیٹوں اور دوسرے تمام لوگوں سے عزیز تر نہ رکھے۔ ۷۶
سورۂ حجرات میں مدینہ کے گرد و نواح سے آنے والے بدوی قبائل کے لوگوں کو خطاب کر کے بارگاہ رسالت کے جو آداب بتائے گئے ہیں، وہ نبی کے اس مرتبے کو ہر لحاظ سے واضح کر دیتے ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تُقَدِّمُوْا بَیْْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ، یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ، وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ، اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ، وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ، اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ، اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی، لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ.(۴۹: ۱۔۳)
’’ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول کے سامنے اپنی رائے کو مقدم نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناًاللہ سمیع و علیم ہے۔ ایمان والو، اپنی آواز نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ نبی کو اونچی آواز سے پکارو، جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال اکارت ہو جائیں اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔ (یاد رکھو کہ) جو لوگ نبی کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، وہی ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی افزایش کے لیے منتخب کیا ہے۔ اُن کے لیے مغفرت بھی ہے اور اجر عظیم بھی۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’یہ اس صحیح ادب کی تعلیم ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہر صاحب ایمان کو اختیار کرنا لازم ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے رسول کے آگے اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کی افزایش کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ لفظ ’امتحن‘ یہاں ’اصطفیٰ‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ پر متضمن ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر دل تقویٰ کی تخم ریزی اور اس کی افزایش کے لیے موزوں نہیں ہوتا، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ امتحان کر کے دلوں کا انتخاب کرتا ہے، اور اس انتخاب میں اصل چیز جو ترجیح دینے والی بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر اللہ و رسول کے لیے انقیاد و اطاعت کا سچا جذبہ اور ان کے آگے فروتنی کا صحیح شعور ہے یا نہیں۔ یہ چیز جس کے اندر جتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، اس کو اتنی ہی زیادہ تقویٰ کی نعمت عطا ہوتی ہے اور جو لوگ جس درجے میں اس شعور سے عاری ہوتے ہیں، وہ اتنے ہی تقویٰ سے بعید ہوتے ہیں۔ آواز بلند کرنے کا ذکر، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، انسان کے باطن کے ایک مخبر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ جو شخص کسی کی آواز پر اپنی آواز بلند رکھنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا یہ عمل شہادت دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اونچا خیال کرتا ہے۔ یہ چیز اکتساب فیض کی راہ بالکل بند کر دیتی ہے۔ اگر استاد کے آگے کسی شاگرد کا یہ طرز عمل ہو تو وہ اس کے فیض سے محروم رہتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کے رسول کے آگے کسی نے یہ روش اختیار کی تو وہ صرف رسول ہی کے فیض سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بھی محروم ہو جائے گا، اس لیے کہ رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۷/ ۴۸۹)
نبی کا اصلی فریضہ انذار و بشارت ہے، مگر اس کے ساتھ وہ خدا کے حضور میں بندوں کی شفاعت بھی کرتا ہے۔ شفاعت کیا ہے؟ بندہ جب مغفرت چاہتا ہے تو اس کے ساتھ ہو کر یہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی درخواست ہے۔ شفاعت کا اصل مفہوم یہی ہے۔ لہٰذا بندے کی طرف سے توبہ و استغفار کے بغیر اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ شفاعت کرنے والا استغفار میں فردثانی اور مغفرت چاہنے والے کی زبان ہوتا ہے اور دعا و مناجات اور خضوع و تذلل میں اس کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ: تَعَالَوْا، یَسْتَغْفِرْ لَکُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ، لَوَّوْا رُءُ وْسَہُمْ، وَرَاَیْْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ، وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ.(المنافقون۶۳ :۵)
’’اور جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ، اللہ کا رسول تمھارے لیے مغفرت کی دعا کرے تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے غرور کے ساتھ اعراض کرتے ہیں۔‘‘
اس کا پہلا موقع اس وقت آتا ہے، جب بندہ ایمان لاتا ہے اور نبی اس کے لیے استغفار کرتا ہے۔ دوسرا موقع وہ ہوتا ہے، جب وہ گناہ کر بیٹھتا ہے اور تائب ہو کر خدا سے مغفرت چاہتا ہے۔ زمانۂ رسالت کے منافقین کو اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ نصیحت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں تو خود بھی مغفرت کی دعا کریں اور پیغمبر سے بھی اس کی درخواست کریں۔ ان کا یہ رجوع خدا کی رحمت کو ان کی طرف متوجہ کرنے کا باعث بنے گا۔ فرمایا ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ جَآءُ وْکَ، فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ، وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ، لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا. (النساء۴: ۶۴)
’’اور اگر انھوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہوتا کہ جب یہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے تھے تو تمھاری خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہتا تو یقیناً اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ بندوں کو توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے۔ فرمایا ہے کہ میرے بندو، تم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا ہے تو میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ تمھارا پروردگار غفور و رحیم ہے، تم اس کی طرف رجوع کرو گے تو وہ تمھارے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ یاد رکھو، ایمان والے اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔۷۷ پھر توبہ و استغفار کے لیے اپنی یہ سنت بھی واضح کر دی ہے کہ گناہ کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو، توبہ کر لینی چاہیے۔ اس لیے کہ اللہ پر صرف انھی لوگوں کی توبہ کا حق قائم ہوتا ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر فوراً توبہ کر لیتے ہیں۔ ان لوگوں کی توبہ اللہ کے نزدیک کوئی توبہ نہیں جو زندگی بھر گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ موت سر پر آن کھڑی ہوئی ہے تو توبہ کا وظیفہ پڑھنے لگتے ہیں۔۷۸
اس میں غور کیجیے تو ان لوگوں کے حال پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی ہے جو گناہ کے بعد جلد ہی توبہ کر لینے کی سعادت تو حاصل نہیں کر سکے، لیکن اتنی دیر بھی نہیں کی کہ موت کا وقت آن پہنچا ہو۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں شفاعت کی توقع ہو سکتی ہے۔ چنانچہ قرآن نے اس کا اثبات کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ان غلط تصورات کی تردید بھی پوری صراحت سے کر دی ہے جو لوگوں نے شفاعت کے بارے میں قائم کر رکھے ہیں اور جن سے خدا کے عدل اور جزا و سزا کے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔
پہلی بات یہ فرمائی ہے کہ شفاعت کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی شخص بھی شفاعت نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ اس کے مقرب فرشتے بھی اپنی طرف سے آگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے پہلے خدا کو راضی کرنا ضروری ہے تاکہ شفاعت کا اذن ملے اور وہ قبول بھی ہو جائے:
اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ شُفَعَآءَ، قُلْ: اَوَلَوْ کَانُوْا لَا یَمْلِکُوْنَ شَیْْءًا، وَّلَا یَعْقِلُوْنَ. قُلْ: لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا، لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، ثُمَّ اِلَیْْہِ تُرْجَعُوْنَ.(الزمر۳۹: ۴۳۔۴۴)
’’کیا انھوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ان سے کہو: کیا وہ شفاعت کریں گے، خواہ اُن کے اختیار میں کچھ نہ ہو اور وہ کچھ نہ سمجھتے ہوں؟ کہہ دو کہ شفاعت تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
وَقَالُوا: اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا، سُبْحٰنَہٗ، بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ، لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ، وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ.(الانبیاء۲۱: ۲۶۔۲۷)
’’اور یہ کہتے ہیں کہ رحمن کے اولاد ہے، سبحان اللہ، وہ تو (اُس کے) مقرب بندے ہیں۔ وہ اس کے حضور کبھی بڑھ کر نہیں بولتے اور اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں۔‘‘
دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ اذن الٰہی کے بعد بھی اسی کے بارے میں زبان کھولنے کی اجازت ہو گی جس کے لیے اللہ پسند فرمائے گا۔ کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی کے متعلق کوئی بات نہ کر سکے گا:
یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ اَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ، وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی، وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ.(الانبیاء۲۱: ۲۸)
’’وہ اُن کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے، اور وہ کسی کی شفاعت نہ کریں گے، سوائے اُس کے جس کے حق میں اللہ راضی ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔‘‘
یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ، اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ، وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلاً، یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ اَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ، وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا.(طہٰ۲۰: ۱۰۹۔ ۱۱۰)
’’اُس روز شفاعت نفع نہ دے گی، الاّ یہ کہ کسی کو رحمن اس کی اجازت دے اور کسی کے لیے کوئی بات سننا پسند کرے۔ وہ اُن کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے باخبر ہے اور اُن کا علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔‘‘
تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ جس کے لیے اللہ پسند فرمائے گا، اس کے متعلق بھی وہی بات کہی جائے گی جو ہر لحاظ سے صحیح ہو گی:
لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ، وَقَالَ صَوَابًا.(النبا۷۸: ۳۸)
’’(اُس دن، جب) وہی بولیں گے جنھیں رحمن اجازت دے اور وہ صحیح بات کہیں۔‘‘
شفاعت کے بارے میں یہ قرآن کا نقطۂ نظر ہے۔ اس سلسلہ کی روایتوں کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہیے اور اس سے کوئی چیز متجاوز نظر آئے تو اسے راویوں کے تصرفات سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہیے۔
نبی ہر قوم میں اور صدیوں تک آتے رہے ہیں، لیکن یہ سلسلہ اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا ہے۔ اس کی ابتدا آدم علیہ السلام سے ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ ذریت ابراہیم کی ایک شاخ بنی اسمٰعیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور قرآن نے اعلان کر دیا کہ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ یہ بات اگرچہ انبیا علیہم السلام کی پیش گوئیوں سے بھی واضح تھی، لیکن قرآن میں اس کے ذکر کا موقع اس وقت پیدا ہوا، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو زید رضی اللہ عنہ کی مطلقہ سے شادی کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم منہ بولے بیٹوں کے معاملے میں جاہلیت کی ایک رسم کی اصلاح کے لیے دیا گیا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ آپ چونکہ آخری پیغمبر ہیں، اس وجہ سے ضروری تھا کہ آپ ہی کے ذریعے سے اس رسم بد کی اصلاح کی جائے۔ آپ کے بعد اگرکوئی اور نبی آنے والا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اللہ اس معاملے کو آیندہ کے لیے اٹھا رکھتا۔ لیکن اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اس لیے یہ ذمہ داری آپ ہی کو پوری کرنی ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ، وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ، وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍٍ عَلِیْمًا.(الاحزاب۳۳: ۴۰)
’’محمد تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں لفظ ’خاتم النبیین‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ’خاتم‘ بکسرالتاء نہیں، بلکہ ’خاتم‘ بفتح التاء ہے۔ اس کے معنی عربی زبان میں مہر کے ہیں۔ مہر کسی چیز کو بند کرنے کے لیے ہوتی ہے یا کسی چیز کی تصدیق کے لیے۔ ’مہر بند کرنا‘ اور ’مہر تصدیق ثبت کرنا‘، یہ دونوں محاورے اسی سے وجود میں آئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں ’خاتم النبیین‘، یعنی نبیوں کی مہر، قرار دیا گیا ہے۔ یہ لفظ جس سیاق میں اور جس موقع پر آیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہاں یہ پہلے معنی میں ہے اور آیت کا مدعا یہ ہے کہ آپ کے ذریعے سے سلسلۂ نبوت کو مہر بند کر دیا گیا ہے۔ اب کسی نبی یا رسول کے آنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ یہ وہی مفہوم ہے جسے ہم انگریزی زبان میںSeal of the Prophets کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں۔ تاہم کوئی شخص اگر اسے مہر تصدیق ہی کے معنی میں لینے پر اصرار کرتا ہے اور بر سبیل تنزل ہم اسے مان لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بھی وہی ہو گا۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ کی تصدیق کے بغیر کسی شخص کی نبوت نہیں مانی جا سکتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ آپ سے پہلے کے نبیوں کو ہم آپ ہی کی تصدیق سے مانتے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے بعد آنے والے کسی نبی کی نہ آپ نے بشارت دی ہے، نہ تصدیق فرمائی ہے۔ بلکہ نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بار بار اعلان کیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ پھر یہی نہیں، اس سے آگے یہ بات بھی آپ نے واضح کر دی ہے کہ نبوت کا منصب ہی ختم نہیں ہوا، اس کی حقیقت بھی ختم ہو گئی ہے، لہٰذا اب کسی شخص کے لیے نہ وحی و الہام کا امکان ہے اور نہ مخاطبہ و مکاشفہ کا۔ ختم نبوت کے بعد اس طرح کی سب چیزیں ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی ہیں۔
آپ کے ارشادات درج ذیل ہیں:
۱۔ کانت بنو اسرائیل تسوسہم الانبیاء، کلما ھلک نبی خلفہ نبی، وانہ لا نبی بعدی، وسیکون خلفاء.(بخاری، رقم ۳۴۵۵)
’’بنی اسرائیل کی قیادت اُن کے نبی کرتے تھے۔ ایک نبی دنیا سے رخصت ہوتا تو دوسرا اس کا جانشین بن جاتا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا، بلکہ خلفا ہوں گے۔‘‘
۲۔ مثلی و مثل الانبیاء من قبلی، کمثل رجل بنی بیتاً، فاحسنہ واجملہ الاموضع لبنۃ من زاویۃ، فجعل الناس یطوفون بہ، ویعجبون لہ و یقولون: ھلا وضعت ہذہ اللبنۃ؟ قال: فانا اللبنۃ، وانا خاتم النبیین. (بخاری، رقم۳۵۳۵)
’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے نبیوں کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی، نہایت حسین و جمیل، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے، مگر کہتے تھے کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔ فرمایا کہ وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘
۳۔ لم یبق من النبوۃ الاالمبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحۃ.(بخاری، رقم ۶۹۹۰)
’’نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی، صرف بشارت دینے والی باتیں رہ گئی ہیں۔ عرض کیا گیا: وہ بشارت دینے والی باتیں کیا ہیں؟ فرمایا: اچھا خواب۔‘‘
[باقی]
————
۶۷ الاعراف ۷: ۱۴۲۔ ۱۴۵۔
۶۸ بنی اسرائیل۱۷: ۷۹۔
۶۹ الانعام۶: ۸۶۔
۷۰ مطلب یہ ہے کہ میری شریعت میں نماز صرف مخصوص عبادت گاہوں ہی میں نہیں، بلکہ روے زمین پر ہر جگہ پڑھی جا سکتی ہے اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے وضو اور غسل، دونوں کی ضرورت بھی پوری کی جا سکتی ہے۔
۷۱ مسلم، رقم۲۳۶۹۔
۷۲ بخاری، رقم ۳۳۸۳۔
۷۳ بخاری، رقم ۳۴۰۸۔
۷۴ ۱۷: ۵۵۔
۷۵ النساء۴: ۸۰۔
۷۶ بخاری، رقم۱۵۔ مسلم، رقم۴۴۔
۷۷ الزمر۳۹: ۵۳۔ یوسف۱۲: ۸۷۔
۷۸ النساء۴: ۱۷۔۱۸۔
————————————