HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۵-۱۸ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ، فَاسْتَشْہِدُوْا عَلَیْْہِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ، فَاِنْ شَہِدُوْا فَاَمْسِکُوْہُنَّ فِی الْبُیُوْتِ، حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الْمَوْتُ، اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً{۱۵} 
وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِہَا مِنْکُمْ، فَاٰذُوْہُمَا، فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْہُمَا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا{۱۶} 
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَہَالَۃٍ، ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ، فَاُولٰٓـئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۱۶} وَلَیْْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ، حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ، قَالَ: اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ، وَلاَ الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ، وَہُمْ کُفَّارٌ، اُولٰٓـئِکَ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا{۱۸} 
اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، ۳۴ اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو۔۳۵ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو انھیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ اُن کی موت آجائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔۳۶ ۱۵
اور جو مرد و عورت تمھارے لوگوں میں سے اس جرم کا ارتکاب کریں،۳۷ اُنھیں ایذا دو۔۳۸ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کر لیں۳۹ تو اُن سے درگزر کرو۔ بے شک، اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۱۶
(یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ) اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں،۴۰  پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں، وہی ہیں جن کی توبہ اللہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔ اُن لوگوں کے لیے کوئی توبہ نہیں ہے جو گناہ کیے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب اُن میں سے کسی کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے، اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔ (اِسی طرح) اُن کے لیے بھی توبہ نہیں ہے جو مرتے دم تک منکر ہی رہیں۔ یہی تو ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک سزا تیار کر رکھی ہے۔۴۱ ۱۷-۱۸

۳۴؎   اصل الفاظ ہیں: ’والّٰتی یاتین الفاحشۃ‘۔ ان میں ’الفاحشۃ‘ سے مراد زنا ہے۔ عربی زبان میں یہ لفظ اس معنی کے لیے معروف ہے۔ اس کے ساتھ جو فعل اس جملے میں آیا ہے، وہ بیان مداومت کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ قحبہ عورتوں کا ذکر ہے۔ اس صورت میں اصل مسئلہ چونکہ عورت ہی کا ہوتا ہے، اس لیے مرد زیربحث نہیں آئے۔

۳۵؎   یعنی اس بات کے گواہ کہ یہ فی الواقع زنا کی عادی قحبہ عورتیں ہیں۔ سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اسی طرح برقرار رکھی ہے۔

۳۶؎   اس سے واضح ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا۔ چنانچہ اس میں جس راہ نکالنے کا ذکر ہے، وہ بعد میں اس طرح نکلی کہ قحبہ ہونے کی وجہ سے ان عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا اور ان جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق ان پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔

۳۷؎   یہ زنا کے عام مجرموں کا ذکر ہے جو بالعموم یاری آشنائی کے نتیجے میں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس میں زانی اور زانیہ، دونوں چونکہ متعین ہوتے ہیں، اس لیے دونوں کا ذکر ہوا ہے اور مذکر کے صیغے زبان کے عام قاعدے کے مطابق شریک غالب کے لحاظ سے آئے ہیں۔

۳۸؎   یہی ایذا ہے جو بعد میں سو کوڑوں کی صورت میں متعین کر دی گئی ۔ یہ اس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف انھی مجرموں کو دی جاتی ہے جن سے جرم بالکل آخری درجے میں سرزد ہوجائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں۔

۳۹؎   اس سے معلوم ہوا کہ رویے کی اصلاح توبہ کے لازمی شرائط میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص برائی سے باز نہیں آتا تو زبان سے توبہ توبہ کا ورد کرلینے سے اس کی توبہ قبول نہیں ہوتی، بلکہ الٹا خدا کی ناراضی کا باعث بن سکتی ہے۔

۴۰؎   اصل میں لفظ ’جھالۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ اس کے معنی اگرچہ نہ جاننے کے بھی آتے ہیں، لیکن اس کا غالب استعمال جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی شرارت یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ عربی زبان میں یہ لفظ عام طور پر علم کے بجائے حلم کے ضد کے طور پر آتا ہے۔ یہاں بھی قرینہ دلیل ہے کہ یہ اسی معنی میں آیا ہے۔

۴۱؎   توبہ کی قبولیت اور عدم قبولیت کی یہ دو صورتیں قرآن نے بالکل متعین کر دی ہیں۔ اس کے بعد صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی شخص گناہ کے بعد جلد ہی توبہ کرلینے کی سعادت تو حاصل نہیں کر سکا، لیکن اس نے اتنی دیر بھی نہیں کی کہ موت کا وقت آپہنچا ہو۔ اس صورت کے بارے میں قرآن خاموش ہے اور استاذ امام کے الفاظ میں، یہ خاموشی جس طرح امید پیدا کرتی ہے، اسی طرح خوف بھی پیدا کرتی ہے اور قرآن حکیم کا منشا یہی معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ خوف ورجا کے درمیان ہی رہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس کے باوجود ذہن کبھی کبھی اس طرف جاتا ہے کہ اس امت کے اس طرح کے لوگ، امید ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے نجات پا جائیں گے، اس لیے کہ ان کے بارے میں شفاعت کے ممنوع ہونے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B