ابن ماجہ، رقم ۲۵۳۹کے مطابق بیان کیا جاتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من جحد آیۃ من القرآن فقد حل ضرب عنقہ ومن قال لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ فلا سبیل لأحد علیہ إلا أن یصیب حدا فیقام علیہ.
’’جس نے قرآن کی کسی ایک آیت کوبھی جھٹلایاتو اسے قتل کیاجاسکتاہے۔اورجس نے یہ اعلان کیاکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں تو اس کے خلاف کسی کو اقدام کاکوئی حق حاصل نہیں۔ ہاں، البتہ اگر وہ خداکی مقررکردہ کسی حد کوتوڑے تو اس کے خلاف اقدام کیا جاسکتاہے۔‘‘
یہ روایت صرف ابن ماجہ نے نقل کی ہے اور اس کی ایک ہی سندہے۔ اس روایت کی سندمیں الحکم بن ابان اور حفص بن عمرشامل ہیں۔
عقیلی نے حکم بن ابان کو ضعیف قرار دیا ہے۱ اور اس کے بارے میں ابن حجرکی رائے یہ ہے کہ:
وذکرہ بن حبان فی الثقات وقال ربما أخطأ.(تہذیب التہذیب۲ /۳۶۴)
’’ابن حبان نے اسے ثقہ قراردیاہے ، تاہم یہ کہاہے کہ بعض اوقات وہ غلطی کرتا ہے۔‘‘
وقال بن عدی فی ترجمۃ حسین بن عیسٰی الحکم بن أبان فیہ ضعف.(تہذیب التہذیب۲ /۳۶۴)
’’ابن عدی نے حسین بن عیسیٰ کی سوانح میں لکھاہے کہ الحکم بن ابان میں ایک طرح کا ضعف پایا جاتا ہے۔‘‘
ابن حجر اپنی کتاب ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں:
الحکم بن أبان العدنی أبو عیسٰی صدوق عابد ولہ أوہام.(تقریب التہذیب ۱ /۱۷۴)
’’ابوعیسیٰ حکم بن ابان عدنی سچااور عابدہے، تاہم وہ وہم پیداکردیتاہے۔‘‘
جہاں تک حفص بن عمر کا معاملہ ہے تواکثر اہل علم نے اسے ضعیف قراردیاہے۔ابن ابی حاتم اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
کان ممن یقلب الأسانید قلبا لا یجوز الاحتجاج بہ إذا انفرد.( المجروحین۱ /۲۵۷)
’’یہ ان لوگوں میں سے ہے جو سند کو تبدیل کردیتے ہیں۔ جب یہ کسی روایت کو نقل کرنے میں منفرد ہو تو اس روایت کودلیل نہیں بنایاجائے گا۔ ‘‘
ایک اور موقع پرابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
...روی ہذا عن الحکم بن أبان حفص بن عمر العدنی وخالد بن یزید العمری وہما ضعیفان واہیان أیضا.(المجروحین ۱ /۱۱۴)
’’...اس روایت کوحکم بن ابان سے حفص بن عمرعدنی اور خالدبن یزیدعمری نے روایت کیاہے اور وہ دونوں نہایت ضعیف ہیں۔‘‘
ذہبی کابھی یہ کہنا ہے کہ اہل علم کی رائے یہی ہے کہ حفص بن عمر ضعیف ہے۔ ۲
حفص بن عمر کے بارے میں ابن حجر کی بھی یہی رائے ہے ۔ ۳
ابن ابی حاتم لکھتے ہیں:
حدثنا عبد الرحمٰن قال سألت أبی عنہ فقال لین الحدیث.(الجرح والتعدیل۳ /۱۸۲)
’’عبدالرحمن نے ہمیں بتایا کہ اس نے اپنے والد سے حفص بن عمر کے بارے میں پوچھاتو اس نے کہا کہ وہ حدیث بیان کرنے میں غیرمحتاط ہے۔ ‘‘
عقیلی نے حفص بن عمرکے بارے میں ’لا یقیم الحدیث‘ (وہ روایت کو سیدھابیان نہیں کرتا)اور ’أدخل شیئا فی شء‘ (وہ ایک چیزکو دوسری سے ملادیتاہے)کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔۴
جریانی نے بعض روایتوں کا حوالہ دینے کے بعد حفص بن عمرکے بارے میں لکھاہے:
وہذہ الأحادیث عن الحکم بن أبان یرویہا عنہ حفص بن عمر العدنی والحکم بن أبان وإن کان فیہ لین فإن حفص ہذا ألین منہ بکثیر والبلاء من حفص لا من الحکم.(الکامل فی الضعفاء۱ /۳۸۵۔۳۸۶)
’’یہ احادیث حکم بن ابان سے مروی ہیں۔ اس سے یہ احادیث حفص بن عمرعدنی کے ذریعے سے روایت ہوئی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر حکم بن ابان غیرمحتاط ہے تو حفص اس سے کہیں بڑھ کے غیرمحتاط ہے۔ ان روایتوں میں ضعف حکم کی وجہ سے نہیں، بلکہ حفص کی وجہ سے ہے۔ ‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
... ولحفص بن عمر الفرخ أحادیث غیر ہذا وعامۃ حدیثہ غیر محفوظ وأخاف أن یکون ضعیفا کما ذکرہ النسائی.
’’...حفص نے اس کے علاوہ بھی احادیث نقل کی ہیں۔ اس کی احادیث عموماً محفوظ نہیں ہوتیں اور میراخیال ہے کہ وہ ضعیف ہے جیسا کہ نسائی نے اس کے بارے میں کہاہے۔‘‘
مزی لکھتے ہیں:
وقال أبو حاتم لین الحدیث وقال النسائی لیس بثقۃ.(تہذیب الکمال۷ /۴۴)
’’ابو حاتم نے کہاہے کہ وہ نقل روایت میں غیرمحتاط ہے اور نسائی نے کہاہے کہ وہ قابل اعتماد نہیں ہے۔‘‘
ابن معین نے بھی کہاہے کہ حفص قابل اعتماد نہیں ہے اور وہ براآدمی ہے۔ ملک بن عیسیٰ اور ابو داؤد کے مطابق اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ابو داؤد نے یہ بھی کہاہے کہ وہ غیرمعروف روایتیں نقل کرتاہے۔ عقیلی کاکہناہے کہ وہ غلط روایتیں نقل کرتاہے۔دارقطنی کی رائے ہے کہ وہ ضعیف ہے۔۵
زیربحث روایت کی سند میں مذکورہ بالاضعف کے باعث یہ بات اعتماد کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست طورپر منسوب کی گئی ہے۔ محسوس یہی ہوتاہے کہ راویوں کے فہم کے باعث یہ روایت خلط مبحث کا شکار ہوگئی ہے۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
——————
۱ ضعفاء العقیلی ۱/ ۲۵۵۔
۲ الکاشف ۱/ ۳۴۲۔
۳ تقریب التہذیب۱/ ۱۷۳۔
۴ الضعفاء العقیلی ۱/ ۲۷۳۔
۵ تہذیب التہذیب۲/ ۳۵۳۔
————————————