HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

حلاوت ایمان

(مسلم، رقم ۴۳)


عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ بِہِنَّ حَلَاوَۃُ الإِیْمَانِ: مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَا ہُمَا وَأَنْ یُحِبَّ الْمَرْءَ لَایُحِبُّہُ إِلَّا لِلّٰہِ وأَنْ یَکْرَہَ أَنْ یَعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا یَکْرَہُ أَنْ یُقْذَفَ فِی النَّارِ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس آدمی میں ہوں گی، وہ ان سے ایمان کی حلاوت پالے گا۔ ایک وہ جسے اللہ اور اس کے رسول ان کے سوا ہر چیز سے محبوب ہوں۔ دوسرے یہ کہ وہ کسی آدمی سے اللہ ہی کی خاطر محبت کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرے جس طرح وہ اس کو ناپسندکرتا ہے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے، جبکہ اللہ نے اسے آگ سے نکال دیا ہے۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ طَعْمُ الِإیْمَانِ: مَنْ کَانَ یُحِبُّ الْمَرْءَ لَایُحِبُّ إِلَّا لِلّٰہِ. مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا وَمَنْ کَانَ أَنْ یُلْقَی فِی النَّارِ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ أَنْ یَرْجِعَ فِی الْکُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزیں جس آدمی میں ہوں گی، وہ ایمان کا ذائقہ پا لے گا ۔ وہ جو کسی آدمی سے اللہ ہی کی خاطر محبت کرے۔ وہ جسے اللہ اور اس کے رسول ان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں۔ وہ جسے آگ میں ڈال دیا جانا کفر میں لوٹنے سے زیادہ پسند ہو، جبکہ اللہ نے اسے آگ سے نجات دی ہے۔‘‘
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِ حَدِیْثِہِمْ غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ مِنْ أَنْ یَرْجِعَ یَہُوْدِیاً أَوْ نَصْرَانِیاً.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اس فرق کے ساتھ بھی بیان کی ہے کہ اس میں ’یرجع فی الکفر‘ (وہ کفر میں لوٹ جائے) کے بجائے، ’ یرجع یہودیا أو نصرانیا‘ (وہ یہودی یا نصرانی ہوجائے) کے الفاظ آئے ہیں۔‘‘
لغوی مباحث

ثلاث: ’ ثلاث من کن فیہ ‘ میں ’ثلاث‘ مبتدا ہے اور باقی جملہ اس کی خبر ہے۔ مبتدا عام طور پر معرفہ ہوتا ہے۔ اگر تخصیص کا کوئی پہلو موجود ہو تو نکرہ بھی مبتدا ہو سکتا ہے۔ اس تخصیص کی متعدد صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نکرہ کا مضاف الیہ حذف ہو۔ جیسے یہاں ’خصال‘ محذوف ہے۔

حلاوۃ الإیمان: ’حلاوۃ‘ کے لغوی معنی مٹھاس کے ہیں۔ مٹھاس اصل میں ایک حسی شے ہے، جیسے گڑ یا شہد کی مٹھاس۔ ایمان کے ساتھ حلاوت کے استعمال سے اس کا دل ودماغ کے لیے مرغوب ہونے کا پہلو واضح ہوتا ہے۔

طعم الإیمان: ’طعم‘ کا لفظ اردو کے لفظ ذائقہ کا مترادف ہے۔ یہاں ’طعم الإیمان‘ سے ایمان کی لذتیں مراد ہیں۔ جس طرح مادی چیزوں میں مرغوبات ہوتی ہیں، اسی طرح معنوی چیزوں میں بھی مرغوبات ہوتی ہیں۔ یہاں یہ تعبیر ایمان کی اسی مرغوبیت کو پیش نظر رکھ کر اختیار کی گئی ہے۔

معنی

اس روایت میں حلاوت ایمان پالینے کے تین باطنی مظاہر بیان کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ ہماری کسی بھی آدمی سے محبت صرف اللہ کی خاطر ہو۔ دوسرا یہ کہ ہمیں اللہ اور اس کے رسول دوسری ہر چیز اور ہر تعلق سے زیادہ محبوب ہوں۔ تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹ جانا ہمیں آگ میں پڑنے سے بھی زیادہ اذیت ناک لگنے لگے۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں مرکزی بات ایک ہی ہے، یعنی یہ کہ ایک مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔

ایک مسلمان سے جو کردار مطلوب ہے، اس کے دو پہلو اس روایت میں نمایاں کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایمان کے ساتھ غایت درجہ وابستہ ہو۔ اس کے یقین نے اسے ایک نفس مطمئن بنا دیا ہو۔ اس کے دل میں اپنے ایمان کے بارے میں کوئی شائبۂ شک راہ نہ پاتا ہو۔ معلوم ہو کہ اس کا ایمان اور وہ ایک ہی شے ہیں۔ ایمان سے محرومی اس کے لیے اس سے زیادہ اذیت ناک لگنے لگے کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک وہ مرکزی بات موجود نہ ہو جسے اللہ اور اس کے رسول کے سب سے زیادہ عزیز ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

اسی طرح دوسری چیز انسان کا اپنے ماحول سے تعلق ہے۔ یہ تعلق مختلف جہتوں سے وجود میں آتا ہے۔ دوست، کاروبار کے ساتھی، ہمسایے، رشتہ دار، بہن بھائی، والدین اور اولاد کے ساتھ آدمی فطری طور پر وابستہ ہوتا ہے۔ یہ وابستگی کم وبیش بھی ہوتی رہتی ہے۔ عام طور پر اس کا باعث کچھ شکایتیں ہوتی ہیں۔ یہ شکایتیں بالعموم توقعات کے پورا نہ ہونے یا برتاؤمیں فرق پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمی بیشی بھی خدا کے تعلق سے وابستہ رہنی چاہیے۔ مراد یہ کہ افراد تعلق کی عنایتیں اور مہربانیاں اور ان کی زیادتیاں اور بے مہریاں، جب تعلق کی کمی بیشی پر اثرانداز ہونے لگیں تو خدا کے ساتھ ہمارا تعلق اس کیفیت کو تبدیل کردے اور ہمارا فیصلہ وہی ہو جو اس طرح کے مواقع پر ہمارا خدا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے، یہ چیز بھی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک ہم ہر تعلق سے زیادہ خدا سے تعلق کو اہمیت نہ دیتے ہوں۔

خدا سے سب سے بڑھ کر محبت دین کا تقاضا ہے۔ یہ بات بعینہٖ قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں ہے: ’وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ‘( اور جو ایمان والے ہیں، وہ اللہ سے سب سے بڑھ کر محبت کرنے والے ہیں)۔ سورۂ توبہ میں دین سے وابستگی کے ایک تقاضے کو پورا نہ کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنَ تَرْضَوْنَہَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ.(۹ :۲۴)
’’ان سے کہہ دو کہ تمھارے باپ، تمھارے بیٹے،تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارا خاندان اور وہ مال جو تم نے کمایا ہے، وہ تجارت جس کے مندے کا تم کو اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تمھیں پسند ہیں، اگر تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے۔اور اللہ بدعہدوں کو بامراد نہیں کرتا۔‘‘

اس آیۂ کریمہ میں ہر اس چیز کو گن کر نمایاں کیا گیا ہے جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ وابستگی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے اور بات اس نکتے پر ختم کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور دین کی نصرت کو ان سب سے بڑھ کر عزیز ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے اہل ایمان کے دلوں میں ایمان کو کیا حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سورۂ حجرات میں ارشاد ہے:

وَلٰکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ، اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوْنَ.(۴۹ :۷)
’’لیکن اللہ نے تمھارے سامنے ایمان کو محبوب بنایا اور اس کو تمھارے دلوں میں کھبایااور کفر وفسق اور نافرمانی کو تمھاری نگاہوں میں مبغوض کیا۔ یہی لوگ راہ راست پانے والے ہیں۔‘‘

اس محبت سے مراد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سب علائق پر اللہ اور اس کے رسول کے حق کو فائق رکھا جائے اور آدمی کسی صورت میں بھی اللہ کی ناراضی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آدمی کو آپ کے اسوہ کی پیروی کرنے والابنائے تو یہ ایک امتی کی اپنے رسول سے محبت ہے۔ اور اگر اس محبت کا اظہار صرف زبان تک محدود ہے تو خطرہ ہے کہ روز قیامت اس محبت کی کوئی قدروقیمت نہ ہو۔

متون

امام مسلم نے اس روایت کے تین متن منتخب کیے ہیں۔ یہ تینوں متن ’ثلاث‘ کے لفظ سے شروع ہوئے ہیں۔ لیکن دوسری کتب حدیث میں اس روایت کے ایسے متون بھی روایت ہوئے ہیں جن میں اس روایت کا آغاز مختلف جملوں سے ہوا ہے۔ مثلاً، بعض متون کا آغاز ’من سرہ أن یجد طعم الإیمان‘ ، بعض کا ’لایؤمن أحدکم‘، بعض کا ’لایجد أحدکم حلاوۃ الإیمان‘ اور بعض کا ’من أحب أن یجد حلاوۃ الإیمان‘ کے جملے سے ہوا ہے۔ ایک متن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ’ما الإیمان؟‘ کے جواب میں ارشاد فرمائی تھی۔ جس طرح مسلم کے متون سے معلوم ہوتا ہے کہ ’حلاوۃ‘ کی جگہ پر ’طعم‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں ’الإیمان‘ کے بجائے ’الإسلام‘ اور ’وجد‘ فعل کے لیے ’ذاق‘ بھی استعمال ہوا ہے۔ جس ترتیب سے ان روایات میں ایمان کے ثمرات بیان ہوئے ہیں، کچھ متون میں ترتیب مختلف ہے اور بعض میں بعض اجزا نقل نہیں ہوئے۔ زیر بحث روایات میں ’المرء‘ کا لفظ آیا ہے۔ کچھ روایات میں اس کی جگہ ’عبد‘ اور بعض میں ’غیر ذی نسب‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ ’غیر ذی نسب‘ کے الفاظ راوی کا اپنا فہم ہیں۔ آخری جملے کے اختلافات بھی اسی طرح لفظی نوعیت کے ہیں۔ مثلاً، مسلم ہی کی روایات دیکھ لیں۔ ایک روایت میں ’یلقی‘ اور دوسری میں ’یقذف‘ آیا ہے۔ اسی طرح ’یرجع فی الکفر‘ کی جگہ ’یرجع یہودیا ونصرانیا‘ آیا ہے۔ ایک دوسری کتاب میں آگ کا ذکر قدرے مختلف طریقے سے ہوا ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’أن توقد نار عظیمۃ فیقع فیہا أحب الیہ من أن یشرک‘۔ ان الفاظ میں کفر کی جگہ شرک نے لے لی ہے۔ اسی طرح اس روایت کے فعل ’انقذ‘ کی جگہ بعض روایات میں ’أنجی‘ کا فعل بھی نقل ہوا ہے۔ ان متون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی اسالیب میں اور مختلف مواقع پر فرمائی تھی۔ مسند الشامیین میں اسی نوع کی ایک گفتگو ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے:

عن أبی رزین العقیلی قال: قلت یارسول اللّٰہ، کیف یحیی اللّٰہ الموتی؟ قال: بأرض من أرضک مجدبۃ، ثم مررت بہا مخصبۃ. قال: نعم. قال: کذلک النشور. قال: یارسول اﷲ، ما الإیمان؟ قال: تشہد أن لا إلٰہ إلا اﷲ وأن محمدا عبدہ ورسولہ وأن یکون اللّٰہ ورسولہ أحب إلیک مما سوا ہما وأن تحرق بالنار أحب إلیک أن تشرک باﷲ وأن تحب غیر ذی نسب تحبہ إلا ﷲ. فإذا کنت کذلک فقد دخل حب الإیمان قلبک، کما دخل حب الماء قلب الضمآن فی الیوم القائظ. قلت: یا رسول اﷲ، کیف لی بأن أعلم أنی مؤمن؟ قال: ما من ہذہ الأمۃ من عبد یعمل حسنۃ یری أنھا حسنۃ، ولا یعمل سیءۃ یستغفر اﷲ إلا ہو مؤمن.(رقم۶۰۲)
’’حضرت ابورزین عقیلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کریں گے؟ آپ نے فرمایا: (کیا ایسا نہیں ہوتاکہ) تمھارے علاقوں میں کوئی علاقہ (تم گزرتے ہو تو ) روئیدگی سے بالکل خالی ہوتا ہے۔ پھر تم اس میں سے گزرتے ہو تو سرسبز ہوتا ہے؟انھوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: قیامت میں اٹھنا اسی طرح ہوگا۔پھر پوچھا: یا رسول اللہ، ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تو اس بات کا برملا اعلان کرے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول تمھیں ان کے سوا ہر چیز سے زیادہ پسند ہوں۔ یہ کہ تمھیں آگ سے جلا دیا جائے اس سے بہتر لگے کہ تم شرک کرو۔ جب تمھارا حال یہ ہو تو (سمجھ لو کہ ) ایمان کی محبت تمھارے دل میں داخل ہو گئی ہے، ایسے ہی جیسے سخت گرم دن میں پیاسے کے دل میں پانی کی محبت داخل ہو جاتی ہے۔(اگلا) سوال کیا: میرے لیے کیسے ممکن ہے کہ میں یہ جان لوں کہ میں مومن ہوں؟ آپ نے فرمایا: اس امت کا کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو نیکی کا عمل کرتا ہو اور اسے وہ ایک نیکی سمجھتا ہو اور اسی طرح وہ برائی کرتا ہواور اللہ سے اس پر معافی مانگتا ہو، مگر یہ کہ وہ مومن ہو۔‘‘
کتابیات

بخاری، رقم۱۶، ۲۱، ۵۶۹۴، ۶۵۴۲۔ مسلم، رقم ۴۳۔ نسائی، رقم ۴۹۸۷، ۴۹۸۸، ۴۹۸۹۔ ترمذی، رقم۲۶۲۴۔ ابن ماجہ، رقم ۴۰۳۳۔ احمد، رقم۷۹۵۴، ۱۰۷۴۹، ۱۲۰۲۱، ۱۲۷۸۸، ۱۲۸۰۶، ۱۳۴۳۱، ۱۳۱۷۴، ۱۳۶۱۷، ۱۳۹۰۲، ۱۳۹۴۰، ۱۳۹۹۱، ۱۴۱۰۲۔ ابن حبان، رقم۲۳۷، ۲۳۸۔ حاکم، رقم ۳، ۷۳۱۲۔ بیہقی، رقم۲۰۸۵۲۔ ابویعلیٰ، رقم۲۸۱۳، ۳۰۰۰، ۳۱۴۲، ۳۲۵۶، ۳۲۵۹۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۱۸، ۱۱۷۱۹، ۱۱۷۲۰۔ ابن شیبہ، رقم۳۴۷۶۵، ۳۰۳۶۰۔

 _______________

B