HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘ (۷)

پروفیسر خورشید عالم

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


’’الاقناع‘‘ شمس الدین محمد بن احمد الشربینی الخطیب الشافعی کی مشہور کتاب ہے۔ وہ اس کتاب (۱: ۱۸۶) میں فرماتے ہیں:’’ آزاد عورت کا ستر چہرے اور ہاتھ کے جوڑ تک ہتھیلیوں کے اندر اور باہر کے ماسوا ہے، کیونکہ اللہ کا قول ہے: ’الا ما ظہر منہا‘ جس کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی گئی ہے۔ وہ اس لیے ستر نہیں، کیونکہ ان کو کھلا رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

’’عمدۃ السالک‘‘ شہاب الدین ابی العباس احمد بن النقیب المصری (۷۶۹ھ) کی کتاب ہے۔ اس کتاب کے صفحہ (۴۹) پر ہے کہ ’’ماسوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے عورت کا سارا بدن ستر میں شامل ہے۔‘‘

’’انوار المسالک فی شرح عمدۃ السالک‘‘ شیخ محمد الغمراوی کی کتاب ہے۔ وہ عمدۃ السالک کے متن ’’ماسوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے عورت کا سارا بدن ستر ہے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ دونوں ہتھیلیوں کا اندرونی اور بیرونی حصہ ہاتھ کے جوڑ تک۔‘‘

’’فتح المعین‘‘ علامہ شیخ زین الدین ابن عبدالعزیز الملیباری الشافعی (۹۸۷ھ) کی کتاب ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’آزاد عورت (خواہ چھوٹی ہو) کا ستر چہرے اور ہاتھ کے جوڑ تک ہتھیلیوں کے اندر اور باہر کے سوا ہے۔‘‘(۲۴۰)

میں نے فقہ شافعی کے امام اور متقدمین شافعی فقہا کی کتابوں کے حوالے زمنی ترتیب کے ساتھ پیش کردیے ہیں۔ ان تمام حوالوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مضمون نگار نے دو ایک متاخرین فقہا کے حوالے پیش کیے ہیں۔ انھوں نے ان حوالوں کو پیش کرتے وقت بھی دیانت وامانت کا خون کیا ہے جن کی مثال میں نیچے پیش کر رہا ہوں۔

۱۔ ’’المبدع‘‘ میں ابن مفلح کا حوالہ دیتے وقت اس عبارت کو حذف کر دیا ہے جو ان کے تصور سے متعارض تھی۔ ’’المبدع‘‘ (۱: ۳۶۳) میں ’المقنع‘ کے متن (چہرے کے سوا عورت کا سارا جسم ستر ہے) کی تشریح یوں کی ہے جیسے عورت کا سر اور پنڈلیاں۔ اس بات پر اجماع ہے۔ صاحب مضمون نے تشریح کی یہ عبارت حذف کر دی ہے اور غلط طور پر ’کلہا عورۃ حتی ظفرہا‘ کے قول کو قول مشہور کے طور پر ابن ہبیرہ کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ حالاں کہ میں اوپر ابن ہبیرہ کی اپنی تصنیف سے حوالہ دے چکا ہوں کہ وہ امام احمد کے اس قول کو مشہور سمجھتے ہیں جو جمہور فقہا کے قول سے مطابقت رکھتا ہے۔ اسی حوالہ کے آخر میں ابن مفلح کا قول ہے کہ ابن تمیم نے ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ ’’چہرہ ستر میں شامل ہے، جبکہ قاضی نے اس کے برعکس روایت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔‘‘ ان واضح الفاظ کو مضمون نویس نے اس لیے قلم زد کر دیا ہے کہ اس میں قاضی عیاض کے قول اور اس پر اجماع کا بیان ہے۔ کیا یہ دیانت داری ہے؟

۲۔ امام غزالی نے اپنی فقہ کی کتاب ’’الوجیز‘‘ میں ستر کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے۔ اس کو نظر انداز کر کے ’’احیاء علوم الدین‘‘ کی اس عبارت کا حوالہ دیا ہے جو انھوں نے آداب معاشرت کے سلسلہ میں ’’الاعتدال فی الغیرۃ‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ میں امام غزالی کی متعلقہ عبارت کا اردو ترجمہ نقل کر رہا ہوں اور جن جملوں کو صاحب مضمون نے حذف کیا ہے، ان کے نیچے خط کھینچ رہا ہو ں تاکہ پتا چلے کہ کہاں کہاں کتر بیونت ہوئی ہے:

’’پانچواں ادب معاشرت۔ غیرت میں اعتدال۔ عورت کو چاہیے کہ کسی ضروت کے بغیر گھر سے نہ نکلے، کیونکہ سیرسپاٹے اور غیرضروری کاموں کے لیے نکلنا شرافت کو بٹا لگاتا ہے اور بعض اوقات فساد کا باعث بنتا ہے۔ پھر اگر گھر سے نکلے تو چاہیے کہ مردوں سے آنکھیں نیچی رکھے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ مرد کا چہرہ عورت کے حق میں ایسے ستر ہے جیسے عورت کا چہرہ مرد کے حق میں، بلکہ اس کو ایسے جاننا چاہیے کہ جتنا صفاچٹ (امرد) لونڈے کا چہرہ مرد کے حق میں ہے کہ فتنہ کے خوف کے وقت مرد کو اس کا چہرہ دیکھنا حرام ہے، اسی طرح مرد کو عورت کا چہرہ فتنہ کے خوف کی حالت میں دیکھنا حرام ہے اور اگر خوف فتنہ نہیں تو حرمت بھی نہیں۔ پرانے زمانوں سے مرد کھلے منہ پھرتے ہیں اور عورتیں نقاب ڈال کر نکلتی ہیں۔ اگر مردوں کے چہرے عورت کے حق میں ستر ہوتے تو مردوں کو نقاب اوڑھنے کا حکم ہوتا یا عورتوں کو باہر نکلنے سے منع کر دیا جا تا۔‘‘

خط کشیدہ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صاحب مضمون نے عبارت سیاق وسباق سے الگ کر کے پیش کی ہے۔ ایک حوالے میں تو انھوں نے ’’ہم نہیں کہتے کہ مرد کا چہرہ عورت کے حق میں ایسے ستر ہے جیسا عورت کا چہرہ مرد کے حق میں‘‘ کا جملہ بغیر کسی سیاق وسباق کے پیش کیاہے۔ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ گویا یہاں ’ستر عورۃ‘ کی بحث ہورہی ہے۔ جبکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ بات علمی دیانت کے منافی ہے۔ درحقیقت امام غزالی عورت کوباہر نکلتے وقت اسلامی آداب بتا رہے ہیں تاکہ غلط فہمی کی وجہ سے فتنہ نہ کھڑا ہو جائے اور غیرت کا بے جا استعمال نہ ہو۔ وہ غیرت میں اعتدال کی تلقین کررہے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے ایسی دلیل پیش کی ہے جو علما کے درمیان وجہ نزاع ہے۔ یعنی عورت تو مرد کو دیکھ سکتی ہے، مرد عورت کونہیں۔ یہ مسئلہ مضمون کی پانچویں قسط میں ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام نبہان کی روایت کے تحت بیان ہوچکا ہے۔ وہاں میں نے حدیث کا فنی تجزیہ کر کے بتایا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ نبہان مجہول ہے۔ اس کے ساتھ میں نے تفصیلاً بتایا ہے کہ یہ نقطۂ نظر سورۂ نور کی آیت۳۰ اور سنت متواترہ کے خلاف ہے۔ وہاں پر یہ بحث دیکھی جاسکتی ہے۔ تکرار کی چنداں حاجت نہیں۔ قرآنی حکم کے تحت مرد اور عورت کی نگاہ میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری جو امام غزالی نے عورتوں کے نقاب اوڑھنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے صرف مشاہدہ کی بات کی ہے، شرعی طور پر اس پر بحث نہیں کی۔ اوپر انھوں نے عورت کے چہرے کو امرد کے چہرے سے تشبیہ دے کر بات ہی صاف کر دی ہے۔ حنفی فقہ کی مشہور کتاب ’’ردالمختار علی درالمختار‘‘ (۱:۲۹۹) میں ہے کہ’’ عورت کے چہرے کا حکم خوب صورت امرد کے چہرے کی طرح ہے، بلکہ وہ اس سے بڑھ کر فتنہ کا باعث ہے جس طرح امرد کو شہوت کی نظر کے بغیر دیکھنا جائز ہے، اسی طرح عورت کو شہوت کی نظر کے بغیر دیکھنا جائز ہے‘‘ (یہاں تک تو امام غزالی ہمارے موقف کی تائید کرتے ہیں)۔ صاحب ’’ردالمختار‘‘ فرماتے ہیں کہ کیونکہ شہوت کے بغیر امرد (صفاچٹ لونڈا) کا چہرہ دیکھنا جائز ہے، اس لیے اسے نقاب اوڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بالکل اسی طرح چونکہ شہوت کے بغیر عورت کا چہرہ دیکھنا بھی جائز ہے، اس لیے اسے بھی نقاب اوڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ امام غزالی نے مشاہدے کی بنیاد پر جو نتیجہ نکالا ہے، وہ ان کے اپنے دعویٰ کے خلاف ہے۔ پھر امام غزالی نے جو عورتوں کے نقاب اوڑھنے کا ذکر کیا ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہ وجوباً نقاب اوڑھتی تھیں، جیسے صاحب مضمون کا موقف ہے۔ بلکہ امام شوکانی نے تو وضاحت کردی ہے کہ ان کے لیے نقاب اوڑھ کر نکلنا جائز تھا نہ کہ واجب۔ بہرحال امام غزالی اور امام شوکانی کے بیانات سے بھی مضمون نویس کو اپنا موقف ثابت کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔ امام غزالی کا عورت کے ستر کے بارے میں وہی موقف ہے جسے انھوں نے اپنی کتاب ’’الوجیز‘‘ میں ’ستر العورۃ‘ کے تحت بیان کیا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے بند تک ہتھیلیوں کو چھوڑ کر عورت کا سارا بدن ستر ہے۔ مضمون نویس نے اس حوالہ کو دیدہ ودانستہ نظرانداز کیا ہے یا سہواً اس کی وضاحت کا ان کو حق حاصل ہے۔

صاحب مضمون نے امام شوکانی کی ’’نیل الاوطار‘‘ کی چھٹی جلد کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ اس میں ان کو اپنے مزعومہ خیال کی جھلک نظر آتی ہے، مگر ’’نیل الاوطار‘‘ کی دوسری جلد (۲: ۵۴) کو نظرانداز کر دیا ہے، کیونکہ وہاں انھوں نے زیربحث موضوع پر براہ راست بات کی ہے جو ان کو اچھی نہیں لگی۔ یہاں امام شوکانی نے ایک باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ’باب ان المراۃ کلہا عورۃ الا وجہہا وکفہا‘ (یہ باب اس بارے میں ہے کہ عورت کا سارا جسم سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے۔) امام شوکانی نے یہ عنوان باندھ کر اپنی ذاتی رائے کا اظہار کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ آزاد عورت کے ستر کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول ہے کہ چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کو چھوڑ کر اس کا سارا بدن ستر ہے ۔ ہادی اور قاسم نے اپنے ایک قول میں اس رائے کا اظہار کیا ہے۔ امام شافعی نے اپنے ایک قول میں اور امام ابوحنیفہ نے ایک روایت میں یہی بات کہی ہے اور امام مالک نے بھی۔ ایک قول ہے کہ ستر میں دونوں پاؤں بھی شامل ہیں اور پازیب کا مقام بھی۔ قاسم کی اپنے دوسرے قول میں اور ابوحنیفہ کی اپنی دوسری روایت میں یہی رائے ہے۔ ایک قول ہے کہ چہرے کے سوا سارا بدن ستر ہے۔ امام احمد بن حنبل اور داؤد کا یہی مذہب ہے۔ ایک قول ہے کہ اس کا سارا بدن ستر ہے اور یہ شافعی کے کچھ اصحاب کی رائے ہے اور احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے۔ ان اقوال میں اختلاف کا سبب اللہ تعالیٰ کے قول ’الا ما ظہر منہا‘ کی تفسیر کا اختلاف ہے۔ امام شوکانی کی اس تفصیل سے چند باتوں کا پتا چلتا ہے:

۱۔ ستر کے لیے نص قطعی سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۱ہے۔

۲۔ جمہورفقہا نے ماسوائے چند شافعی اصحاب اور احمد بن حنبل کی ایک روایت کے اس بات کی تائید کی ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں یا پھر صرف چہرے کو چھوڑ کر عورت کا سارا بدن ستر ہے۔

۳۔ ’’سوائے چہرے کے سارا بدن‘‘ اس بات کو امام احمد بن حنبل کا مذہب قرار دیا گیا ہے اور سارے بدن کو محض ان کی ایک روایت۔

اس واضح اور تفصیلی موقف کی موجودگی میں اس حوالہ کی کیا حیثیت ہے جو صاحب مضمون نے پیش کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت کو نقاب اوڑھنے کی اجازت تھی۔

مضمون نویس نے حافظ ابن حجر عسقلانی کے جو دو حوالے دیے ہیں۔ ان پر میں چوتھی قسط میں خثعمیہ اور فضل بن عباس کی روایت کے تحت گفتگو کر چکا ہوں۔ وہاں حافظ ابن حجر کا موقف دیکھا جا سکتا ہے۔

صاحب مضمون نے ’’عون المعبود‘‘ اور ’’بذل المجہود‘‘ کے جو دو حوالے دیے ہیں۔ ان کے بارے میں فقہ حنفی کے ضمن میں تفصیل سے گفتگو کر چکا ہوں۔ وہ حوالے فتنہ کی شرط سے مشروط ہیں۔ ان میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔ یہی اصل اور دائمی حکم ہے۔ فتنہ ایک عارضی حالت ہے۔ جب شرط ختم ہوگی مشروط بھی ختم ہوجائے گا۔ پھر صاحب مضمون کا موقف تو یہ ہے کہ عورت کے لیے چہرے کو چھپانا واجب ہے۔ اس میں فتنہ اور غیرفتنہ کا کوئی دخل نہیں۔

صاحب مضمون نے ’سدل‘ کے بارے میں امام شافعی اور ابن قدامہ کے حوالے دے کر خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا ہے۔ چوتھی قسط کے جواب میں ’سدل‘ کے بارے میں میں تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں۔ اس کا خلاصہ بے محل نہ ہوگا:

۱۔ ’سدل‘ اور ’تغطیہ‘ میں واضح فرق ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسماء کی روایت میں لفظ ’تغطیہ‘ کو ’سدل‘ پر محمول کیا ہے۔ ’سدل‘ یہ ہے کہ سر کے اوپر سے فریم یا کسی اور طریقے سے کپڑا چہرے کے دائیں بائیں اس طرح لٹکا لیا جائے کہ وہ چہرے کو بالکل نہ چھوئے، اگر اس نے چہرے کو چھولیا تو فدیہ واجب ہوگا۔ صاحب ’’عون المعبود‘‘ نے اسے ناممکن قرار دیا ہے۔

۲۔ فقہا نے ’سدل‘ کی اجازت اس شرط پر دی ہے کہ مرد عورتوں کے بالکل قریب سے گزر رہے ہوں اور ان کی وجہ سے عورتوں کو دقت محسوس ہو رہی ہو یعنی یہ اجازت صرف خاص حالات میں ہے۔

۳۔ حضرت عائشہ کی ایک روایت میں ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایسا کر لے۔ یعنی یہ واجب نہیں صرف اجازت ہے۔

۴۔ حضرت عائشہ نے ایک روایت میں ’سدل‘ سے منع کیا ہے اور لوگوں کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی دو چار عورتوں کے سوا دنیا کی کوئی عورت اس پر عمل پیرا نہیں۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ جس چیز پر عمل نہیں ہورہا ،اس کو بطور دلیل پیش کرنے پر مضمون نویس کیوں مصر ہے؟

قرآن حکیم سورۂ رعد (۱۳: ۱۷) میں یہ سنہری اصول پیش کرتا ہے: ’فاما الزبد فیذہب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض‘ ’’سو جھاگ تو رائیگاں جاتا ہے اور وہ جو لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے زمین میں ٹھہرا رہتا ہے۔‘‘ ناقابل عمل چیز ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔

آخر میں محمد جواد مغنیہ کی ’’الفقہ علی المذاہب الخمسۃ‘‘ (ص۸۶) کا حوالہ پیش کرنا مناسب رہے گا۔ موضوع کا عنوان ہے: ’’عورت اور اجنبی‘‘۔ عورت کے لیے اجنبی آدمی سے کیا چھپانا واجب ہے؟ اس بات پر اتفاق ہے کہ اس حالت میں عورت کا سارا جسم بجز چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر میں شامل ہے، کیونکہ سورۂ نور میں ہے: ’لا یبدین زینتھن الا ما ظہر منہا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن‘ ’’اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو (عادتاً) کھلا رہتا ہے اور چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیں۔‘‘ (۲۴: ۳۱) کیونکہ ظاہری زینت سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ جہاں تک سورۂ احزاب کی اس آیت کا تعلق ہے: ’ویدنین علیہن من جلابیبہن‘ ’’اپنے جلباب اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں یا نیچے کر لیا کریں۔‘‘ (۳۳: ۵۹) توجلباب چہرے کو نہیں ڈھانپتا، بلکہ اس کا مطلب قمیص یا کھلا کپڑا ہے۔

چہرے کے پردے کے بارے میں صاحب مضمون نے غلط دعویٰ کیا ہے کہ اس پر تمام مسلمان علما کا اتفاق ہے۔ مذاہب اربعہ کے بارے میں میں نے جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کا ایک قول ہے کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں۔ ان ائمہ نے دلیل کے طور پر تین باتیں کہی ہیں۔ ایک تو سورۂ نور کی آیت ’الا ما ظہر منہا‘ کا حوالہ اور ابن عباس کے قول سے اس کی تائید اور ابن عمر کی روایت کہ عورت حالت احرام میں نہ نقاب اوڑھے اور نہ دستانے پہنے اور اس سے یہ استدلال کہ اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو ان اعضا کو چھپانا حرام قرار نہ دیا جاتا۔

۲۔ ان ائمہ میں سے کسی نے اور نہ ہی متقدمین فقہا میں سے کسی نے فتنہ کی شرط لگائی ہے، بلکہ یہ تصریح ضرور کی ہے کہ قرآن میں غض بصر کا حکم فتنہ کو روکنے کے لیے ہے۔ جن متاخرین نے فتنہ کی شرط لگائی ہے ان میں سے بھی اکثر چہرے کو ڈھانپنا مستحب سمجھتے ہیں نہ کہ واجب۔

۳۔ امام احمد بن حنبل کا ایک قول ہے کہ عورت کا سارا بدن ستر ہے یہاں تک کہ عورت کو نماز میں بھی نقاب اوڑھنا چاہیے۔ کسی حنبلی فقیہ نے اس قول پر عمل نہیں کیا، بلکہ ان کے قول کی یہ تاویل کی ہے کہ یہ مطلق قول ’الا ما ظہر منہا‘ سے مقید ہے۔ اس لیے اس میں چہرے کا استثنا شامل ہے۔ جہاں تک نماز کے اندر اور باہر کے ستر کا تعلق ہے، یہ بعض متاخرین کے ذہن کی اختراع ہے، امام احمد کا قول نہیں۔ امام موصوف کا مشہور اور بہترین قول پہلا قول ہے، جیسا کہ ابن قدامہ نے کہا ہے اور وہ ائمۂ ثلاثہ کے قول کے مطابق ہے۔

۴۔ مذاہب اربعہ کی فقہ کی کتابوں میں صرف قرآن حکیم کی سورۂ نور کی آیت ’الا ما ظہر منہا‘ اور ابن عباس کے قول کا حوالہ دیا گیا ہے، بلکہ ابن نجیم نے ’’البحرالرائق‘‘ (۱: ۲۸۴) میں یہاں تک کہا ہے کہ ’’اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، خواہ ابن مسعود اس کی تفسیر اوپر والے کپڑوں سے کرتے رہیں‘‘ اور ابوبکرالجصاص نے یہاں تک کہا ہے کہ ’’ابن مسعود کا قول بے معنی ہے، کیونکہ زینت سے مراد وہ عضو ہے جسے مزین کیا گیا ہو۔‘‘ امام اوزاعی اور ابن حزم نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔ دور جدید کے فقہا ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور شیخ محمد الغزالی کی بھی یہی رائے ہے۔

۵۔ صحابۂ کرام میں سے حضرت عائشہ اور ابن عمر کے اقوال ابن عباس کے قول کی تائید ہیں، جبکہ ابن مسعود کے قول کو کسی صحابی نے قبول نہیں کیا۔ تابعین عظام میں سے ابن سیرین اور حسن کے علاوہ تمام تابعین، مثلاً سعید بن جبیر، عطاء بن ابی رباح، مجاہد، قتادہ، عکرمہ، مسوربن مخرمہ، عبدالرحمان بن زید، جابر بن زید اور ضحاک نے ابن عباس اور ابن عمر کے قول کی تائید کی ہے۔ اس قول کو صاحب مضمون نے ضعیف قرار دیا ہے جس کا جواب دیا جا چکا ہے۔

۶۔ میں نے چھٹی قسط کے جواب میں ’الا ما ظہر منہا‘ کی تفسیر میں قدیم وجدید بیس مفسرین کا حوالہ دیا ہے جو اس آیت سے مراد چہرے اور ہتھیلیوں کا استثنا لیتے ہیں۔ کئی ایک دوسری تفاسیر کا حوالہ ابھی دینا باقی ہے۔ صاحب مضمون نے چھٹی قسط میں صرف ایک تفسیر ’’زادالمسہر‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو ابن الجوزی کی تفسیر ہے اور اس حوالہ میں بھی انھوں نے علمی دیانت کا ثبوت نہیں دیا۔ اس تفسیر میں ’الا ما ظہر منہا‘ کی تفسیر کے تحت لکھا ہے کہ اس کے بارے میں سات اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اوپر والے کپڑے ہیں۔ جسے ابوالاحوص نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے اور ایک اور متن میں اس سے مراد چادر ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہتھیلی، انگوٹھی اور چہرہ ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ اس سے مراد سرمہ اور انگوٹھی ہے۔ ان دونوں اقوال کو سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ اس سے مراد کنگن، انگوٹھی اور سرمہ ہے۔ یہ مسور بن مخرمہ کا قول ہے۔ پانچواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد سرمہ، انگوٹھی اور خضاب/مہندی ہے۔ یہ مجاہد کا قول ہے۔ چھٹا قول حسن کا ہے کہ اس سے مراد انگوٹھی اور کنگن ہیں۔ اور ساتواں قول یہ ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ گویا کہ ایک طرف عبداللہ بن مسعود کا قول جسے ابوالاحوص جیسے مدلس نے روایت کیا ہے اور دوسری طرف چھ اقوال جسے سعید بن جبیر، مسور بن مخرمہ، مجاہد، حسن اور ضحاک کے پائے کے تابعین نے روایت کیا ہے۔ اس کے آگے جس عبارت کا حوالہ صاحب مضمون نے دیا ہے، وہ ابن الجوزی کے الفاظ نہیں، بلکہ قاضی ابویعلیٰ کے الفاظ ہیں جنھوں نے امام احمد کے قول کا ذکر کیا ہے۔ اس قول پر پہلے بحث گزر چکی ہے۔

۷۔ محدثین میں ابوداؤد، ابن ابی شیبہ، طبرانی، بیہقی اور ذھبی نے اس نقطۂ نظر کی تائید کی ہے۔ ابوداؤد کی روایت کی تقویت، منذری، زیلعی، عسقلانی اور شوکانی کے پائے کے محدثین نے کی ہے۔ دورجدید کے سب سے بڑے محدث امام ناصرالدین البانی نے اس حدیث اور ابن عباس کے قول کی بڑھ چڑھ کر تائید کی ہے۔ ان کی کتاب ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ نے مخالفین کو لاجواب کر دیا ہے۔

۸۔ امام جعفر صادق کے قول اور ’’الفقہ علی المذاہب الخمسۃ‘‘ کے مصنف محمد جواد مغنیہ کا حوالہ میں اپنے مضمون میں پیش کر چکا ہوں۔ اسی بنیاد پر قاضی عیاض کے پائے کے محدث نے اس نقطۂ نظر کے بارے میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

۹۔ میں نے تفسیر، حدیث اور فقہ کے میدان میں ائمہ کے حوالے تفصیل سے دیے ہیں، اس کے باوجود صاحب مضمون کا یہ دعویٰ کہ چہرے کے پردے کے وجوب کے بارے میں تمام مسلمان علما کا اتفاق ہے، کس قدر غلط ہے؟ بالفاظ دیگر مذکورہ بالا مفسرین، محدثین اور فقہا کا شمار ان کے نزدیک علما میں نہیں ہوتا، بلکہ علما ان کے نزدیک صرف دو چار متاخرین یا سعودی عرب کے مفتی ہیں۔

۱۰۔ ان کا یہ دعویٰ بھی سراسر نادرست ہے کہ احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عورتیں عہدرسالت، صحابہ اور تابعین کے دور میں اپنا چہرہ چھپاتی تھیں۔ انھوں نے اپنی سات قسطوں میں جو دلائل پیش کیے ہیں، ان کا جواب تو میں نے قسط وار دے دیا ہے۔ جہاں تک احادیث مبارکہ کا تعلق ہے تو انھوں نے صرف اور صرف پانچ حدیثوں پر بات کی ہے۔ ان حدیثوں پر ان کی تنقید کا جواب میں نے انتہائی مدلل طریقے سے دے دیا ہے۔ جس کتاب کو بنیاد بنا کر انھوں نے یہ پانچ احادیث نکالی تھیں، وہ علامہ البانی کی تصنیف ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ ہے۔ اس میں مصنف نے صفحہ۶۰ سے لے کر صفحہ۷۳ تک تیرہ احادیث کو چہرے کے پردے کے عدم وجوب کے بارے میں پیش کیا ہے۔ صرف پانچ حدیثوں پر تنقید کر کے صاحب مضمون کے علم کے خزانے خالی ہوگئے اور ان کی ہمت جواب دے گئی ابھی تو آٹھ احادیث اور سولہ آثار (صفحہ۹۶ سے لے کر صفحہ۱۰۳) باقی ہیں۔ مصنف کا دعویٰ ہے کہ ان احادیث اور آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ عہدرسالت اور اس کے بعد کے ادوار میں عورتوں کے لیے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنا جائز تھا۔ مجھے امید ہے کہ مولوی محمد زبیر سلفی صاحب ان باقی ماندہ آٹھ احادیث اور سولہ آثار کے بارے میں اپنے علمی کمالات کا اظہار فرما کر اپنے تواتر عملی کے دعویٰ کا کوئی ثبوت پیش کریں گے۔

۱۱۔ تواتر عملی کا دعویٰ کرنے سے پہلے کاش صاحب مضمون تاریخ اسلام کا مطالعہ کرتے۔ طبقات ابن سعد، اسدالغابہ اور الاصابہ کی آخری جلدوں کا اور اسماء الرجال کی کتابوں کا مطالعہ کر لیتے تو انھیں پتا چلتا کہ خواتین عہدنبوت اور بعد کے ادوار میں کھلے چہروں کے ساتھ دینی، ادبی، ثقافتی اور عملی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی ہیں۔ وہ جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ان کو پانی پلاتی تھیں۔ مسجد کے اندر پنج گانہ اور جمعہ کی نمازوں، مسجد سے باہر نماز استسقا اور عیدین میں شرکت کرتی تھیں۔ درس وتدریس میں حصہ لیتی تھیں۔ روایت حدیث اور اجازت حدیث میں ان کا مقام منفرد تھا۔ شعروادب میں خنساء، سعدیٰ، صفیہ، امامہ، صفیہ بنت حارث، ارویٰ، عاتکہ بنت زید، ام ایمن، کبشہ بنت رافع، میمونہ بلویہ اور رقیہ نامور ہیں۔ خنساء تو صاحب دیوان ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ ’ھیۃ یا خنیس‘ کہہ کر ان کا استقبال کرتے اور شعر کی فرمایش فرماتے۔ صنعت وحرفت، تجارت میں شریک ہوتی تھیں۔ انصار کی عورتیں نخلستانوں میں کاشت کاری کھلے منہ سے کرتی تھیں جس طرح ہمارے دیہات کی ستر فی صد آبادی میں عورتیں مردوں کے شابہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہی ملک پر منحصر نہیں کھیتی باڑی کا کام ہر جگہ ہر ملک میں مرد اور عورتیں مل جل کر کرتے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر یہ کام چل ہی نہیں سکتا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر سر پر ٹوکری رکھ کر مدینہ سے دوڈھائی کلومیٹر دور حضرت زبیر بن عوام کے گھوڑے کے لیے چارہ بنا کر لاتی تھیں۔ میرا مشورہ ہے کہ صاحب مضمون اس سلسلہ میں عمررضا کحالہ کی ’’أعلام النساء‘‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔

________________

B