[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
طٰہٰ حسین ۱۴ نومبر ۱۸۸۹ کو بالائی مصر کے صوبہ المینیا کے ایک گاؤں مغاغہ یا ’عزبۃ الکیلو‘ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک شوگر کمپنی میں ملازم تھے۔بچپن میں طٰہٰ حسین کی آنکھیں خراب ہوئیں تو ایک عطائی کو دکھایا گیاجس کے غلط علاج سے وہ ۳ سال کی عمر میں ہمیشہ کے لیے نابینا ہو گئے۔ طٰہٰ حسین نے اپنی تعلیم اپنے دادا سے اورادوا دعیہ سیکھ کر شروع کی۔پھر ایک قطب یعنی قرآن سکھانے اور ابتدائی تعلیم دینے والا مدرسہ میں داخل ہوئے اور ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ان کے بڑے بھائی نے انھیں الفیہ بن مالک ازبر کرادیا۔۱۹۰۲ء میں انھیں الازہر بھیج دیا گیا، جہاں انھوں نے ۶ سال رہ کر عربی زبان و ادب اور علوم اسلامیہ کی تعلیم مکمل کی ۔مدرسے کے فارغ اوقات میں شیخ علی المرصفی ’’المفصل‘‘، ’’دیوان الحماسہ‘‘اور ’’کامل مبرد‘‘ کے اسباق پڑھاتے تھے، طٰہٰ حسین ان کے درسوں میں بھی شریک رہے۔ احمد حسن زیات ان کے ہم سبق تھے ،ان سے طٰہٰ حسین کی آخر دم تک رفاقت اور عزیز داری رہی۔ برطانوی راج کے دوران میں ۱۹۰۸ء میں قاہرہ یونیورسٹی بنی تو وہاں بڑے شوق سے داخل ہوئے ۔ وہاں مستشرق نیلنو(Nallino)عربی ادب کی تاریخ اورGuidi جغرافیہ پڑھاتے تھے ،طٰہٰ حسین ان کے خیالات سے متاثر ہوئے۔وہ پہلے طالب علم تھے جنھیں اس یونیورسٹی نے ۱۹۱۴ء میں ابو العلا معری پر مقالہ لکھنے پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی ۔ اسی یونیورسٹی میں وہ عربی ادب کے پروفیسر تعینات ہو گئے ۔
حکومت مصر نے۱۹۱۵ء میں طٰہٰ حسین کو مزیدتعلیم کے لیے فرانس بھیجا۔نابینا ہونے کی وجہ سے ان کے ایک بھائی کو مدد کے لیے ساتھ بھیجا گیاجس نے ان کے ساتھ بے پروائی کا برتاؤ کیا ۔پیرس میں ان کی ملاقات سوزان سے ہوئی جو ان کے علمی کاموں میں ہر طرح سے ان کی مددگار اور نائب ثابت ہوئیں،بعد میں یہی ان کی بیوی بنیں۔ طٰہٰ حسین نے ۱۹۱۸ء میں ابن خلدون کے فلسفۂ تاریخ پر ریسرچ پیپر لکھاجس پر سوربو ن آرٹس کالج، پیرس نے ۱۹۱۹ء میں انھیں دوسری پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ ۱۹۱۹ء ہی میں یہیں سے رومن قوانین میں ڈپلوما حاصل کیا،اسی سال مصر لوٹ آئے اور جامعہ مصریہ قاہرہ میں قدیم رومی و یونانی تاریخ پڑھانے لگے ۔ آکسفورڈ، میڈرڈ اور روم کی یونیورسٹیوں نے طٰہٰ حسین کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں دیں۔
۱۹۲۵ء میں طٰہٰ کلےۃ الآداب (Arts College) میں تاریخ ادب عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اسی کالج کے پرنسپل بن گئے۔۱۹۴۳ء میں جامعہ اسکندریہ کے وائس چانسلر بنائے گئے۔۱۹۵۰ء میں وفد پارٹی کی طرف سے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ انھوں نے وزیر تعلیم بننے پر یہ موٹو اپنایا کہ تعلیم پینے والے پانی اور سانسوں میں جانے والی ہوا کی طرح ہر انسان کے لیے نا گزیر ہے۔ طٰہٰ ہی کی تحریک سے مصر میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مفت قرار دی گئی۔۱۹۵۱ء میں حکومت کی طرف سے پاشا کا خطاب دیا گیا۔۱۹۵۲ء کے فوجی انقلاب کے بعد سیاست میں حصہ نہ لیا۔صدر ناصر نے انھیں مصر کاسب سے بڑا سول اعزاز دیا۔۱۹۷۳ء میں اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کا ایوارڈ دیا۔
طٰہٰ حسین نے قدیم عربی ادب،سیرت نبوی اور تمدن اسلام کا گہرا مطالعہ کیا۔جاحظ،ابو الفرج اصفہانی ،ابوحیان توحیدی ان کے محبوب ترین مصنفین ہیں۔شعرا میں سے بحتری ، ابن رومی اور معری کے گرویدہ ہیں۔انھیں معری کے فلسفۂ حیات سے گہری دل چسپی تھی۔ معتزلہ سے متاثر اور ان کے قدردان تھے۔ اپنے زمانۂ تعلیم میں طٰہٰ حسین اساتذہ کی تنگ نظری سے نالاں تھے۔جوانی میں فرانس گئے تو حریت فکر اور روشن خیالی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ طٰہٰ حسین نے یونانی ادب اور ڈرامے پر کام کیاتو یونانی افکارنے محض ان کی ادبی نہیں، بلکہ سماجی اور سیاسی سوچ پر بھی گہرا اثر ڈالا ،یہ تبدیلی ان کی تمام تحریروں میں جھلکتی ہے۔
طٰہٰ حسین نے نصف درجن کے قریب ناول لکھے۔ ایک فرد کو موضوع بنائے جانے والے ان ناولوں میں سماجی انصاف اور مساوات کادرس پایا جاتا ہے ،ان میں عورتوں کے مسائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ’’الایام‘‘ ان کی آپ بیتی ہے، جس میں انھوں نے واحد متکلم کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کیا ہے گویا کوئی اور شخص ان کا تذکرہ کر رہا ہے یا وہ کسی دوسرے کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ ۱۹۳۲ء میںیہ An Egyptian Childhood کے نام سے اور ۱۹۴۳ء میں The Stream of Days کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ ہوئی۔ یورپ میں طٰہٰ حسین اپنی دوسری کتابوں کی بجائے آپ بیتی سے زیادہ مشہور ہوئے۔ ۱۹۲۶ء میں ما قبل اسلام شاعری پر طٰہٰ حسین کی متنازع فیہ کتاب ’’فی الشعر الجاہلی‘‘ چھپی تو ایک طوفان برپا ہو گیا ،اخبارات کے پہلے صفحات طٰہٰ حسین کے خلاف یا ان کے حق میں بیانات سے بھرے ہوتے۔ یہ رد عمل اتنا بڑھا کہ طٰہٰ حسین کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اورکتاب ضبط ہو گئی۔مئی ۱۹۲۷ میں اس کا دوسرا ایڈیشن کچھ ترمیمات کے ساتھ ’’فی الادب الجاہلی‘ ‘کے نام سے شائع ہوا۔ اسی کتاب کی وجہ سے طٰہٰ حسین کو قاہرہ یونیورسٹی کی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے جس کے بعد ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوااور سیاسی موضوعات اور معاشرتی مسائل، بالخصوص غربت اور عورت پر ان کے مضامین منظر عام پر آئے۔ انھوں نے ۱۹۲۰ء میں ’’یونانی ڈرامے کی نظموں کا انتخاب ‘‘۱۹۲۱ء میں ’’ایتھنز کا نظام‘‘اور ۱۹۲۵ء میں ’’رہبران فکر‘‘ شائع کیں ۔طٰہٰ حسین فرانسیسی ادب و ثقافت کے شیدائی تھے۔ انھوں نے فرانسیسی ادب کے ایک بڑے ذخیرے کو عربی میں منتقل کیا۔ ’’مرآۃ الاسلام‘ اور ’علی ہامش السیرۃ‘ ‘لکھ کر انھوں نے اپنی روشن خیالی اور آزاد روی کا تاثر دور کیا۔
طٰہٰ حسین فصیح عربی کے زبر دست حامی تھے۔ وہ قرآن کی زبان اور اس کے رسم الخط کو عربوں میں رابطہ قرار دیتے تھے۔ عمدہ عربی لکھنے والے اس انشا پرداز کا اسلوب سلیس اور دل چسپ ہے۔ جدیدخیالات رکھنے کے باوجود ان کی تصانیف میں قدیم عربی زبان کا حسن اور اس کی صحت پائی جاتی ہے۔ ان کی تحریر میں طنز کی آمیزش ہے، البتہ بعض اوقات جملوں کی طوالت یا کسی لفظ کی تکرار گراں گزرتی ہے۔ طٰہٰ حسین کی تمام کتابیں دل کش اسلوب اور رواں عربی میں لکھی گئی ہیں، لیکن ’’الایام‘‘ کی تحریر تو ایسی ہے کہ انسان پڑھ کر وجد میں آ جاتا ہے۔ ’’ذکری ابی العلاء‘‘، ’’فی الادب الجاہلی‘‘، ’’مع المتنبی‘‘، ’’فصول فی الادب والنقد‘‘، ’’حافظ وشوقی‘‘، ’’حدیث الاربعاء‘‘، ’’من ادبنا المعاصر‘‘، ’’دعا ء الکروان‘‘، ’’مستقبل الثقافۃ فی مصر‘‘، ’’الایام‘‘، ’’مرآۃ الاسلام‘‘، ’’علی ہامش السیرۃ‘‘ اور ’’الوعد الحق‘ ‘ان کی مشہور کتابیں ہیں۔
طٰہٰ حسین جب فرانس سے اپنی دوسری پی ایچ ڈی کر کے مصر آئے تو قاہرہ یونیورسٹی کے شعبۂ عربی سے منسلک ہوئے۔ یونیورسٹی میں آتے ہی انھوں نے طریقۂ تعلیم کو تبدیل کرنے کی سعی شروع کردی اور اپنا تجویز کردہ منہج نافذ کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ درسی کتابیں پڑھانے کی بجائے انھوں نے علمی وادبی موضوعات پر لیکچر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ پہلے انھوں نے قدیم عالمی تاریخ (رومی و یونانی)پڑھائی پھر جاہلی عربی ادب کی تدریس ان کے ذمہ آئی۔وہ اپنے مضمون کو اپنے خیالات کے مطابق زور شور سے پڑھاتے، ان کی روانی و مہارت طالب علموں کے دل موہ لیتی۔ موجود جاہلی شاعری پر شک کرتے کرتے انھوں نے تمام جاہلی عربی ادب کو افسانہ قرار دے دیا۔اتفاق کی بات ہے کہ ان کے طلبہ کی صف میں محمود شاکر بھی بیٹھے ہوتے جو سائنس کی تعلیم چھوڑ کر عربی کے شعبہ میں آئے تھے۔انھوں نے اپنے استاد کی کلاس ہی میں مخالفت شروع کردی جو رفتہ رفتہ اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بن گئے ۔احمدتیمور نے انھیں لندن سے چھپنے والے ڈیوڈ مار گو لیوتھ کے اس مضمون کے بارے میں بتایا جو ان کے خیال میں طٰہٰ حسین کا رہنما بنا تھا۔یہ کشا کش اتنی بڑھی کہ محمود شاکر نے وہ ادارہ ہی چھوڑ دیا، جہاں ان کے خیال میں گمراہ کن باتیں سکھائی جاتی تھیں حالاں کہ یہاں انھیں مشکل سے طٰہٰ حسین ہی کی سفارش سے داخلہ ملا تھا، کیونکہ اس وقت سائنس کے طالب علم کو ادب عالیہ کے کورسز میں نہ لیا جاتا تھا۔ طٰہٰ حسین نے موقف اختیار کیا کہ سائنس کا ایک طالب علم عربی ادب پڑھنا چاہتا ہے تو اسے کیوں روکا جا رہا ہے؟ محمود شاکر تو جامعہ سے نکل کر جاہلی ادب کے مطالعے میں ایسے منہمک ہوئے کہ اس کے نتیجے میں انھوں نے کئی جاہلی دواوین کی تدوین و تہذیب کر ڈالی، جب کہ طٰہٰ حسین نے اپنے لیکچرز جاری رکھے ،بعد میں ان کا سلسلۂ محاضرات ’’فی الادب الجاہلی‘‘ کے روپ میں علمی دنیا کے سامنے آیا۔
جاہلیت مسلمانوں کی وضع کردہ ا صطلاح ہے ،اس سے مراد امی عربوں کا وہ دور ہے جس میں وہ باقی دنیا سے کٹے ہوئے، نور ہدایت سے محروم تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔۱۹۲۶ء میں ما قبل اسلام شاعری پر طٰہٰ حسین کی کتاب ’’فی الشعر الجاہلی ‘‘کے نام سے چھپی۔انھوں نے لکھا کہ ہم آج جوقدیم عربی شاعری ونثر جاہلی لٹریچر کے نام سے پڑھتے ہیں،اصل میں دور جاہلی سے تعلق نہیں رکھتا، کیونکہ اس طرح کی نظم ونثر لکھناان لوگوں کے بس میں نہ تھا۔یہ لٹریچر تو بعد کے مسلمان ادیبو ں اور شاعروں نے اسلام کی آمد کے بعد از خود وضع کیا اور اسے جاہلی ادب کا نام دے دیا تاکہ قرآنی آیات کو یقین کا جامہ پہنایا جا سکے اور قرآن میں پائی جانے والی گرامر کی غلطیوں کا جواز پیش کیا جاسکے۔ اس کتاب کے چھپنے پر بہت ہنگامہ ہوا ،اس پر کئی دینی و علمی اعتراضات کیے گئے، حتیٰ کہ مصر کی حکومت کو کتاب کے تمام موجود نسخے ضبط کرنے پڑے اور اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔طٰہٰ حسین نے اپنانقطۂ نظر تو نہ بدلا، البتہ اس تصنیف کو قابل قبول بنانے کے لیے اس میں کچھ ترامیم کر دیں۔ انھوں نے کتاب کا ایک باب حذف کر دیا اور کئی نئے ابواب اس میں شامل کیے۔بالآخر ۱۹۲۷ء میں اسے ’’فی الادب الجاہلی‘‘ کا نام دیا گیا اور آج یہی ہمارے سامنے ہے۔ اس میں خط کشیدہ عبارت ڈھونڈے سے نہیں ملتی،ہاں طٰہٰ حسین کے اکثر مغربی سوانح نگار یہ عبارت اب بھی نقل کرتے ہیں جب کہ مصری تذکرہ نگار اسے چھپا جاتے ہیں مبادا طٰہٰ کا علمی و ادبی تشخص بگڑ جائے۔
قرآن مجید وحی الٰہی ہونے کی وجہ سے سر تا سر معجزہ ہے ،ا س کالسانی اعجازیہ ہے کہ اس نے ان عربوں کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا جو نطق و فصاحت کو اپنے لیے خاص سمجھتے تھے اور باقی قوموں کو عجم کے نام سے پکارتے تھے۔ نزول قرآن کے بعد عربوں کے پاس کتاب اﷲ سے اعلیٰ کوئی ادب پارہ نہ رہا، کوئی عرب قرآن کے چیلنج پر پورا نہ اتر سکا کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاتا ۔ گزشتہ صدی میں قرآن کے اس غلبے کو دھندلانے کی کوششیں کی گئیں،اگر یہ کہہ دیا جائے کہ قرآن نے جس شعر کو زیر کیا وہی جعلی ہے اور مابعد قرآن گھڑا گیا ہے تو گویا یہ قرآن کے معجزہ ہونے کا انکار ہوا۔
’’فی الادب الجاہلی‘‘ میں طٰہٰ حسین نے جاہلی ادب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا۔ کہتے ہیں: ہم جانتے ہیں کہ مکہ ،طائف اور مدینہ کے شہروں میں اسلام کی آمد سے پہلے شہری تہذیبیں موجود تھیں۔ اپنی تجارتی و معاشی ضر ورتوں کو پورا کرنے کے لیے عرب میں آباد یہودو نصاریٰ اور ہم سایہ ملک میں رہنے والے ایرانیوں سے روابط برقرار رکھنے کے لیے عربوں کو لازماًلکھنا پڑھنا پڑتا ہو گا اور دنیا کی دوسری اقوام کی طرح ان کی کچھ دستاویزات یا تحریریں موجود رہی ہوں گی۔یہ دستاویزات ان اقوام کے علمی و قومی ورثوں کی طرح قطعی علمی طریقوں سے لازماً ہم تک پہنچنی چاہییں تھیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ قریش جزیرہ نماے عرب کے شمالی شہر مکہ میں بستے تھے، قرآن مجید اسی قوم کے فرد حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اس لیے لا محالہ قرآن کی زبان وہی ہو گی جو قریش بولتے تھے ۔ اگر کوئی مخطوطہ یا دستاویز قرآن کی زبان کی شہادت میں ہو تو اسے شمالی عرب سے ملنا چاہیے جب کہ یہ امر واقعی ہے کہ ہمیں شمالی عرب سے قریش کی زبان میں ایک بھی مضری نص نہیں ملی،شعری کتبہ ہوتا یاکوئی نثرپارہ۔اس کے برعکس جنوبی عرب اور یمن سے کچھ مخطوطات کا سراغ ملا ہے، یہ مخطوطات قریش کی زبان میں ہیں اور ہمیں معلوم ہے یہاں یہ زبان نہیں بولی جاتی تھی۔ اس لیے ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ یہ گھڑے ہوئے اور وضعی مخطوطات ہیں۔تمام جاہلی ادب کا یہی حال ہے۔ اس حقیقت کی روشنی میں ہم زمانۂ ما قبل اسلام سے منسوب کی جانے والی تمام عربی نثر کو بالکلیہ رد کرتے ہیں۔ وہ تقریریں جو عرب وفود نے دربار خسروی میں کیں، وہ بلیغ خطبے جو قس بن ساعدہ سے منسوب ہیں اور عرب داناؤں سے منسوب اقوال ،ہمارے خیال میں تمام کے تمام دور اسلامی میں وضع کیے گئے۔خطابت کا فن ویسے ہی تمدن کی نشانی ہے جو عربوں کے ہاں مفقود تھا، صحراؤں میں جنگ و جدال کرنے والے خطیب کیسے ہو سکتے ہیں؟ جیسے یونان وروم اور یورپ میں خطابت جمہوری ادوار میں پروان چڑھی اسی طرح عربی خطابت نے اسلام کی آمد کے بعد رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور خلفا کے ادوار میں نمو پائی۔ جاہلی شاعری کا معاملہ ذرا مختلف ہے ،وضع کے باوجود تھوڑی بہت اصل جاہلی شاعری ہم تک منتقل ہو گئی ہے، چنانچہ جہاں ہم اکثر شاعری، معلقات و قصائد کو منحول سمجھتے ہیں وہاں قبل اسلام عربوں کی طرف منسوب کچھ اشعار کو قبول کر لیتے ہیں۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں ماقبل اسلام والی نثر کا نمونہ دیکھنا ہو تو کیاکریں؟ہم قرآن مجید ، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث اور خلفا کے خطبوں میں قدیم عربی نثر کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔
طٰہٰ حسین کا طریقۂ تحقیق ان مغربی فلسفیوں اور اہل ادب سے ماخوذ ہے جو دیسکارت سے متاثر ہیں۔ان لوگوں نے فلسفہ و ادب میں مغرب کے رہنے والوں کی رائے بدل ڈالی۔ طٰہٰ حسین کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں جو جاہلی شاعری کووضعی مانتے ہیں ۔عرب دنیا میں طٰہٰ حسین کے خیالات منظر عام پر آنے سے پہلے ۱۹۲۵ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر David Margoliouth رائل ایشیاٹک سوسائٹی کے جریدے میں The Origins Of Arabic Poetry کے عنوان سے ایک مضمون لکھ چکے تھے جو ایسے ہی نظریات کے پرچار پر مشتمل تھا۔ مارگولیوتھ نے یہ بھی لکھا کہ میں ایسی باتیں کرنے والا پہلا شخص نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے W Ahlwardt ۱۸۷۲ء میں اپنے تحقیقی مضمونBemerkungen 252ber die Aechtheit der alten arabischen Gedichte میں اور Sir C Lyall المفضلیات (۲) کے دیباچے میں جاہلی عربی ادب کو انتہائی مشکوک قرار دے چکے ہیں۔مارگولیوتھ نے اپنے خیالات کی یوں تشریح کی کہ قرآن مجید اپنے سے پہلے پائی جانے والی عربی سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا،اسے شاعری کی بحروں اور نثر کی سجع سے کوئی واسطہ نہیں۔ صرف شاعری کی لے اور آہنگ سے اس کی کچھ مشابہت ہے جو مسلمانوں نے یہی دکھانے کے لیے خاص اس مقصد کے لیے بعد میں گھڑی۔ اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے سورۂ شعراء کی آخری تین آیات(۲۲۴ ۔۲۲۷) کا حوالہ بھی دیا۔ان آیتوں میں شاعروں کی بے عملی اور ان کے قول و فعل کے تضاد کو بیان کیا گیا ہے ۔یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس سے قدیم عربی شاعری کاجعلی ہوناکیسے ثابت ہوگیا ؟
طٰہٰ حسین کی رائے ہے کہ جاہلی شعر وادب اسلام کی آمد کے بعد ایک گہری کثیر المقاصد سازش کے ذریعے سے وضع کیا گیا۔ یہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ قرآن و حدیث کی سچائی ثابت کرنے کے لیے یعنی زبان و معنی میں ان دونوں علوم کی معاونت کرنے کے لیے انھیں ایسا کرنا پڑا۔
’’فی الادب الجاہلی‘‘ میں طٰہٰ حسین نے ’ومن الاعاجیب‘ کے الفاظ بہت استعمال کیے ہیں ۔ادب جاہلی کے بارے میں طٰہٰ حسین کے نقطۂ نظر کوبھی اعاجیب طٰہٰ حسین میں شمارکیا جا سکتا ہے۔حیرت ہو تی ہے کہ اموی و عباسی ادوار کے مسلمان یا طٰہٰ حسین کے خیال میں موقع پرست اتنے ذہین وفطین تھے کہ انھوں نے بلا استثنا ہر جاہلی شاعر کی طرف سے قصیدے اور معلقے وضع کیے اورانھیں اپنے نام کے بجائے ان کے نام سے منسوب کر دیا۔ انھوں نے طرح طرح کے خطبے گھڑے اور اپنے نام کی قربانی دے کرقس بن ساعدہ ،اکثم بن صیفی اورذو اصبع عدوانی جیسے گزرے ہووں کے نام لگا دیااوران کے اجداد اتنے بلید تھے کہ اپنے لیے دوچار معلقے بھی نہ بنا سکے ، کچھ دیوان تخلیق کرسکے نہ چند خطبے کہہ سکے ۔کیا ہم نے اپنی زبان اردو میں ایسی عظیم قربانی یاطٰہٰ حسین کے کہنے کے مطابق سازش ہوتے دیکھی ہے؟ حقیقی دنیا میں اتنے بڑے پیمانے پر سازش کرنا یقیناً نا ممکن ہے۔کسی یورپی یاافریقی بھاشا میں بھی ایسا ہوا ہے کہ متاخرین نے اپنے ادبی کارنامے اپنے بزرگوں کے کھاتے میں ڈال دیے ہوں؟ H.A.R.Gibb کا کہنا ہے کہ اموی دور میں جاہلی شاعری کی وضع کا نظریہ پیش کرنا اسی طرح ہے جیسے کوئی کہے کہ کیرولین Caroline ڈرامہ(نویں صدی عیسوی کے شاہان انگلستان چارلس اول و دوئم کے ا دوار کا ڈرامہ) سامنے رکھ کر الزبتھن (Elizabethan) ڈرامہ) سولہویں صدی کی ملکۂ الزبتھ اول کے عہد کا ڈرامہ،شکسپےئر اسی دور میں پیدا ہوا ) تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ ایسا لسانی غدر مچا اور کسی نے اف تک نہ کی ، اس بھری دنیا میں کوئی سلیم الطبع انسان نہ ہوا جس نے اس دھاندلی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہو۔ اس دنیا میں بڑے ظلم ڈھائے گئے اور بڑی ناانصافیاں ہوئیں، لیکن کثرت کثیرہ کے خاموش تماشائی بننے کے باوجود ایک اقلیت قلیلہ نے لازماً آواز اٹھائی اور حق کے تاب ناک چہرے سے نقاب ضرور اٹھایا۔اگرادب جاہلی کے باب میں ایسا نہیں ہوا تو یہ طٰہٰ حسین کے مخصوص نقطۂ نظر کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔ اگرچہ چیدہ چیدہ شعر اورجملے جاہلی عبارات میں شامل کیے گئے ہیں، جیسے حماد روایہ، محمدبن اسحاق اور جا ہلی ادب کے دوسرے راویوں نے اپنے جمع کردہ مجموعوں کا خلا بھرنے کے لیے اور ان کی تزیین کرنے کے لیے کیا، تاہم ایسے موقعوں پر ناقدین ادب نے اپنی ذمہ داری سے روگردانی نہ کی اور ہر منحول شعر یا عبارت پر تنبیہ ضرور کی ۔ موجودہ زمانے میں مصطفیٰ صادق رافعی نے ’’تاریخ آداب العرب‘‘ میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے۔نقادوں کی ان تنبیہات کو اس بات کی دلیل بھی نہیں بنایا جا سکتا کہ جاہلی ادب میں بڑے پیما نے پر جعل سازی ہوئی اور اسلام سے قبل والا تمام عربی لٹریچر منحول اور وضع کردہ ہے، کیونکہ یہ بات خود ان ناقدین نے بھی نہیں کہی۔ طٰہٰ حسین کا نقطۂ نظر غیر سائنسی بھی ہے۔ ہم نے طب کی تعلیم کے دوران میں بے شمار امراض کے بارے میں پڑھا کہ ان کے اسباب ووجوہات پر پردۂ جہالت پڑا ہوا ہے ۔اس کے باوجود ہم ان بیماریوں کا علاج کرتے رہے ، کچھ اپنی ناکافی معلومات کی مدد سے اورکچھ تجربے اور علامتی علاج کے ذریعے سے (Empirically)، اس لیے کہ پیش آمدہ مسائل کو ٹالا نہیں جا سکتا،ان کا کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔فن حدیث میں بے شمار روایات اور لاتعداد رجال پر تنقیدکی جاتی ہے،اس فن کا کوئی ماہر کسی حدیث کو ضعیف یا اس کے راوی کو مخدوش قرار دیتا ہے جب کہ دوسرا اس تنقید کو بے جا قرار دے کر مذکورہ حدیث یاراوی کو سند قبولیت بخش دیتا ہے ۔ علم و تحقیق کی دنیا میں بھی یہ رد و اخذ چلتا رہتا ہے۔ ایک محقق ایک بات کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ پاےۂ ثبوت کوپہنچی ہوئی ہے جب کہ دوسرا اس ثبوت کو پاے بے تمکین قرار دیتاہے،اس کے با وجود دونوں خلا میں نہیں رہتے، بلکہ ایک درمیانی حقیقت پر قائم رہتے ہیں۔ ادب عربی پر نقد و جرح کا کافی کام ہو چکا ہے ،یہ کام اب بھی جاری رہے تو صحیح یاغلط اور اصل یا نقل کی زیادہ بہتر تمیز کی جا سکتی ہے ۔ افسوس ہے کہ امت مرحومہ کے بعض اہل علم اپنے دینی ولسانی سرمائے کی تنقیح اور حفاظت کرنے کے بجائے اسے دریا برد کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔اﷲ کا شکر ہے کہ مسلمان علما اور مستشرقین کی اکثریت نے طٰہٰ کے نظریات کا رد کیا۔کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر آرتھر جان آربری (Arthur J Arberry) نے طٰہٰ کے پیش رو اور ان کے ہم خیال مارگولیوتھ(Margoliouth) کے نظریات کو غلط ثابت کیا ۔
’’قطعی علمی طریقہ ‘‘ایسی ترکیب ہے جو طٰہٰ حسین نے بہت استعمال کی ہے۔ شاید اس سے ان کی مراد تحقیق کے وہ وسائل ہیں جو مغرب کے اہل تحقیق اپنی ریسرچ کے کام میں لاتے ہیں۔یہ طریقے ان کے ذہن میں خوب پیوست ہیں،ان کی ایک شاگرد سہیر قلماوی نے ماسٹر ڈگری حاصل کی تو انھوں نے ان کو خاص طور پرتلقین کی کہ وہ کسی یورپی ملک جا کر اپنی ڈاکٹریٹ کریں تاکہ وہاں کے وسائل تحقیق سے استفادہ کیا جا سکے۔یقیناً مغربی محققین کسی بات کو ثابت یا رد کرنے کے لیے ہر روڑے اور پتھر کو ہٹاتے ہیں ،وہ اس ضمن میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ مستشرقین نے قبل اسلام کے جاہلی عرب کی زندگی جاننے کے لیے محض عربی ادب میں موجود روایات کا سہارا نہیں لیا، انھوں نے جزیرۂ عرب کے آثار قدیمہ کی کھدائی سے ملنے والے تمام نقوش اور تحریروں کو کھنگالا،پرانے آسمانی صحیفوں، تورات و تالمودکی سطروں کے معنوں اور ما بین السطور مطالب کاکھوج لگایا، قدیم لاطینی ادب کا مطالعہ کیا اور عرب اور عربوں کے بارے میں اس میں موجود اشارات تک سے مدد لی۔پرانے آسمانی مذاہب یہودیت و نصرانیت چھٹی صدی عیسوی سے جزیرۂ عرب میں عمل دخل رکھتے ہیں، ان مذاہب کے ماننے والوں نے اپنی زبانوں کے ادب میں عربوں کا ذکر کیا ہے۔ہیروڈٹس اور بطلیموس (Ptolemmee) وہ قدیم ترین یونانی مصنفین ہیں جن کے ہاں عربوں کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ مستشرقین نے یونانی زبان میں ان دونوں مذاہب کے لٹریچرسے مدد لی۔ان کے علاوہ انھوں نے اصل اسلامی مراجع قرآن وحدیث اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کر کے ظہور اسلام سے پہلے بولی جانے والی عربی زبان اوراسلام کے بعداس میں آنے والی تبدیلیوں کو سمجھا ۔یہ سب باتیں سر آنکھوں پر، لیکن اگروہ پیغمبر اسلام اور اہل اسلام ہی سے تعصب رکھتے ہوں تو بھی ان کی تحقیق کو بے لاگ سمجھنا ضروری ہے ؟وہ خورد بین لگا کر محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات میں محل اعتراض ڈھونڈتے ہیں اور اسے بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے لاتے ہیں، چاہے کوئی غیر متعلق اور جزئی بات ہو، وہ اسے اصل اور بنیادی حقیقت بنا کر پیش کرتے ہیں۔
اہل یورپ کے طریقۂ تحقیق کا مطالعہ کرنے کے بعدذہن میں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔کیا پرانے آثارو نقوش سے پوری حقیقت کا پتا چل جاتا ہے ؟جو باتیں ان کے ذریعے سے ثابت نہیں ہوتیں کیا وہ حقیقت نہیں ہوتیں؟ کیا یونان میں حقائق پرکھنے کا جو طریقہ صحیح ، قطعی اور علمی ہے ، عرب میں بھی وہی قطعی اورعلمی ہے؟ جس قوم میں پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہ ہو ،کیااس کی تاریخ جاننے کے لیے تحریروں کا کھوج لگانا اور اسی کو علمی ، مستند اور یقینی طریقہ کہنے پر اصرار کرنا چاہیے؟کیا زبانی روایت (Narration) شعر وادب منتقل کرنے کا ایک مستند ذریعہ نہیں رہی؟ (طٰہٰ کے بعد آنے والے کئی اسکالرز نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ زبانی روایت امی عرب میں علم نقل کرنے کا اہم اور قابل اعتماد ذریعہ رہی ہے ۔میلوں اور عام اجتماعات میں پیش کیے جانے سے شعر کی سند مضبوط ہو جاتی تھی اور غلطیاں نقل ہونے کا امکان بہت کم رہ جاتا تھا)۔کیا صدر اسلام کے نقادوں کی عربی ادب و لغت کے بارے میں آرابے وقعت ہیں اور ان کی روشنی میں کسی نثر پارے یا شعری قطعے کو صحیح و سقیم قرار نہیں دیا جا سکتا؟
طٰہٰ حسین ابو لعلا معری اور اس کے فلسفۂ حیات سے بہت متاثر تھے،انھوں نے اپنی پہلی پی ایچ ڈی اپنا تحقیقی مقالہ ’’ذکری ابی العلا ء‘‘ہی لکھ کر حاصل کی۔صیغۂ غائب میں بیان کی جانے والی اپنی خود نوشت سوانح ’’ الایام‘‘ میں انھوں نے خود اور معری کے بیچ میں پائی جانے والی کئی مماثلتوں کا ذکر کیا ہے۔معری طٰہٰ حسین کی طرح نابینا تھا،بچپن میں دونوں شرمیلے تھے ،دوسر ے بچوں سے الگ تھلگ رہتے ۔دونوں چھپ چھپ کرکھانا کھاتے تاکہ دوسرا ان پر نہ ہنسے۔ ایک اور بڑی مماثلت جو طٰہٰ نے بیان نہیں کی ،معری تشکیک میں مبتلا تھا اور طٰہٰ حسین کو بھی قرآن و حدیث پر ویسا یقین نہیں رہا تھا۔ معری نے قرآن مجید کی کچھ سورتوں میں غلطیاں نکالیں اور طٰہٰ حسین نے قرآن کی پوری زبان ہی کو محل اعتراض قرار دے دیا ۔ممکن ہے ، قارئین ہماری بات کو مبالغہ قرار دیں، لیکن اس عظیم عرب اسکالر سے منسوب یہ خیالات ہمارے گواہ ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘، یہ محاورہ قرآنی علوم پر صحیح صادق آتا ہے۔ مسلمانوں کو قرآن کا اعجاز ثابت کرنا تھا،انھوں نے جاہلی شاعری وضع کی،غیر حجازی اور دخیل الفاظ گھڑے، گرامر کے قواعد ایجاد کیے اور سب سے بڑھ کر وسیع ذخیرۂ حدیث وجود میں لے آئے۔تعجب ہے کہ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی تصنیف ’’مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش ‘‘میں طٰہٰ حسین کا ذکر خیر کر کے ان سے توقع وابستہ کی کہ وہ بہتر انداز میں اسلام کو جدید دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
طٰہٰ حسین کو یونانی ادب کی ثقاہت پر بڑا اعتبار ہے۔ وہ قدیم یونانی لٹریچر کے بارے میں وہ رائے نہیں رکھتے جو قدیم عربی ادب کے بارے میں ان کے ہاں پائی جاتی ہے۔ان کے نزدیک یونانی ادب زندہ ہے ،قدیم اور جدید ادب میں رشتہ بر قرار ہونے کی وجہ سے قدیم ادب محفوظ رہا، اس لیے یونانی ادب پارے ثقہ ہیں اور ویسے منحول اور جعلی نہیں جس طر ح وہ ما قبل اسلام پائے جانے والے عربی شہ پاروں کو قرار دیتے ہیں، حالاں کہ خود یونانی زبان کے ماہرین ان کی رائے کے برعکس خیال ظاہر کرتے ہیں۔ صرف Iliad اور Odyssey کی مثال کو لیا جائے جو مشہور یونانی شاعرہومر کی تخلیقات ہیں تو بات واضح ہو سکتی ہے ۔یہ دونوں رزمیہ مثنویاں آٹھویں صدی ق م میں تخلیق کی گئیں۔اس قدر پرانے زمانے میں کاغذ قلم موجود نہ تھے، ا س لیے یہ نظمیں زبانی تخلیق کی گئیں۔اس طرح کے ادب پاروں میں خیالات کو پہلے سے مروج سانچوں میں ڈھالا جاتا ہے ،لے اور آہنگ طے شدہ ہوتے ہیں ،اس بات کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے کہ سامعین اسے سن کر محظوظ ہوں۔ایک قادر الکلام شاعر، البتہ اپنی خواہش اور پسند سے نظم کے جاری فارمولوں میں تبدیلی کر لیتا ہے۔ Iliad میں پائی جانے والی یونانی کوئی شخص نہیں بولتا ، اس میں بے شمار علاقائی بولیاں شامل ہیں ۔اس میں ایسی تراکیب پائی جاتی ہیں جو ہومر کے کافی عرصہ بعد یونانی زبان میں استعمال ہوئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تراکیب ان نظموں کے مرتبین نے اصل متن میں داخل کیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دونوں نظمیں الگ الگ اشخاص کی تخلیق ہیں گویا ہومر ایک شخص نہیں، بلکہ ایک سے زیادہ اشخاص ہیں۔ یہ بھی کہا گیاہے کہ (Odyssey) کا اختتامی حصہ منحول ہے۔ اہل یونان کو اپنا ادب پیارا تھا، اس لیے ان اختلافات کو یہ نظریہ اپنا کر دور کر لیا گیاکہ تحریر کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے ان نظموں کو زبانی گایا جاتا تھا، اس لیے نسلوں کے گزرنے کے ساتھ ان کے الفاظ میں فرق آتا گیا۔
کیا وجہ ہے کہ شدید عربی عصبیت رکھنے والے طٰہٰ حسین نے جو عربی کو ایک عالمی زبان سمجھتے ہیں، اپنی اس پیاری زبان کے ذخیرۂ ادب کو بچانے کے لیے یونانیوں جیسا رویہ نہ اپنایا، بلکہ الٹا اسے دریا برد کرنے کا مشورہ دے دیا؟ انھیں اپنے ادب کی قربانی دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اس کی وجہ زبان کا کوئی نقص نہیں،بلکہ ان کی اپنی بے یقینی ہے ،ان کو اپنی زبان میں نازل ہونے والے قرآن پر پورا یقین نہیں تھا، اس لیے قرآن کے زمانۂ نزول کی زبان کو خاص طور پر معرض شک میں ڈالا، اس کے بر عکس مابعد قرآن والی عربی انھیں بہت محبوب ہے اور اسی عربی کا پرچار کرتے ہوئے انھوں نے اپنی عمر گزار دی۔
مطالعۂ مزید: ’الخطابۃ‘ (ابو زہرہ)، ’تاریخ الادب العربی‘ (ابن زیات)، ’الجدید فی الادب العربی‘ (حنا فاخوری)، ’الایام‘ ( طٰہٰ حسین)، ’فی الادب الجاہلی‘ (طٰہٰ حسین)، ’طٰہٰ حسین‘ (احمد علبی)، ’الی طٰہٰ حسین فی عید میلادہ السبعین ‘ (عبدالرحمان بدوی)، معار ف، مارچ ۲۰۰۶ء (دارالمصنفین، اعظم گڑھ)،
Arabic Language (Wikipedia) ،Encyclopedia Britanica On Pre-Islamic Poetry & The Qur’an, Arabic Language (Terri De Young)
( قاسم اقبال، ایس ایم سیف اﷲ)۔اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)۔
_______________