HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۲-۱۴ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ، إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُنَّ وَلَدٌ، فَإِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ، فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ، مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِہَآ أَوْ دَیْْنٍ، وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ، إِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ، فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ، فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ، مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَآ أَوْ دَیْْنٍ، وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلاَلَۃً أَو ِامْرَأَۃٌ، وَّلَہٗٓ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ، فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ، فَإِنْ کَانُوْٓا أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، فَہُمْ شُرَکَآئُ فِیْ الثُّلُثِ، مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوصٰی بِہَآ أَوْ دَیْْنٍ، غَیْْرَ مُضَآرٍّ، وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ {۱۲}
تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ، وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَرَسُولَہٗ، یُدْخِلْہُ جَنٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الأَنْہَارُ، خَالِدِیْنَ فِیْہَا، وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ{۱۳} وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ، وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہُ، یُدْخِلْہُ نَارًا، خَالِدًا فِیْہَا، وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ{۱۴}
اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو ، اُس کا آدھا حصہ تمھیں ملے گا، اگر اُن کے اولاد نہیں ہے۔ اور اگر اولاد ہے تو ترکے کا ایک چوتھائی تمھارا ہے، جب کہ وصیت جو اُنھوں نے کی ہو، وہ پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکے میں سے ایک چوتھائی کی حق دار ہیں، اگر تمھارے اولاد نہیں ہے۔ اور اگر اولاد ہے تو تمھارے ترکے کا آٹھواں حصہ اُن کا ہے، جب کہ وصیت جو تم نے کی ہو، وہ پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔ ۳۰
اور (اِن وارثوں کی عدم موجودگی میں) اگر کسی مرد یا عورت کو اُس سے رشتہ داری کی بنا پر وارث بنا دیا جاتا ہے ۳۱ اور اُس کا ایک بھائی یا بہن ہے تو بھائی اور بہن، ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے (اور باقی اس کو ملے گا جسے وارث بنایا گیا ہے۳۲)جب کہ وصیت جو کی گئی ہو، پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے، بغیر کسی کو نقصان پہنچائے۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ جاننے والا ہے، وہ بڑا نرم خو ہے۔۳۳ ۱۲
یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔ ۱۳-۱۴

۳۰؎  یہ حصے ہر لحاظ سے واضح ہیں اور والدین کے حصوں کی طرح یہ بھی پورے ترکے میں سے دیے جائیں گے۔

۳۱؎  اصل الفاظ ہیں: ’وان کان رجل یورث کلالۃ او امرأۃ ‘۔ ان میں لفظ ’کلالۃ‘ والدین اور اولاد کے سوا باقی سب رشتہ داروں کے لیے آیا ہے۔ اس معنی کے لیے اس کا استعمال عربی زبان میں معروف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ اس شخص کے لیے بھی آتا ہے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو، لیکن آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد نہیں ہیں۔ ’یوصیکم اللّٰہ فی اولادکم‘ سے جو سلسلۂ بیان شروع ہوتا ہے، اس میں اولاد اور والدین کا حصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وصیت پر عمل درآمد کی تاکید ’من بعد وصیۃ یوصی بھا اودین‘ کے الفاظ میں کی ہے۔ زوجین کے حصوں میں اسی مقصد کے لیے ’من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین‘ اور ’من بعد وصیۃ توصون بھا اودین‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو ان سب مقامات پر فعل مبنی للفاعل استعمال ہوا ہے اور ’یوصی‘، ’یوصین‘ اور ’توصون‘ میں ضمیر کا مرجع ہر جملے میں بالصراحت مذکور ہے، لیکن کلالہ کے احکام میں یہی لفظ مبنی للمفعول ہے۔ یہ تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ ’ان کان رجل یورث کلالۃ او امرأۃ‘ میں ’یوصی‘ کا فاعل یعنی مورث مذکور نہیں ہے، اس وجہ سے اس آیت میں ’کلالۃ‘ کو کسی طرح مرنے والے کے لیے اسم صفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ تغیر حجت قطعی ہے کہ قرآن مجید نے یہ لفظ یہاں اس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں کوئی نہ ہو، استعمال نہیں کیا ہے۔ چنانچہ آیت کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے کہ ’یورث‘ باب افعال سے مبنی للمفعول ہے۔ ’کلالۃ‘ اس سے مفعول لہ ہے۔ ’کان‘ ناقصہ ہے اور ’یورث‘ اس کی خبر واقع ہوا ہے۔’رجل او امراۃ‘ ’کان‘ کے لیے اسم ہیں۔ وارث بنانے کا جو اختیار اس آیت میں دیا گیا ہے، وہ ظاہر ہے کہ مرنے والے ہی کو ہو گا اور اس کے معنی اس سیاق میں یہی ہو سکتے ہیں کہ ان وارثوں کی عدم موجودگی میں ترکے کا وارث بنا دیا جاتا ہے جن کے حصے اوپر بیان ہوئے ہیں۔

۳۲؎  یعنی ایک ہی رشتہ کے متعلقین میں سے اگر کسی ایک مرد یا عورت کو وارث بنایا جاتا ہے تو جس کو وارث بنایا جائے گا،اس کا ایک بھائی یا بہن ہو تواس مال کا چھٹا حصہ جس کا اسے وارث بنایا گیا ہے، اس کے بھائی یا بہن کو دیا جائے گا اور اگر اس کے بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ باقی ۶/۵ یا دو تہائی اس مرد یا عورت کو دیا جائے گا جسے وارث بنایا گیا ہے۔قرآن نے اسی بنا پر اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا ہے۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ـــــ ’’زید نے اس رقم کاوارث اپنے بیٹے کو بنایا ہے، لیکن اس کا کوئی بھائی ہو تو ایک تہائی کا حق دار وہ ہو گا‘‘ ـــــ تو اس جملے کا مطلب ہر شخص یہی سمجھے گا کہ بھائی کا حصہ دینے کے بعد باقی روپیہ اس بیٹے کو دیا جائے گا جسے رقم کا وارث بنایا گیا ہے۔

قرآن مجید کی یہ ہدایت بڑی حکمت پر مبنی ہے۔ مرنے والا کلالہ رشتہ داروں میں سے اپنے کسی بھائی، بہن ، ماموں ، پھوپھی یا چچا وغیرہ کو وارث بنا سکتا ہے۔ لیکن، ظاہر ہے کہ جس بھائی یا ماموں کو وارث بنایا جائے گا، مرنے والے کے بھائی اور ماموں اس کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہی معاملہ چچا، پھوپھی اور خالہ وغیرہ کا ہے۔ کوئی شخص اپنے ذاتی رجحان کی بنا پر کسی ایک ماموں یا پھوپھی کو ترجیح دے سکتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ ایک ہی رشتے کے دوسرے متعلقین بالکل محروم کر دیے جائیں۔ چنانچہ اس کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص اگر ، مثال کے طور پر، اپنے چچا زید کو ترکے کا وارث بنا دیتا ہے اور اس کے چچا عثمان اور احمد بھی ہیں تو ترکے کے جس حصے کا وارث زید کو بنایا گیا ہے، اس کا ایک تہائی عثمان اور احمد میں تقسیم کرنے کے بعد باقی ترکہ زید کو دیا جائے گا۔

۳۳؎  آیت کے آخر میں یہ الفاظ اس تنبیہ کے لیے آئے ہیں کہ یہ پروردگار عالم کی وصیت ہے۔ اس کا بندہ جانتے بوجھتے کسی حق دار کو محروم کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اس کے ہر عمل سے با خبر ہے اور اگر بے جانے بوجھے اس سے کوتاہی ہو جاتی ہے تو اس کا خالق بردبار ہے، اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ وہ نرم خو ہے، بندوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس کی ہدایات میں ان کے لیے سہولت ہے، تنگی اورمشقت نہیں ہے۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــــــ

B