(مسلم، رقم ۴۰، ۴۱، ۴۲)
عَبْدُ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ اِنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ ا للّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ.
’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا مسلمان بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا:جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘
جَابِرٌ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ.
’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘
عَنْ أَبِی مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَیُّ الْاِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ.
’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ، کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘
حَدَّثَنِی بُرَیْدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ بِہٰذَا الْاِسْنَادِ. قَالَ سُءِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْمُسْلِمِیْنَ أَفْضَلُ؟ فَذَکَرَ مِثْلَہُ.
’’حضرت برید بن عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی سند سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا مسلمان بہتر ہے؟ اس کے بعد ( حضور کا جواب ) اوپر والی روایت کے مطابق بیان کیا۔‘‘
المسلم: بعض شارحین نے یہ وضاحت کی ہے کہ اس میں لام کمال کے لیے ہے۔ اس کی وضاحت وہ عربوں کے ہاں مستعمل مثال سے کرتے ہیں۔ عرب کہتے ہیں: ’ العالم زید‘ عالم تو زید ہے۔ ’ المال الإبل‘ مال تو اونٹ ہوتے ہیں۔ اردو میں ہم جس بات کو ادا کرنے کے لیے ’’اصل میں‘‘ اور ’’حقیقت کے اعتبار سے‘‘ کی تعبیرات اختیار کرتے ہیں، عرب اس کے لیے لام تعریف لاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں جملے میں یہ معنی خبر کو مبتدا بنانے سے پیدا ہوئے ہیں۔البتہ شارحین نے یہ معنی ٹھیک متعین کیے ہیں۔
أی الإسلام: لفظی مطلب ’کون سا اسلام ‘۔عام طور پر استفہام کا ’أی‘ جمع یا ایسے واحد کی طرف مضاف ہوتا ہے جس کے افراد ایک سے زیادہ ہوں۔یہاں معاملہ مختلف ہے۔ اس کو دو طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ اسلام سے پہلے ایک مضاف کو حذف مانا جائے۔ شارحین نے مثال کے طور پر یہاں ’خصال‘ کے لفظ کو محذوف قرار دیا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے لفظ سے اس کو اختیار کرنے والا مراد لیاجائے۔اس دوسرے معنی کی تائید اسی روایت کے ایک متن سے ہوتی ہے جس میں یہی سوال ’أی المسلمین أفضل‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ یہ دوسری بات زیادہ قوی ہے، اس لیے کہ جواب میں بھی عمل کرنے والا ہی پیش نظر ہے۔
قرآن مجید نے دوسروں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے مطلوب رویے کوکئی پہلووں سے بیان کیا ہے۔ سورۂ بقرہ میں خیرات کو احسان جتانے اور تکلیف دہ باتوں سے آلودہ کرنے سے روکا گیا ہے۔ جگہ جگہ احسان، اداے امانت، اصلاح بین الناس ،انفاق، ایثار، تواضع، حلم، شفقت، عدل، نصیحت اور عفوودرگزرجیسے مثبت رویوں کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح برے نام رکھنے، جھوٹے الزام لگانے، سوے ظن، گالی، مذاق اڑانے، غصہ، غیبت، قتل، برائی کے قصد سے سرگوشی، چوری اور خیانت جیسے گناہوں سے روکا گیا ہے۔ ہم اس سے پہلے ایک روایت میں پڑھ چکے ہیں کہ ایمان جب انسانی شخصیت کاجز بن جاتا ہے تو اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دیتا ہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سچا مسلمان سراپا خیر خواہی بن جاتا ہے۔ وہ انسانوں کے خلاف کسی قسم کی تعدی خواہ وہ زبان سے ہو اور خواہ عمل سے ہو،کرنے سے بچنا چاہتا ہے۔ اوپر ہم نے قرآن مجید کی جن تعلیمات کا ذکر کیا ہے، ان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ایک مسلمان سے کس طرح کے اخلاق مطلوب ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ ان تعلیمات کے لیے سر عنوان کی حیثیت رکھتا ہے۔اس حدیث میں ہاتھ اور زبان کا ذکر ہر طرح کے قول اور ہر نوع کے عمل کے لیے بطور علامت ہوا ہے۔مراد یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان، مال اور آبرو، یہ تینوں چیزیں محترم ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’اس میں مسلمان وہ ہے‘کی تعبیر اختیار کی ہے،ا س سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا ہے کہ اسلام قبول کرلینے کا یہ نتیجہ نکلنا چاہیے کہ آدمی کا قول وفعل دوسروں کے لیے ضرر رساں نہ رہے۔ استاد محترم نے اس حدیث کا درس دیتے ہوئے اس قول کے ایک لازم کو بھی بیان کیا ہے۔ جب کوئی مسلمان یہ دیکھے کہ اس کے اندر یہ کردار پیدا نہیں ہوا تو اسے غور کرنا چاہیے کہ اس کے ایمان میں کیا کمی رہ گئی ہے۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت ایک جملے کی صورت ہی میں نقل کی ہے اور اس کے دو متن دیے ہیں۔ ایک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور خود بیان کی ہے اور دوسرے میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے یہ بات فرمائی ہے۔ اس روایت کے دوسرے متون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مواقع پر فرمائی تھی۔ ہم ان میں سے چند متون یہاں نقل کرتے ہیں۔
ابن حبان کی روایت کے مطابق یہ جملہ حجۃ الوداع کے خطبے کا حصہ ہے:
حدثنی فضالۃ بن عبید قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع: ألا أخبرکم بالمؤمن من أمنہ الناس علی أموالہم وأنفسہم. والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ، والمجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب.(رقم ۴۸۶۲)
’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا:میں تمھیں مومن کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ( مومن وہ ہے) جس سے لوگ اپنے مال اور جان کے حوالے سے محفوظ ہوں۔اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں اور مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کیا اور مہاجر وہ ہے جس نے غلطیاں اور گناہ چھوڑ دیے۔‘‘
بعض روایات میں ایک طویل مکالمہ نقل ہوا ہے جس میں ایک سوال اور جواب یہ بھی تھا۔ اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کچھ نصیحت کے جملے کہے تھے کہ ایک آدمی نے یہ سوال کیا۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے یہ بات کئی مواقع پر بیان کی تھی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مسلمانوں میں کردار کا یہ پہلو کس قدر اہم تھا۔ ہم مسلمانوں کی عمومی زندگی کا مطالعہ کریں تو سب سے زیادہ مسلمانوں میں کردار کے اسی پہلو کی کمی نظر آتی ہے۔
بہرحال مسلم میں روایت کا جس قدر حصہ نقل ہوا ہے، اس کے دونوں جملے متعدد صورتوں میں روایتوں میں نقل ہوئے ہیں۔ مثلاً سوال ہی کو لے لیجیے وہ تین چار صورتوں میں منقول ہے: ’أی المسلمین خیر‘، ’ أی الإسلام أفضل‘ ،’ أی المسلمین أفضلہم اسلاما‘، ’أی المسلمین أفضل‘۔ اسی طرح جواب والا جملہ دو تین طریقوں سے نقل ہوا ہے: ’أسلم المسلمین اسلاما من... ‘ ،’ المسلم من سلم الناس...‘، ’أکمل المؤمنین من... ‘ ، ’أن یسلم المسلمون من لسانک ویدک‘ ۔روایت کے آغاز میں بھی اسی طرح کے لفظی فرق ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو بھی ممکن صورتیں ہیں، سب اختیار کر لی گئی ہیں۔
بخاری، رقم۱۰، ۱۱، ۶۱۱۹۔ مسلم، رقم ۴۰، ۴۱، ۴۲۔ ابوداؤد، رقم۲۴۸۱۔ نسائی، رقم ۴۹۹۵، ۴۹۹۶، ۴۹۹۹۔ ترمذی، رقم۲۵۰۴، ۲۶۲۷۔ احمد، رقم۶۵۱۵، ۶۷۵۳، ۶۷۹۲، ۶۸۰۶، ۶۸۳۵، ۶۸۸۹، ۶۹۱۲، ۶۹۲۵، ۶۹۵۳، ۶۹۵۵، ۶۹۸۲، ۶۹۸۳، ۷۰۱۷، ۷۰۸۶، ۸۴۱۸، ۱۵۶۷۳، ۱۵۶۸۲، ۲۴۰۰۴، ۲۴۰۱۳۔ ابن حبان، رقم۱۸۰، ۱۹۶، ۱۹۷، ۲۳۰، ۳۹۹، ۴۰۰، ۵۱۰، ۴۸۶۲۔ حاکم، رقم ۲۲، ۲۴، ۲۵، ۶۲۰۰، ۶۶۲۸۔ دارمی، رقم۲۷۱۲، ۲۷۱۶۔ بیہقی، رقم ۲۰۵۴۵۔ ابویعلیٰ، رقم ۷۲۸۶۔ سنن کبریٰ، رقم۸۷۰۱، ۱۱۷۲۶، ۱۱۷۲۷، ۱۱۷۳۰۔ ابن ابی شیبہ، رقم۲۶۴۹۶۔
________________