HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘ (۶)

ائمۂ اربعہ اور چہرے کا پردہ

ابن رشد کا ’’بدایۃ المجتہد‘‘ (۱: ۸۳) میں قول ہے کہ ’’اکثر علما کا مسلک ہے کہ عورت کا سارا بدن بجز چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ ’’دونوں پاؤں بھی ستر میں شامل نہیں۔‘‘

ابن ہبیرہ حنبلی اپنی کتاب ’’الافصاح‘‘ (بحوالہ جلباب المراۃ ۷) میں فرماتے ہیں کہ ’’تین ائمہ کا مسلک ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول بھی یہی ہے۔‘‘ المجموع (۳: ۱۶۹) میں ہے کہ ’’جن علما کا یہ مسلک ہے ان میں ابوحنیفہ، مالک اور شافعی شامل ہیں اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔‘‘ امام طحاوی نے ’’شرح المعانی‘‘ (۲: ۲) میں امام ابوحنیفہ کے دوساتھیوں (ابویوسف اور محمد) سے یہی مسلک نقل کیا ہے اور شافعیوں کی اہم کتابوں مثلاً شیخ شربینی کی ’’الاقناع‘‘ (۲: ۱۱۰) میں یہی مسلک قطعی طور پر درست قرار دیا گیا ہے۔علامہ ابن عبدالبر ’’التمہید‘‘ (۶: ۳۹۴) میں بڑی وضاحت سے لکھتے ہیں کہ عورت نماز اور احرام میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی۔ یہ امام مالک، ابوحنیفہ اور شافعی اور ان کے اصحاب کا قول ہے اور یہی قول امام اوزاعی اور ابوثور کا ہے کہ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھے۔ ابن قدامہ حنبلی ’’المغنی‘‘ (۱: ۶۳۹) میں لکھتے ہیں کہ مالک، اوزاعی اور شافعی کا قول ہے کہ آزاد عورت کا سارا بدن سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے قابل پوشیدگی ہے، کیونکہ ’الا ما ظہر منھا‘ میں ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اور کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں نقاب اور دستانے پہننے کو منع فرمایا ہے اگر چہرہ اور ہتھیلیاں ’عورۃ‘ ہوتیں تو ان کے چھپانے کو حرام نہ قرار دیا جاتا اور چونکہ خریدوفروخت کے لیے چہرہ اور لینے دینے کے لیے ہتھیلیوں کو کھلا رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔۱؂ ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۲) میں ہے کہ امام احمد نے حضرت اسماء کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو مناسب نہیں کہ چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظرآئے۔ حیض کی تخصیص اسی بات کی دلیل ہے کہ جو حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہو اس کے لیے ان دو اعضا سے زیادہ کو کھلا رکھنا جائز ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ امام احمد کا چہرے اور ہتھیلیوں کو کھلا رکھنے کا قول زیادہ درست ہے۔

علامہ ابن مفلح حنبلی اپنی کتاب ’’الآداب الشرعیہ‘‘ میں اس سوال کا جواب کہ آیا عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنا چہرہ چھپائے یا مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے، یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔

امام ابن تیمیہ ’’مجموع فتاویٰ‘‘ (۱۰: ۳۷۱) میں ’الا ما ظہر منھا‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ابن عباس کا قول ہے کہ چہرہ اور ہتھیلیاں زینت ظاہرہ میں شامل ہیں اور امام احمد کا دوسرا قول بھی یہی ہے اور علما کی ایک جماعت مثلاً امام شافعی وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔

’’منیۃ المصلی‘‘ کی شرح ’’المجلی لما فی منیۃ المصلی‘‘ (صفحہ ۱۷۵) میں مولانا وصی احمد کہتے ہیں: ’’سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے۔‘‘ یہی قول امام مالک، شافعی کا ہے اور امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے (ذہن میں رہے کہ یہ شارح حنفی ہیں اور امام ابوحنیفہ چہرے اور ہتھیلیوں کے ساتھ پاؤں کو بھی شامل کرتے ہیں) اور مفسرین کا بھی یہی قول ہے کہ ’’اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔‘‘

میں انھی حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔ ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی چہرے اور ہتھیلیوں کو ستر میں شامل نہیں کرتے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جو اعضا عبادتاً کھلے رہیں گے وہی عادتاً بھی کھلے رہیں گے، کیونکہ اس کے چھپانے میں عورت کو تنگی اور تکلف محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ کہ اللہ کے رسول نے احرام والی عورت کو چہرہ چھپانے اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے اگر چہرے کا چھپانا واجب ہوتا تو آپ اس کے چھپانے کو حرام قرار نہ دیتے۔ امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے اور حنبلی فقہا نے اسی پر عمل کیا ہے۔

یہ ہے ائمۂ اربعہ کا مسلک۔ ان میں سے کسی امام نے چہرے کے پردے کو فتنہ کی شرط سے مشروط نہیں کیا اور متقدمین علما نے بھی اس شرط کا قطعی ذکر نہیں کیا۔ متاخرین فقہا نے اپنے ائمہ کی تقلید میں یہ تو تسلیم کیا ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں کو چھپانا واجب نہیں، مگر مقلد ہونے کے باوصف انھوں نے اسے فتنہ سے مشروط کردیا ہے اور فتنہ کا مفہوم یہ نکالا ہے کہ ’’عورتیں مردوں کے لیے باعث فتنہ ہیں۔‘‘ مرد تو گویا آسمان سے نازل شدہ پاکیزہ مخلوق ہیں۔ صاحب مضمون نے ان متاخرین کے اقوال کو غلط طور پر ائمہ سے منسوب کرکے بے بنیاد دعویٰ جڑ دیا ہے کہ متقدمین احناف کے نزدیک حالت فتنہ میں چہرے کا پردہ واجب ہے۔ میں نے کتابوں کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ یہ دعویٰ غلط ہے۔

شہوت کی نظر اور فتنے کا ڈر

سب سے پہلے یہ بات طے ہونی چاہیے کہ فتنہ ہے کیا؟ اس کا ماخذ مرد ہے یا عورت؟ قرآن حکیم نے اس فتنے کو روکنے کے لیے کیا حکم صادر فرمایا ہے؟

اس بات پر اجماع ہے کہ اجنبی مرد شہوت اور لذت کے بغیر عورت کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ فقہ کی امہات الکتب میں نگاہ کے جواز کی بحث کے ضمن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔ اصل فتنہ یہ ہے کہ عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھا جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کو روکنے کے لیے مردوں اور عورتوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ عورتوں کو مردوں کے سامنے چہرہ چھپانے کا۔ چنانچہ سدذریعہ نگاہیں نیچی کرنا ہے نہ کہ چہرہ چھپانا۔ پھر غض بصر کا حکم جیسے مردوں کو دیا گیا ہے بالکل اسی طرح، بلکہ ان سے پہلے عورتوں کو دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ جس طرح عورتوں کا چہرہ مردوں کے لیے فتنہ کا سبب ہے بالکل اسی طرح مردوں کا چہرہ عورتوں کے لیے فتنہ کا سبب ہے۔ کیا مرد بھی سدذریعہ کے لیے اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیں؟ اس سے ثابت ہوا کہ واجب چہرے کا چھپانا نہیں، بلکہ نگاہیں نیچی کرنا ہے۔

ہر مذہب کے فقہا نے اس رائے کی تائید کی ہے کہ فتنہ کا باعث شہوت کی نظر ہے؟ اور اس نگاہ کو نیچا کرنا واجب ہے نہ کہ چہرے کو چھپانا۔ علاء الدین الحصکفی کی فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الدرالمختار‘‘ (صفحہ۶۶) میں ہے: ’’عورت کے چہرے کو شہوت کی نظر سے دیکھنا ناجائز ہے جس طرح چٹ صفا (امرد) نابالغ لونڈے کے چہرے کو دیکھنا ناجائز ہے۔ مگر شہوت کے بغیر اسے دیکھنا جائز ہے، خواہ خوب صورت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ’’ردالمختار‘‘ (۱: ۳۹۹) میں لکھا ہے کہ ’’اگر چٹ صفا نابالغ لڑکا خوب صورت ہوتو اس کا وہی حکم ہے جو خوب صورت عورت کا حکم ہے۔ شہوت کی نگاہ اس پر ڈالنا ناجائز ہے، مگر بغیر شہوت کے اسے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس لیے اسے نقاب پہننے کا حکم نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس حکم میں وہ لونڈا بھی شامل ہے جس کے منہ پر ابھی تازہ تازہ سبزہ اگا ہو، کیونکہ بعض بدمعاش ایسے لونڈے کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ عورت کے چہرے کو نابالغ لونڈے کے چہرے کے ساتھ تشبیہ دینے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ لونڈے کے چہرے پر شہوت کی نظر ڈالنا زیادہ گناہ کا باعث ہے، کیونکہ اس سے فتنہ کا احتمال زیادہ ہے۔‘‘ جب امرد اور عورت کے چہرے کا ایک حکم ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ عورت کو چہرہ چھپانے کا حکم دیا جائے اور نابالغ لونڈے پر اس حکم کا اطلاق نہ ہو۔ فتنہ کا سبب چہرہ نہیں، بلکہ مرد کی لذت بھری نگاہ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مرد کی شرارت کی سزا عورت کو دی جائے۔ علامہ البانی نے معروف حنبلی عالم ابن مفلح کی کتاب ’’الآداب الشرعیہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے جلباب المراۃ (صفحہ۸) میں لکھا ہے کہ ابن مفلح نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر اجنبی عورتیں راستہ چلتے ہوئے اپنا چہرہ کھلا رکھیں تو ان کو منع کرنے کا کوئی جواز ہے؟ اس کے جواب کا دارومدار اس سوال پر ہے کہ کیا عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے یا یہ واجب ہے کہ اسے دیکھ کر نگاہیں نیچی کر لی جائیں؟ اس مسئلہ کے بارے میں دو اقوال ہیں:

قاضی عیاض حضرت جریر سے مروی حدیث کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی نگاہ پھیر لوں (مسلم کو) بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ علما کا قول ہے۔ یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ راہ چلتی عورت پر چہرہ چھپانا واجب نہیں، یہ اس کے لیے محض مستحب ہے (مگر) مرد پر واجب ہے کہ وہ ہر حال میں اسے دیکھ کر نگاہیں نیچی کرلے۔ ہاں شرعی غرض سے اسے دیکھ سکتا ہے۔ شیخ محی الدین النووی نے اس روایت کا ذکر کر کے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔

پھر مفلح نے امام ابن تیمیہ کے قول کا ذکر کیا ہے جو جمہور علما، قاضی عیاض اور نووی کی موافقت کے خلاف ہے۔ اس کے بعد مفلح نے کہا ہے: ’’بنا بریں اختلافی مسائل میں انکار کا کوئی جواز نہیں۔ جہاں تک ہمارے (ابن مفلح) قول اور شوافع وغیرہ کی ایک جماعت کے قول کا تعلق ہے تو اجنبی عورت کو بغیر شہوت اور خلوت کے دیکھنا جائز ہے، اس کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ یہ ابن مفلح کا قول ہے جس کے بارے میں ابن قیم جوزی کہتے ہیں: ’’فلک کے نیچے امام احمد کے مذہب کو ابن مفلح سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہیں۔‘‘

حافظ ابوالحسن ابن القطان الفاسی نے نظر کے مسئلہ کو اپنی کتاب ’’النظر فی احکام النظر‘‘ میں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے کہ مرد کے لیے نگاہیں نیچی کرنا واجب ہے نہ کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ چھپانا۔ امام ابن تیمیہ نے ’’مجموع فتاویٰ‘‘ (۱۵: ۴۱۴۔۴۲۷) میں غض بصر کے مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی ہے ۔ اس ساری بحث کا خلاصہ انھوں نے ایک جملے (۱۵:۴۱۹) میں یہ کہہ کر پیش کیا ہے: ’’جو نظر فتنے کا باعث ہو وہ حرام ہے۔ ہاں کسی قابل ترجیح ضرورت کے تحت مثلاًشادی یا علاج کی غرض سے جائز ہے، مگر اس میں بھی شہوت کا شائبہ نہ ہو۔‘‘ فتاویٰ کے صفحہ (۱۵: ۴۲۰) پر انھوں نے مسند کی روایت پیش کی ہے کہ ’’نظر شیطان کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا ایک تیر ہے۔‘‘ اور مسند کی روایت ہے: ’’جوآدمی عورت کے حسن وجمال کو دیکھ کر نگاہیں نیچی کر لیتا ہے۔ اللہ اس کے دل میں عبادت کی لذت ڈال دیتا ہے جو اسے تاقیام قیامت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ اسی لیے کہا یہ گیا ہے کہ عورت اور خوب صورت چٹ صفا نابالغ لڑکے کو دیکھ کر نگاہیں نیچی کرنے سے تین بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔‘‘ فوائد کی تفصیل طوالت کا باعث ہے، اس لیے میں اسے قلم زد کرتا ہوں۔ انھوں نے امرد پرست صوفیا کی جو لونڈے کے چہرے میں جمال حقیقی ڈھونڈتے ہیں، خوب خبر لی ہے۔ بہرکیف امام صاحب کی تصریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فتنے کو روکنے کا ذریعہ غض بصر ہے۔

۱۔فتنے کا ماخذ مرد کی شہوت بھری نظر ہے جسے روکنے کے لیے قرآن حکیم نے غض بصر کا حکم دیا ہے ۔ چنانچہ ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ (۱: ۱۹۲) کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’عورت اگر کسی اجنبی مرد کے یا غیرمسلم عورت کے سامنے ہو تو سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے اس کا سارا بدن ستر ہے۔ اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو ان دونوں کو دیکھنا جائز ہے۔‘‘ گویا کہ نظر فتنہ کا باعث ہے۔

۲۔ یہ شرط کہ اگر فتنہ کا ڈر نہ ہو تو عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کو دیکھنا جائز ہے، یہ شرط جس طرح مرد پر عائد ہوتی ہے بالکل اسی طرح خواتین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ مر د بھی سدذریعہ کے لیے چہرہ چھپالیں؟ سدذریعہ کے لیے قرآن نے جو حکم عورتوں کو دیا ہے وہی حکم مردوں کو دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی کرلیں نہ کہ چہرہ چھپالیں۔ غض بصر ہی وہ ذریعہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ کو روکنے کے لیے مقرر کیا ہے۔

۳۔ سوال یہ ہے کہ یہ فتنہ کوئی دائمی صورت ہے یا عارضی؟ اگر عارضی ہے تو یہ کب شروع ہوا اور کب ختم ہوگا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا دور گزرا ہے جو اس جنسی فتنے اور اخلاقی گراوٹ سے پاک ہو؟ عہدرسالت اور خلافت راشدہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا یہ دور فتنے سے پاک نہیں تھا؟ اگر یہ پاک تھا تو پھر اصل حکم لاگو تھا کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں کیونکہ ’اذا فات الشرط فات المشروط‘ اور یہی ہمارا موقف ہے کہ اس عہد باسعادت میں چہرے کا چھپانا واجب نہ تھا۔

اگر فتنہ ایک عارضی ضرورت ہے تو پھر اصل حکم ہی چلے گا۔ کیونکہ عارضی حالات سدذریعہ نہیں بن سکتے۔ صاحب مضمون اپنے موقف پر جو دائمی ہے اور فتنہ کی شرط جو عارضی ہے، ازسرنو غور فرمائیں۔ متاخرین فقہا کی یہ شرط بھی ان کے موقف کو صحیح تسلیم کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتی۔

۴۔ فتنے کی یہ شرط باطل ہے، کیونکہ یہ صفات الہٰیہ میں سے اللہ کی صفت علم کا ایک طرح کا استدراک ہے۔ اللہ کا علم ماضی اور مستقبل پر محیط ہے۔ عورت کا فتنہ تو ابتدائے افرینش سے موجود ہے یہ کوئی نئی چیز نہیں کہ اس کے لیے کسی خاص حکم کی ضرورت پڑتی۔جیسا کہ فضل بن عباس اور خثعمیہ کے قصے سے ظاہر ہے کہ یہ فتنہ عہدنبوت میں بھی موجود تھا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف فضل کی نظر موڑی خثعمیہ کو منہ چھپانے کا حکم نہ دیا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب اللہ نے عورتوں اور مردوں کو غض بصر کا حکم دیا تو پیش نظر اسی فتنہ کو روکنا تھا۔ اللہ نے عورتوں کو چہرے اور ہتھیلیاں چھپانے کا حکم نہیں دیا۔

سورۂ حجرات کی پہلی آیت میں حکم ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو۔ مطلب یہ ہے کہ دین کو اس حد تک نہ پہنچاؤ جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم نہ دیا ہو۔ اس مبالغہ آمیزی سے بچنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا ہے: دین میں مبالغہ سے بچو، تم سے پہلے لوگ محض اس لیے ہلاک ہوئے کہ انھوں نے دین میں مبالغہ کیا۔

۵۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں، مگر زمانے کے بگاڑ اور سدذریعہ کے پیش نظر اس مسلک کی اشاعت ٹھیک نہیں، ان سے گزارش ہے کہ جو شرعی حکم کتاب وسنت سے ثابت ہو اسے فتنے کی علت کی بنا پر چھپانا کتمان حق ہے اور انسانیت کے حق میں بہت بڑا ظلم۔ اللہ تعالیٰ سورۂ بقرہ (۲: ۱۰۹) میں فرماتا ہے:’’جو لوگ ان باتوں کو چھپاتے ہیں جو سچائی کی روشنیوں اور رہنمایوں میں سے ہم نے نازل کی ہیں۔ اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کھول کر کتاب میں بیان کردیا ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔‘‘

۶۔ اللہ کی فطرت کے مطابق بناوٹی زیبایش کے بغیر محض چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنا کوئی فتنہ نہیں۔ فتنہ کا سب سے بڑا سبب مقامی عادات اور تقالید کی وجہ سے نکاح میں دشواریاں پیدا کرنا اور زنا کو آسان کرنا ہے۔ نکاح میں آسانیاں پیدا کرو، اسراف کو چھوڑ دو، حق مہر کی رقم کو حسب استطاعت مقرر کرو، بچوں اور بچیوں کی صحیح تربیت کرو فتنہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔ گزبھر کا کپڑا منہ پر ڈالنے سے نہ فتنہ ختم ہوا ہے نہ ہوگا۔

مالکی مسلک پر گفتگو سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں جو صاحب مضمون نے دیدہ ودانستہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام ابوبکر الجصاص کا نہایت ہی واضح موقف ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔ چنانچہ وہ احکام القرآن (۳: ۳۷۲) میں ’الا ما ظہر منھا‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ اس بات پر دلیل ہے کہ چہرہ بھی ستر میں شامل نہیں۔ وہ کھلے چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ نماز پڑھتی ہے، اگر یہ ستر میں شامل ہوتے تو ان کا چھپانا ان پر واجب ہوتا۔ اگر بات یہ ہے تو اجنبی کے لیے بغیر شہوت کے عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنے جائز ہیں۔‘‘ امام صاحب نے کہیں فتنہ کا ذکر نہیں کیا۔ صاحب مضمون نے غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے ان کی سورۂ احزاب کی تفسیر کو فتنہ کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔ حالاں کہ میں واضح کرچکا ہوں کہ سورۂ احزاب کا حکم صرف مزاحمت اور ایذارسانی کی صورت میں ہے۔ اس میں نہ پردے کا دائمی حکم ہے اور نہ اس کی مقدار کا تعین ہے۔ یہ حکم سورۂ نور کی آیات میں ہے۔ چنانچہ امام جصاص نے جن الفاظ کا اس عبارت کے ساتھ ذکر کیا ہے، اسے صاحب مضمون نے جان بوجھ کر حذف کردیا ہے۔ وہ الفاظ یہ ہیں: ’’حسن سے روایت ہے کہ مدینہ کی لونڈیاں تھیں جن کو یہ یہ کہا جاتا تھا۔ وہ باہر نکلتیں تو بدمعاش ان کے منہ لگتے اور ان کو ایذا پہنچاتے۔ جب آزاد عورت باہر نکلتی تو وہ اسے بھی لونڈی سمجھ کر درپے آزار ہوتے۔ پس اللہ نے ان کو جلباب نیچے کرنے کا حکم دیا تاکہ پتا چلے کہ وہ آزاد ہیں اور ان کو ایذا نہ پہنچائی جائے۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اللہ نے آزاد عورت کو حکم دیا ہے کہ جب وہ نکلے تو لونڈیوں کے برعکس اپنا سر اور پیشانی ڈھانپ لے۔‘‘ امام صاحب نے حسن کا قول بھی نقل کر دیا ہے اور ابن عباس کا بھی جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ خاص حالات میں ایک خاص حکم ہے۔ اسے ہر زمانے میں، ہر حالت میں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ امام ابوبکر جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘ (۳: ۲۱۶) میں ابن مسعود کے قول کہ ’الا ما ظہر منہا‘ سے مراد ظاہری لباس ہے، کو بے معنی قرار دیا ہے۔ اس کا حوالہ میں اصل مضمون میں دے چکا ہوں۔

امام مالک کا مسلک

میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ امام مالک کا مسلک بھی یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔ ان کے قول کے ساتھ فتنہ کا کہیں ذکر نہیں۔ فقہ مالکی کی چار بنیادی کتابیں ہیں: ’’المدونۃ لسحنون‘‘، ’’الواضحۃ لابن حبیب‘‘، ’’العتبیۃ للعتبی‘‘، (عتبی ابن حبیب کا شاگرد تھا) اور ’’الموازیۃ لابن مواز‘‘۔ یہ کتابیں غالباً صاحب مضمون نے دیکھی نہ ہوں گی۔ ان میں سے کسی کتاب میں فتنے اور ستر کی وجہ سے چہرے کے پردے کے وجوب کی بات نہیں ملتی۔

صاحب مضمون نے موطا میں مروی حدیث پر امام زرقانی کی عبارت نقل کرنے میں پوری دیانت داری کا ثبوت نہیں دیا۔ یہ حدیث ’سدل‘ کی بحث میں ہے نہ کہ چہرہ ڈھانپنے کی بحث میں۔ امام زرقانی فرماتے ہیں: ’’ابن منذر کا قول ہے کہ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت سلا ہوا کپڑا اور موزے پہنے اور اپنا سر اور بال ڈھانپ لے بجز چہرے کے۔ اس پر معمولی سا ’سدل‘ (سر کے اوپر سے کپڑا لٹکا لے جو چہرے کو نہ چھوئے) کرے جس سے وہ مردوں کی نگاہوں سے بچی رہے۔ اسے ڈھانپے نہیں۔ ہاں فاطمہ بنت منذر کی ایک روایت ہے۔ احتمال ہے کہ اس ’تخمیر‘ (ڈھانپنے) سے مراد ’سدل‘ ہے جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت میں ہے۔ ’سدل‘ کی اجازت بھی بوقت ضرورت ہے جب مرد بہت قریب ہو اور لذت کی نظر سے دیکھنے لگے۔‘‘ یہ ہے امام زرقانی کی عبارت۔ ’سدل‘ والی روایت کو فتنہ کے ڈر سے چہرے کے پردے کے وجوب کے لیے پیش کرنا مضمون نگار کا کمال ہے۔

صاحب مضمون کو اتنا بھی پتا نہیں کہ شیخ احمدالدردیر کی کتاب کا نام ’اقرب المسالک الی مذہب الامام المالک‘ ہے اور اس کی ’’الشرح الصغیر‘‘ صاوی کی ہے۔ لگتا ہے کہ انھوں نے کسی اور کتاب سے حوالہ نقل کیا ہے۔ ’’الشرح الصغیر‘‘ (۱: ۱۰۵) میں ہے: آزاد عورت کا سارا بدن بجز چہرے اور ہاتھوں کے ستر ہے۔ بس ان دونوں کو بغیر لذت اور وجدان کے دیکھنا جائز ہے وگرنہ ان کو دیکھنا حرام ہے۔ ہاتھوں کے ظاہروباطن میں کوئی فرق نہیں۔ کیا عورت پر اس فتنۂ لذت نظر کی صورت میں چہرے اور ہاتھوں کو ڈھانپنا واجب ہے؟ یہ رائے ابن مرزوق کی ہے جس کا قول ہے کہ امام مالک کا مشہور مذہب یہی ہے یا عورت کے لیے ان دونوں کا چھپانا واجب نہیں، بلکہ مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ’’الموافق‘‘ نے قاضی عیاض کا جو قول نقل کیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے۔ تیسری رائے کو زروق نے ’’شرح الوعلیشیہ‘‘ میں نقل کیا ہے کہ چہرے کو چھپانا صرف خوب صورت عورت پر واجب ہے، جبکہ دوسری کے لیے مستحب ہے۔ اس میں صاف طور پر تین نقطہ ہاے نظر کا ذکر ہے، مگر صاحب مضمون نے اس سے یہ کیسے اخذ کر لیا کہ فقہ مالکی میں چہرے کے پردے کا وجوب فتنہ کے سبب سے ہے اور قاضی عیاض اور زروق کے نقطۂ نظر کو نظر انداز کردیا۔

صاحب مضمون نے امام قرطبی اور ابن العربی کے حوالوں میں اسی حیلہ گری سے کام لیا ہے جو انھوں نے ابوبکر الجصاص کے حوالہ میں استعمال کی تھی۔ یہ دونوں حوالے سورۂ احزاب کی آیت کے سلسلہ میں ہیں جو ایک خاص حکم ہے۔ کاش وہ سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۰ کے بارے میں ان کا حوالہ دیکھ لیتے۔ امام قرطبی اپنی تفسیر (۱۲: ۲۲۶) میں سورۂ نور کی آیت کے تحت ابن عطیہ کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ابن عطیہ کا قول خوب ہے، مگر عادتاً اور عبادتاً اکثروبیش تر چہرہ اور ہاتھ کھلے رہتے ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ استثنا ان دونوں کے بارے میں ہو پھر انھوں نے دلیل کے طور پر ابوداؤد میں حضرت عائشہ سے مروی (مرسل) روایت کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے کہ احتیاطاً لوگوں کے بگاڑ کے پیش نظر یہی بات قوی ہے۔ پس عورت اپنی زینت میں سے وہی ظاہر کرے جو اس کے چہرے اور ہاتھوں پر ظاہر ہوتی ہے۔ یہ ہے امام قرطبی کا مسلک نہ کہ وہ جو مزاحمت اور ایذارسانی کی صورت میں ہے۔ ابن العربی ’’احکام القرآن‘‘ (۳: ۱۳۶۹) میں فرماتے ہیں کہ ’’درست بات یہ ہے کہ ہر لحاظ سے اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں، کیونکہ یہی عادتاً اور عبادتاً کھلے رہتے ہیں۔ حالت احرام میں بھی اور نماز میں بھی یہی استثنا کا سبب ہے۔‘‘ یہ دونوں مالکی ائمہ امام مالک کی نمایندگی کرتے ہیں۔

مشہور مالکی اسکالر ابن رشد (المتوفی۵۲۰ھ) اپنی کتاب ’’مقدمات ابن رشد لبیان ما اقتضتہ المدونۃ من الاحکام‘‘ (۱: ۱۰۹) میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ فصل اس بارے میں ہے کہ نماز میں عورت پر کتنا ستر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’الا ما ظہر منھا‘ جب آزاد عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر محرم کے سامنے صرف اس زینت کو ظاہر کرے جو خودبخود نظر آ جائے اور اہل علم کے قول کے مطابق اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ یہی بات اس پر نماز میں واجب کی گئی ہے۔ اسے اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔‘‘

انھی کے پوتے ابن رشد (المتوفی ۵۹۵ھ) ’’بدایۃ المجتہد‘‘ (۱: ۸۳) میں فرماتے ہیں کہ اکثر علما کا یہی مذہب ہے کہ ’’چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا عورت کا سارا بدن ستر میں شامل ہے۔ امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے کہ قدم بھی ستر میں شامل نہیں۔‘‘

مشہور مالکی عالم شہاب الدین احمد بن ادریس القرانی (۶۸۴ء) اپنی مشہور کتاب ’’الذخیرہ‘‘ (۲: ۱۰۵) میں لکھتے ہیں: ’’عورتوں کا سارا جسم سوائے چہرے اور ہاتھوں کے ستر ہے... ابن حنبل نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو ڈھانپنا واجب قرار دیا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک یہ نہ احرام میں ستر ہے اور نہ نماز میں۔‘‘ اسی کتاب کے صفحہ ۲/ ۱۰۴ پر ’الا ما ظہر منہا‘ کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ آزاد عورت کا چہرہ اور ہاتھ مستثنیٰ رکھے جائیں، کیونکہ ضروری کاموں کے وقت یہی کھلے رہتے ہیں۔

امام حافظ ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر النمری القرطبی (۴۶۳ھ) فقہ مالکی کے امام ہیں اور ان کی کتاب ’’التمہید‘‘ فقہ مالکی کا شاہ کار ہے۔ اس کتاب (۶: ۳۶۴) میں وہ لکھتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ عورت اپنا چہرہ نماز اور احرام میں کھلا رکھے گی۔ امام مالک، ابوحنیفہ، شافعی اور ان کے اصحاب، امام اوزاعی اور ابوثور کا قول ہے کہ عورت پر واجب ہے کہ وہ چہرے اور ہاتھوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو ڈھانپ لے۔ میرے خیال میں امام مالک کا مسلک بیان کرنے کے لیے علامہ ابن عبدالبر سے بڑھ کر اور کس کا قول وزنی ہوسکتا ہے؟

ان کا قول امام مالک کے بارے میں ابن تیمیہ کے قول سے زیادہ وزنی ہے۔ یہی امام ’’التمہید‘‘ (۱۰: ۱۰۷۔ ۱۰۹) میں حضرت عائشہ کی روایت کہ اگر عورت چاہے تو حالت احرام میں ’سدل‘ کر سکتی ہے، بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی ایک اور روایت یہ ہے کہ وہ ’سدل‘ نہ کرے اور اس پر لوگوں کا عمل ہے۔

مقام حیرت ہے کہ امام مالک کا مسلک بیان کرتے وقت نہ ان کی نظر ’’التمہید‘‘ پر پڑی، نہ ’’مقدمات ابن رشد‘‘ پر، نہ قرافی کی ’’الذخیرہ‘‘ پر اور نہ ابن رشد کی ’’بدایۃ المجتہد‘‘ پر، نظر پڑی تو متاخرین کی شروح پر اور ان کا حوالہ دیتے وقت بھی انھوں نے انصاف سے کام نہیں لیا۔

خلاصۂ بحث

۱۔امام ابوحنیفہ اور امام مالک عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو ستر میں شامل نہیں کرتے۔ قدم بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک ستر میں شامل نہیں، کیونکہ اللہ کا قول ہے ’الا ما ظہر منھا‘ جس سے مراد ابن عباس کے قول کے مطابق چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے، اگر یہ ’عورۃ‘ ہوتے تو ان کا چھپانا حرام نہ قرار دیاجاتا اور کیونکہ خریدوفروخت اور لین دین کے لیے عورت کو چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

۲۔دونوں ائمہ کے اقوال میں فتنے کا دور دور تک کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی متقدمین کی کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

۳۔ متاخرین نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اصل حکم یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔ دونوں ائمہ کی تقلید کا دم بھرنے کے باوجود انھوں نے انفرادی اجتہاد سے یہ شرط عائد کی ہے۔

۴۔ فتنہ ایک عارضی بات ہے، اس کا اصل حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

۵۔ فتنہ یہ ہے کہ مرد عورت پر لذت بھری نگاہ ڈالے جو حرام ہے۔ اسی لیے قرآن نے سدذریعہ کے لیے عورتوں اور مردوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے۔ شہوت کی نگاہ عورت پر ڈالنا بھی حرام ہے اور نابالغ لونڈے (امرد) پر بھی۔ اسی لیے نگاہ کو نیچی کرنا واجب قرار دیا گیا ہے، مگر عورت اور نابالغ لونڈے کے لیے چہرہ چھپانا واجب نہیں۔

۶۔ صاحب مضمون نے دونوں مذاہب کے متقدمین کی امہات الکتب کو نظرانداز کیا ہے او رکسی امام کے قول کا حوالہ نہیں دیا۔ جبکہ میرے مضمون میں سب حوالے موجود ہیں۔

حکمت قرآن کے جون ۲۰۰۶ کے شمارے میں حافظ محمد زبیر صاحب نے حنابلہ اور چہرے کے پردہ کے عنوان سے اپنے مضمون کی ساتویں اور آخری قسط پر خامہ فرسائی کی ہے۔ اس کا جواب پیش خدمت ہے۔

صاحب مضمون نے چھوٹتے ہی غلط بات کہی ہے کہ متقدمین اور متاخرین حنابلہ کے نزدیک عورت کا چہرہ ستر میں شامل ہے۔ حوالہ جات میں انھوں نے امام احمد بن حنبل کے دونوں اقوال اور متقدمین کی رائے سے پہلوتہی کرتے ہوئے صرف متاخرین کی شروح اور شروح پر حاشیوں کے حوالوں پر اکتفا کیا ہے۔

ہرمکتب فکر کی فقہ کی اہم کتابوں میں ’’ستر العورۃ‘‘کے باب میں لکھا ہوا ہے کہ امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں داخل نہیں۔ کیونکہ سورۂ نور کی آیت ’الا ما ظہر منہا‘ سے مراد ابن عباس، حضرت عائشہ اور ابن عمر کے نزدیک چہرہ اورہتھیلیاں ہیں اور چونکہ خریدوفروخت کے وقت چہرے کو اور لین دین کے وقت ہاتھوں کو کھلا رکھنا پڑتا ہے اور چونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام والی عورت کو نقاب اوڑھنے اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے اگر چہرہ ستر میں شامل ہوتا تو ان اعضا کے چھپانے کو حرام قرار نہ دیا جاتا۔

امام احمد بن حنبل کے اس بارے میں دوقول ہیں۔ ایک تو وہی جو ائمۂ ثلاثہ کا مسلک ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا چھپانا واجب نہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ چہرہ اور ہاتھ بھی ستر میں شامل ہیں اور ان کا چھپانا واجب ہے۔

یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ حنبلی الشیبانی (۵۶۰ھ) اور ابن قدامہ حنبلی (۶۲۰ھ) فقہ حنبلی کے ستون ہیں اور ان کی رائے فقہ حنبلی میں قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔ ان دونوں حضرات نے امام صاحب کے پہلے قول کی تائید کی ہے اور اسے درست قول قرار دیا ہے۔

ابن ہبیرہ حنبلی اپنی کتاب ’’اختلاف أئمۃ العلماء‘‘ (ص۱۰۲) میں لکھتے ہیں: ’’آزاد عورت کے ستر سے متعلق علما میں اختلاف ہے۔ ابوحنیفہ کا قول ہے کہ عورت کا سارا بدن بجز چہرے، ہاتھوں اور پاؤں کے ستر میں شامل ہے۔ ان سے ایک روایت یہ ہے کہ عورت کے پاؤں ستر میں شامل نہیں۔ مالک اور شافعی کا قول ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا اس کا سارا بدن ستر ہے۔ امام احمد سے ایک روایت یہ ہے کہ بجز چہرے اور ہاتھوں کے سارا بدن ستر میں شامل ہے، یعنی جیسا کہ مالک اور شافعی کا مذہب ہے اور خرقی نے اسی روایت کو اختیار کیا ہے۔‘‘ (خرقی کا نام ابوالقاسم عمر بن حسین بن عبداللہ بن احمد الخرقی (۳۳۴ھ) ہے۔ ابن قدامہ نے ان کی مختصر کو اپنی کتاب المغنی کی بنیاد قرار دیا ہے)۔ ابن ہبیرہ نے اپنی کتاب ’’الافصاح‘‘ میں بھی یہی بات کہی ہے۔

ابن قدامہ حنبلی ’’المغنی‘‘ (۱: ۶۳۹) میں لکھتے ہیں کہ ’’مالک، اوزاعی اور شافعی کا قول ہے کہ آزاد عورت کا سارا بدن سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر میں شامل ہے، کیونکہ اللہ کے قول ’الا ما ظہر منھا‘ کے بارے میں ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو حالت احرام میں نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ اگر چہرہ اور ہتھیلیاں ’عورۃ‘ (ستر) ہوتیں تو ان کے چھپانے کو حرام قرار نہ دیا جاتا اور چونکہ خریدوفروخت کے لیے چہرہ اور لینے دینے کے لیے ہاتھوں کو کھلا رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘ ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۲) میں ہے کہ ’’امام احمد نے حضرت اسماء کی اس حدیث سے استشہاد کیاہے کہ جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر آئے... اس سے پتا چلتا ہے کہ امام احمد کا چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے والا قول زیادہ درست ہے۔‘‘

حیرت ہے صاحب مضمون نے موضوع زیربحث پر اس واضح حوالہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’المغنی‘‘ کا صرف ایک بار ذکر کیا ہے۔ وہ بھی ’سدل‘ کے حوالہ سے ،جس کا موضوع سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ (’سدل‘ پر بحث میں چوتھی قسط کے جواب میں کر چکا ہوں) یہ ذکر بھی حنابلہ کے موقف کے تحت نہیں ہے، بلکہ مضمون کے آخر میں ’’چہرے کے پردے پر تمام مسلمان علما کا اتفاق‘‘ کے عنوان کے تحت ہے۔ ’سدل‘ کے بارے میں بھی ابن قدامہ کا وہی مسلک ہے جو دوسرے علما کا ہے کہ صرف بوقت ضرورت اگر مرد عورتوں کے قریب تر ہوں تو وہ ’سدل‘ (چہرہ چھپانا نہیں) کر سکتی ہیں یعنی اس کی اجازت ہے یہ واجب نہیں۔

علامہ ابن مفلح حنبلی نے اپنی کتاب ’’الآداب الشرعیہ‘‘ (۱:۲۷۵۔۲۷۶) میں ایک سوال اٹھایا ہے کہ اگر اجنبی عورتیں راستوں میں اپنے چہرے کو کھلا رکھیں تو کیا ان کے اس فعل سے انکار کا کوئی جواز ہے؟ پھر وہ خود ہی کہتے ہیں کہ اس سوال کے جواب کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آیا ان کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے یا (انھیں دیکھ کر) نظریں نیچی کرلینا واجب ہے؟ اس مسئلہ کے بارے میں دواقوال ہیں۔ مسلم میں حضرت جریر سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظر کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے مجھے نگاہیں پھیرنے کا حکم دیا۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ علما کا قول ہے کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ راستوں میں عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے، مگر مرد پر ہر حالت میں نگاہیں نیچی کرنا واجب ہے، اسی بات کو شیخ محی الدین نووی نے بھی بیان کیا ہے اور اس میں اور کسی بات کا اضافہ نہیں کیا۔ پھر ابن مفلح نے ابن تیمیہ کے قول کا بھی ذکر کیا ہے اور پوچھا ہے، کیا اس اختلاف کی بنا پر انکار جائز ہے؟ پھر خود ہی جواب دیا ہے کہ ہمارے (حنبلیوں) قول کے مطابق اور شافعیوں وغیرھم کی ایک جماعت کے قول کے مطابق اجنبی عورت کو بغیر شہوت اور خلوت کے دیکھنا جائز ہے، اس لیے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ابن مفلح کے اس قول کو قاضی عیاض اور امام نووی کی تائید حاصل ہے۔

اکثر حنبلی فقہا نے خرقی، ابن ہبیرہ اور ابن قدامہ کا تتبع کرتے ہوئے امام احمد بن حنبل کی اسی روایت کو ترجیح دی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ عورت کا سارا بدن ستر ہے۔

فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ’’الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف‘‘ (۱:۴۱۷) تالیف ابوالحسن علی بن سلیمان بن احمد المرداوی السعدی الحنبلی (۸۸۵ھ) میں لکھا ہے: ’’اور آزاد عورت کا ناخنوں اور بالوں سمیت پورا جسم سوائے چہرے کے ستر میں شامل ہے۔ امام احمد کا یہی مذہب صحیح ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں (جیسا کہ المغنی (۱: ۶۳۷) اور الشرح الکبیر (۱:۴۵۸) میں ہے) اور یہی ہمارے اصحاب کا مذہب ہے۔ اور قاضی (عیاض)نے کہا ہے کہ اس پر اجماع ہے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے امام احمد کے دوسرے قول کا ذکر کیا ہے کہ چہرہ بھی ستر میں شامل ہے۔

’’العدۃ شرح العمدۃ‘‘ (۱: ۶۹) تالیف بہاء الدین عبدالرحمان ابراہیم المقدسی ،فقہ حنبلی کی ایک اور مشہور کتاب ہے۔ ’’العمدہ‘‘ میں ہے کہ ’’آزاد عورت کا پورا جسم سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے۔‘‘’’العدۃ‘‘ میں اس کی تشریح یوں ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول ’الا ما ظہر منہا‘ ہے اور ابن عباس کا قول ہے: ’’سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے۔‘‘ اور چونکہ حالت احرام میں چہرے کو نقاب سے چھپانا اور ہتھیلیوں کو دستانوں سے چھپانا حرام ہے۔ اگر وہ ’عورۃ‘ ہوتے تو ان کو چھپانا حرام نہ ہوتا ۔اللہ تعالیٰ کا قول: ’’سوائے اس زینت کے جو ظاہر ہوجائے۔‘‘ ،ابن عباس کا قول کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں اور حالت احرام میں ان اعضا کو کھلا رکھنا۔ تین ایسی دلیلیں ہیں جو ہر مسلک کی فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔

امام احمد بن حنبل کا دوسرا قول ہے کہ عورت کا پورا بدن ناخنوں سمیت ستر میں شامل ہے۔ صاحب مضمون نے اسی قول کا سہارا لیا ہے، حالاں کہ متقدمین حنابلہ نے پہلے قول کو درست سمجھا ہے اور اکثر فقہا کا اسی پر عمل ہے۔

امام احمد کے دوسرے قول کے مضمرات:

مضمون نگار نے اگر فقۂ حنبلی کا مربوط مطالعہ کیا ہوتا تو وہ امام صاحب کے دوسرے قول کے مضمرات کو خوب سمجھ گئے ہوتے، مگر وہ تو اپنے مزعومہ تصور کو ثابت کرنے کے لیے حاطب اللیل کی طرح ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔ دوسرے قول کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ عورت نماز میں بھی اپنا چہرہ چھپائے گی۔ اور جیسا کہ بعض متاخرین نے کہا ہے کہ وہ سجدہ کرتے وقت نقاب چہرے سے اٹھا لے گی اور سجدہ کرنے کے بعد دوبارہ نقاب چہرے پر ڈال لے گی۔ اس مسلک پر آج تک کسی نے عمل نہیں کیا۔

امام ذھبی ’’التنقیح‘‘ (۱: ۲۰۹)میں فرماتے ہیں:’’ احمد بن حنبل کا قول ہے کہ عورت اس حالت میں نماز پڑھے گی کہ اس کا ناخن تک نظر نہ آئے گا۔‘‘ امام ابن تیمیہ ’’حجاب المراۃ المسلمہ‘‘ مطبوعہ مکتبۃ المعارف الریاض (ص۸) میں فرماتے ہیں کہ ابن مسعود نے یہ کہا ہے کہ ظاہری زینت سے مراد کپڑے ہیں، مگر یہ نہیں کہا کہ وہ ناخنوں سمیت ساری کی ساری ستر ہے، بلکہ یہ قول احمد کا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو نماز میں بھی چھپائے گی۔ ابن تمیم نے بھی ان سے روایت کی ہے کہ وہ ساری کی ساری ستر ہے۔

یہ قول اس لیے ناقابل عمل ہے کہ آج تک نماز میں چہرہ چھپایا نہیں گیا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا کو ابن حنبل کے اس قول کی توجیہ کی ضرورت پڑی۔ ابن مفلح کو ’’المبدع‘‘ (۱: ۳۶۳) میں کہنا پڑا کہ امام احمد کے اس مطلق قول کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ یا تو چہرے کے سوا سارا جسم ستر ہے یا اس سے مراد نمازسے باہر کا ستر ہے۔ صاحب ’’الانصاف‘‘ نے بھی زرکشی کے حوالہ سے یہی بات کہی ہے۔ کیونکہ یہ فقہا سمجھتے تھے کہ امام احمد کا یہ قول اجماع امت کے خلاف ہے۔ لیکن ابن قدامہ، صاحب ’’المغنی‘‘ نے تو صرف چہرے کے استثنا کے احتمال کا ذکر کیا ہے اور نماز سے باہر ستر کے احتمال کو درخوراعتنا نہیں سمجھا۔

امام موفق الدین بن قدامہ نے ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث کے قول کہ ’’عورت ساری کی ساری ستر ہے۔‘‘کی توجیہ یہ کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ’’عورت ساری کی ساری ستر ہے۔‘‘،عام اور مطلق قول ہے جس کی تخصیص اللہ کے قول ’الا ما ظہر منھا‘ اور صحیح احادیث سے کی گئی ہے۔ یہی بات اگر امام احمد کے دوسرے قول کے بارے میں کہی جاتی تو نماز سے باہر ستر کے حیلہ کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن متاخرین فقہا نے خرقی، ابن ہبیرہ اور ابن قدامہ جیسے متقدمین کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے نماز کے اندر اور باہر کے ستر کا تصور تراشا۔ ابن قدامہ (۶۲۰ھ) کی ایک اور کتاب ’’المقنع‘‘ ہے۔ اس میں یہ عبارت ہے کہ ’’بالغ آزاد عورت کا سارا بدن سوائے چہرے کے ستر ہے۔‘‘ ابن مفلح (۸۸۴ھ) نے ’’مقنع‘‘ کی شرح ’’المبدع‘‘ (۱: ۳۹۳) میں ’’المقنع‘‘ کی عبارت ’الا الوجہ‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے:’’ (حنبلی) مذہب میں اس بات پر اتفاق ہے کہ آزاد عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی۔‘‘ مفتی حنابلہ موسیٰ الحجازی (۹۶۸ھ) نے اپنی کتاب ’’زاد المستقنع‘‘ میں ’المقنع‘ کا اختصار کیا ہے۔ وہ بھی اس کتاب (۱: ۵۷) میں وہی الفاظ لکھتے ہیں جو ابن قدامہ نے لکھے ہیں، یعنی آزاد عورت کا سارا بدن بجز چہرے کے ستر میں شامل ہے۔ انھوں نے بھی نماز کے اندر اور باہر کے ستر کی کوئی بات نہیں کی۔ صرف ’’المقنع‘‘ کی شروح میں اس بات کا ذکر ہے کہ چہرہ نماز میں ستر نہیں۔ یہ نقطۂ نظر بعض متاخرین کا ہے، متقدمین کا نہیں۔

علاء الدین ابی الحسن علی بن سلیمان المرداوی (۸۸۵ھ) نے ’’التنقیح المشیع فی تحریر احکام المقنع‘‘ میں ’المقنع‘ کی عبارت ’کلہا عورۃ‘ کے تشریحاً ’فی الصلاۃ‘ (نماز میں) کے الفاظ لکھے ہیں۔’’زاد المستقنع‘‘ کی شرح منصور بن یونس البہوتی (۱۰۵۱) نے ’الروض المربع‘ کے نام سے کی ہے۔ اس میں انھوں نے ’زاد المستقنع‘ کے الفاظ پر اضافہ کرتے ہوئے کہا ہے :’’ چہرہ نماز میں ستر نہیں۔ ‘‘(۱: ۵۷)یہی بات ’’منارالسبیل‘‘ (ص۱۰۸) اور ’’دلیل الطالب‘‘ (ص۲۶) کے مصنفین نے کہی ہے۔

مگر صالح بن ابراہیم البلیہی نے ’’زاد المستقنع‘‘ کا حاشیہ ’السلسبیل فی معرفۃ الدلیل‘ (۱: ۷۳) لکھا ہے۔ اس میں وہ کہتے ہیں: ’’آزاد عورت کا پورا جسم سوائے چہرے کے ستر ہے اور یہ تشریح ہے حضرت عائشہ کی اس روایت کی کہ اللہ تعالیٰ بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔ اس روایت کو سوائے نسائی کے پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن گردانا ہے، مگر انھوں نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ امام احمد سے روایت ہے کہ سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے اس کا سارا جسم ستر ہے اور اس روایت میں وہ امام مالک اور شافعی سے متفق ہیں۔ اور ابوعشفہ کا قول ہے کہ سوائے چہرے، ہتھیلیوں اور پاؤں کے عورت ساری کی ساری ستر ہے۔‘‘ آپ نے دیکھا کہ نہ’ ’المقنع‘‘ کے مصنف نے اور نہ ہی ’’زاد المستقنع‘‘کے مصنف نے چہرے کے ستر کے عدم وجوب کو نماز کے ساتھ مقید کیا ہے۔ یہ قید صرف بعض متاخرین نے اپنی افتاد طبع کی بنیاد پر لگائی ہے۔ جس کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں۔ اس سلسلہ میں میں ’’حکمت قرآن‘‘ بابت جولائی ۲۰۰۶ کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ صفحہ ۹۰ پر ہے:

’’جہاں تک متاخرین فقہا کا تعلق ہے ان کو صرف نئی مشکلات پر گفتگو کرنی چاہیے صدراول کے لوگوں کے فہم کے خلاف ان کو شرعی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ وہ اس لغت تخاطب کو سمجھتے تھے جو صحابہ کے درمیان متداول تھی اور جس میں ابھی تک کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے ان لوگوں سے علم حاصل کیا تھا جو زمانۂ وحی میں موجود تھے۔ شریعت کا وہی مفہوم درست ہے جو انھوں نے سمجھا اور جس چیز کو انھوں نے بطور دلیل قبول نہیں کیا وہ دلیل نہیں ہو سکتی۔‘‘ (مقالات الکوثری ص۲۵۸)

اگر متاخرین میں سے کوئی شخص نصوص کے ہوتے ہوئے جمہور ائمہ اور فقہا کے متعین کردہ مفہوم کے خلاف اپنی رائے پیش کرے گا تو اسے رد کر دیا جائے گا۔

متاخرین نے اس رائے کا اظہار سیاسی، علمی اور تحقیقی اعتبار سے زوال کے زمانہ میں کیا۔ چنانچہ شیخ محمد غزالی اپنی کتاب ’’من ہنا نعلم‘‘ میں کہتے ہیں :’’چہرے کو ڈھانپنے کے بارے میں کوئی صریح نص موجود نہیں، بلکہ روایات سے چہرہ کھلا رکھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ جیساکہ ہم بیان کر آئے ہیں، بعض فقہا نے فتنہ کو روکنے کے لیے اسے چھپانے کا فتویٰ دیا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ یہ نقاب فتنہ کو روکنے کا ذریعہ ہے، خواہ متشددین اس کے ساتھ چپکے رہیں، بلکہ مسلمانوں نے اپنے عجزو بے بسی کے زمانے میں اس کی طرف رجوع کیا۔‘‘

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مضمون نویس کے سارے کے سارے حوالے انھی متاخرین کے گرد گھوم رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے ’’المغنی‘‘ اور ’’الشرح الکبیر‘‘ کا حوالہ حالت احرام میں ’سدل‘ کے بارے میں تو دیا ہے، مگر موضوع زیربحث پر ابن قدامہ کے واضح اور دوٹوک موقف کو دانستہ طور پر نظرانداز کردیا ہے۔ یہ بات علمی دیانت کے منافی ہے۔

مضمون میں نماز کے اندر اور باہر ستر کا الگ الگ تصور فلسفۂ ستر سے متصادم ہے اور جمہور فقہا کے موقف کے منافی۔ نماز کے اندر کا ستر وہی ہے جو نماز سے باہر کا ہے۔ نماز کے اندر جو عضو کھلا رہے گا ،وہ نماز سے باہر بھی کھلا رہے گا اور نماز کے اندر جن اعضا کو چھپانا واجب ہے، نماز سے باہر بھی ان کو چھپانا واجب ہے۔ اس بات کے لیے مفسرین اور فقہا نے عادتاً اور عبادتاً کی اصطلاح استعمال کی ہے جسے میرے مضامین میں جابجا پڑھا جاسکتا ہے۔ یعنی جو اعضا عادتاً کھلے رہتے ہیں اور جن کو چھپانے کے لیے تکلف اور دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ عبادت کرتے وقت بھی کھلے رہیں گے۔ بڑے ابن رشد (۵۲۰ھ) نے اپنی کتاب ’’مقدمات ابن رشد لبیان ما اقتضتہ المدونۃ من الاحکام‘‘ (۱:۱۰۹) میں لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ’الا ما ظہر منہا‘ (۲۴: ۳۱) ...جب آزاد عورتوں کو اجنبیوں سے ستر کا حکم دیا گیا اور یہ حکم ہوا کہ وہ غیرمحرم کے سامنے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کے سواکوئی زینت ظاہر نہ کریں، جیسا کہ اہل علم نے اس آیت کی تفسیر کی ہے۔ اسی طرح اس کے لیے نماز کے دوران میں اس بات کو واجب قرار دیا گیا۔ اس واجب کو کبھی بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اور وہ کم از کم لباس جس سے نماز ادا ہوجاتی ہے، وہ ہے اوڑھنی اور مکمل قمیص جو پاؤں کے اوپر والے حصے کو چھپا لے۔ ام سلمہ نے یہی بات کہی ہے۔ یہ معروف مالکی فقیہ سورۂ نور کی آیت کو ’ستر العورۃ‘ کے بارے میں نص قطعی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ آیت نماز تک محدود نہیں۔ شیخ الاسلام زکریا الانصاری ’’شرح روض الطالب‘‘ (۱:۱۷۶) میں لکھتے ہیں: ’عورۃ الحرۃ فی الصلاۃ وعند الاجنبی‘ یعنی (آزاد عورت کا نماز میں اور اجنبی مرد کے پاس ستر) خواہ نماز سے باہر ہو سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے سارا بدن ہے۔ ہتھیلیوں کے اندر اور باہر کا حصہ بند تک، کیونکہ اللہ کا قول ہے: ’الا ما ظہر منہا‘ ، ابن عباس وغیرہ کا قول ہے جو زینت ظاہر رہتی ہے اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں، یہ ستر میں اس لیے شامل نہیں، کیونکہ ان کو کھلا رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کتاب پر شیخ الشیوخ ابوالعباس احمد ابوعلی الکبیر الانصاری اور استاذ کبیر محمد بن احمد الشویری نے حاشیہ میں کہا ہے: ’’کیونکہ اگر یہ دونوں اعضا ستر میں شامل ہوتے تو حالت احرام میں ان کا کھولنا واجب نہ ہوتا۔‘‘ یہ دلیل ہر مکتب فکر کی فقہ کی کتابوں میں موجود ہے کہ اگر چہرہ اور ہتھیلیاں ستر میں شامل ہوتیں تو حالت احرام میں حدیث نبوی کے مطابق ان کا چھپانا حرام نہ ہوتا۔ میرے مضمون میں یہ حوالے موجود ہیں۔ امام غزالی اپنی کتاب ’’الوجیز‘‘ (۱: ۴۸) میں فرماتے ہیں: ’’ستر کو چھپانا نماز سے باہر بھی واجب ہے۔‘‘ امام نووی ’’روضۃ الطالبین‘‘ (۱: ۳۸۸) میں فرماتے ہیں کہ ’’صحیح ترین قول ہے کہ ستر کو چھپانا نماز، خلوت اور خلوت کے بغیر بھی واجب ہے۔‘‘

علامہ شیخ زین الدین بن عبدالعزیز ملیباری شافعی (۹۸۷ھ) اپنی کتاب ’’فتح المعین‘‘ (۱: ۲۴) میں فرماتے ہیں: ’’نماز میں جو ستر ہے اسے خارج نماز میں بھی چھپانا واجب ہے۔‘‘ سعیدالدین کاشغری اپنی کتاب ’’منیۃ المصلی‘‘ (ص۱۷۵) میں ’عورۃ‘ کے باب کے تحت لکھتے ہیں: ’’نماز کے بارے میں، اجنبی مردوں کے بارے میں اور کافر عورتوں کے بارے میں عورت کا ستر۔‘‘ یہ عنوان ظاہر کرتا ہے کہ نماز کے اندر اور باہر کا ستر ایک ہے۔ میں انھی حوالوں پر اکتفا کرتا ہوں جو مالکی، شافعی اور حنفی فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ ابن قدامہ کی ’’المغنی‘‘ کا حوالہ تو پہلے دے چکا ہوں۔ ان حوالوں کی موجودگی میں صاحب مضمون کا یہ دعویٰ درست معلوم نہیں ہوتا کہ امام احمد بن حنبل کے دونوں اقوال میں تطبیق یہ ہے کہ ایک قول نماز کے اندر ستر کے بارے میں ہے اور دوسرا نماز سے باہر۔ تطبیق وہی درست ہے جس کا ذکر ابن قدامہ نے کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل کا دوسرا قول کہ عورت کا سارا بدن یہاں تک کہ اس کے ناخن بھی ستر میں شامل ہیں، ایک مطلق قول ہے جس کی تقیید اللہ کا قول ’الا ما ظہر منھا‘ اور صحیح احادیث کرتی ہیں۔ان حوالہ جات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نہ امام احمد کا پورے جسم کے ستر والا قول قابل عمل ہے اور نہ ہی یہ توجیہ قابل عمل ہے کہ نماز کے اندر کا ستر اور ہے اور باہر کا ستر اور۔

امام ابن تیمیہ کا موقف

امام موصوف نے احمد بن حنبل کے دوسرے قول کو اختیار کر کے اسے ان کا مشہور قول قرار دیا ہے۔ امام ابن تیمیہ نے ستر کے قضیہ کو انتہائی دیانت داری سے پیش کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے مخالفین کے مسلک کا انکار نہیں کیا۔ وہ ’’مجموع فتاویٰ‘‘ (۱۵: ۳۷۱) میں فرماتے ہیں: ’’زینت ظاہرہ سے مراد ابن مسعود کے نزدیک اوپر والے کپڑے ہیں اور یہی امام احمد کا مشہور قول ہے اور ابن عباس کا قول ہے کہ زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ ہیں اور یہ امام احمد کا دوسرا قول ہے اور یہی قول علما کی ایک بڑی جماعت کا قول ہے جیسے امام شافعی وغیرہ۔‘‘ ابن عباس کے اس قول کی تائید مجاہد نے اپنی تفسیر میں کی ہے۔ جس کے بارے میں امام ابن تیمیہ ’’مجموع فتاویٰ‘‘ (۱۷: ۳۶۷) میں کہتے ہیں کہ ’’مجاہد تفسیر کے امام ہیں۔‘‘ اور اپنے فتاویٰ (۱۷: ۴۰۸۔۴۰۹) میں فرماتے ہیں کہ ثوری، شافعی، احمد بن حنبل اور بخاری جیسے اکثر ائمہ انھی کی تفسیر پر اعتماد کرتے ہیں۔ ثوری کا قول ہے کہ اگر تمھارے پاس مجاہد کی تفسیر پہنچے تو تمھارے لیے یہی کافی ہے۔ اور شافعی اپنی کتابوں میں ابن قتیبہ اور ابن نجیح کے حوالے سے ان کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اسی طرح بخاری اپنی صحیح میں اسی تفسیر پر اعتماد کرتے ہیں اور کہنے والے کا یہ کہنا کہ ’’مجاہد سے ابن نجیح کی روایت صحیح نہیں۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن نجیح کی روایت سے مجاہد کی تفسیر صحیح ترین تفسیر ہے۔ بلکہ اہل تفسیر کے ہاتھوں میں کوئی تفسیر نہیں جو ابن نجیح کی روایت سے مجاہد کی تفسیر سے زیادہ صحیح ہو۔ پھر اس بات کی تائید ابن نجیح کے اس قول سے ہوتی ہے کہ میں نے ابن عباس پر قرآن کو پیش کیا اور میں ہر آیت کے بارے میں ان کو روک کر ان سے سوال کرتا تھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ جلباب والی آیت (۳۳: ۵۹) کے بارے میں دو آثار ہیں، ایک محمد بن سیرین کا اثر عبید سلیمانی کے حوالے سے اور دوسرے ابن نجیح کا اثر مجاہد کے حوالے سے۔ اس دوسرے اثر کے مطابق جلباب چہرے کو نہیں چھپائے گا۔ مجاہد کے بارے میں ابن تیمیہ کے خیالات کو پیش نظر رکھیں تو یہی اثر صحیح ہوگا۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجاہد کی مدح سرائی کے باوصف ابن تیمیہ کا اپنا موقف کیا ہے؟ اہل اصول کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب کسی امام کی روایت اس کی رائے سے متصادم ہو تو روایت کو رائے پر ترجیح دی جائے گی اور وہی اس کے موقف کی حقیقی نمائندگی کرے گی، کیونکہ ائمۂ اعلام میں سے ہر امام نے اس شخص سے برأت کی ہے جو دلیل کے بغیر اس کی تقلید کرتا ہے۔

’’مجموعہ رسائل فی السفور والحجاب‘‘ مطبوعہ ریاض صفحہ۵ پر ہے کہ ’’زینت ظاہرہ کے بارے میں ابن مسعود اور ابن عباس اور مجاہد کی مانند ابن عباس کے موافقین کے اقوال فقہا کے درمیان وجہ نزاع بنے ہوئے ہیں کہ آیا اجنبی عورت کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے۔ یہ ابوحنیفہ اور شافعی کا مذہب ہے اور امام احمد کا ایک قول بھی۔ ایک قول ہے کہ جائز نہیں۔‘‘ ظاہر ہے ابن تیمیہ کی تصریح کے مطابق ہم مجاہد سے ابن عباس کی روایت کو ترجیح دیں گے۔ چنانچہ مضمون نگار کا یہ کہنا کہ جمہورحنابلہ نے امام احمد کے دوسرے قول کو ترجیح دی ہے، حقیقت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام احمد کا یہ قول قابل عمل نہیں، اسی لیے اس کی تاویل کے لیے ’’باب الحیل‘‘ میں پناہ لینی پڑی۔ کون سی مسلمان عورت چہرہ ڈھانپ کر نماز ادا کرتی ہے۔ نماز کے اندر اور باہر کا الگ ستر کتاب وسنت کے منافی اور ’ستر العورۃ‘ کے اس فلسفہ سے متصادم ہے کہ یہ ستر عادتاً اور عبادتاً ایک ہوگا۔

صاحب مضمون نے سعودی فقہا کے جو دو ایک حوالے دیے ہیں ،ان کی خرقی، ابن ہبیرہ، ابن قدامہ، علی بن سلیمان احمد المرداوی اور مفتی الحنابلہ موسیٰ الحجازی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں۔

امام احمد بن حنبل کے دوسرے قول کے سلسلہ میں ایک اور حوالے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ جو صاحب مضمون کے علم میں نہیں، جس کی طرف ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ (۱: ۸۳) میں لکھا ہے:’’ ابوبکر بن عبدالرحمان اور احمد کا مذہب ہے کہ عورت ساری کی ساری ستر ہے۔‘‘ ابن رشد نے جمہور علما اور ابوحنیفہ کا مسلک بیان کرنے کے بعد اس قول کو بطور شاذ قول پیش کیا ہے۔ امام نووی نے ’’المجموع‘‘ (۳: ۱۷۴) میں کہا ہے کہ ماوردی اور متولی نے ابوبکر بن عبدالرحمان تابعی سے روایت کی ہے کہ عورت کا سارا بدن ستر میں شامل ہے۔ امام ذہبی ’’التنقیح‘‘ (۱: ۲۰۹) میں کہتے ہیں کہ ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث بن ہشام کا قول ہے کہ عورت کی ہر چیز، یہاں تک کہ ناخن بھی ستر میں شامل ہیں۔ اس شاذ قول کا جواب میں چوتھی قسط میں دے چکا ہوں، یہاں اس کا تکرار بے محل نہ ہوگا۔ 

امام ابن عبدالبر ’’التمہید‘‘ (۶: ۳۶۴) میں فرماتے ہیں:’’ عورت ساری کی ساری سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔‘‘ پھر وہ ان نصوص سے خروج کرنے والے ایک آدمی کے قول کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ ابوبکر بن عبدالرحمان بن حارث کا قول ہے کہ عورت کی ہر چیز یہاںتک کہ ناخن بھی ستر میں شامل ہیں۔ ابوبکر کا یہ قول اہل علم کے اقوال کے خلاف ہے، کیونکہ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت اس حالت میں نماز ادا کرے گی، جبکہ اس کے ہاتھ اور چہرہ کھلے ہوں گے۔ یہ دونوں اعضا زمین کو چھوئیں گے۔ ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت نہ نقاب اوڑھے گی اور نہ دستانے پہنے گی۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ ستر میں شامل نہیں۔ ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۱: ۶۳۹) میں ابوبکر کے اس قول کی اصولی لحاظ سے تکذیب یہ کہہ کر کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ’المراۃ عورۃ‘ (عورت ستر ہے) عام ہے جس کی تخصیص اللہ کا قول ’الا ما ظہر منھا‘ (۲۴: ۳۱) اور اس سلسلہ میں وارد ہونے والی ہر حدیث کرتی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے عادتاً اور عبادتاً کی اصطلاح کو خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ ستر کے بارے میں سورۂ نور کی آیت نص کا درجہ رکھتی ہے۔ اس آیت میں نماز کے اندر اور نماز سے باہر، ہر قسم کے ستر اور اس کے استثنا کا ذکر ہے۔ جیسا کہ ’’شرح المنہج‘‘ پر علامہ الشیخ سلیمان الجمل نے اپنے حاشیہ میں لکھا ہے کہ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ سورۂ نور کی یہ آیت نماز کے بارے میں ہے۔ تعصب کا یہ حال ہے کہ قرآن کی تحریف سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

شوافع اور چہرے کا پردہ

صاحب مضمون نے چھوٹتے ہی غلط بات کہی ہے کہ جمہور شوافع کے نزدیک چہرہ عورت کے ستر میں داخل ہے۔ میں جو حوالے پیش کروں گا، وہ امام شافعی اور ان کے فقہ کو سمجھنے والے متقدمین فقہا کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ جو صاحب مضمون کے قول کی تکذیب کے لیے کافی ہیں۔ مضمون نویس نے اعتراف کیا ہے کہ امام شافعی کا قول ہے کہ چہرہ عورت کے ستر میں داخل نہیں۔ پھر یہ دعویٰ کہ جمہور شوافع اپنے امام کے مخالف ہیں عجیب سا لگتا ہے۔ ان پر واجب تھا کہ وہ بتاتے کہ شافعی فقہا نے کیوں اپنے امام کی مخالفت کی ہے؟ اور کہاں کی ہے؟ یہ تو بتایا نہیں، محض قارئین کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے غلط بات کہہ دی ہے۔

امام شافعی کی مشہور کتاب ’’کتاب الأم‘‘ ہے۔ صاحب مضمون نے حالت احرام میں ’سدل‘ کے بارے میں اس کتاب کا حوالہ دیا ہے، لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ وہ اس کتاب کے ’ستر العورۃ‘ کے بارے میں حوالہ کو پھلانگتے ہوئے، اس حوالہ تک کیسے پہنچ گئے، حالاں کہ یہ حوالہ پہلی جلد میں موجود ہے اور انھوں نے دوسری جلد کا حوالہ دیا ہے۔ یہ حوالہ موضوع زیربحث کے ساتھ خاص ہے، جبکہ ان کے حوالہ کا نفس مضمون سے براہ راست تعلق نہیں۔ کیا ایسا سہواً ہوا ہے یا دیدہ و دانستہ؟

’’کتاب الأم‘‘ (۱: ۱۸۱) میں امام شافعی (۲۰۴ھ) کا قول ہے کہ ’’عورت پر واجب ہے کہ وہ نماز میں اپنی ہتھیلیوں اور چہرے کو چھوڑ کر سارا بدن چھپائے۔‘‘ ’’کتاب الأم‘‘ کے محقق محمود مطرجی نے اس پر نوٹ لکھا ہے کہ ’’بیہقی نے عورت کے ستر کے بارے میں حفص بن غیاث انھوں نے عبداللہ بن مسلم بن ہرمز انھوں نے سعید بن جبیر اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ کے قول ’الا ما ظہر منہا‘ سے مراد ہتھیلیاں اور چہرہ ہے۔ اور ابن عمر سے روایت ہے کہ زینت ظاہرہ چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ اسی مفہوم کی روایت عطاء بن ابی رباح اور سعید بن جبیر سے ہے اور یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔‘‘

فقہ شافعی میں ’’کتاب الأم‘‘ کے بعد ابواسحاق شیرازی (۴۷۴ھ) کی ’’المہذب‘‘ کا مقام ہے۔ اس کتاب (۱: ۲۱۸) میں ہے: ’’رہی آزاد عورت کی بات تو چہرے اور ہتھیلیوں کو چھوڑ کر اس کا سارا بدن ستر ہے، کیونکہ اللہ کا قول ہے: ’الا ما ظہر منہا‘ (سوائے اس زینت کے جو ظاہر رہے)، ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد عورت کا چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں اور کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں عورت کو نقاب اوڑھنے اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے، اگر یہ اعضا ستر میں شامل ہوتے تو ان کو چھپانا حرام قرار نہ دیا جاتا اور کیونکہ خریدوفروخت کے لیے چہرے کو اور لین دین کے لیے ہاتھوں کو کھولنے کی ضرورت پڑتی ہے، اسی لیے اللہ نے ان کو ستر میں شامل نہیں کیا۔‘‘ میرے خیال میں ’’المہذب‘‘ میں واضح کردیا گیا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کے کھلا رکھنے کا ماخذ کتاب وسنت ہے اور ان کے کھلا رکھنے میں حکمت یہ ہے کہ خریدوفروخت اور لین دین میں بے جا دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ معاشرے کی ایک فعال رکن کی حیثیت سے زندگی گزارے۔ صاحب مضمون اگر اب بھی اپنی بات پر اڑے رہیں تو:

بریں عقل و دانش بباید گریست

’’الوجیز فی مذہب الامام شافعی‘‘ امام ابوحامد غزالی (۵۰۵ھ) کی فقہ شافعی سے متعلق کتاب ہے۔ اس میں (۱: ۴۸) لکھا ہے: ’’آزاد عورت کا سارا بدن بجز چہرے اور ہاتھوں کے بند تک ستر ہے۔‘‘ مقام حیرت ہے کہ صاحب مضمون نے نفس مضمون کے بارے میں فقہ کی کتاب کو چھوڑ کر ’’احیاء علوم الدین‘‘ کا حوالہ دیا ہے جو حکمت عبادات اور فلسفۂ اخلاق کی کتاب ہے۔’’ فتح العزیز شرح الوجیز‘‘ امام ابوقاسم محمد الرافعی الشافعی (۶۲۳ھ) کی کتاب ہے۔ اس کے صفحہ (۴:۸۷) پر لکھا ہے: ’’عورت اگر آزاد ہو تو چہرے اور ہاتھوں کے سوا اس کا سارا بدن ستر میں شامل ہے، کیونکہ اللہ کا قول ہے ’الا ما ظہر منہا‘ ۔(۲۴: ۳۱) مفسروں کا قول ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ دونوں کا اندر اور باہر بند تک ستر سے خارج ہے۔‘‘

امام محی الدین شرف النووی (۶۷۶ھ) کی کتاب ’’المجموع‘‘،’’ المہذب‘‘کی شرح ہے اور فقہ شافعی کے اہم مصادر میں سے ہے۔ وہ اس (۳:۱۷۰) میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ تفسیر (جس کا مہذب میں حوالہ ہے) ابن عباس سے بیہقی نے روایت کی ہے۔ حضرت عائشہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں اس کے علاوہ بھی کہا گیا ہے۔ یہ نقاب اور دستانوں کی ممانعت والی حدیث بخاری نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔‘‘

پھر وہ صفحہ (۱۷۴) پر عنوان باندھتے ہیں ’’’عورۃ‘ (ستر) کے بارے میں علما کے مسالک۔ہم نے بیان کر دیا ہے کہ ہمارے مذہب (شافعی) کا مشہور قول یہ ہے کہ مرد اور لونڈی کا ستر ناف اور گھٹنے کے درمیان ہے اور آزاد عورت کا ستر چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا سارا بدن ہے۔ مالک اور علما کی بڑی جماعت کا بھی یہی قول ہے۔ یہ امام احمد سے ایک روایت ہے۔ ابوحنیفہ کا قول ہے کہ پائوں بھی ستر میں شامل نہیں۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ چہرے اور ہتھیلیوں کو چھوڑ کر سارا بدن ستر ہے ان میں اوزاعی اور ابوثور بھی شامل ہیں۔ ابوحنیفہ، ثوری اور مزنی کا قول ہے کہ قدم بھی ستر میں شامل نہیں۔ امام احمد کا ایک قول ہے کہ فقط چہرے کے سوا سارا بدن ستر میں شامل ہے۔ ماوردی اور المتولی نے ابوبکر بن عبدالرحمان تابعی سے روایت کی ہے کہ عورت کا سارا بدن ستر میں شامل ہے۔‘‘ امام نووی نے تفصیل کے ساتھ اپنا اور تمام ائمہ کا مسلک بیان کر دیا ہے، مگر انھوں نے امام احمد کے اس قول کا ذکر تک نہیں کیا کہ عورت کا سارا بدن ستر ہے۔

روضۃ الطالبین (۱: ۳۸۸) بھی امام نووی کی تصنیف ہے۔ وہ اس میں فرماتے ہیں: ’’ستر کو چھپانا نماز سے باہر خلوت اور جلوت میں بھی واجب ہے۔‘‘اس کتاب کے صفحہ (۱: ۳۸۹) پر ہے :’’جہاں تک آزاد عورت کا تعلق ہے۔ چہرے اور ہتھیلیوں کے اندر اور باہر کے حصے کو ہاتھ کے جوڑ (بند) تک کے سوا عورت کا سارا بدن ستر ہے۔‘‘

امام نووی کی کتاب ’’منہاج الطالبین‘‘ کی شرح شیخ الاسلام زکریا الانصاری نے ’’شرح المنہج‘‘ کے نام سے کی ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’آزاد عورت کا ستر چہرے اور دو ہتھیلیوں کے ظاہروباطن ہاتھ کے جوڑ تک کے سوا سارا بدن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قول ’الا ما ظہر منہا‘ ہے جس کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی گئی ہے۔ اور یہ اس لیے بھی ستر نہیں ہیں، کیونکہ ان کو کھلا رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ‘‘

شیخ محمد شربینی الخطیب نے ’’منہاج‘‘کی شرح ’’مغنی المحتاج‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ وہ ’’منہاج‘‘ کے متن (آزاد عورت کا چہرہ سوا چہرے اور ہتھیلیوں کے) کی تشریح میں لکھتے ہیں:’’انگلیوں کے سروں سے لے کر ہتھیلیوں کا اندر اور باہر ہاتھ کے جوڑ تک، کیونکہ اللہ کا قول ہے ’الا ما ظہر منہا‘ ،ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ ایک قول ہے کہ صرف چہرہ ہے۔ پائوں کا اندرونی حصہ ستر نہیں۔ مزنی کا قول ہے کہ پائوں ستر میں شامل نہیں۔‘‘

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ


۱؎ چہرہ کھلا رکھنے کے لیے یہ تین دلائل ہر مکتب فکر کی فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔

B