HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۱ (۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلاَدِکُمْ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ، وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ.
وَلِاَبَوَیْْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ، اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ، فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ، وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ، فَلِاُ مِّہِ الثُّلُثُ، فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ، فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِہَآ اَوْ دَیْْنٍ.
اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ، لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا، فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۱۱} 
تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے ۱۹ کہ اُن میں سے لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ ۲۰ پھر اگر اولاد میں لڑکیاں ہی ہوں اور وہ (دو یا) دو سے زیادہ ہوں ۲۱ تو اُنھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اُس کے لیے آدھا ہے۔۲۲   
لیکن ترکے کا چھٹا حصہ، (اِس سے پہلے) میت کے والدین میں سے ہر ایک کو ملنا چاہیے،۲۳ اگر اُس کی اولاد ہو۔ ۲۴ اور اگر اولاد نہ ہو اور والدین ہی اُس کے وارث ہوں تو تیسرا حصہ ماں کا ہے (اور باقی باپ کا)۔۲۵  لیکن بھائی بہن ہوں ۲۶ تو ماں کے لیے وہی چھٹا حصہ ہے۲۷ (اور باپ کے لیے بھی وہی چھٹا حصہ)۔ یہ حصے اُس وقت دیے جائیں، جب وصیت جو اُس نے کی، وہ پوری کر دی جائے ۲۸ اور قرض، (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔
تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بہ لحاظ منفعت تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے (اِسی بنا پر) اللہ نے مقرر کر دیے ہیں۔ بے شک، اللہ علیم وحکیم ہے۔۲۹ ۱۱

؎ ۱۹ اصل الفاظ ہیں: ’یوصیکم اللّٰہ فی اولادکم‘۔ ان سے واضح ہے کہ آگے جو حصے بیان ہوئے ہیں، انھیں اللہ نے اپنی وصیت قرار دیا ہے۔ اس کے بعد، ظاہر ہے کہ کوئی مسلمان اس کے مقابلے میں اپنی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔

؎ ۲۰ یہ حکم اگر اسی جملے پر ختم ہوجاتا تو اس کے معنی یہ تھے کہ مرنے والے کی اولاد میں اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہی ہو تو لڑکے کو لڑکی سے دونا ملے گا؛ لڑکے اور لڑکیاں اس سے زیادہ ہوں تو میت کا ترکہ اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رہے؛ اولاد میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہو ں تو سارا ترکہ دونوں میں سے جو موجود ہوگا، اسے دیا جائے گا۔ لیکن حکم یہاں ختم نہیں ہوا، بلکہ اس سے متصل اگلے ہی جملے میں ایک استثنا کے ذریعے سے قرآن نے وضاحت کر دی ہے کہ اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو سارا ترکہ ان میں تقسیم نہیں ہوگا۔ ایک ہی لڑکی ہو تو اسے ترکے کا نصف اور دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انھیں دوتہائی دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا قانون لوگوں کے جذبات پر نہیں، بے لاگ انصاف پر مبنی ہے۔ لڑکی کی منفعت والدین کے لیے لڑکے سے کم ہوتی ہے، اس لیے کہ شادی کے بعد اس کی منفعت بیشتر اس کے شوہر اور شوہر کے گھر والوں کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ قرآن نے اسی بنا پر لڑکے سے اس کا حصہ آدھا رکھا ہے اور اولاد میں صرف لڑکیاں ہوں تو ان کا حصہ کم بھی کر دیا ہے۔

؎ ۲۱ اصل میں ’فوق اثنتین‘ (دو سے زیادہ) کے الفاظ آئے ہیں، لیکن ان کا مفہوم ہم نے دو یا دو سے زیادہ بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’فوق اثنتین‘ سے پہلے ’اثنتین‘ کا لفظ عربیت کے قاعدے سے حذف ہو گیا ہے۔ قرآن کی زبان میں اگر ہم ایک لڑکی اور دو یا دو سے زائد لڑکیوں کا حصہ ان کے حصوں میں فرق کی وجہ سے الگ الگ بیان کرنا چاہیں تو اس کے دو طریقے ہیں: ترتیب صعودی کے مطابق بیان کرنا پیش نظر ہو تو پہلے ایک لڑکی اور اس کے بعد دو لڑکیوں کا حصہ بیان کیا جائے گا۔ دو سے زائد کا حصہ اگر وہی ہے جو دو کا ہے تو اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک کے فوراً بعد جب دو کا حصہ اس طرح بیان کیا جائے کہ وہ ایک کے حصے سے زیادہ ہو تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دو سے زائد کاحکم بھی وہی ہے جو دو لڑکیوں کا ہے۔ اسی بات کو ہم ترتیب نزولی کے مطابق بیان کریں گے تو اس کے لیے ’فوق اثنتین او اثنتین‘ کے الفاظ چونکہ عربیت کی رو سے موزوں نہ ہوں گے، اس لیے دو سے زائد کا حصہ بیان کرنے کے بعد ایک کا حصہ بیان کر دیا جائے گا۔ اس اسلوب میں ’فوق اثنتین‘ سے کلام کی ابتدا خود دلیل ہوگی کہ اس سے پہلے ’اثنتین‘ کا لفظ محذوف ہے۔ اس کا قرینہ بھی واضح ہے۔ اس ترتیب کا حسن مقتضی ہے کہ ’فوق اثنتین‘ سے پہلے ’اثنتین‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور صحت زبان کا تقاضا ہے کہ ’فوق اثنتین‘ سے بات شروع کی جائے تو بعد میں ’اثنتین‘ مذکور نہ ہو۔ قرآن مجید نے یہ حصے یہاں ترتیب نزولی کے مطابق بیان کیے ہیں، اس لیے حذف کا یہ اسلوب ملحوظ ہے۔ سورۂ نساء کی آخری آیت میں یہی حصے ترتیب صعودی کے مطابق بیان ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہاں ’اثنتین‘ کے بعد ’فوق اثنتین‘ کا لفظ حذف کر دیا ہے: ’اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ، فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ، وَہُوَ یَرِثُہَآ، اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْْنِ، فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ‘۔*

؎ ۲۲ یہ جملہ پچھلے جملے سے استثنا ہے، اس لیے اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو پچھلے جملے کا ہے یعنی اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو انھیں ترکے کے اسی حصے کا دوتہائی یا نصف دیا جائے گا جو اگر تنہا لڑکے ہوتے تو ان میں تقسیم کیا جاتا۔ وہ پورے ترکے کے دوتہائی یا نصف کی حق دار نہ ہوں گی۔ ’فان کن نسائ‘ پر اصل میں جو حرف ’ف‘ اور ’ولابویہ‘ سے پہلے حرف ’و‘ آیا ہے، وہ اسی پر دلالت کرتا ہے۔

؎ ۲۳ یہ جملہ اس سے متصل پہلے لڑکیوں کے حصوں پر نہیں، بلکہ اس پورے حکم پر عطف ہوا ہے جو اوپر اولاد کے لیے آیا ہے۔ چنانچہ اس کا عطف اب استدراک کے لیے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ بات تو بیان ہوئی ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا، لیکن یہ کتنا ہوگا، اسے متعین نہیں کیا گیا۔ چنانچہ والدین اور زوجین کے جو حصے اس کے بعد آئے ہیں، وہ لازماً پہلے دیے جائیں گے اور اس کے بعد جو کچھ بچے گا، صرف وہی اولاد میں تقسیم ہوگا۔ لڑکے اگر تنہا ہوں تو انھیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے لڑکیاں، دونوں ہوں تو ان کے لیے بھی یہی قاعدہ ہوگا۔ اسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہوں تو انھیں بھی اس بچے ہوئے ترکے ہی کا نصف یا دوتہائی دیا جائے گا۔ اس کے لیے ’فان کن نسائ‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، ان کے بارے میں ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ یہ ’للذکر مثل حظ الانثیین‘ سے استثنا اور اسی کے ایک پہلو کی وضاحت ہیں، ان کا حکم اس سے مختلف نہیں ہو سکتا۔

؎ ۲۴ اصل میں ’ان کان لہ ولد‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ولد‘ کا لفظ ذکورواناث، دونوں کے لیے ہے۔ یہاں اور اس کے بعد ازواج کے حصوں میں بھی ہر جگہ اس کا مفہوم یہی ہے۔ لڑکا لڑکی ایک ہوں یا دو، اولاد میں صرف لڑکے ہوں یا صرف لڑکیاں ہوں، نفی واثبات میں اس شرط کا اطلاق لازماً ہوگا۔

؎ ۲۵ یہ الفاظ یہاں حذف ہیں۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ــــــ ’’اس رقم کے وارث زید اور علی ہی ہوں تو زید کا حصہ ایک تہائی ہوگا‘‘ ــــــ تو اس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ــــــ ’’باقی دوتہائی علی کے لیے ہے۔‘‘

؎ ۲۶ اصل میں لفظ ’اخوۃ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ جمع ہے، لیکن اس طرح کے اسلوب میں جمع بیان عدد کے لیے نہیں، محض بیان وجود کے لیے آتی ہے۔ اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ بھائی بہنوں کی موجودگی میں، عام اس سے کہ وہ ایک ہوں یا دو، یا دو سے زیادہ ہوں، والدین کا حصہ اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے گا۔

؎ ۲۷ اصل الفاظ ہیں: ’فان کان لہ اخوۃ، فلامہ السدس‘۔ ان کے بعد بھی ’ولابیہ‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ حذف ہوگئے ہیں۔ اس میں جملوں کی تالیف اس طرح ہے: ’’اولاد ہو تو ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ۔ اولاد نہ ہو اور والدین ہی وارث ہوں تو ماں کے لیے تہائی، لیکن اگر بھائی بہن ہوں تو ماں کے لیے وہی چھٹا حصہ۔‘‘ اس میں دیکھ لیجیے، کلام خود پکار رہا ہے کہ ـــــ’’اور باپ کے لیے بھی وہی چھٹا حصہ۔‘‘ اس سے اشارہ نکلتا ہے کہ اولاد کی عدم موجودگی میں ان کا حصہ اب بھائی بہنوں کو ملنا چاہیے۔ یہ اشارہ واضح تھا، لیکن قرآن کے مخاطبین جب اس کو نہیں سمجھ سکے تو اس نے وضاحت فرما دی۔ یہ وضاحت اسی سورہ کے آخر میں بطور ضمیمہ درج ہے۔

؎ ۲۸ اس سے واضح ہے کہ وصیت کا حق باقی ہے، لیکن قرآن نے اس کے ساتھ آگے ’غیر مضار‘ کی شرط لگا دی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وصیت اتنی ہونی چاہیے جس سے وارثوں کی حق تلفی نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بنا پر نصیحت فرمائی ہے کہ یہ تہائی مال تک محدود رہے تو بہتر ہے۔

؎ ۲۹ سلسلۂ کلام کے بیچ میں یہ آیت جس مقصد کے لیے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ جن رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ نے کسی میت کے وارث قرار دیا ہے، ان کے بارے میں مبنی بر انصاف قانون وہی ہے جو اس نے خود بیان فرما دیا ہے۔ چنانچہ اس کی طرف سے اس قانون کے نازل ہو جانے کے بعد اب کسی مرنے والے کو محض رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیرائے ہوئے ان وارثوں کے حق میں وصیت کا حق باقی نہیں رہا۔ ان کے لیے کوئی وصیت اب اگر وہ کرے گا تو صرف اس صورت میں کرے گا، جب ان میں سے کسی کی کوئی ضرورت یا اس کی کوئی خدمت یا اس طرح کی کوئی دوسری چیز اس کا تقاضا کرتی ہو۔ اس لیے کہ جس منفعت کے کم یا زیادہ ہونے کا علم اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دیا گیا ہے، وہ رشتہ داری کی منفعت ہے۔ اس کا ان ضرورتوں اور منفعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے لیے معلوم اور متعین ہوتی ہیں۔

آیت کا اصل مدعا یہی ہے، لیکن اگر غور کیجیے تو اس سے یہ بات بھی نہایت لطیف طریقے سے واضح ہوگئی ہے کہ وراثت کا حق جس بنیاد پر قائم ہوتا ہے، وہ قرابت نافعہ ہے اور حصوں میں فرق کی وجہ بھی ان کے پانے والوں کی طرف سے مرنے والے کے لیے ان کی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہی ہے۔ چنانچہ لڑکوں کا حصہ اسی بنا پر لڑکیوں سے اور شوہر کا بیوی سے دوگنا رکھا گیا ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ والدین، اولاد، بھائی بہن، میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیرائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجائے سراسر مضرت بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علت حکم کا یہ بیان تقاضا کرتا ہے کہ اسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔

اسی طرح یہ رہنمائی بھی ضمناً اس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوار ہ جائے اور مرنے والے نے کسی کو اس کا وارث نہ بنایا ہو تو اسے بھی ’اقرب نفعًا‘ ہی کو ملنا چاہیے۔

آیت کے آخر میں تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ علیم وحکیم ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’۔۔۔یہ تقسیم اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم پیش وعقب، ہر چیز پر حاوی اور حاضر و غائب، سب پر محیط ہے۔ کسی کا علم بھی اس کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح اس کی ہر بات اور اس کے ہر کام میں نہایت گہری حکمت ہوتی ہے اور کسی کا بھی یہ مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی حکمت کی تمام باریکیوں کو سمجھ سکے۔ اس وجہ سے خدا کی اس تقسیم پر نہ تو اپنے علم وفلسفے کے غرے میں کسی کو معترض ہونا چاہیے، نہ جذباتی جنبہ داری کے جوش میں کسی کو کوئی قدم اس کے خلاف اٹھانا چاہیے۔ بسااوقات آدمی اپنے ذاتی میلان کی بنا پر ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے، لیکن یہ ترجیح دنیا اور آخرت، دونوں ہی اعتبارات سے غلط ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی کو اپنے ذاتی میلان کی بنا پر نظرانداز کرتا ہے، حالاں کہ بعد کے حالات ثابت کرتے ہیں کہ دنیا اور عقبیٰ، دونوں ہی اعتبار سے اس کا رویہ زیادہ صحیح رہا جس کو اس نے نظرانداز کیا۔ پس صحیح روش یہی ہے کہ آدمی جو قدم بھی اٹھائے، اپنے ذاتی میلانات کے بجائے شریعت کی ہدایت کے مطابق اٹھائے۔ اسی میں خیروبرکت ہے۔ جولوگ شریعت کے خلاف قدم اٹھاتے ہیں، وہ خدا کے علم و حکمت کی تحقیر کرتے ہیں جس کی سزا بالعموم انھیں دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں تو بہرحال ملنی ہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۲۶۱)    

[باقی    ]

ـــــــــــــــــــــــــ

*۴: ۱۷۶۔

B