HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

صبر اور شکر کی آزمایش

برادر عزیز سید منظورالحسن کو پیش آنے والا حادثہ ، ہمارے لیے صبر اور شکر ، دونوں آزمایشیں ایک ساتھ لے کر آیا ۔ جان لینے کی انتہائی انسانی کوشش اگر صبر کی متقاضی تھی تو جان بچانے کا غیر معمولی الہٰی اہتمام شکر کا ایک عظیم موقع تھا۔ صبر اور شکر، دونوں اللہ تعالیٰ کی توفیق کے محتاج ہیں اور آخرت کی کامیابی انھی لوگوں کا مقد رہے جن کے لیے یہ توفیق ارزاں ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی احسان ہے کہ اس نے دل گرفتگی اور پریشانی کے لمحات کو اپنے کرم سے مختصر کر دیا اور ہمارے رفیق کا ایک قدم اگر موت کی دہلیز پر تھا تو دوسرا زندگی کے آنگن میں۔ بلا شبہ وہ اس پر قادر ہے کہ زندگی سے موت اور موت سے زندگی کو جنم دے ۔ اس حادثے کا یہ پہلو تو وہ ہے جو منظور صاحب سے قرب رکھنے والوں سے متعلق ہے ۔ اس کے دوسرے پہلو کا تعلق ہماری اجتماعی زندگی سے ہے اور ہم اسی جانب سماج کے درد مند افراد کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جو مسائل نسبتاً جدید ہیں اور جن سے ہمارے اجتماعی وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں ، ان میں مذہبی معاملات میں اختلاف کے عدم برداشت کا مسئلہ سب سے سنگین ہے۔ یہ نصوص کی تاویل کا معاملہ ہویا ان سے استنباط احکام کا ، اگر کوئی ہم سے مختلف الخیال ہے تو ہمارے نزدیک اس کا ایمان معتبر ہے نہ اس کا اخلاص ۔ مذہبی قیادت کے مختلف درجات پر فائز حضرات اپنے متعلقین کو یہ بتاتے ہیں کہ ان سے مختلف رائے یا موقف رکھنے والے حضرات کا وجود دین کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور وہ امت کے لیے ایک فتنہ ہیں ۔ یہ بات یہاں پر تمام نہیں ہوتی ۔ مزید یہ کہا جاتا ہے کہ اس فتنے کی ’’سرکوبی‘‘ علما اور اہل حق کی ذمہ داری ہے ۔ ان حضرات کی تحریر و تقریر کا مخاطب اس ’’سرکوبی‘‘ کا مفہوم متعین کرنے میں آزاد ہے۔ وہ اگر اس کے لفظی مفہوم ہی کو درست سمجھتا ہے تو کلام کے سیاق و سباق یا اسلوب میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو اس تاویل میں مانع ہو ۔ بعض گروہوں کے ہاں یہ معاملہ چند قدم مزید طے کر چکا اور انھوں نے بعض مسلمانوں کے قتل کے فتوے بھی دے رکھے ہیں ۔

اگر ہم نے اس مسئلے کو ایک جدید مسئلہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے ابتدائی دور میں بالخصوص اور بعد کے ادوار میں چند مستثنیات کے ساتھ بالعموم صورت حال یہی رہی کہ نصوص کی تاویل اور ان سے احکام اخذ کر نے میں لوگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور معاشرے نے اس طرز عمل کو نہ صرف روا رکھا، بلکہ ایسے اختلافات کبھی باہمی احترام میں بھی رکاوٹ نہیں بنے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا سے رخصتی کے وقت سیدنا عمر فاروق نے اگر ایک مختلف موقف اختیار کیا تو اس کی وجہ محض جذبات نہیں تھے، بلکہ ان کے نزدیک یہ معاملہ ایک آیت کی تاویل کا تھا۔ سورۂ بقرہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْدًا.(۲ :۱۴۳)
’’ اور اس طرح ہم نے تمھیں ایک درمیان کی جماعت بنایا تا کہ تم لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دے۔‘‘

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں ان سے فرمایا: ’’آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت میں نے جو کچھ کہا، اس کا سبب کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے سورۂ بقرہ کی اس آیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں یہ خیال کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں اسی طرح موجود رہیں گے حتیٰ کہ اس کے آخری عمل کی بھی شہادت دیں۔ (سیرت ابن ہشام) گویا سیدنا عمر فاروق نے اس آیت میں شہادت کو عینی شہادت سے تعبیر کیا اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ بات ماننے سے انکار کیا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا سکتے ہیں۔ سیدنا ابو بکر کی تقریر سے وہ اس آیت کا صحیح مفہوم جان سکے۔ اس نوعیت کے کئی واقعات نقل کیے جا سکتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام میں آیات کے مفاہیم طے کرنے میں اختلاف ہو جاتا تھا۔ یہی معاملہ ارشادات پیغمبر علیہ السلام کی تاویل کا بھی ہے۔ جہاں تک استنباط احکام کا تعلق ہے تو اس میں موجود اختلافات پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر امام ابن تیمیہ نے بیان کیاہے کہ ایک سو کے قریب ایسے مسائل تھے جن میں سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عبداللہ ابن مسعود ایک دوسرے سے مختلف آرا رکھتے تھے۔ یہ اختلافات بعد کے ادوار میں بھی قائم رہے اور تبع تابعین کے دور میں کم از کم تیرہ فقہی مسالک موجود تھے۔

ان تمام ادوار میں ان اختلافات کو نہ صرف گوارا کیا گیا، بلکہ ان کی وجہ سے باہمی احترام اور مودت کے جذبات میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ہمارے اسلاف کے ہاں اس طرح کی کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ اختلاف کی بنا پر دوسرے کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکا ئے گئے ہوں یا ان کے متعلق فتوے دیے گئے ہوں۔ اس معاملے میں ان کی احتیاط کا جو عالم تھا، اس کا اندازہ خوارج کے معاملے میں امیر المومنین سیدنا علی کے طرز عمل سے کیا جا سکتا ہے۔ عقیدے اور سیاسی موقف، دونوں اعتبارات سے انھوں نے جو موقف اختیار کیا، اس کے بعد اگر اسلامی حکومت خوارج کے خلاف اقدام کا فیصلہ کرتی تو اس کا جواز موجود تھا، لیکن اس کے باوجود سیدنا علی کا موقف یہ تھا کہ اپنے ان خیالات کے باوجود اگر وہ اسلامی حکومت کے خلاف جنگ نہیں کرتے تو ان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جائے گی۔ ان کے اقدام کے نتیجے میں امیر المومنین کی شہادت ہوئی، لیکن انھوں نے ان کے خلاف تلوار استعمال نہیں کی، بلکہ حضرت ابن عباس نے ان کے ساتھ گفتگو کی اجازت چاہی تو حضرت علی نے اس سے منع نہیں کیا۔ ابن عباس اور خوارج کا مکالمہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے اور اسے ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔ گویا یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس امت میں نصوص کی تاویل اور فقہی اختلاف سے لے کر سیاسی اختلاف تک، ہر دوسری رائے کو گوارا کیا گیا۔ یہ بات تو کبھی اختلافی نہیں رہی کہ اگر کسی گروہ یا فرد کے خلاف کسی وجہ سے کوئی اقدام ناگزیر بھی ہے تو اس کا حق صرف ریاست کو ہے۔ یہ بات ہمارے اسلاف کے کبھی حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئی ہے کہ کوئی فرد یا گروہ بغیر اقتدار کے کسی کی جان لینے کا استحقاق رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے ایک جدید مسئلہ کہتے ہیں جس کے تحت افراد اور گروہ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر دوسروں کے خلاف اقدام کی ترغیب دیتے ہیں۔

ہمارے نزدیک کسی فرد یا گروہ کے ساتھ اگر اختلاف ہو جائے، قطع نظر اس کے کہ وہ اصولی ہے یا فروعی، اپنی حقیقت میں مذہبی ہے یا سیاسی، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اہل علم کی جو ذمہ داری بیان ہوئی ہے، وہ انذار ہے۔ (التوبہ۹: ۱۲۲) اس انذار کی حکمت عملی بھی قرآن نے بیان کی ہے جس کی تفصیل نکات کی صورت میں کچھ اس طرح کی جا سکتی ہے:

۱۔اگر آپ کے نزدیک کسی فرد یا گروہ کی رائے کسی معاملے میں غلط ہے تو آپ اس تک اپنی بات اچھے اسلوب میں اور حکمت کے ساتھ پہنچائیں ۔ ارشاد ہوا: ’’اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو، اس طریقے سے جو پسندیدہ ہو۔‘‘ (النحل۱۶: ۱۲۵)

یعنی اگر آپ کے موقف میں ایک طرف دلائل و براہین ہوں تو دوسری طرف درد مندی اور نصیحت کا جذبہ ہو۔ یہاں تک کہ اگر معاملہ بحث و مباحثے تک جا پہنچے تو بھی شایستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔

۲۔انذار کی نوعیت یہ ہے کہ یہ کام صرف دعوت تک محدود ہے۔ اگر ایک آدمی نے کسی دوسرے فرد کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ ایک غلط موقف پر قائم ہے تو وہ اس تک اچھے اسلوب میں اپنی بات پہنچا دے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ کسی شخص یا گروہ کے افکار سے کوئی عمومی گمراہی پیدا ہو رہی ہے، تو وہ ابلاغ کے ہر ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے عامۃالناس کو وہ بات پہنچا سکتا ہے جو اس کے خیال میں صحیح ہے۔ اس کے بعد اس کی ذمہ داری تمام ہو جاتی ہے۔ اس کے آگے بڑھ کر وہ کوئی اقدام کرتا، لوگوں میں اشتعال پیدا کرتا اور فساد کی کیفیت کو جنم دیتا ہے تو بلا شبہ یہ اپنی حدود سے تجاوز ہے جس کا کوئی حق اسے حاصل نہیں ہے۔ لوگوں کی زندگی، موت اور آخرت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کو کرنا ہے اور اس میں مداخلت جتنا سنگین جرم ہے، اس کا اندازہ دین کے ہر طالب علم کو اچھی طرح ہونا چاہیے۔

قرآن مجید نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

فَذَکِّرْ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْْہِمْ بِمُصَیْْطِرٍ.(الغاشیہ ۸۸ :۲۱۔۲۲)
’’ تم یاد دہانی کر دو، (اے پیغمبر )تم بس یاد دہانی کرنے والے ہی ہو، تم ان پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔‘‘

ایک اور جگہ فرمایا :

فَاِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْْنَا الْحِسَابَُ.(الرعد۱۳ :۴۰)
’’سو تم پر پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اور (ان کا) حساب تو ہمیں ہی لینا ہے۔‘‘

آج ہم نے مذہبی اختلافات کو جس سطح تک پہنچا دیا ہے اور ہماری مذہبی قیادت نے جس طرح دعوت کے منصب کو چھوڑتے ہوئے ’’فتنوں کی سرکوبی‘‘ کو اپنا مشن قرار دیا ہے، اس سے واقعہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر پیدا ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں جہاں خود مذہب کے لیے منفی جذبات پروان چڑھے ہیں وہاں معاشرتی امن بھی شدید خطرات کی زد میں ہے ۔ آج ہماری مذہبی قیادت کی بدرجۂ اولیٰ یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صورت حال کی شدت کو محسوس کرے اور آگے بڑھ کر وہ فضا پیدا کرنے کی سعی کرے جس میں تاویل اور تشریح کے اختلاف کو گوارا کیا جائے اور اس بنیاد پر کسی کو قابل گردن زدنی قرار نہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ اس سماج کے درد مند لوگوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ اس معاشرے میں لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کیسے ممکن ہے ۔ دیگر امور کے ساتھ اس بات کو بہرطور ہمیں ایک بنیادکے طورپر پیش نظر رکھنا ہو گا کہ کسی انسان کی جان لینا اسلام میں ایک شدید جرم ہے اور اگر کسی حق کی وجہ سے ایسا کر نا ضروری ہے تو اس کا اختیار بھی صرف اورصرف نظم اجتماعی یعنی ریاست کو حاصل ہے ۔

برادر عزیز سید منظور الحسن کو پیش آنے والا حادثہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے ۔ ایسا ہر حادثہ ہمیں اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ اس معاشرے کو فساد سے بچانا حیات اجتماعی کے لیے کتنا ضروری ہے اور اس مقصد کے لیے ناگزیر ہے کہ لوگوں میں اختلاف رائے کے ساتھ جینے کا سلیقہ پیدا کیا جائے۔

 _________________

B