(مسلم، رقم ۳۹)
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّ الْإِسْلَامِ خَیْرٌ؟ قاَلَ: تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تو کھانا کھلائے اور سلام کہے اسے بھی جسے تو جانتا ہے اور اسے بھی جسے تو نہیں جانتا۔ ‘‘
رجلا: کوئی آدمی۔ ابن حجر نے لکھا ہے کہ صحیح ابن حبان میں ان کا نام ہانی بن یزید (شریح کے والد) آیا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ ابوذرر ضی اللہ عنہ تھے۔
ای الإسلام خیر: شارحین نے اس ترکیب میں’ خصال‘ کے لفظ کو مقدر مانا ہے۔ یعنی اسلام کی کون سی خصال بہتر ہیں۔ دوسری روایات میں یہی سوال ’ای المسلمین خیر‘ کے لفظوں میں بھی پوچھا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہاں بھی اسلام بول کر مسلم ہی مراد ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یہاں اسلام بول کر اس کے اعمال مراد لیے گئے ہوں۔ جیسے کہ اسی روایت کے ایک دوسرے متن میں یہ سوال ’ای الأعمال خیر‘ کے الفاظ میں منقول ہے۔
تطعم الطعام: تو کھانا کھلاتا ہے۔ ہم نے اس کا ترجمہ ’تو کھانا کھلائے‘ کیا ہے۔ امر کے محل پر فعل مضارع کا استعمال زیادہ بلیغ ہے۔ یہ اسلوب وہاں اختیار کیا جاتا ہے جہاں کوئی وقتی حکم پیش نظر نہ ہو، بلکہ ایک مستقل خصلت کی طرف رہنمائی مقصود ہو۔
انسان کی شخصیت کئی دائروں میں گھری ہوئی ہے۔ یعنی انسان کی کئی حیثیتیں ہیں۔ اس کی ہر حیثیت میں کچھ اعمال خیر ہیں اور کچھ اعمال شر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوع کی گفتگووں میں مخاطب کی ضرورت یا سوال کی رعایت سے انھی دائروں یا حیثیت کے اعتبار سے جواب دیے ہیں۔ زیر بحث روایت کے مکالمے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرت کے ایک دائرے کو پیش نظر رکھا ہے۔ ہمارا انسانوں کے ساتھ تعلق کئی پہلووں سے قائم ہوتا ہے۔ یہاں ان میں سے عمومی میل جول کے حوالے سے دو چیزوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ایک ہر آدمی کو سلام کرنا اور دوسرے اپنے ملنے جلنے والوں کو کھانا کھلانا۔ پہلی چیز اسلامی شعار ہے۔ ہمارے دین میں یہ ادب مقرر کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان دوسرے کو ملے گا تو اس کے لیے دنیا اور آخرت میں سلامتی کی دعا کرے گا۔ اس دعا کے الفاظ بھی مقرر ہیں۔ یعنی پہل کرنے والا ’السلام علیکم‘ اور جواب دینے والا ’وعلیکم السلام‘ کہتا ہے۔ دوسری چیز ملنے والے کی تواضع ہے۔غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملنے والوں کو کھلانا پلانا درحقیقت ان سے ہمارے تعلق کے اظہار کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ ہر تہذیب میں مہمان نوازی ایک قدر کی حیثیت سے جانی جاتی ہے اور اس کے برعکس رویہ رکھنے والے پسندیدہ قرار نہیں دیے جاتے۔قرآن مجید میں ہر اس انسان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے جس کے ساتھ ہمارا تعلق قائم ہو گیا ہو اور خواہ یہ تعلق عارضی نوعیت ہی کا کیوں نہ ہو:
وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْءًا، وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا، وَّبِذِی الْقُرْبٰی،وَالْیَتٰمٰی، وَالْمَسٰکِیْنِ، وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ، وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ، وَابْنِ السَّبِیْلِ، وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا.(النساء۴ :۳۶)
’’اللہ کی بندگی کرو اور کسی چیز کواس کا ساجھی نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور رشتہ داروں،یتیموں، فقیروں، قرابت مند پڑوسی، اجنبی پڑوسی، ہم پہلو، مسافر اور غلاموں کے ساتھ بھی۔ اس لیے کہ اللہ اترانے والوں اور بڑائی مارنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اس آیۂ کریمہ کے آخری حصے میں اس کے برعکس رویے کے محرک کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ یعنی صرف وہ لوگ ہی حسن سلوک کرنے سے عاری رہتے ہیں جو اترانے والے اور بڑائی مارنے والے ہوں۔اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حسن سلوک وہی کر سکتا ہے جس میں تواضع ہو اور جو اپنے بارے میں کسی زعم میں مبتلا نہ ہو۔ وہ ہر حاصل کو اللہ تعالیٰ کی عنا یت سمجھتا ہو اور دوسروں کو حقیر نہ جانتا ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے سکھائے ہوئے اسی حسن سلوک کے دو مظہر اس روایت میں بیان کر دیے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اس سوال کا جواب مثبت پہلوسے بیان کیا ہے۔ اسی نوع کے سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا تھا: ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘ اس جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز سے روکا ہے جسے بد سلوکی کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک کے منفی اور مثبت پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگووں میں بیان کیے ہوں گے۔ لیکن ان میں سے یہی چند ارشادات روایت ہو سکے ہیں۔
اس روایت کے ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا سلام کرنے میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق ہے۔ اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک انھی علما کی رائے قرین صواب ہے جو اس کی تخصیص نہیں مانتے۔ اس کی وجہ یہ کہ یہ مسلمانوں کا شعار ہے۔ چنانچہ وہ ملنے ملانے کے موقع پر اپنے شعار کے مطابق ہی عمل کریں گے۔
اس روایت کے متون میں بہت معمولی فرق ہیں۔ بعض روایات میں رسول کی جگہ نبی کا لفظ آیا ہے اور بعض میں الاسلام کی جگہ اعمال کا لفظ روایت ہوا ہے۔ البتہ اس سے ملتی جلتی ایک دوسری روایت بھی کتب روایت میں ملتی ہے۔ ہم یہاں اس کا پورا متن نقل کرتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اعْبُدُوا الرَّحْمٰنَ، وَاَطْعِمُوا الطَّعَامَ وافْشُوا السَّلَامَ وادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ.(ترمذی، رقم ۱۸۵۵)
’’ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحمان کی عبادت کرو، (لوگوں کو) کھانا کھلاؤ، سلام کو پھیلاؤ، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔‘‘
بخاری، رقم۲۸، ۱۲، ۵۸۸۲۔ مسلم، رقم۳۹ ۔ ابوداؤد، رقم۱۸۵۴۔ نسائی، رقم ۵۰۰۰۔ ترمذی، رقم۱۸۵۴، ۱۸۵۵۔ ابن ماجہ، رقم۳۲۵۳۔ احمد، رقم۶۵۸۱، ۶۴۵۰، ۶۵۸۷، ۶۸۴۸۔ ابن حبان، رقم۵۰۵۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۳۱۔
__________________