HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘ (۶)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حکمت قرآن مئی ۲۰۰۶ کے شمارے میں حافظ محمد زبیر صاحب کے مضمون کی چھٹی قسط شائع ہوئی۔ اس قسط کا جواب پیش خدمت ہے۔ انھوں نے چہرے کے پردے کے عدم وجوب میں پیش کی جانے والی چوتھی، پانچویں اور چھٹی دلیل کی تردید کی ہے، گویا کہ اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی صرف چھ دلیلیں ہیں حالاں کہ علامہ البانی نے ۱۳ صحیح احادیث اور ۱۶ آثار پیش کیے ہیں۔ مگر صرف چھ دلائل کا جواب دے کر حافظ صاحب کے ترکش کے سب تیر ختم ہوگئے۔

چوتھی دلیل سنن ابی داؤد کی وہ روایت ہے جو ’’کتاب اللباس‘‘ میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ’’اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں۔ انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ نے منہ موڑ لیا اور فرمایا کہ جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ اس کے سوا اس کے بدن کا کوئی اور حصہ نظر آئے اور آپ نے چہرے اور دونوں ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔‘‘ صاحب مضمون نے غلط طور پر ’لم تصلح‘ کا صیغہ لکھا ہے، جبکہ روایت میں ’لم یصلح‘ ہے۔ غالباً انھوں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ اس کا فاعل ’المراۃ‘ کو قرار دیا جائے۔ یہ تحریف ہے۔ صاحب مضمون کی یہ بات بھی غلط ہے کہ علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے بارے میں علامہ البانی کا موقف اور تحقیق پیش کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس کے راوی خالد بن دریک اور سعید بن جبیر پر صاحب مضمون کی جرح کا جواب دیں۔

حنفی فقہ کی کتاب ’’منیۃ المصلی‘‘ کی شرح ’’المجلی لما فی منیۃ المصلی‘‘ (ص۱۷۵) کا اقتباس اس سلسلہ میں قول فیصل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ:

’’ہمارے (احناف) اور جمہور علما کے نزدیک مرسل روایت قابل قبول ہے۔ خالد بن دریک کا تعلق اگرچہ طبقۂ ثالثہ (تیسرے طبقہ) سے ہے، لیکن حضرت عائشہ اور ام سلمہ سے اس کا سماع کچھ بعید نہیں۔ اس کا کافی امکان ہے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں اس پر تحقیق کی ہے۔ ابن معین اور نسائی نے خالد کو ثقہ قرار دیا ہے۔ ائمہ میں سے ایوب سختیانی، ابن عون اور اوزاعی نے اس سے روایت کی ہے۔ ابن حجر کا قول ہے کہ وہ ثقہ ہے اور حضرت عائشہ اور ابن عمر سے مرسل روایت کرتا ہے... خالد ثقہ راوی ہے اور جیسا کہ محقق امیر حاج نے ’’الحلیۃ‘‘ میں کہا ہے کہ ثقہ کی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے۔‘‘

سعید بن بشیر کے متعلق شعبہ کا قول ہے کہ ’صدوق اللسان‘ (زبان کا بہت سچا) ہے۔ ابو حاتم کا قول ہے کہ ’محلہ الصدق‘۔ ابن الجوزی کا قول ہے کہ شعبہ اور وحیم نے اسے ثقہ گردانا ہے۔ ابن عدی کا قول ہے کہ ’’اس کی روایت میں کوئی ہرج نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ وہم اور غلطی کا شکار ہو۔ اہل دمشق کے پاس اس کی بہت سی تصانیف تھیں۔ میں نے بھی اس کی تصنیف دیکھی ہے۔ اس پر صدق غالب ہے۔‘‘ ہمارے نزدیک تعدیل جرح پر مقدم ہے خاص طور پر اگر وہ شعبہ اور وحیم جیسے سخت گیروں کی طرف سے ہو۔ بخاری نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں سوء حفظ کے سوا اور کوئی نقص نہیں، مگر قسوی نے ابومسہر سے روایت کی ہے کہ ہمارے شہر میں حافظے کے لحاظ سے اس سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ ابن عیینہ کا قول ہے کہ وہ حافظ ہے۔زیادہ درستی کی موجودگی میں معمولی سی غلطی معاف ہوتی ہے، جیسا کہ ابن حبان کا قول ہے کہ بڑے ثقہ ائمہ بھی وہم اور غلطی سے مبرا نہیں ہوتے پھر اتقان (پختگی) میں تھوڑی سی کوتاہی راوی کو صحت سے حسن کے درجہ تک تو نازل کر سکتی ہے، مگر ضعف کے درجہ تک بالکل نہیں۔

علامہ البانی ’’جلباب المراۃ‘‘ کے صفحہ (۵۷۔۵۸) میں لکھتے ہیں کہ اگر اس روایت میں ارسال کی علت نہ ہوتی جس کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تو یہ اس بات کی واضح دلیل تھی کہ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھ کھلے رکھنے جائز ہیں، مگر جو بات اسے تقویت بخشتی ہے وہ اس کا درج ذیل طریقوں سے مروی ہونا ہے۔

۱۔ اسے ابوداؤد نے مراسیل (نمبر۴۳۷) میں صحیح سند کے ساتھ قتادہ سے روایت کیا ہے۔ یہ صحیح مرسل ہے جسے دوسری روایات سے تقویت ملتی ہے۔ اس میں نہ ابن دریک ہے نہ ابن بشیر۔

۲۔اسے طبرانی نے ’’الکبیر‘‘ (۲۴: ۱۴۳) اور ’’الاوسط‘‘ (۲: ۲۳۰) میں روایت کیا ہے۔ ھیثمی نے طبرانی کی روایت بیان کرنے کے بعد ’’مجمع الزوائد‘‘ (۵: ۱۷۳) میں لکھا ہے اس میں راوی ابن لہیعہ ہے جس کی حدیث حسن ہے۔ اور اس کے باقی راوی صحت کے مقام پر ہیں۔

۳۔ امام بیہقی نے اسے ایک اور طریقے سے روایت کیا ہے۔ وہ ’الا ما ظہر منھا‘ کے متعلق ابن عباس کے قول کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں۔ اس مرسل روایت کے ساتھ صحابہ کے اس قول کو شامل کر لیجیے جو اس بارے میں ہے کہ اللہ نے زینت ظاہرہ میں سے کیا مباح کیا ہے تو یہ روایت قوی ہوجاتی ہے۔

امام ذھبی نے ’’تہذیب سنن البیہقی‘‘ (۱: ۳۸) میں امام بیہقی کے قول کی تائید کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’جن صحابہ کی طرف بیہقی نے اشارہ کیا ہے ان سے مراد حضرت عائشہ، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن عباس ہیں۔ علما کا قول ہے کہ زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ یہ ابن عمر کے الفاظ ہیں پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے اس مفہوم کو عطاء بن ابی رباح اور سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے اور امام اوزاعی کا بھی یہی قول ہے۔‘‘

۴۔ ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۴: ۲۸۳) میں روایت بیان کی ہے کہ زیاد بن ربیع نے ہم سے حدیث بیان کی اس نے صالح الدھان سے سنی اس نے جابر بن زید سے اس نے ابن عباس سے انھوں نے کہا: ’’’الا ما ظہر منھا‘ سے مراد ہاتھ اور چہرے کی ٹکڑی ہے۔‘‘ جیسا کہ اس روایت کو اسماعیل قاضی نے صحیح سند سے پیش کیا ہے۔ ابن نجیم نے ’’البحرالرائق‘‘ (۱: ۲۸۴) میں لکھا ہے کہ اسماعیل قاضی نے ابن عباس کی روایت کو مرفوعاً جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ پھرا بن ابی شیبہ نے مذکورہ اثر کے ساتھ ابن عمر کا اثر بیان کیا ہے جس کی سند بھی صحیح ہے۔ جمہور صحابہ بھی اسی حدیث پر عمل پیرا رہے ہیں۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر جمہور علما مرسل حدیث پر عمل کریں تو وہ قوی ہو جاتی ہے۔ علامہ موفق الدین ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۲) میں لکھتے ہیں کہ ’’امام احمد نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے دو اقوال میں سے صحیح تر یہی ہے کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں۔‘‘ ابی داؤد کی شرح ’’عون المعبود‘‘ (۱۱: ۱۶۴) میں ہے کہ ’’یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں پس اجنبی کے لیے جائز ہے کہ وہ اجنبی عورت کے چہرے پر نظر ڈالے بشرطیکہ فتنہ کا ڈر نہ ہو۔ (یعنی فتنہ نظر کا فتنہ ہے) منذری، زیلعی، عسقلانی، بیہقی اور شوکانی کے پائے کے محدثین نے اس روایت کی تقویت کی ہے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ یہ تصریحات صاحب مضمون کے خیال کی تردید کے لیے کافی ہیں۔

جہاں تک صاحب مضمون کی بیان کردہ چوتھی علت کا تعلق ہے۔ امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ ’سدل‘ کے بارے میں حضرت عائشہ کا احرام والی عورت کے بارے میں یہ قول نقل کیا ہے: ’ تسدل الثوب علی وجہہا ان شاء ت‘ یعنی ’’اگر عورت چاہے تو کپڑا اپنے چہرے پر لٹکا سکتی ہے۔‘‘ اس پر علامہ البانی فرماتے ہیں کہ ’’میں کہتا ہوں کہ احرام والی عورت کو حضرت عائشہ کا ’سدل‘ کے بارے میں اختیار دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک چہرہ قابل پوشیدگی نہیں ہے، وگرنہ وہ ’سدل‘ کو احرام والی عورت پر واجب قرار دیتیں۔‘‘

جس حدیث کو صاحب مضمون نے انتہائی ضعیف کہا ہے اسے اکثر مفسرین نے ابن عباس کے قول کی تائید میں پیش کیا ہے۔ ان میں ابن کثیر جیسے محدث بھی شامل ہیں۔ قارئین کی تسلی کے لیے میں اللہ تعالیٰ کے قول ’ الا ما ظہر منھا‘ (۲۴:۳۰) کی تفسیر کے اقتباسات قدیم وجدید مفسرین کی کتابوں سے پیش کروں گا جس سے زیرنظر حدیث اور ابن عباس کے قول کی ثقاہت واضح طور پر معلوم ہوجائے گی۔

امام طبری تفسیر بالروایہ کے امام گردانے جاتے ہیں۔ وہ جامع البیان مطبوعہ دارالفکر (۱۰: ۱۱۹) میں حضرت عائشہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ’’میرے ماں جائے بھائی عبداللہ بن طفیل کی بیٹی بن ٹھن کر میرے پاس آئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب آئے تو آپ نے (دیکھ کر) منہ موڑ لیا۔ حضرت عائشہ نے کہا: اے اللہ کے رسول، وہ میری بھتیجی ہے اور (ابھی) لڑکی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب عورت کو حیض آجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ چہرے کے سوا اور اس سے نیچے کے سوا (آپ نے اپنا بازو پکڑا اور اپنی مٹھی اور ہتھیلی کے درمیان مٹھی بھر جگہ چھوڑ دی) کوئی عضو کھلا رہے۔‘‘ ابو علی رازی نے اسے اشارۃً بتایا۔ اس کا طریق اگرچہ سنن ابی داؤد کی روایت سے مختلف ہے، مگر مضمون وہی ہے۔ امام طبری مختلف روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں صحیح ترین قول اس قائل کا ہے جو ’الا ما ظہر منھا‘ سے چہرہ اور ہتھیلیاں مراد لیتا ہے۔... ہم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ ہر نمازی نماز کے دوران میں اپنا ستر واجبی طور پر ڈھانپے رکھے۔ اور عورت کو اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں کھلی رکھنی چاہییں اور باقی سارا بدن ڈھانپے رکھے۔... جب اس بات پر اجماع ہے تو معلوم ہوا کہ عورت اپنے بدن کے اس حصہ کو کھلا رکھ سکتی ہے جو ستر میں شامل نہیں، جیسا کہ مردوں کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، کیونکہ جو ستر نہیں اسے کھلا رکھنا حرام نہیں۔ جب وہ اس کا اظہار کرسکتی ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ نے اپنے قول ’الا ما ظہر منھا‘ میں اسی کو مستثنیٰ کیا ہے، کیونکہ یہی وہ سب کچھ ہے جو اس کا ظاہر رہتا ہے۔ (یعنی چہرہ اور ہتھیلیاں) تفسیر ابن ابی حاتم رازی مطبوعہ نزار مصطفی مکۃ المکرمہ (۸: ۲۵۷۴۔۲۵۷۵) میں ’الا ما ظہر منھا‘ کے سلسلہ میں تین اقوال کا ذکر کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا قول یہ ہے کہ ہمیں حدیث سنائی الاشج نے اسے سنائی ابن نمیر نے اس نے روایت کی اعمش سے اس نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے عباس سے کہ اس سے مراد چہرہ اور دونوں ہاتھ اور انگوٹھی ہیں۔ ابن عمر، عطاء بن ابی رباح، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، ضحاک، عکرمہ، ابی صالح اور زیاد بن ابی مریم نے اسی قسم کی روایت کی ہے۔

دوسرا قول ابن مسعود کا ہے کہ اس سے مراد ظاہری کپڑے ہیں۔ حسن ابن سیرین نے یہ روایت کی ہے۔ ابی صالح، ماھان، ابی الجوزاء اور ابراہیم کی ایک روایت یہی ہے۔ تیسری روایت، ہمیں ابوزرعہ نے حدیث سنائی اسے یحییٰ بن عبداللہ نے اسے ابن لہیعہ نے اس نے عطاء سے روایت کی اس نے ابن جبیر سے کہ اللہ کے قول ’الا ما ظہر منھا‘ سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ چہرے کی زینت سرمہ اور ہاتھوں کی زینت مہندی ہے، اجنبی کے لیے ان دونوں کے علاوہ کسی اور عضو کا دیکھنا جائز نہیں۔

امام رازی ’’تفسیر کبیر‘‘ (مطبوعہ ایران) (۲۳: ۲۰۵) میں لکھتے ہیں: ’’قفال کا قول ہے کہ آیت کے معنی ہیں کہ سوائے اس کے جس کا اظہار انسان عادت جاریہ میں کرتا ہے۔ عورتوں میں یہ چیز چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں ہیں اور مردوں میں چہرہ اور اس کا گردونواح، دونوں ہاتھ اور پاؤں۔ پس حکم ہوا اسے چھپاؤ جسے کھلا رکھنے کی ضرورت نہیں اور اسے کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی جو عادتاً کھلا رہتا ہے، کیونکہ شریعت اسلام ایک آسان اور روادار شریعت ہے۔ چہرے اور ہاتھوں کو ظاہر کرنا چونکہ ضروری ہے، اس لیے علما نے بدیہی طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ ستر میں شامل نہیں۔‘‘

زمخشری کا ذہن چہرے کے پردے کے بارے میں بالکل صاف ہے۔ وہ ابن عباس اور ابن مسعود کے اقوال نقل کیے بغیر ’’الکشاف‘‘ مطبوعہ دارالمعرفہ (۳: ۶۱) میں کہتے ہیں: ’’اگر آپ پوچھیں کہ زینت ظاہرہ کے اظہار کی مطلقاً اجازت کیوں دی گئی ہے تو میرا جواب ہے کہ اس کے چھپانے میں تنگی ہے۔ عورت کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے چیزیں لے اور دے اور اپنا چہرہ کھلا رکھے خاص طور پر شہادت، مقدمات اور نکاح کے موقع پر۔ اسے راستوں پر چلنا پڑتا ہے اور اس کے پاؤں دکھائی دیتے ہیں خاص طور پر تنگ دست اور محتاج عورتوں کے (جن کے پاس موزے اور کبھی کبھی جوتا بھی نہیں ہوتا) اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے قول ’الا ما ظہر منھا‘ کا یعنی سوائے اس کے جو عادتاً اور فطرتاً ظاہر ہوجائے اور اس میں ظہور ہی اصل چیز ہے۔‘‘ دیکھا پانچویں چھٹی ہجری کے بالغ نظر مفسر نے عورت کی مشکلات کا اندازہ کرلیا جبکہ بیسویں صدی عیسوی کے محقق کی نظروں سے یہ مشکلات اوجھل ہیں۔

امام ابوالبرکات نسفی کا ذہن بھی زمخشری کی طرح بالکل صاف ہے۔ وہ مختلف اقوال کا ذکر کیے بغیر اپنی قطعی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’’الا ما ظھر‘ سے مراد وہ زینت ہے جو بطور عادت اور جبلت ظاہر ہو اور اس سے مراد چہرہ، ہاتھ اور پاؤں ہیں جن کے چھپانے میں عورت کو دقت محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ اسے چیز لیتے دیتے وقت لازمی طور پر ہاتھوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے اور شہادت، مقدمات اور نکاح کے موقع پر چہرہ کھلا رکھنا پڑتا ہے اور نادار عورتوں کو راستوں پر چلتے سمے پاؤں کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔‘‘

تفسیر خازن مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت (۳: ۳۲۶) میں لکھا ہے کہ ’’اگر فتنے اور شہوت کا ڈر ہو تو اجنبی نگاہیں نیچی کرلے۔ عورت کے لیے چہرہ اور ہاتھوں کو ظاہر کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ وہ ستر میں شامل نہیں اور نماز میں بھی انھیں کھلا رکھنے کا حکم ہے۔ باقی ماندہ بدن ستر ہے۔‘‘ اس میں اہم بات یہ ہے کہ فتنہ کی صورت میں مرد کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم ہے نہ کہ عورت کو چہرہ چھپانے کا۔

امام قرطبی اپنی تفسیر جامع احکام القرآن (۱۲: ۲۲۹) میں پہلے ابن عطیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ استثنا میں وہ زینت شامل ہے جسے غالباً ضرورت حرکت کی وجہ سے ظاہر کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ہو اور اس کا سبب اصلاح احوال ہو۔ اس بنا پر ہر و ہ زینت جسے ضرورت کے تحت ظاہر کرنا پڑے اس میں عورت کو چھوٹ دی گئی ہے۔ امام قرطبی اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ یہ قول خوب ہے، مگر عام طور پر چہرے اور ہاتھوں کو عادتاً اور عبادتاً (جیسا نماز اور حج میں) کھولنا پڑتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کا استثنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو ابوداؤد نے حضرت عائشہ سے بیان کی ہے۔ روایت کا متن بیان کرنے کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ احتیاط اور لوگوں کے اخلاقی بگاڑ کے پیش نظر یہی بات قوی معلوم ہوتی ہے۔ امام قرطبی کے قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیربحث روایت قابل حجت ہے۔ اور اللہ نے فتنہ کو سامنے رکھ کر چہرے اور ہاتھوں کا استثنا رکھا ہے۔

حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر (۳: ۲۸۳) میں ایک طرف ابن مسعود، حسن اور ابن سیرین کے اقوال اور دوسری طرف ابن عباس، ابن عمر، عطاء، عکرمہ، سعید بن جبیر، ابوالشعثاء، ضحاک اور ابراہیم نخعی کے اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’دوسرا احتمال یہ ہے کہ ابن عباس اور ان کے ہمنوا ’الا ما ظھر منھا‘ کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کرتے ہیں اور جمہور علما کے یہاں یہی قول مشہور ہے اور اس کے لیے اس حدیث کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے جسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘ انھوں نے اس حدیث کو مرسل ضرور کہا ہے، مگر صاحب مضمون کی طرح نہایت ضعیف نہیں کہا۔ ان کے الفاظ ہیں کہ اس حدیث سے استیناس کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ وہ اسے قابل حجت سمجھتے ہیں۔ صاحب مضمون کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ثقہ کی مرسل امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک قابل حجت ہے۔ امام شافعی کے قول کا بھی اوپر حوالہ دیا جاچکا ہے کہ اگر اکثر علما کا عمل اس حدیث پر ہوتو وہ قوی ہوتی ہے۔

الدرالمنثور دارالمعرفہ بیروت (۵: ۴۱۔۴۳) میں ابن مسعود پھر ابن عباس اور ان کے ہم خیال تابعین عکرمہ، سعید بن جبیر، عطاء، قتادہ اور ابن جریج کے اقوال کا ذکر ہے۔ پھر اس روایت کو نقل کیا گیا ہے جو حضرت عائشہ سے طبری نے روایت کی ہے اور جس کا مضمون وہی ہے جو ابوداؤد کی روایت کا۔ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد جلال الدین السیوطی نے ابوداؤد کی زیربحث روایت کو بھی تائیداً نقل کیا ہے۔

روح المعانی مطبوعہ دارالفکر (۹: ۱۴۰۔۱۴۱) میں لکھا ہے کہ ’’امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے کہ زینت ظاہرہ کا موقع اور محل، چہرہ، ہاتھ اور پاؤں ہیں۔ یہ مطلقاً ستر میں شامل نہیں اور ان کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں۔ ابوداؤد، ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے (اس کے بعد زیربحث روایت کا پورا متن نقل کیا گیا ہے)۔ ابن ابی شیبہ اور عبدبن حمید نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ کے قول ’الا ما ظہر منھا‘ سے مراد چہرے کی ٹکڑی اور ہتھیلیوں کا اندرونی حصہ ہے۔ ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور دونوں ہتھیلیاں ہیں۔ ان دونوں (ابن عباس اور ابن عمر) کے نزدیک غالباً پاؤں بھی ہاتھوں کی مانند ہیں، مگر قیاس پر اکتفا کرتے ہوئے انھوں نے اس کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ ان کے چھپانے میں ہاتھوں سے بڑھ کر تنگی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر عرب کی ان تنگ دست اور محتاج عورتوں کو جنھیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے راستوں پر چلنا پڑتا ہے۔‘‘

قابل غور بات یہ ہے کہ صاحب روح المعانی نے زیربحث آیت کو بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اور ابن عباس اور ابن عمر کے اقوال سے اس روایت کی تائید کی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے زمخشری کی طرح پردے کے احکام میں تنگ دست عورتوں کی مشکلات کو پیش نظر رکھا ہے۔ آج کل کے داعیان شرعی پردہ کی طرح اسے شہروں میں رہنے والے پانچ فی صد طبقات تک محدود نہیں کیا۔

سید قطب فی ظلال القرآن (۴: ۲۵۱۲) میں فرماتے ہیں کہ جہاں تک چہرے اور ہاتھوں کا تعلق ہے ان کا ظاہر کرنا جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے فرمایا۔ آگے انھوں نے زیربحث روایت کا حوالہ دیا ہے۔

قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی تفسیر مظہری (۶: ۴۹۳) میں فرماتے ہیں کہ ابوحنیفہ، مالک، احمد اور شافعی کے نزدیک چہرہ اور ہتھیلیاں مستثنیٰ ہیں، کیونکہ ترمذی نے عبداللہ بن مسلم بن ھرمز کے واسطہ سے سعید بن جبیر اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ظاہری زینت سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ عطاء نے حضرت عائشہ سے اسی قسم کی روایت کی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مستثنیٰ چہرہ، دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں ہیں۔ امام شافعی کا مشہور قول ہے کہ مراد صرف چہرہ ہے، کیونکہ طبرانی نے مسلم الاعور کے واسطے سے سعید بن جبیر اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد سرمہ ہے۔ اس کی موافقت وہ روایت کرتی ہے جسے بیہقی نے حفیف سے انھوں نے عکرمہ سے اور انھوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ چہرہ تو متفقہ طور پر علما کے نزدیک مستثنیٰ ہے اور دونوں ہاتھوں کو امام ابوحنیفہ اور مالک نے اور امام شافعی اور احمد نے اپنے ایک ایک قول میں مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ہدایہ میں ہے کہ ’’مردوں کے لیے اجنبی عورت کا صرف چہرہ اور ہاتھ دیکھنے جائز ہیں، کیونکہ اللہ نے ’الا ما ظھر منھا‘ فرمایا اور کیونکہ مردوں کے ساتھ اسے اپنا چہرہ اور ہاتھ کھولنے پڑتے ہیں۔ اور اگر آدمی کو شہوت کا خطرہ ہو تو وہ صرف گواہی اور عدالتی معاملات میں اسے دیکھے۔ میرا قول ہے کہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کی تائید ابوداؤد کی مرسل روایت کرتی ہے۔‘‘

قاضی صاحب نے زیربحث روایت سے دلیل پکڑتے ہوئے ظاہری زینت پر سیرحاصل تبصرہ کیا ہے اور سب ائمہ کا مسلک کھول کر بیان کیا ہے۔ انھوں نے سنن ابی داؤد کی روایت کو بطور حجت استعمال کیا ہے۔ جہاں تک اس شرط کا تعلق ہے کہ مرد اجنبی عورت کو شہوت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا تو یہ ایک نہایت ہی معقول شرط ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ معاشرہ کے سب مرد شہوت پرست ہیں اور وہ ہر عورت کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یا یہ کہ ان شہوت پرست مردوں کو کنٹرول کرنے کی بجائے عورت کو سوسائٹی سے نکال باہر کیا جائے۔ اس بات کو تفصیلاً فتنہ کی تشریح کے تحت بیان کروں گا۔

محمد دروزہ التفسیر الحدیث (۱۰: ۴۴) میں کہتے ہیں کہ ’الا ما ظھر منہا‘ سے مراد وہ چیز ہے جو عادتاً کھلی رہے، جیسا کہ چہرہ اور ہاتھ یا جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ انگوٹھی، مہندی اور سرمہ اور کپڑے... مردوں کو جو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے وہ اس بات پر پرزور دلالت کرتا ہے کہ اس زمانے میں رواج کیا تھا اور وہ آیت کے اس مفہوم پر بھی دلالت کرتا ہے کہ عورت کھلے چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ تلاش رزق، کام کاج اور جائز ضرورتیں پوری کرنے کے لیے باہر نکل سکتی ہے۔ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں پھر سنت متواترہ سے ثابت ہے کہ عورت کھلے چہرے کے ساتھ نماز پڑھتی اور حج کرتی آرہی ہے۔ انھوں نے تائیداً حضرت عائشہ کی اس روایت کو بیان کیا ہے جسے امام طبری نے نقل کیا ہے اور جس کا مضمون ہوبہو سنن ابی داؤد کی روایت کی طرح ہے۔ بنیادی باتیں بیان کرنے کے بعد محمد دروزہ نے اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ صاحب مضمون کھلے دل ودماغ کے ساتھ اس بحث کو ضرور پڑھیں گے، کیونکہ یہ تفسیر قرآن اکیڈمی کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

تفسیر مجاہد مطبوعہ مجمع البحوث الاسلامیہ (۴۴) میں ہے کہ عبدالرحمان نے کہا ہمیں حدیث سنائی ابراہیم نے اس کو حدیث سنائی آدم نے اس نے کہا ہمیں حدیث سنائی عقبۃ الاھم نے انھوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنی انھوں نے ام المومنین عائشہ سے کہ ’الا ما ظہر منھا‘ کے بارے میں ان کا قول ہے کہ جو اس میں سے ظاہر ہو جائے یعنی چہرہ اور ہتھیلیاں۔

نظم الدرء مطبوعہ دارالکتب العلمیہ (۵: ۴۲۸) میں ’الا ما ظہر منھا‘ کی تفسیر یوں ہے یعنی ’’جو بغیر قصد کے ظاہر ہوجائے اور جس کے چھپانے میں دقت محسوس ہو جیسے کنگن، انگوٹھی اور سرمہ، کیونکہ عورت کو چیزیں لینے دینے کے لیے ہاتھ اور شہادت وغیرہ کے لیے چہرہ کھلا رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘‘

التفسیر الواضح محمد محمود حجازی مطبوعہ دارالجیل (۱۱: ۶۴) میں اسی جملے کی تفسیر یہ ہے ’’سوائے اس کے جو ضروریات پوری کرنے کے لیے کھلے رہتے ہیں جیسے چہرہ اور ہاتھ جن کو کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘‘

تفسیر ’غرائب القرآن مکتبۃ دارالباز مکۃ المکرمۃ لصاحبہ نظام الدین الحسن بن محمد بن الحسین القمر النیسابوری‘ (۷۳۸ھ) (۵: ۱۸۱) میں ہے: ’’سوائے اس کے جسے انسان عادت جاریہ کے طور پر کھلا رکھتا ہے جو آزاد عورتوں میں چہرہ اور ہاتھ ہیں اور لونڈیوں میں ہر وہ چیز جو کام کاج کے لیے کھلی رہے۔‘‘

طنطاوی جوھری اپنی تفسیر الجواھر دارالفکر (۱۲: ۱۱) میں ’الا ما ظھر منھا‘ کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: ’’سوائے اس کے جسے چیزیں لیتے دیتے وقت کھلا رہنا پڑے جیسے کپڑے، انگوٹھی، سرمہ، ہاتھ کی مہندی، چہرہ اور پاؤں۔ کیونکہ ان کو چھپانا رکاوٹ اور تنگی کا سبب بنتا ہے۔ عورت چیز کو ہاتھ ہی سے پکڑے گی۔ پھر شہادت، معالجے اور تجارتی لین دین میں اسے چہرہ کھلا رکھنا پڑے گا۔ یہ سب اس وقت تک جب تک فتنہ کا ڈر نہ ہو وگرنہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔‘‘ یعنی فتنہ کی صورت میں واجب یہ ہے کہ مرد نگاہیں نیچی کرے نہ کہ یہ کہ عورت چہرہ چھپا لے۔

التفسیر الوسیط الدکتور وھبۃ الزحیلی دارالفکر (۲: ۱۷۴۸) میں ہے: عورتیں اپنے مواقع زینت اجنبیوں کے سامنے ظاہر نہ کریں بجز اس کے جو عادتاً ظاہر ہوجائے اور وہ چہرہ، ہاتھ اور کپڑے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں، بشرطیکہ فتنہ کا باعث نہ ہوں۔ پھر وہ ابن عطیہ کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں جو غالباً کھلے رہتے ہیں (امام قرطبی نے بھی یہی کہا ہے)۔ اخلاقی بگاڑ کے پیش نظر احتیاط اچھی چیز ہے۔ خوبرو عورت کا نامحرم کے سامنے نہ آنا اچھی بات ہے۔ ڈاکٹر وحید دورجدید کے محقق ہیں جن کو فقہ پر دسترس حاصل ہے، وہ صرف بعض مالکی فقہا کی مانند صرف خوبرو عورت پر نامحرم کی نظر کو برسبیل احتیاط اچھا نہیں سمجھنے یعنی وہ اسے واجب قرار نہیں دیتے۔

سورۂ نور کی آیت نمبر ۳۰ کی تفسیر کے سلسلہ میں میں نے قدیم وجدید بیس تفسیروں کا حوالہ دیا ہے۔ ان میں قدرمشترک یہ ہے کہ ان میں سے بیش تر نے اس تفسیر میں ابوداؤد یا امام طبری کی حضرت عائشہ کی روایت سے اور تقریباً سب نے ابن عباس کے قول سے استدلال کیا ہے۔ مجاہد اور ابن ابی حاتم رازی کی تفسیر سے تو ظاہر ہے کہ جمہور صحابہ اور تابعین نے ابن عباس اور ابن عمر کے قول کی تائید کی ہے۔ سب کا موقف یہی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں، کیونکہ ان کے چھپانے میں تکلف سے کام لینا پڑتا ہے اور تنگی محسوس ہوتی ہے۔ فتنہ کی صورت میں نگاہیں نیچی کرنا واجب ہے نہ کہ چہرہ چھپانا۔ غض بصر کا حکم اللہ نے اس فتنے کو روکنے کے لیے صادر فرمایا ہے۔ جن دو ایک مفسرین نے چہرہ چھپانے کا مشورہ دیا ہے انھوں نے بھی اس حکم کو خوب صورت عورت تک محدود کرکے مناسب قرار دیا ہے اسے واجب قرار نہیں دیا۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تو واضح کر دیا کہ یہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور امام احمد (کا ایک قول) کا مذہب ہے۔ مگر ہمارے حافظ صاحب (صاحب مضمون) اقوال صحابہ، تابعین، جمہورعلما اور مفسرین کی رائے کو درخوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے اس بات پر مصر ہیں کہ چہرے کا چھپانا واجب ہے:

ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہیے


اس بات کا افسوس ہے کہ چوتھی دلیل کے ابطال کا جواب دراز تر ہوگیا ہے:

حکایت لذیذ بود دراز تر گفتم


پانچویں دلیل: صاحب مضمون نے پانچویں دلیل کے طور پر جس روایت کا ابطال کیا ہے۔ اسے صحیح مسلم نے ’’کتاب الطلاق‘‘ اور ’’کتاب الفتن‘‘ دوجگہ روایت کیا ہے۔ روایت یہ ہے کہ فاطمہ بنت قیس کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں۔ اس کی عدت کا مسئلہ تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اسے ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے کا مشورہ دیا۔ فاطمہ نے کہا میں ایسا ہی کروں گی۔ پھر آپ نے اسے ایسا کرنے سے اس لیے منع فرمایا کہ ام شریک انصار کی ایک صاحب حیثیت عورت تھیں۔ ان کے یہاں صحابہ کا کثرت سے آنا جانا تھا۔ آپ نے فرمایا: مجھے یہ پسند نہیں کہ تمھاری اوڑھنی سر سے لڑھک جائے یا پنڈلیاں ننگی ہوجائیں اور ان پر ان لوگوں کی نظر پڑے، اس لیے تم اپنے چچازاد عبداللہ بن عمرو بن ام مکتوم کے یہاں عدت گزارو کیونکہ وہ نابینا ہیں، اس لیے تم ان کی موجودگی میں کپڑے اتار سکتی ہو۔ اور جب تم اوڑھنی اتارو گی تو وہ تمھیں دیکھ نہیں سکیں گے۔

علامہ ناصرالدین البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ صفحہ ۶۰ سے لے کر ۷۳ تک پیش کردہ تیرہ احادیث میں زیربحث حدیث کو صفحہ ۶۶ پر پانچویں نمبر پر پیش کیا ہے اور وجہ دلالت یہ پیش کی ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیس کی بیٹی کی اس بات کو تسلیم کیا ہے (صاحب مضمون نے حسب عادت ’اَقَرَّ بِہٖ‘ کا ترجمہ ’’یہ بات سمجھائی‘‘ غلط کیا ہے) کہ سر پر اوڑھنی لیے لوگ اس کو دیکھیں اور خمار سرپوش ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح سر کو ڈھانپنا واجب ہے اس طرح چہرے کو ڈھانپنا واجب نہیں، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دوپٹا سر سے نیچے نہ گر جائے اور وہ چیز ظاہر نہ ہو جائے جسے منصوص طور پر ظاہر کرنا حرام ہے۔ چنانچہ آپ نے فاطمہ بنت قیس کو اس بات کا حکم دیا جو ان کے لیے زیادہ محفوظ اور محتاط تھی۔‘‘

علامہ البانی کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس کو ام شریک کے گھر میں عدت گزارنے سے روک کر انھیں ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم محض اس لیے دیا کہ ام شریک کے گھر میں مہمان کثرت سے آتے جاتے تھے، اس لیے احتمال تھا کہ وہ اسے اس حالت میں دیکھ لیں کہ ان کا سر ننگا ہو اس کے برعکس ابن ام مکتوم اگرچہ مرد ہے، مگر نابینا ہے اس لیے اس بات کا کوئی احتمال نہیں کہ وہ انھیں اس حالت میں دیکھ لے۔ زیربحث روایت میں یہ دلیل واضح طور پر نظر آرہی ہے۔ قاضی عیاض ’اکمال العلم بفوائد مسلم‘ (۵: ۵۶) میں فرماتے ہیں کہ ’’ام شریک کے یہاں مہمانوں کے طول قیام کی وجہ سے باربار نظر پڑنے کا اندیشہ تھا جس سے فاطمہ بنت قیس کو تنگی محسوس ہوتی اور ان کی طبیعت میں گھٹن پیدا ہوتی ۔‘‘ امام نووی ’’کتاب الطلاق‘‘ کی روایت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ ام شریک کے گھر میں مہمان بن کر کثرت سے اس لیے آتے جاتے تھے، کیونکہ وہ صالح عورت تھی۔‘‘ صحابہ غالباً تعلیم وتربیت کے سلسلہ میں ان کے گھر آتے جاتے تھے۔ جہاں لوگ کثرت سے آتے جاتے ہوں، وہاں ایک خاتون کا قیام خود اس کے لیے مشکل پیدا کرتا ہے گھر میں عورت ہر وقت اوڑھنی لیے نہیں رہتی۔ کبھی نہ کبھی تو سر سے دوپٹا سرک جاتا ہے۔ بس اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں وہاں عدت گزارنے کی اجازت نہ دی حالاں کہ وہ عورت تھیں اور ابن ام مکتوم مرد۔ امام طبرانی کی روایت میں تو یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے۔ روایت یوں ہے: ’وامرنی ان اکون عند ابن ام مکتوم فانہ مکفوف البصر لا یرانی حین اخلع خماری‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤں، کیونکہ وہ نابینا ہیں اور جب میں اوڑھنی اتاروں گی تو وہ مجھے دیکھ نہیں پائیں گے۔‘‘

صاحب مضمون کے سرمیں کیونکہ چہرے کو چھپانے کا سودا سمایا ہوا ہے، اس لیے انھوں نے بے سوچے سمجھے یہ بات کہہ دی ہے کہ روایت میں یہ بات واضح نہیں کہ چادر (یہ خمار کا غلط ترجمہ ہے) چہرے سے گری ہے یاسر سے، سبحان اللہ کیا مضحکہ خیز بات کہی ہے۔ سقوط کا لفظ بتا رہا ہے کہ چیز اوپر سے نیچے گری ہے۔ دوپٹا یا اوڑھنی سر سے تو گر سکتی ہے یہ چہرے سے گرنا بے معنی سی بات ہے۔ خدارا اپنے غیر معقول موقف کی حمایت میں عقل وفہم کادامن تو نہ چھوڑیں۔

مضمون نویس کو روایت کی توجیہ کے لیے اور تو کوئی بات ملی نہیں انھوں نے ناحق لفظ ’خمار‘ کے بارے میں بحث چھیڑ دی ہے۔ حالاں کہ لغت کے بارے میں ان کا علم واجبی سا ہے۔ میں نے جواب آں غزل میں لفظ ’خمار‘ پر تفصیلی بحث کی ہے جس میں لغت اور حدیث کی رو سے اس کے معنوں کا تعین کردیا ہے۔صاحب مضمون نے ایک سوال کیا ہے کہ جلباب یا ’خمار‘ کے الفاظ سر کی چادر کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو اس سے اس بات کی نفی کیسے ہو جاتی ہے کہ اب یہ چادر چہرہ چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہوسکتی؟ سوال کا جواب دینے سے پیش تر یہ بات بتاتا چلوں کہ ’خمار‘ اور جلباب ایک چیز نہیں۔ ان کی لمبائی اور دبازت میں کافی فرق ہے۔ ’خمار‘ اوڑھنی یا دوپٹے کو کہا جاتا ہے جو نسبتاً چھوٹا اور کم موٹا ہوتا ہے، جبکہ جلباب کے ایک معنی چادر بھی ہیں جو نسبتاً لمبی اور زیادہ موٹی ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھار عورتیں اوڑھنی کو چہرے پر بھی ڈال لیتی ہیں، مگر اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ اوڑھنی عادتاً چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتی ہے؟ یہ بالکل ایسے ہے کہ بعض اوقات خواتین شرم وحیا کے باعث دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیتی ہیں تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ہاتھ چہرہ ڈھانپنے کے لیے ہیں؟ کسی چیز کا مفہوم اس کے عام استعمال سے لیا جاتا ہے نہ کہ خاص استعمال سے۔ اس لیے سب لغت نویسوں، مفسروں، محدثوں اور فقہا نے اس کے معنی سرپوش کے لکھے ہیں۔ ابن الاثیر نے ’’نہایہ‘‘ (۲: ۷۸) میں ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ ’کان یمسح علی الخف والخمار‘ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر اور خمار پر مسح کرتے تھے۔‘‘ یعنی پگڑی پر مسح کرتے تھے، کیونکہ مرد پگڑی سے اس طرح سرڈھانپ لیتے ہیں جس طرح عورت ’خمار‘ (اوڑھنی) سے سرڈھانپتی ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ خمار عورت کے لیے ایسے ہے جیسے مرد کے لیے پگڑی۔ کیا مرد اگر پگڑی کی دم اپنے منہ پر ڈال لیں تو یہ کہا جائے گا کہ پگڑی منہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتی ہے؟

یہی موقف علامہ البانی کا ہے جو ’’جلباب المراۃ‘‘ کے صفحہ ۷ پر لکھتے ہیں: ’’میں نے قدیم وجدید ہر میدان کے علما کے اقوال کی تحقیق کی ہے جن کا اس بات پر اجماع ہے کہ ’خمار‘سرپوش ہے۔ اور اپنی ’’کتاب الردالمفحم‘‘ میں ایسے بیس علما کا نام لیا ہے ان میں ائمہ بھی ہیں اور حفاظ بھی اور انھی میں ابوالولید الباجی (المتوفی۴۷۴ھ) ہیں (اللہ ان کو جزاے خیر دے) ان کا قول ہے ’لا یظہر منہا غیر دور وجہھا‘ یعنی ’’’خمار‘ میں سے صرف چہرے کی ٹکڑی نظر آتی ہے۔‘‘‘‘

علامہ البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ میں صفحہ ۷۳ کے حاشیہ میں قاضی ابوعلی تنوخی کے حوالہ سے عربی کے دو شعر نقل کیے ہیں نہ کہ ایک شعر جیسا کہ مضمون نگار نے لکھا ہے۔ ان اشعار میں شاعر نے بیان کیا ہے کہ ’’محبوب نے اپنے چہرے پر بھی اوڑھنی ڈالی ہوئی تھی۔‘‘ اردو ترجمہ میں مضمون نگار نے ’خمار‘ کا ترجمہ چادر کر کے اپنی بے ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ کیونکہ چادر کے نیچے دو نور جمع ہوتے ہوئے کیسے نظر آسکتے ہیں؟ صرف باریک اور شفاف اوڑھنی سے رخساروں کا نور نظر آسکتا ہے۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ صاحب مضمون چہرہ چھپانے کے باطل تصور کی وجہ سے شعر بھی سمجھ نہیں پارہے۔

صاحب مضمون نے ان اشعار پر علامہ البانی کے تبصرہ کو قلم زد کر کے علمی دیانت کا ثبوت نہیں دیا۔ علامہ لکھتے ہیں کہ یہ اشعار ان معانی سے متصادم نہیں جو ہم نے ’خمار‘ کے لکھے ہیں۔ یعنی ’خمار‘ کے لوازمات میں سے عادتاً سر چھپانا ہے کبھی کبھی اسے چہرہ پر ڈال لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے چہرہ چھپایا جاتا تھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین صفیہ کو اپنے پیچھے سوار کیا تو اپنی چادر ان کے پیچھے اور چہرے پر ڈال دی... اور واقعۂ افک میں حضرت عائشہ کا قول کہ میں نے جلباب سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ کیا ان روایات سے یہ مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ چادر اور جلباب دوایسے کپڑے ہیں جن سے عام طور پر چہرہ ڈھانپا جاتا ہے؟ اسی طرح شاعر نے اپنی خوب صورت محبوبہ کا وصف بیان کیا ہے۔ کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ’خمار‘ کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک ساتھ سراور چہرے کو ڈھانپتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کبھی کبھار اس سے چہرہ ڈھانپ لیاجاتا ہے جیسا کہ کبھی کبھی کپڑوں میں سے کسی اور چیز مثلاً چادر، جلباب اور دھاری دار کپڑے وغیرہ سے چہرہ ڈھانپ لیا جاتا ہے۔یہ توجیہ اس صورت میں ہے کہ ہم شاعر کے وصف کو حقیقی تصور کریں۔ گمان غالب یہی ہے کہ یہ شاعرانہ خیالی تصور ہے، اس لیے اسے حقیقی معنوں پر محمول کرنا ناممکن ہے۔ یہ رہا علامہ البانی کا ان اشعار پر تبصرہ اس کی روشنی میں صاحب مضمون کے اس نقلی استدلال کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟

ادبی لحاظ سے دیکھا جائے تو صاحب مضمون اس بات کو سمجھ نہیں پائے کہ شاعر صاف وشفاف اوڑھنی کے نیچے محبوب کے حسن وجمال کی تعریف کررہا ہے۔ شعر کا مضمون بالکل وہی ہے جو اردو کے اس مصرع کا ہے:

صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں


اور صاحب مضمون چلے ہیں اس سے شریعت کا مسئلہ حل کرنے۔

مضمون نگار نے زیربحث روایت کے اس پہلو پر غور نہیں کیا جو ان کے موقف کی کلیتہً نفی کرتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ ام شریک ایک مال دار اور اما م نووی کی توضیح کے مطابق نیکوکار عورت تھی جس کے یہاں صحابۂ کرام کثرت سے آتے جاتے تھے۔قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مرد عورت کے یہاں آجاسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اس کے بارے میں مطمئن ہوں۔ یہ بات ان لوگوں کو کیسے گوارا ہوسکتی ہے جو صاحب مضمون کی طرح عورت کو سات پردوں میں چھپا کر معاشرے سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔

چھٹی دلیل: افسوس اس بات کا ہے کہ صاحب مضمون نے علامہ البانی کی پیش کردہ تیرہ احادیث یا دلائل میں سے صرف پانچ حدیثوں یا دلیلوں پر خامہ فرسائی کی اور اس کے بعد ان کے ترکش کے سارے تیر ختم ہوگئے۔ چھٹی دلیل میں ان کی بے بسی، بے چارگی اور شکست خوردگی سے میں بہت محظوظ ہوا ہوں۔ ابن عباس نے جو ’الا ما ظہر منہا‘ کی تفسیر کی ہے اس سے زچ ہو کو انھوں نے تقریباً رونا شروع کردیا ہے۔

ابن عباس کے قول کی سند کے بارے میں صاحب مضمون کے اعتراض کا جواب پہلے دے چکا ہوں۔ حال ہی میں ناقد حدیث ابن ابی حاتم رازی کی تفسیر مطبوعہ مکہ مکرمہ (۸: ۲۵۷۴۔۲۵۷۵) دیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں تین اقوال سند کے ساتھ نقل کیے ہیں۔

سب سے پہلا قول الاشج، ابن نمیر، اعمش، سعید بن جبیر اور ابن عباس کی سند سے پیش کیا ہے۔ اس کی تائید تیسرے قول سے ہوتی ہے جو انھوں نے یحییٰ بن عبداللہ، ابن لہیعہ، عطاء بن ابی رباح اور سعید بن جبیر کی سند سے روایت کیا ہے، درمیان میں دوسرا قول عبداللہ بن مسعود کا ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھوں نے زچ ہو کر ابن عباس کے قول کی ایسی توجیہ کی ہے جو آج تک کسی کان نے نہ سنی اور نہ اس کا خیال کسی بشر کے دل پر گزرا۔ حد یہ ہے کہ جن گنے چنے مفسرین نے ابن مسعود کے قول کو ترجیح دی ہے انھوں نے بھی ابن عباس کے قول کی وہ توجیہ نہیں کی جو مضمون نگار نے کی ہے۔ صاحب مضمون کے نزدیک کہ اس سے مراد ہوا یا کسی حرکت کی وجہ سے یا اضطراری حالت میں یا کسی ضرورت کے تحت چہرے کا کھولنا ہے۔

سیدھی سی بات ہے زینت کی دوقسمیں ہیں ظاہری اور مخفی۔ ابن عباس کے قول کے مطابق اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ اور اس پر استعمال ہونے والی زینت ہے۔ یہ زینت عادتاً، فطرتاً اور عبادتاً کھلی رہتی ہے اور اس کے چھپانے کے لیے عورت کو تکلف سے کام لینا پڑتا ہے اور وہ معمول کے کام نہیں کرسکتی۔ ابن عباس نے تو ’الا ما ظہر منھا‘ کے استثنا کی واضح تفسیر کی ہے، مگر مضمون نگار ان کی طرف باطل تاویل کو منسوب کررہے ہیں۔

آخر میں ابن عطیہ کی تفسیر پر امام قرطبی نے جو تبصرہ کیا ہے اس کا حوالہ دیتے وقت مضمون نگار نے علمی دیانت کا ثبوت نہیں دیا۔ میں اس کا حوالہ پہلے بھی دے چکا ہوں۔ اب باردگر دے رہا ہوں۔ امام قرطبی لکھتے ہیں: ’’یہ قول (یعنی ابن عطیہ کا قول) حسن ہے، مگر عام طور پر چہرے اور ہاتھوں کو عادتاً اور عبادتاً (نماز اور حج میں) کھولنا پڑتا ہے۔ اس لیے ان دونوں کا استثنا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ابوداؤد نے سنن میں حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔‘‘ (روایت کا متن اوپر نقل ہوچکا ہے) اس کے بعد امام قرطبی فرماتے ہیں کہ حزم و احتیاط اور لوگوں کے اخلاقی بگاڑ کے پیش نظر یہی قول قوی ہے۔ بس عورت کو اسی زینت کا اظہار کرنا چاہیے جو اس کے چہرے اور ہاتھوں پر ہو۔ کیا میں مضمون نویس سے پوچھ سکتا ہوں کہ انھوں نے کس مصلحت کے تحت قول حسن کہنے کے بعد کی امام قرطبی کی ساری کی ساری عبارت کو قلم زد کردیا؟ اللہ سے ڈرنا چاہیے۔

چہرے کا پردہ اور آثار صحابہ

اس عنوان کے تحت صاحب مضمون نے صرف ۵آثار کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور علامہ البانی کے پیش کردہ ۱۶ آثار کو نظر انداز کر دیاہے حالاں کہ تحقیق کا تقاضا ہے کہ وہ ان آثار پر ایک ایک کر کے بحث کرتے۔

ان میں سے تین آثار کا تعلق حالت احرام سے ہے۔ اوپر ’سدل‘ کی بحث میں ان کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ ان آثار کو چہرے کے پردے کے وجوب کے لیے پیش کرنا کم علمی کی دلیل ہے۔ اثر نمبر۲ جلباب پہننے کی کیفیت کے بارے میں ہے۔ اوپر واضح کرچکا ہوں کہ پردے کی مقدار کا تعین بعد میں نازل ہونے والی سورت نور میں ہے جو دائمی حکم کو پیش کرتی ہے۔ اثر نمبر۳ سے بھی چہرے کو واجباً چھپانے کا کوئی ثبوت نہیں۔ اب آئیے اثر نمبر۱، ۴ اور ۵ کی طرف، یہ تینوں آثار عورت کی حالت احرام کے بارے میں ہیں۔ ان سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ احرام کے بغیر عورت کا چہرہ چھپانا واجب ہے۔

آثار نمبر ایک کے بارے میں شارح موطا زرقانی کا قول (۲: ۴۳۴) پیش کرتا ہوں کہ ’’ابن منذر کا قول ہے کہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت سارے کا سارا سلا ہوا لباس پہنے اور موزے پہنے۔ اپنا سر اور بال سوائے چہرے کے چھپائے (ہاں) وہ چہرے پر ہلکا سا ’سدل‘ (یعنی سر کے اوپر سے کپڑا لٹکانا ) کر سکتی ہے تاکہ وہ مردوں کی نظروں سے بچی رہے، مگر چہرے کومت چھپائے۔ فاطمہ بنت منذر کی روایت اس کے خلاف ہے، مگر احتمال یہی ہے کہ اس میں ’تخمیر‘ (چھپانے) کا لفظ حضرت عائشہ کی روایت کی طرح ’سدل‘ کے معنوں میں ہے۔‘‘ یہ بات میں پہلے بھی بیان کرچکاہوں۔

علامہ ابن عبدالبر ’’التمہید‘‘ (۱۵: ۱۰۷۔۱۰۹) میں فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ، تابعین اور تبع تابعین اس بات کو ناپسند کرتے ہیں کہ عورت چہرے کو نقاب سے چھپائے سوائے اسماء بنت ابی بکر کی روایت کے کہ وہ حالت احرام میں اپنا چہرہ چھپاتی تھیں اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ اگر چاہے تو اپنا چہرہ ڈھانپ لے۔ اور انھی سے یہ روایت بھی ہے کہ وہ چہرہ نہ چھپائے اور لوگوں کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کا احرام چہرے میں ہے سر میں نہیں اور وہ حالت احرام میں اپنا سر اور بال چھپائے۔ اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ وہ اپنے چہرے پر اوپر سے ہلکا سا ’سدل‘ کرسکتی ہے جو اسے مردوں کی نظروں سے بچائے رکھے، لیکن وہ اسے حالت احرام میں چہرہ چھپانے کی اجازت نہیں دیتے سوائے اسماء بنت ابی بکر کی روایت کے اور احتمال یہ ہے کہ اسماء بنت ابی بکر کی روایت میں ’تغطیہ‘ سے مراد حضرت عائشہ کی روایت کی طرح ’سدل‘ ہے۔ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اب پھر بتاتا ہوں تاکہ:

شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

موطا کی شرح ’’اوجز المسالک‘‘ (۶: ۱۹۷) میں ہے: ابن رشد کا قول ہے کہ چہرے کے چھپانے کے لیے فاطمہ بنت منذر کی روایت کے سوا کچھ بھی موجود نہیں۔ ابن رشد نے اشارہ کیا ہے کہ فاطمہ اس روایت میں منفرد ہیں اور یہ بات اس روایت کو شاذ قرار دیتی ہے۔ ’’نیل المآرب‘‘ میں ہے کہ عورت کی طرف سے برقع یا نقاب وغیرہ سے چہرہ چھپانا حالت احرام میں منع ہے، مگر بوقت حاجت سر کے اوپر سے چہرہ پر کپڑا لٹکایا جاسکتا ہے۔ حاجت سے مراد یہ ہے کہ مرد اس سے قریب تر ہوں اور اگر عورت نے بلاحاجت ’سدل‘ کیا تو وہ فدیہ ادا کرے گی۔

شاہ ولی اللہ نے ’’مسوی شرح الموطا‘‘ میں یہی کہا ہے کہ اہل علم کے نزدیک ’سدل‘ جائز ہے بشرطیکہ کپڑا چہرے کی جلد سے ہٹا رہے۔

سدل‘ یہ ہے کہ سر کے اوپر سے لکڑی کے فریم یا کسی اور سہارے سے خفیف سا پردہ لٹکالیا جائے، مگر وہ چہرے کو ہرگز نہ چھوئے۔ علما نے اس شرط پر اس کی اجازت دی ہے کہ اگر مرد بالکل قریب آجائے اور دیکھنا شروع کردے تو اس وقت عورت ’سدل‘ سے کام لے سکتی ہے۔ اس کا استعمال واجب نہیں صرف اس کی اجازت ہے۔ بہت ہی خال خال عورتیں اس اجازت سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ عام طور پر عورتیں چہرہ کھلا رکھتی ہیں اور یہی سنت متواترہ ہے۔ ’سدل‘ کو چہرے کے پردے کے وجوب کے لیے دلیل بنانا میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ صاحب مضمون نے ان آثار کا حوالہ بار بار دیا ہے، کیونکہ انھیں اس سلسلہ میں معقول دلیل نہیں ملتی۔

اثر نمبر۴ مضمون نگار نے الاستذکار کے حوالہ سے روایت کیا ہے۔ اگر وہ الاستذکار (۱۱: ۲۷) کو دیکھ لیتے تو ان کو اسے بیان کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ’’فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کا احرام چہرے میں ہے اور اگر مردوں کے بالکل قریب سے گزرنے کی وجہ سے اسے چہرہ چھپانے کی ضرورت پڑے تو اپنے سر کے اوپر سے کپڑا لٹکا لے (’سدل‘ کرے) کیونکہ حضرت عائشہ اور دیگر عورتوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایسا کیا تھا۔‘‘ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’سدل‘ صرف بوقت ضرورت کیا جاسکتا ہے عام حالات میں نہیں۔

اثر نمبر۵ سے ایک اور بات کا پتا چلتا ہے کہ ’خمار‘ چہرے کو ڈھانپنے کے لیے نہیں ہوتا، کیونکہ حضرت عائشہ نے سر پر سے اوڑھنی کا کچھ حصہ لے کر چہرہ ڈھانپا یعنی ’سدل‘ کیا۔ یہ بات مضمون نگار کے اس موقف کے منافی ہے کہ ’خمار‘ (اوڑھنی) چہرہ ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یہ اثر تلخیص الحبیر سے نقل کیا گیا ہے۔

تلخیص الحبیر (۳: ۲۷۳) میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے رافعی الکبیر کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ انھوں نے رافعی الکبیر کے اس قول کا حوالہ دیا ہے کہ اگر عورت کو کسی ضرورت کے تحت چہرہ چھپانے کی حاجت پڑے تو اس کے لیے ’سدل‘ جائز ہے، لیکن اس پر فدیہ واجب ہے۔ حافظ صاحب نے صرف یہ کہا ہے کہ یہ قول کہ اس پر فدیہ واجب ہے محل نظر ہے۔ انھوں نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ وہ صرف بوقت ضرورت ’سدل‘ کرے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اوپر میں نے حوالہ دیا ہے کہ حافظ ابن حجر ’تغطیہ‘ سے مراد ’سدل‘ لیتے ہیں۔ عام حالات میں چہرے کے پردے کے ساتھ اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ جہاں تک اثر نمبر۲ کا تعلق ہے، صاحب مضمون نے سراسیمگی میں غلط اثر کا حوالہ دے دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے انھوں نے حوالہ کہیں سے نقل کیا ہے خود تفسیر طبری میں دیکھا نہیں۔ امام طبری موافق و مخالف، سب آرا کا ذکر کرتے ہیں۔ سورۂ احزاب کی زیربحث آیت کے بارے میں انھوں نے تین آثار ابن عباس، عبیدہ اور ابن سیرین سے مروی اس بارے میں پیش کیے ہیں کہ جلباب سے چہرہ چھپانا چاہیے اور ابن عباس، قتادہ، مجاہد اور ابی صالح سے مروی چار آثار اس بارے میں پیش کیے ہیں کہ جلباب کو صرف پیشانی پر کس کر باندھا جائے گا۔

صاحب مضمون نے تفسیر میں مذکور تین آثار میں سے صرف دوسرے اثر کا حوالہ دیا ہے جس میں چہرہ ڈھانپنے کا کوئی ذکر نہیں، جبکہ اثر نمبر ایک اور تین میں یہ ذکر واضح طور پر موجود ہے۔

زیربحث اثر میں تو صرف یہ بات موجود ہے کہ جلباب کو ابن عون نے سر پر اوڑھ لیا (’’اچھی طرح اوڑ ھ لیا۔‘‘ صاحب مضمون نے غلط ترجمہ کیاہے)۔ اپنی ناک اور بائیں آنکھ چھپا لی اور دائیں آنکھ نکال لی اور اپنی چادر کو اوپر سے اپنے ابرو کے قریب یا اس کے اوپر کرلیا (صاحب مضمون نے غلط طور پر ’أرخی‘ کا فعل لکھا ہے حالاں کہ طبری کی روایت میں ’أدنی‘ کا فعل استعمال ہوا ہے)۔ اب اس ساری روایت میں کہیں بھی چہرہ ڈھانپنے کا ذکر نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ چہرے کا کچھ حصہ چھپا رہا۔ پھر یہ اثر سورۂ احزاب کی آیت کے متعلق ہے جس میں ایذارسانی سے بچنے کے لیے ہدایت دی گئی، یہ سورۂ نور کی آیت نمبر۳۰ کی طرح دائمی حکم نہیں جس میں پردے کا تعین کیا گیا ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ سورۂ نور سورۂ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے۔ صاحب مضمون نے قطعی غلط لکھا ہے کہ علامہ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے۔ علامہ نے جس اثر کو ضعیف کہا ہے وہ ابی صالح نے معاویہ سے اس نے علی سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کیا ہے جس میں واضح طور پر جلباب سے چہرہ ڈھانپنے اور ایک آنکھ ظاہر کرنے کا حکم ہے۔ (جلباب المراۃ ۸۸) علامہ البانی اس اثر کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابن عباس سے اس اثر کی روایت درست نہیں ، کیونکہ طبری نے اسے علی کے طریق سے روایت کیا ہے اور یہ علی ابن ابی طلحہ ہے جیسا کہ ابن کثیر نے اس سے معلق روایت کی ہے۔ اس بات کے باوجود کہ بعض ائمہ نے اس پر تنقید کی ہے اس نے ابن عباس سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس نے انھیں دیکھا تک نہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان مجاہد ہے۔۔۔ اور اگر یہ بات درست ہے تو اثر متصل بن جاتا ہے، مگر اثر کا پہلا راوی ابوصالح، عبداللہ بن صالح ہے جو ضعیف ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس سے ایک اثر روایت کیا ہے جو اس اثر سے متصادم ہے، لیکن وہ بھی سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن ہمیں دوسری صحیح سند کا پتا چلا ہے جو ابن ابی شیبہ نے (المصنف ۴: ۲۸۳) جابر بن زید کے حوالہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔

میری صاحب مضمون سے گزارش ہے کہ وہ اصل مصدر سے حوالہ دیا کریں۔ تفسیر طبری سے حوالہ دیتے وقت کاش انھوں نے ان چار آثار کوبھی دیکھ لیا ہوتا جو ان کے موقف کی تردید کرتے ہیں۔

اثر نمبر۳ کو علامہ البانی نے ان ۱۶ آثار میں سے اثر نمبر۷ (جلباب المراۃ۹۹) میں پیش کیا ہے جو انھوں نے چہرے کے پردے کے عدم وجوب کے سلسلہ میں پیش کیے ہیں۔

صاحب مضمون نے اس اثر کا غلط ترجمہ قارئین کو الجھن میں ڈالنے کے لیے کیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ہماری ایک لونڈی کو دیکھا جس نے سر پر اوڑھنی لی ہوئی تھی (میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ’تقنع‘ کے معنی سر پر اوڑھنی لینا ہے نہ کہ چہرہ چھپانا) حضرت عمر نے اسے مارا اور حکم دیا کہ آزاد عورتوں کی مشابہت نہ کرو۔‘‘ علامہ البانی نے المصنف (۲/ ۲۳۱) کے حوالہ سے جو اثر نقل کیا ہے اس کی عبارت واضح تر ہے۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ مہاجرین یا انصار کی ایک لونڈی حضرت عمر کے یہاں آئی۔ اس نے جلباب اپنے سر پر اوڑھا ہوا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا؟ آزاد ہوگئی ہو کیا؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر یہ جلباب کیوں؟ اسے سر سے اتار دو یہ تو مومنوں کی آزاد عورتوں کے لیے واجب ہے، اس نے پس وپیش کیا۔ آپ درہ لے کر کھڑے ہوگئے اور سر پر مارا یہاں تک کہ اس نے جلباب سر سے اتار دیا۔

علامہ البانی فرماتے ہیں اس اثر کی وجہ استدلال یہ ہے کہ حضرت عمر نے اس لونڈی کو پہچان لیا حالاں کہ وہ جلباب میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس کا چہرہ کھلا تھا۔ اور حضرت عمر کا فرمانا کہ جلباب آزاد عورتوں کے لیے ہے، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر کے نزدیک چہرے کو چھپانا جلباب کی شرط نہ تھی۔ اگر اس زمانے کی ساری عورتیں اپنے چہروں کو جلباب سے چھپاتی ہوتیں تو حضرت عمر یہ بات نہ کہتے۔ پس اس اثر کو عمر کے بیٹے عبداللہ، ابن عباس اور عائشہ کے آثار کے ساتھ شامل کرکے کہنا چاہیے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں۔ سبحان اللہ صاحب مضمون نے ایسا اثر پیش کردیا جو ان کے موقف کی تردید کرتا ہے۔ عربی لغت سے ان کی ناواقفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ علامہ البانی نے جلباب المراۃ کے صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۰۳ تک کل ۱۶ آثار پیش کیے ہیں جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عمل ہوتا رہا۔ اصل بات یہ ہے کہ جس نے ماننا ہو اس کے لیے ایک اثر ہی کافی ہے اور جس نے نہ ماننا ہو اس کے لیے ۱۶ آثار بھی کم ہیں۔

چہرے کا پردہ مذاہب اربعہ کی روشنی میں

میں نے اپنے اصل مضمون اور جواب آں غزل کے تمام مضامین میں جگہ جگہ اس بات کا حوالہ دیا ہے کہ ائمۂ اربعہ ماسوائے امام احمد بن حنبل کی ایک روایت کے، امام اوزاعی، امام ابن حزم اور جمہور علما کے نزدیک چہرے کا پردہ واجب نہیں۔ صاحب مضمون نے اس بدیہی حقیقت سے انکار کرتے ہوئے حسب معمول حیلہ گری سے کام لینے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے انھوں نے احناف کے موقف کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ متقدمین حنفی فقہا میں سے کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ فتنے کے ڈر سے چہرہ چھپانا چاہیے۔ حنفی فقہ کی امہات الکتب ہدایہ، قدوری، کنزالدقائق، کافیہ، فتح القدیر اور منیۃ المصلی میں صرف یہی عبارت ہے کہ عورت کا سارا بدن بجز چہرے اور ہتھیلیوں کے ستر ہے۔ ان کتابوں میں فتنے کا دور دور تک بھی کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی یہ ذکر امام ابوحنیفہ اور ان کے دو بڑے شاگردوں امام ابویوسف اور امام محمد کے اقوال میں ملتا ہے۔ فتنے کا ذکر صرف متاخرین حنفی فقہا نے کیا ہے۔ اور انھوں نے بھی اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کو فتنہ کے ڈر سے چھپانا جائز ہے نہ کہ ستر کی وجہ سے۔ چنانچہ بعض نے اس چھپانے کو جوان اور خوب صورت عورت تک محدود کر دیا ہے اور لکھا ہے کہ ہر عورت کے لیے یہ درست نہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا صاحب مضمون حنفی فقہا کے اس متفقہ مسلک کو تسلیم کرتے ہیں کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں؟ اگر وہ اس مسلک کو تسلیم کرتے ہیں تو فھوالمراد ہمارا اور ان کا کیا جھگڑا ہے؟ دائمی حکم تو یہی ہے فتنہ تو ایک عارضی شرط ہے۔ یہی احناف کا اصل موقف ہے۔ ابن نجیم ’’البحرالرائق‘‘ (مطبوعہ دارالمعرفہ ۱: ۲۸۴) میں لکھتے ہیں ’’خواہ ابن مسعود نے اس (ظاہری زینت) سے مراد کپڑے لیے ہیں، مگر ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، جیسا کہ قاضی اسماعیل نے ابن عباس کی حدیث کو جید سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام والی عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع کیا ہے، اگر یہ سترمیں شامل ہوتے تو وہ ان کے چھپانے کو حرام قرار نہ دیتے اور چونکہ عورت کو اس بات کی حاجت ہوتی ہے کہ وہ خریدوفروخت کے لیے چہرہ اور لینے دینے کے لیے ہاتھ کھلے رکھے، اس لیے انھیں ستر میں شامل نہیں کیا گیا۔‘‘ ’’ہدایہ‘‘ میں چہرے اور ہتھیلیوں کے استثنا کی وجہ یہ بتائی گئی ہے ’للابتلاء بابدائہما‘ جس کی تشریح فتح القدیر (۱: ۲۲۴۔۲۲۵)میں یہ کی گئی ہے کہ ’’عورت کے لیے چیزوں کو ہاتھوں سے لینے دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اسے شہادت اور مقدمات کے لیے چہرہ کھولنا پڑتا ہے۔‘‘ یہی بات جلال الدین الخوارزمی نے کافیہ میں کہی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B