HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۵-۱۰ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَلاَ تُؤْتُوا السُّفَہَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا، وَّارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا، وَاکْسُوْہُمْ، وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا{۵} وَابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰٓی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ، فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا، فَادْفَعُوْٓا اِلَیْْہِمْ اَمْوَالَہُمْ، وَلاَ تَاْکُلُوْہَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا، وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ، وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْْہِمْ اَمْوَالَہُمْ، فَاَشْہِدُوْا عَلَیْْہِمْ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا{۶}  
لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ، وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ، مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ، نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا{۷} وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنُ، فَارْزُقُوْہُمْ مِّنْہُ، وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلاً مَّعْرُوْفًا{۸} وَلْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِہِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا، خَافُوْا عَلَیْْہِمْ، فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ، وَلْیَقُوْلُوْا قَوْلاً سَدِیْدًا{۹}  
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا، اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا{۱۰} 
 اور (یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہوں تو) اپنا وہ مال جس کو اللہ نے تمھارے لیے قیام وبقا کا ذریعہ بنایا ہے، اِن بے سمجھوں کے حوالے نہ کرو۔۱۲  ہاں، اِ س سے فراغت کے ساتھ اُن کو کھلائو، پہنائو۱۳ اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔ اور نکاح کی عمر کو پہنچنے تک اُنھیں جانچتے رہو،۱۴  پھر اگر اُن کے اندر اہلیت پائو تو اُن کے مال اُن کے حوالے کردو، اور اِ س اندیشے سے کہ بڑے ہوجائیں گے، اُن کے مال اڑا کر اور جلد بازی کرکے کھا نہ جائو۔ اور (یتیم کا) جو (سرپرست) غنی ہو، اُسے چاہیے کہ (اُس کے مال سے) پرہیز کرے اور جو محتاج ہو، وہ (اپنے حق خدمت کے طور پر) دستور کے مطابق (اُس سے) فائدہ اٹھائے۔۱۵  پھر جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو اُس پر گواہ ٹھیرا لو اور (یاد رکھو کہ) حساب کے لیے اللہ کافی ہے۔۱۶ ۵-۶
(تمھارے) ماں باپ اور اقربا جو کچھ چھوڑیں، اُس میں مردوں کا بھی ایک حصہ ہے اور (تمھارے) ماں باپ اور اقربا جوکچھ چھوڑیں، اُس میں عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، خواہ یہ کم ہو یا زیادہ، ایک متعین حصے کے طور پر۔۱۷ لیکن تقسیم کے موقع پر جب قریبی اعزہ اور یتیم اور مسکین وہاں آ جائیں تو اُس میں سے اُن کو بھی کچھ دے دو اور اُن سے بھلائی کی بات کرو۔۱۸ اُن لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو اگر اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑتے تو اُن کے بارے میں اُنھیں بہت کچھ اندیشے ہوتے۔ سو چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور (ہر معاملے میں) سیدھی بات کریں۔ ۷-۹
(سنو، خبردار رہو)، یہ حقیقت ہے کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ میں آگ ہی بھرتے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ کی بھڑکتی آگ میں پڑیں گے۔۱۰ 

۱۲؎  اس سے واضح ہے کہ حقوق ملکیت کے ساتھ خاندانی اور اجتماعی بہبود کا پہلو بھی لازماً ملحوظ رہنا چاہیے، اس لیے کہ کسی شخص کے مال کی بربادی پورے خاندان، بلکہ بعض اوقات پورے معاشرے کے لیے نقصان کا باعث ہوجاتی ہے۔ یتیم کے مال کو اسی بنا پر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے معاشرے کا مال قرار دیا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ یتیم اگر ابھی نادان اور بے سمجھ ہے تو اس کے سرپرستوں کا فرض ہے کہ اس کا مال اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھیں، اسے ہرگز اس کے حوالے نہ کریں۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ اپنا یہ مال جسے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لیے قیام وبقا کا ذریعہ بنایا ہے، ضائع کربیٹھے گا۔

۱۳؎  اصل میں ’وارزقوھم فیھا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’فیھا‘ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ یتیموں کے مال سے ان کی ضروریات فراخ دلی کے ساتھ پوری کی جائیں۔ عربی زبان میں ’ارزقوھم فیھا‘ کہا جائے تو اس کا مفہوم یہی ہوگا۔ ’فیھا‘ کے بجائے اس جملے میں ’منھا‘ ہوتا تو اس کے معنی البتہ، یہ ہوتے کہ ان کو اس میں سے کچھ دے دلا دیا جائے۔

۱۴؎  یعنی کوئی چھوٹی یا بڑی ذمہ داری ان کے سپرد کر کے دیکھتے رہو کہ معاملات کی سوجھ بوجھ اور اپنی ذمہ داریوں کو اٹھانے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا ہورہی ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ جنسی بلوغ ہر حال میں عقلی بلوغ کو مستلزم نہیں ہے۔ اس طرح کے تمام معاملات میں یہ چیز لازماً پیش نظر رہنی چاہیے۔

۱۵؎  یہ سرپرستوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ اپنی کسی خدمت کے عوض کچھ لینا اگرچہ ممنوع نہیں ہے، تاہم وہ اگر مستغنی ہوں تو بہتر یہی ہے کہ اس سے پرہیز کریں، لیکن غریب ہوں تو یتیم کے مال سے اپنا حق خدمت دستور کے مطابق لے سکتے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’۔۔۔ دستور کے مطابق سے مراد یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی نوعیت، جائداد کی حیثیت، مقامی حالات اور سرپرست کے معیار زندگی کے اعتبار سے وہ فائدہ اٹھانا جو معقولیت کے حدود کے اندر ہو، یہ نوعیت نہ ہو کہ ہر معقول آدمی پر یہ اثر پڑے کہ یتیم کے بالغ ہوجانے کے اندیشے سے اسراف اور جلد بازی کر کے یتیم کی جائداد ہضم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۲۵۵)

۱۶؎  یعنی اس بات کو یاد رکھو کہ ایک دن یہی حساب اللہ تعالیٰ کو بھی دینا ہے اور وہ سمیع وعلیم ہے، اس سے کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی۔

۱۷؎  یہ میراث کے ان حصوں کی طرف اشارہ ہے جو آگے کی آیات میں متعین کر دیے گئے ہیں تاکہ انسان جس چیز کا فیصلہ خود کرلینے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس کے بارے میں اسے رہنمائی حاصل ہوجائے اور زورآور وارثوں کے لیے مرنے والے کی تمام املاک اور جائداد سمیٹ کر قبضہ کرلینے کا کوئی موقع بھی باقی نہ رہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں، بلکہ ساری دنیا میں یہ حال رہا ہے کہ یتیموں اور عورتوں کا کیا ذکر، تمام کمزورورثہ زور آور وارثوں کے رحم وکرم پر تھے۔ قرآن نے اس صورت حال کی طرف دوسرے مقام ’وَتَاْکُلُوْنَ التُّراَثَ اَکْلاً لَّمًّا‘ کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔ اس صورت حال کو ختم کردینے کے لیے قرآن نے تمام وارثوں کے حقوق معین کردیے۔ مردوں کے بھی، عورتوں کے بھی۔ اوپر کی آیات کی تلاوت کرتا ہوا آدمی جب اس آیت پر پہنچتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ گویا یتیموں کی برکت سے دوسروں کے حقوق معین کرنے کی بھی راہ کھل گئی۔ یعنی جو خود حقوق سے محروم تھے انھوں نے نہ صرف یہ کہ حقوق حاصل کیے، بلکہ ان کی بدولت دوسروں کوبھی حقوق حاصل ہوئے۔ خاص طور پر عورتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے گویا پہلی بار ان کو بھی مردوں کے پہلو بہ پہلو حق داروں کی صف میں جگہ ملی اور اپنے والدین واقرباکے ترکے میں سے، خواہ کم ہو یا زیادہ، ان کا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معین حصہ فرض کردیا گیا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/۲۵۶)

۱۸؎  یعنی اس سے قطع نظر کہ قانونی لحاظ سے ان کا کوئی حق بنتا ہے یا نہیں، انھیں کچھ دے دلا کر اور ان سے بھلائی کی بات کر کے رخصت کرنا چاہیے اور اس طرح کے موقعوں پر چھوٹے دل کے کم ظرف لوگ جس طرح کی باتیں کیا کرتے ہیں، اس طرح کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B