(مسلم، رقم ۳۸)
عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الثَّقَفِیِّ قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُولَ اللّٰہِ، قُلْ لِی فِی الْاِسْلَامِ قَوْلاً لَا اَسْاَلُ عَنْہُ اَحَدًا وَفِی حَدِیْثِ اَبِی اُسَامَۃَ غَیْرَکَ قَالَ: قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ فَاسْتَقِمْ.
’’حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی: یا رسول اللہ، مجھے اسلام کے حوالے سے ایسی بات فرمادیجیے کہ میں اس کے بارے میں کسی اور سے نہ پوچھوں۔ اسامہ کی روا یت میں (’احدا ‘کے بجائے) ’غیرک‘ ہے۔ آپ نے فرمایا: کہو میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر جم جاؤ۔ ‘‘
استقم: ’استقامۃ ‘ کا لفظی مطلب ’سیدھا ہونا‘ہے۔ کہا جاتا ہے ’استقام لہ الامر ‘ ’معاملہ اس کے لیے سیدھا ہو گیا‘۔ اسی طرح یہ جب انسانوں کی نسبت سے استعمال ہو تو یک سو ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ سورۂ حٰم السجدہ میں ہے: ’اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْھُ ‘ (۴۱: ۶)۔ اسی سے یہ مداومت اور استمرار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
’قل لی فی الاسلام قولا لا اسئل عنہ احدا‘: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل مسلمان ہونے کا تقاضا جاننا چاہتا تھا۔ اس کے لیے’ فی ‘ کا حرف بہت موزوں ہے۔اسی طرح کفایت کر دینے والی بات کے لیے ’لا اسئل عنہ احدا‘ کی تعبیر بھی بہت موزوں ہے۔ یعنی ایسی جامع ومانع بات کہہ دیجیے کہ مجھے کسی اور بات کی حاجت نہ رہے۔
بعینہٖ یہ بات قرآن مجید میں بھی کہی گئی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ.(احقاف۴۶ :۱۳)
’’لاریب، وہ لوگ جنھوں نے کہا: اللہ ہمارا رب ہے۔ پھر اس پر جم گئے توان کے لیے وہ ٹھکانا ہے جس میں نہ ان کے لیے کوئی خوف ہو گا اور نہ ان کے لیے غم۔‘‘
مراد یہ ہے کہ حق کو قبول کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ پھر ہر طرح کے حالات میں اس پر ثابت قدمی سے قائم رہا جائے۔ یہ آیت جس سیاق وسباق میں آئی ہے ، اس کی روشنی میں اس کے معنی واضح کرتے ہوئے مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
’’...فرمایا کہ ہمارے جن بندوں نے قرآن کی دعوت حق قبول کرکے یہ اعلان کردیا ہے کہ ہمارا رب بس اللہ ہی ہے اور اپنے اس اقرار پر وہ تمام مخالفتوں سے بالکل بے خوف ہو کر ڈٹ گئے ہیں، ان کے لیے ابدی جنت کی بشارت ہے۔ نہ ان کو مستقبل کا کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی غم۔‘‘ (تدبر قرآن ۷ /۳۵۸)
دین کے ساتھ وابستگی کا یہ تقاضا قرآن مجید میں کئی اسالیب میں بیان ہوا ہے۔مثلاً سورۂ آل عمران میں ہے:
یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہِ، وَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.(۳ :۱۰۲)
’’ ایمان والو، اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور دنیا سے رخصت ہو تو ہر حال میں اسلام پر رخصت ہو۔‘‘
استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’یعنی خدا سے یہ ڈرنا اور اس کی اطاعت پر قائم رہنا زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ اس میں کسی انقطاع کی گنجایش نہیں ہے۔ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد یہ جدوجہد شروع ہو گی اور زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گی۔ لہٰذا خبردار رہو، اتمام سے ذرا پہلے بھی اگر اس کا سلسلہ ٹوٹ گیا تو ساری محنت برباد ہو جائے گی۔
استاذ امام نے اس کا ایک اور پہلو بھی واضح فرمایا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...آیت کے اسلوب میں یہ بات بھی مخفی ہے کہ یہ راہ بہت ہموار نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت سے نشیب وفراز اور ہر قدم پر اتار چڑھاؤ ہیں۔ اس میں آزمایشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا ہوگا اور شیاطین کے شب خونوں اور معاندین کی دراندازیوں اور فساد انگیزیوں سے سابقہ پیش آئے گا۔ کبھی طمع ورغلانے کے لیے عشوہ گری کرے گی۔ کبھی خوف دھمکانے کے لیے اپنے اسلحہ سنبھالے گا۔ جو ان سب مرحلوں سے اپنا ایمان و اسلام بچاتا ہوا منزل پر پہنچا اور اسی حال میں اس نے جان، جان آفرین کے سپرد کی، درحقیقت وہ ہے جو خدا سے اس طرح ڈرا، جس طرح خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور یہی ہے جس کو اعتصام باللہ کا مقام حاصل ہوا۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۱۵۲)‘‘ (اشراق اگست۲۰۰۵/ ۱۳)
زیر بحث روایت بھی دین کے ساتھ وابستگی کے اسی تقاضے کو بیان کرتی ہے۔
امام مسلم نے اس روایت میں ایک سوال اور اس کا جواب نقل کیا ہے۔ ترمذی اور بعض دوسری کتب میں سائل کا ایک اور سوال بھی بیان ہوا ہے۔ ممکن ہے سوالات اور بھی کیے گئے ہوں، لیکن کتب حدیث میں دو ہی سوالات روایت ہوئے ہیں۔ ہم یہاں دوسرا سوال ترمذی کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
یا رسول اللّٰہ ما اخوف ما تخاف علی؟ فاخذ بلسان نفسہ ثم قال: ہذا.(رقم ۲۴۱۰)
’’(پھر انھوں نے پوچھا): اے اللہ کے رسول، آپ کو کس چیز میں میرے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ ہے؟ اس پر آپ نے اپنی زبان پکڑی۔ پھر کہا: یہ۔‘‘
یہ سوال الفاظ کے فرق کے ساتھ متعدد کتب میں منقول ہے۔ مثلاً ’ ما اخوف‘ کی جگہ ’ ما اکثر‘ ، ’ ما اشد‘ اور ’ما اکبر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح ’ تخاف‘ کے بجائے ’ تخوف‘ اور ’ اخاف‘ بھی آیا ہے۔ بعض روایات میں ایک دوسرے جملے میں یہ سوال نقل کیا گیا ہے۔ یعنی یہ سوال ’فما اتقی‘ یا ’ای شئ اتقی‘ کے الفاظ میں پوچھا گیا ہے۔ سوال ہی کی طرح حضور کا جواب بھی مختلف جملوں اور الفاظ میں روایت ہوا ہے۔ ’فاخذ بلسان نفسہ‘ کے لیے ’فاشار بیدہ الی لسانہ‘ ، ’ اخذ بطرف لسانہ‘ اور ’فاوما الی لسانہ‘ کے جملے بھی روایت ہوئے ہیں۔
مسلم میں منقول سوال وجواب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ایک تو سوال ’قل لی فی الاسلام‘ کے بجائے ’اخبرنی امرا فی الاسلام‘ کے الفاظ میں نقل ہوا ہے۔ دوسرے یہی سوال ’حدثنی بامر اعتصم بہ‘ کے اسلوب میں بھی منقول ہے۔ اس میں مزید فرق یہ ہے کہ ’ حدثنی ‘ کی جگہ ’ اخبرنی ‘ اور ’ مرنی‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ ’ لا أسئل عنہ أحدا بعدک‘ والے جملے میں ’ بعدک ‘ کے بجائے ’ غیرک ‘ بھی آیا ہے اور ایک روایت میں اس جملے میں یہ دونوں جمع کر دیے گئے ہیں۔ مسلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ’ قل آمنت باللّٰہ ثم استقم‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ کچھ روایات میں ’ آمنت باللّٰہ ‘ کی جگہ ’ ربی اللّٰہ ‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔
اس سے ملتی جلتی ایک روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:
قلت یا رسول اللّٰہ اوصنی فقال: قل ربی اللّٰہ ثم استقم. قال: قلت: ربی اللّٰہ وما توفیقی الا باللّٰہ علیہ توکلت والیہ انیب. فقال: لیہنک العلم، ابا الحسن.(بحوالہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نصیحت کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا: کہو، اللہ میرا آقا ہے ، پھر اس پر جم جاؤ۔ میں نے کہا: میرا آقا اللہ ہے ، توفیق اللہ ہی دیتا ہے، میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں، اسی کے آگے جھکتا ہوں۔ اس پر آپ نے کہا: ابوالحسن تمھیں یہ علم مبارک ہو۔‘‘
مسلم، رقم۳۸ ۔ ترمذی، رقم۲۴۱۰۔ ابن ماجہ، رقم۳۹۷۲۔ دارمی، رقم ۲۷۱۱۔ احمد، رقم۱۵۴۵۴، ۱۵۴۵۵، ۱۵۴۵۶، ۱۵۴۵۷، ۱۹۴۵۰۔ ابن حبان، رقم۹۴۲، ۵۶۹۸، ۵۶۹۹، ۵۷۰۰، ۵۷۰۲۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۴۸۹۔ معجم کبیر، رقم۶۳۹۶، ۶۳۹۷، ۶۳۹۸۔
_______________