HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

صبح کل آئے گی

ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں وہ راتوں رات وجود میں نہیں آگئی ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے مدینۃ النبی سے عالمی دارالحکومت کی دمشق منتقلی کے بعد بغداد، استنبول، ایمسٹرڈم اور لندن کے بعد اب واشنگٹن ڈی سی کو دنیا کے دارالحکومت کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے جس سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ گوکہ اس وقت عالمی سطح پر دوسرے اقوام و ملل بھی قوت کے میزانئے میں اپنا کچھ نہ کچھ وزن رکھتے ہیں، مثلاً روس اور چین کو نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں اور نہ ہی فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی اقتصادی قوت سے یکسر صرف نظر ممکن ہے۔ دوسری طرف ہندوستان جیسی ابھرتی معیشت بھی اپنی سبقت کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے۔ ایک طرف یورولینڈ کے ارتقا نے جہاں ڈالر کے مقابلے میں ایک متبادل معیشت کا بگل بجادیا ہے تو دوسری طرف دنیا میں اس حقیقت کا بھی اعتراف ہوتا رہا ہے کہ اکیسویں صدی کی دنیا کو متحرک رکھنے کے لیے ایندھن کے جو ذخائر شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں ان کا ایک خاصا بڑا حصہ عالم اسلام میں پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایندھن کے پچاس فی صد ذخائر صرف پانچ ممالک میں موجود ہیں۔ گویا آنے والے دنوں میں دنیا عالم اسلام سے بے نیاز ہو کر مستقبل کا منصوبہ تشکیل نہیں دے سکتی۔ بظاہر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قوت کے جزیرے دنیا کے مختلف خطوں میں واقع ہیں، لیکن عملاً واشنگٹن ڈی سی کا قوت کے ان تمام بکھرے جزیروں پر کنٹرول قائم ہوگیا ہے۔ ۱۱ستمبر کے بعد عالمی سطح پر جو اتھل پتھل ہوئی ہے اس نے اس حقیقت کو مزید منکشف کردیا ہے کہ سیکورٹی کونسل کے دوسرے ممبران کی اہمیت کے باوجود دنیا میں عملاً فیصلہ کن حیثیت واشنگٹن ڈی سی کو حاصل ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے اعتراف کے بغیر صورت حال کی تبدیلی کے لیے اگر کوئی منصوبہ تشکیل دیا گیا تو اسے حقیقت پسندی سے اجتناب پر محمول کیاجائے گا۔

صورت حال کے اس اعتراف کے بعد اس حقیقت کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ دنیا میں کوئی بھی صورت حال ایسی نہیں جس کا مقابلہ نہ کیا جاسکتا ہو اور نہ ہی انسانی تاریخ میں کبھی کوئی قوت ناقابل تسخیر رہی ہے۔ ہاں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوش فہمیوں سے بلند ہوکر جذباتی طرز فکر سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ایک حقیقت پسند اسٹریٹیجی تشکیل دیں۔ افسوس کہ ۱۱ستمبر کے واقعہ کو کوئی ساڑھے چار سال کا عرصہ گزرا، امت مسلمہ جو ان تمام ایام میں امریکی نشانے کی زد پر رہی ہے اب تک حقیقت حال کا اعتراف کرنے اور کسی عملی جدوجہد کا منصوبہ تشکیل دینے میں سہل پسندی سے کام لیتی رہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عراق میں امریکی مشن کا طول اور افغانستان میں کرزئی حکومت کی حدود کابل میں محصوری، فلسطین میں حماس کی کامیابی، پاکستان میں دینی جماعتوں کا سیاسی عروج اور خود امریکہ میں بش انتظامیہ کے مسلسل گرتے گراف نے امریکی استعمار کے لیے خاصی دشواریاں پیدا کردی ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکی استعمار کی اس جزوی ہزیمت سے عنقریب امریکہ کے زوال کا راستہ ہموار ہوگیا ہے یا یہ کہ واشنگٹن ڈی سی کا سقوط اب چند دنوں کی بات ہے تو ایسا سوچنا دراصل خوش فہمیوں کی دنیا میں جینا ہوگا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو کوئی بھی نظام زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا۔ لیکن امریکہ میں جس طرح بش حکومت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں، عراق کے مسئلے پر حکمراں طائفے پر عوام کو گمراہ کرنے کا الزام لگ رہا ہے اور جس طرح خود امریکہ کے اندر اہل فکر، سیاسی و سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے چھوٹے بڑے ادارے حریت فکرو عمل کو برقرار رکھنے کے لیے میدان میں آرہے ہیں، اس نے امریکی نظام کے اندر اصلاح کے امکانات کو برقرار رکھا ہے۔ امریکی جمہوریت کی یہی وہ قوت ہے جو ظلم و استحصال کی پالیسیوں کے باوجود اسے زندگی جینے کا مزید موقع فراہم کرتی رہی ہے اور اگر اس سلسلے پر بش کا طائفہ یکسر روک لگانے میں ناکام رہا تو فکرو نظر کی یہی آزادی واشنگٹن ڈی سی کو مزید عالمی دارالحکومت کی حیثیت سے برقرار رکھ سکے گی۔

سوویت یونین کے زوال کے بعد ریاست سے وابستہ بعض امریکی دانش وروں اور پالیسی سازوں نے اسلام کو ایک نئے خطرے کی حیثیت سے پیش کیا۔ ان کی اس ژولیدہ فکری کو مواد فراہم کرنے میں ان پر جوش دینی تنظیموں اور انجمنوں نے اہم رول ادا کیا جو کبھی امریکی عزائم کی حلیف بن کر روس کے خلاف افغانستان میں سرگرم عمل تھیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ افغانستان کو سوویت یونین کے قبضے سے بچانا اور سرخ انقلاب کی توسیع پسندی کو لگام دینا اس وقت بیش تر مسلم ممالک بشمول پاکستان کی اپنی ضرورت تھی۔ تب امریکی امداد ان کے وقتی مقاصد سے ہم آہنگ تھی۔ البتہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد جہادی تنظیمیں اس حقیقت کو فراموش کرگئیں کہ سوویت یونین کی پسپائی میں ان کے زور بازو کے علاوہ دوسرے محرکات بھی کلیدی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ جہاد افغانستان کے دوران میں مافوق الفطری واقعات کا ہونا، شہدا کی لاشوں سے متعلق کشف و کرامات کے واقعات اور ان جیسی عوامی داستانوں نے ہمارے نوجوانوں کو ذہنی طور پر ایک ایسی دنیا میں پناہ لینے پر مجبور کیا جہاں حقیقت پسندی کے بجائے رومانس کا غلبہ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ ایک مشترکہ حکومت کی تشکیل پر متفق نہ ہوسکے اور جن کی قبائلی عصبیت یا گروہی وابستگی اسلام کے اجتماعی مفاد پر غالب رہی۔ وہ یہ خواب دیکھنے لگے کہ سوویت یونین کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے بعد اب وہ دنیا کی واحد سپرپاور امریکہ کا بھی وہی حشر کرسکتے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کی اس رومان پسندی نے، جس میں حالات کے حقیقت پسندانہ تجزیے کے بجائے جوش و جذبہ کو کہیں زیادہ دخل تھا، پوری امت کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جس کے سبب ہم بغیر کسی تیاری کے مغرب سے دو دو ہاتھ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جدید دنیا کی طرف اسلام پسندوں کے اس رومانوی رویے کے پیچھے بعض ایسی اساطیری داستانیں بھی سرگرم رہیں جن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا، لیکن جس نے ہمارے زوال کے عہد میں مسلم فکر میں اپنی جگہ بنالی تھی۔ پندرہویں صدی ہجری کی ابتدا میں صدی کے پہلے دن جہیمان العتیبہ نے جب حرم مکی کا محاصرہ کیا تو وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ نئی صدی کا نیا سورج جس شخص کے ہاتھوں طلوع ہوگا اس کا تعلق اسی مہدئ برحق کے طائفے سے ہے۔ یہ روایت کہ ہر صدی کے سرے پر خدا کوئی مجدد پیدا کرے گا، فنی اعتبار سے بے اصل ہونے کے باوجود صدیوں سے ہماری راسخ العقیدہ فکر کا حصہ بنی رہی ہے۔ ایران میں خمینی کی قیادت میں صدیوں سے خوابیدہ شیعہ فکر کے احیا نے بھی سنی مسلمانوں کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دنیا بھر سے اسلام پسند تنظیمیں جو جہاد افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے سرحدی شہروں میں جمع ہو گئی تھیں، اب نفسیاتی طور پر اپنے کو فاتح تصور کرتی اور نئی صدی میں اسلامی احیا کے لیے کوئی ٹھوس اور حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کے بجائے اساطیری ماحول سے غذا حاصل کرتی ہیں۔ طالبان کی حکمرانی کے بعد امیر المومنین جیسی اصطلاحوں کے استعمال سے اس رومانی لب و لہجہ کی تشکیل میں مزید مدد ملی۔ ایسا محسوس ہوا گویا بیسویں صدی کے آخری عشرے میں انصار و مہاجرین کا گروہ ایک بار پھر باطل سے نبردآزما ہونے کے لیے نئی صدی کے ’’مدینہ‘‘ قندھار اور اس کے اطراف میں جمع ہوگیا ہے۔ نہ تو مسلم اہل فکر نے صحیح صورت حال کے ادراک کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی نئے مہاجرین و انصار کو اس حقیقت سے آگہی ہوسکی کہ وہ جس نظام کو شکست دینا چاہتے ہیں، ان کے پاس اس کے لیے سرے سے مطلوبہ تیاری ہے ہی نہیں۔ طالبان رسوم دین داری کو اسلام سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ حلقۂ دیوبند کی جامد رسوم دین داری سے آگے سوچنے کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے ،خود اہل قبلہ کے دوسرے گروہوں کا ایمان ان کے لیے قابل اعتبار نہ تھا۔( Cultic Thinking) کے حامل لوگ اگر اساطیری توہمات کا شکار ہوجائیں تو وہ اپنے غیر عقلی رویے سے کسی بڑے حادثے کو تو جنم دے سکتے ہیں، البتہ کسی نئی دنیا کی داغ بیل نہیں ڈال سکتے۔

۱۱ستمبر کے واقعہ کو کوئی پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں اب تک امت مسلمہ عوامی سطح پر بار کوخبا سنڈروم سے باہر نہیں آسکی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب رومی گورنر کے ظلم وجبر سے تنگ آکر بار کوخبا نے مسلح بغاوت کا اعلان کیا تو اسے ہر خاص و عام یہودی کی ہمدردی حاصل ہوگئی۔ حالات سخت تھے اور عوام اس سے نجات کے طالب بھی۔ بارکوخبا کی عسکری لیاقت اور اس کی سلیم الفکری پر تو شاید ہی کسی کو اعتبار تھا، البتہ عوام تو عوام خواص بھی یہ سمجھتے تھے کہ رومیوں کو چیلنج دینے کا حوصلہ تو بہرحال اس میں ہے۔ ربائی اکیوا جسے اہل یہود کی مذہبی فکر میں بڑی اہمیت حاصل ہے، انھوں نے بھی بارکوخبا کی حمایت کا اعلان کردیا۔ جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ بارکوخبا کی عسکری تیاری اور اس کی فکری لیاقت کو نظرانداز کرتے ہوئے اسے اس وقت کا مسیحا تسلیم کرلیا گیا اور پوری یہودی قوم اس کے پیچھے آگئی۔ ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوا گویا اہل یہود اپنا کھویا ہوا جاہ و حشم حاصل کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہوں۔ لیکن کہاں رومی حکومت کی منظم طاقت اور کہاں اہل یہود کے بے ہنگم گروہ اور ان کی خالی خولی نعرہ بازیاں۔ بارکوخبا کی بغاوت اس طرح کچلی گئی کہ ایک طویل مدت تک کے لیے اہل یہود پر سخت مایوسی طاری ہوگئی۔ ابھی زیادہ دنوں کی بات نہیں جب فلسطین سے پشاور تک اور انڈونیشیا سے مراکش تک اسامہ بن لادن کی حمایت میں عوامی جوش و جذبہ کا یہ عالم تھا گویا پوری مسلم قوم ان کی قیادت میں متحد ہوگئی ہو۔ اساطیری ماحول حقیقت پسندی سے اجتناب کی راہ دکھاتے ہیں۔ یہ وقتی طور پر کسی بارکوخبا، کسی سباطائی زی وی، کسی جہیمان العتیبہ اور کسی بن لادن کو تو پیدا کرسکتے ہیں، البتہ اساطیری جوش و جذبات پر ابھرنے والی تحریکوں سے انسانی تاریخ میں کبھی بھی کوئی نئی دنیا پیدا نہیں کی جاسکی ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بن لادن یا دوسرے جہادی گروہ موجودہ عالمی نظام کی جن ناانصافیوں کو نشانۂ تنقید بناتے ہیں یا صورت حال کی اصلاح کا جو داعیہ انھیں سرگرم رکھتا ہے، انھیں عقلی یا مذہبی بنیادوں پر مسترد کیا جاسکتا ہے۔ البتہ وہ جس طرح دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اس سے صاف لگتا ہے کہ انھیں جدید دنیا کی واقعی تفہیم حاصل نہیں ہے۔ نظری اعتبار سے بھی وہ اسلام کی ان جامد تعبیرات کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں جسے استعماری عہد کی پیداوار کہا جاسکتا ہے، جہاں ہمارے اہل فکر نے اسلام کو صرف مدافعت کی زبان میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

—————

مدینۃ النبی سے واشنگٹن ڈی سی کے سفر تک کوئی چودہ صدیوں کا عرصہ گزرا ہے، البتہ ضروری نہیں کہ اس پورے تاریخی سفر کی بساط لپیٹنے کے لیے بھی اتنی ہی مدت درکار ہو۔ اگر ہم ان عوامل کی نشان دہی میں کامیاب ہوگئے جس نے کل ساتویں صدی عیسوی کے مدینہ کو عالمی دارالحکومت میں تبدیل کردیا تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک بار پھر دنیا کے سیاہ و سفید کے فیصلے ان کے ہاتھوں میں آجائیں جو نظری طور پر خود کو آخری رسول کی امت سمجھتے ہیں۔ البتہ ان عوامل کی نشان دہی میں صرف مدینۃ النبی کا زمانی و مکانی مطالعہ کافی نہ ہوگا۔ ایسا کرنا ہوسکتا ہے کہ ہمیں تاریخ پر غیرمعمولی انحصار پر مجبور کرے، بلکہ اس سے بھی کہیں آگے بڑھ کر وحی ربانی کی روشنی میں ہمیں ان عوامل کی نشان دہی کرنی ہوگی جسے قرآن نے سیادت پر مامور قوموں کا وصف بتایا ہے۔ پھر تکملہ کے طور پر اس بات کا جائزہ لینا بھی مناسب ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کی ابتدا میں بوجوہ واشنگٹن ڈی سی کو عالمی منظرنامے میں کلیدی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ گویا نئی دنیا کی تفہیم کے بغیر وحی ربانی کی حامل امت سیادت عالم کے فریضۂ منصبی کا کماحقہ حق ادا نہیں کرسکتی۔

نئے منصوبے پر کام کی ابتدا کے لیے ایک نئے مسلم ذہن کی تشکیل پہلا مرحلہ ہوگا۔ وحی ربانی کے ازسرنو مطالعے سے ہمیں بعض ان معتقدات کو جو کثرت تکرار سے کلیے بن گئے ہیں، نئے فکری ڈھانچے میں نئی معنویت عطا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مختصراً میں چند نکات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

۱۔ قرآن مجید وحی ربانی کا آخری غیر محرف وثیقہ ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی کوئی نظیر اس دنیا میں موجود نہیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ انسانی ذہن غورو فکر اورتدبر و تفکر کے سلسلے کو جاری رکھے۔ گویا قرآن مجید کی مرکزی اور کلیدی اہمیت کو کسی تاریخی، تفسیری اورتعبیری ادب کے تابع نہ کیا جائے۔

۲۔ محمد رسول اللہ کے متبعین ایک ایسی عالم گیر دعوت کے امین ہیں جس میں ابراہیم و اسمٰعیل، اسحٰق و یعقوب، موسیٰ و عیسیٰ اور تمام سچے انبیا کی جدوجہد کا ارتکاز پایا جاتا ہے۔ اس عالم گیر دعوت کو دین محمدی پر محمول کرنا رسول اللہ کی عظمت کی سچی تعبیر نہیں ہوسکتی۔ رحمۃ للعالمین اور بشیراً و نذیراً کے متبعین کو چاہیے کہ وہ محض اپنی قوم کی فلاح و بہبود کے بجائے پوری انسانیت کی دادرسی کا عملی مظاہرہ کریں۔ اس کے برعکس اگر متبعین محمد صرف اپنے قومی افتخار کی بلندی یا امت محمدیہ کی فلاح و بہبود میں مصروف ہوگئے تو ایسا کرنا اس عظیم تر انسانی مشن سے انحراف ہوگا۔

۳۔ قرآن مجید عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ ایک ایسے صاف ستھرے شفاف اسلوب کو اختیار کرنے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ترسیل کی سطح پر یہاں کسی ابہام کی گنجایش نہیں رکھی گئی ہے۔ اس لیے محض زبان اور ثقافت کی وجہ سے ایک عالمی کتاب پر اہل عرب کی اجارہ داری کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ مختصراً یہ کہ اسلام کی صحرائی اٹھان کے باوجود عرب ثقافت اس کا جزو لاینفک نہیں ہے جسے آسمانی پیغام کی طرح تقدس حاصل ہو۔ ’ان اکرمکم عند اللّٰہ اتقاکم‘ کی صداے عام اس بات سے عبارت ہے کہ مستقبل کا اسلامی معاشرہ عرب و عجم، سیاہ و سفید، نسب و رنگ کے امتیازات سے بالاتر ہوگا۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہوگی اور نہ ہی کسی خاص ثقافت کو اسلام کا اصل الاصل قالب گردانا جائے گا۔

۴۔آخری وحی کے حاملین کی حیثیت سے مستقبل کی انسانی تاریخ میں متبعین محمد کی کلیدی اہمیت مسلم ہے، البتہ نوع انسانی کی قیادت کا یہ کام مسلمان تن تنہا انجام دے سکتے اور نہ ہی وہ اس کے مکلف ہیں۔ ایک عالمی نظام کی تشکیل میں کلمۂ سواء کی بنیاد پر دوسری اہل ایمان قوموں کو شرکت کی دعوت ہمارے مقاصد کے حصول کو آسان کردے گی۔ ماضی میں اسی وسعت قلبی نے ہمیں ناقابل تسخیر (Phenomenon) میں تبدیل کردیا تھا۔

۵۔دین اسلام کی یہ تعبیر کہ اہل حق کے دوسرے طائفوں پر نجات کے دروازے بند ہیں اور یہ کہ اس قسم کی بشارت پر مشتمل قرآنی آیات منسوخ یا مؤول ہیں۔ ایسی انسانی تعبیریں ہیں جنھیں حتمی صداقت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کلمۂ سواء کی بنیاد پر اہل حق کے طائفوں کو مجتمع کرنے میں یہ تعبیریں جو اپنا خاص ثقافتی اور سماجی پس منظر رکھتی ہیں، مسلسل مزاحم ہوتی رہی ہیں۔ عالمی نظام انصاف کی قیادت کے لیے مسلمانوں کو ازسرنو اسی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، جس کا قرآن داعی ہے۔

۶۔ بعض ثقافتی، تاریخی اور سیاسی عوامل کے سبب مسلم معاشرے میں عورت کے سماجی رول کی نفی کی جاتی رہی ہے۔ احکام حجاب کو ثقافت کا تابع کردینے کی وجہ سے مسلم معاشرے کی آدھی قوت صدیوں سے کالعدم ہے۔ مختلف زمانوں میں فقہاے اسلام نے عورت کے دائرۂ کار کے تعین اور حجاب سے متعلق جو رہنما خطوط تشکیل دیے ہیں، اسے وحی کی لازوال تعبیر کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا کہ بسااوقات یہ تعبیریں عہد رسول کی مدنی زندگی سے متصادم نظر آتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایک پاکیزہ اسلامی معاشرے کا قیام عورتوں کو ان کے قرآنی حقوق کو لوٹائے بغیر ممکن نہ ہوگا۔

۷۔ قرآن مجید رہتی دنیا تک کے لیے کتاب ہدایت ہے۔ قرآن مجید کا یہ دعویٰ کہ وہ کتاب مفصل ہے، کسی لمبی چوڑی تشریح و تعبیر کے امکان کی نفی کرتا ہے۔ خدا جو قادر مطلق ہے، وہ یقیناً بندوں کے مقابلے میں اظہار پر کہیں زیادہ قادر ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ فہم قرآن میں تفسیری اور تعبیری ادب کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شان نزول کی غیرمعتبر روایتوں میں وحی کے معانی کو مقید کرنے کے بجائے قرآن مجید کو عصر حاضر کی وحی کے طور پر پڑھا جائے۔ بیان للناس کا قرآنی دعویٰ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اسے کتاب ہدایت کی حیثیت سے پڑھنے اور برتنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ ایسا کرنا قرآن کی بنیاد پر ایک ہمہ گیر عوامی تحریک کو جنم دینے کا موجب ہوگا۔

۸۔ اسلام جس نظام عدل، اخوت اور مساوات کا علم بردار ہے، اس کی عملی تعبیر ایک ایسی فضا میں ہی ہوسکتی ہے جہاں انسان اور خدا کے مابین کوئی انسانی ادارہ یا کسی مذہبی پیشوائی کو کوئی دخل نہ ہو۔ علم اور اہل علم کی اہمیت اپنی جگہ مسلم۔ اہل علم سے اکتساب تو کیا جاسکتا ہے، البتہ انھیں (Religious Authority) کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ قرآن جس حریت فکر کا داعی ہے اور رسول کو ’ویضع عنہم اصرہم والأغلال التی کانت علیہم‘ کے جس فریضۂ منصبی پر مامور بتایا گیا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ مسلم ذہن مشائخ پرستی سے آزاد ہو کر لوجہ اللہ ایک نئی ابتدا کا اہتمام کرے۔ عین ممکن ہے کہ نئی ابتدا کے اہتمام میں متبعین محمد سے بعض فکری اور عملی لغزشوں کا صدور بھی ہو۔ انسانوں سے ایسی توقع غیرفطری نہیں۔ لیکن قرآن مجید کا بار بار تدبر و تفکر اور تعقل پر اصرار ہم سے اس بات کا طالب ہے کہ ہم سلف صالحین کی فہم کو حرف آخر سمجھنے اور ان کی تعبیری غلطیوں کو اپنے کندھوں پر ڈھونے کے بجائے اپنی غلطیوں کی طرح ڈالیں۔ سلف صالحین جن کی لغزشوں کو بوجوہ تقدس کا مقام حاصل ہوگیا ہے، اس کے مقابلے میں عصر حاضر کے انسانوں کی لغزشوں کا محاکمہ اور ان کی اصلاح کا کام نسبتاً آسان ہوگا۔

یہ وہ چند بنیادی نکات ہیں جن کے سرسری تذکرے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا کی صورت حال میں ایک انقلابی تبدیلی کے لیے نئے مسلم ذہن کی تشکیل کو کلیدی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف بھی ہونا چاہیے کہ نئے ذہن کی تشکیل کے لیے تیرہ صدیوں پر مشتمل تعبیری ادب میں بنا بنایا فکری سرمایہ خاصا کم ہے۔ روایتی طرز فکر جو قرآن کے بجائے اساطیری ماحول سے غذا حاصل کرتی ہیں، نسلاً بعد نسلٍ ایک مصنف سے دوسرے مصنف کی کتابوں میں نقل ہوتے رہنے کے سبب راسخ العقیدہ فکر کا ترجمان بن گئی ہے۔ ایسی صورت میں قرآن مجید کو اصل الاصل تناظر میں پڑھنے کی دعوت ایک ہمہ گیر علمی تحریک برپا کئے بغیر موثرنہ ہوسکے گی۔ ماضی میں بعض اصحاب نے روایتی ذہن پر ضرب لگانے کے لیے جو فکری کوششیں کی ہیں، انھیں امت میں قبول عام نہ مل سکا۔ ایسی تحریریں تفردات قرار دے کر لائبریریوں کی زینت بنادی گئیں۔ عصرحاضر کے شارحین کے لیے لازم ہوگا کہ وہ علمی تفردات میں اضافے کے بجائے قرآن مجید کو عملی رہنمائی کا مرکز بنائیں۔ خالص علمی مباحثے اور تفردات کی نکتہ آفرینی کے بجائے قرآن مجید کو ایک ایسی عام فہم کتاب کے طور پر پڑھنے کی کوشش کی جائے جو متبعین محمد کی قیادت میں تمام انسانیت کو مژدۂ جاں فزا سناتی ہو۔

گزشتہ دنوں طالبان کے افغانستان پر امریکی فضائی حملوں کے درمیان بار بار یہ خیال کچوکے لگاتا رہا کہ جب تک ہماری دانش گاہیں B52 بمبار طیارے کا جواب فراہم نہیں کرتیں، مغرب کے مقابلے میں ہزیمت اور پسپائی ہمارا مقدر رہے گی۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں علوم و فنون پر مغرب کو واضح برتری حاصل ہے، ایک امکانی رویہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ ہم علوم و فنون اور سائنسی ایجادات و اختراعات میں مغرب سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ ایک دوسرا عملی رویہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علوم و فنون کی حامل قوموں کو اسلام کے عالم گیر مشن کے لیے مسخر کیا جائے۔ اسلام کی آفاقی دعوت کا اصل جوہر تو یہی ہے کہ وہ اپنے سخت ترین دشمنوں کے لیے بھی مژدۂ جاں فزا بن جاتا ہے۔ عہد رسول میں آفاقی اسلام کی اس دعوت نے مختلف قوموں اور ان کے اعلیٰ اصحاب علم و فن کو اسلام کی خدمت پر مامور کردیا تھا۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ آج مغرب کے پالیسی ساز اداروں اور مفکرین کو اسلام کی آفاقی دعوت اپنے اصل الاصل قالب میں متوجہ نہ کرسکے۔ ۱۲۵۸ء میں سقوط بغداد کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا گویا اسلام اور مسلمانوں پر اب کبھی صبح نہ آئے گی۔ لیکن وہی لوگ جو عباسی بغداد کی تاراجی کا سبب بنے تھے، آنے والی صدیوں میں اسلام کے محافظ و نقیب بن گئے۔ عجب نہیں کہ آج ایک آفاقی اور پیمبرانہ لب و لہجہ کی تشکیل مغرب کے ایوانوں کو بھی اسی صورت حال سے دو چار کردے۔

———————

B