HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘ (۴)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


پانچویں قسط میں حافظ محمد زبیر صاحب نے چوتھی قسط کی ۱۸ روایات میں دو اور روایات کا صرف بوجھ ڈالنے کے لیے اضافہ کیا ہے، کیونکہ ایک روایت کا تو اصل موضوع سے کوئی تعلق نہیں بنتا، جبکہ دوسری روایت امہات المومنین کے ساتھ مخصوص ہے۔ ان روایات کے علاوہ انھوں نے منکرین حجاب (علامہ البانی جن کے سرخیل ہیں) کی تین دلیلوں کی تردید کی ہے۔ اس قسط کا جواب پیش خدمت ہے۔

اس قسط کے آغاز میں صاحب مضمون کی ایک لغوی غلطی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کو میں ادارۂ حکمت قرآن کے نوٹس میں لایا تھا۔ لکھا یہ گیا ہے کہ صاحب مضمون ’قبض‘ کے معنی نہیں سمجھ سکے۔ اس کے علاوہ میں نے مضمون نگار کی دو ایسی فحش غلطیوں کی نشان دہی کی تھی جس سے عربی زبان کا ابتدائی طالب علم اور عربی نہ جاننے والا عام مسلمان بھی باخبر ہے۔ عربی میں ’ہ‘ کی ضمیر متصل مذکر کے لیے اور ’ھا‘ کی ضمیر مونث کے لیے استعمال ہوتی ہے، مگر مضمون نگار نے ’یدہ‘ کا ترجمہ ’’اس عورت کا ہاتھ کیا ہے۔‘‘ پھر ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔‘‘ عربی نہ جاننے والا مسلمان اتنی بات تو جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اجنبی عورت کا ہاتھ چھوا تک نہیں، چہ جائیکہ پورے پنجے سے اسے پکڑا ہو۔ ایسی بات صرف حافظ محمد زبیر جیسا محقق ہی کہہ سکتا ہے۔

مقام شکر ہے کہ مضمون نگار نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کوئی ایسی بات نہیں کہی جس کا علمی بحث سے پہلے مجھے جواب دینے کی ضرورت پڑتی۔ اس لیے میں اپنی بات فوری طور پر علمی بحث سے شروع کروں گا۔

روایت نمبر۱۹: ام عطیہ کا قول ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم حیض والی اور خلوت نشیں عورتوں کو عیدین (چھوٹی اور بڑی عید) کے دن نکالیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جماعت اور دعا (نماز استسقا) میں حاضر ہوں اور حیض والی عورتیں عید گاہ (مصلّی) سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اگر ہم میں سے کسی کے پاس جلباب نہ ہو تو؟ آپ نے فرمایا: اس کی ساتھی عورت اسے اپنی جلباب پہنادے۔

اس روایت کو امام بخاری نے پہلے ’’کتاب الطہارۃ‘‘ (۱: ۴۲۴) اور پھر ’’کتاب الصلوٰۃ‘‘ (۱: ۴۶۶) میں بیان کیا ہے۔

صاحب مضمون نے ترجمہ میں جو غلطیاں کی ہیں، ان سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف ان کے اس استدلال کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ جلباب آپ کے زمانہ میں چہرے اور سارے جسم کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتی تھی، جیسا کہ حضرت عائشہ سے بخاری کی روایت (نمبر ایک) سے ظاہر ہوتا ہے۔

میں اصل مضمون میں ائمۂ لغت کے اقوال کی روشنی میں جلباب کے معنی اور مقصد پیش کرچکا ہوں۔ اگر صاحب مضمون ان کو نہیں مانتے تو اس میں ان کے ذوق کا قصور ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:

قد تنکر العین ضوءَ الشمس من رَمَد
وینکر الفھم طعمَ الماء من سَقَمِ
’’کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آنکھ اپنے آشوب کی وجہ سے سورج کی روشنی کا انکار کر دیتی ہے اور کبھی منہ بیماری کی وجہ سے پانی کے ذائقہ کا انکار کر دیتا ہے۔‘‘

بہرکیف اتمام حجت کے طور پر زیرنظر حدیث میں وارد لفظ جلباب کے معنی اور مقصد کے سلسلہ میں شارحین بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین العینی ’’صاحب عمدۃ القاری‘‘ اور قسطلانی ’’صاحب ارشاد الساری‘‘ کے اقوال لفظ بلفظ پیش کر رہا ہوں تاکہ فرار کا کوئی موقع باقی نہ رہے۔ حافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۱: ۴۲۴) میں فرماتے ہیں: ’’ایک قول ہے کہ اس سے مراد ’المقنعۃ‘ ’’سرپر ڈالنے کی اوڑھنی ہے۔‘‘ لسان العرب (۸: ۳۰۰) میں ہے کہ ’المقنع والمقنعۃ ما تغطی بہ المراۃ راسہا‘ ’’یعنی جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔‘‘ صحاح میں ہے۔ ’ما تقنع بہ المراۃ راسہا‘ ’’جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔‘‘ ازھری کا قول ہے کہ اہل لغت کے نزدیک ’قناع‘ اور ’مقنعۃ‘ میں کوئی فرق نہیں وہ لحاف اور ملحفہ (چادر) کی مانند ہے۔ ابن الاعرابی کا قول ہے کہ جلباب ’مقنعۃ‘ کی مانند ہے جس سے عورت اپنا سر، پیٹھ اور سینہ ڈھانپتی ہے۔ ایک قول ہے کہ اس کے معنی ’خمار‘ (اوڑھنی) یا اس سے چوڑی چیز کے ہیں۔ ایک قول ہے کہ اس کے معنی ’الثوب الواسع‘(کھلا کپڑا) کے ہیں جو چادر سے چھوٹا ہوتا ہے اور ایک قول ہے کہ اس کے معنی ’الازار‘ (چادر ) ہیں۔ ابن منظور نے ابن عطیہ کی حدیث سے دلیل لی ہے اور کہا ہے ’من جلبابھا ای ازارھا‘ اور ایک قول ہے کہ اس سے مراد ’ملحفۃ‘ (Wrapper or Cloak) ہے اور ایک قول ہے کہ اس کے معنی ’الملاء ۃ‘ (Outergarment) ہے اور ایک قول ہے کہ اس کے معنی قمیص (کھلے گریبان والی) ہے۔

’’عمدۃ القاری‘‘ (۳: ۳۰۳) میں ہے کہ ’’جلباب اس کھلی اوڑھنی کو کہتے ہیں جو چادر کی مانند ہوتی ہے، جس سے عورت اپنا سر اور سینہ ڈھانپتی ہے۔ اور ابن سیدہ کی ’’المحکم‘‘ میں ہے کہ جلباب کے معنی قمیص کے ہیں۔ ایک قول ہے کہ وہ ایک وسیع کپڑا ہو تا ہے جو چادر سے چھوٹا ہوتا ہے۔ ایک قول ہے کہ ایک ایسا کپڑا جو چادر کی مانند اوپر کے لباس کو ڈھانپتا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس کے معنی دوپٹا کے ہیں اور صحاح میں ہے کہ جلباب کے معنی ’ملحفۃ‘ (Wrapper) کے ہیں اور غربیین میں ہے کہ جلباب کے معنی ’ازار‘ (چادر) کے ہیں اور ایک قول ہے کہ اس سے مراد ’الملاء ۃ‘ (Outergarment) ہے جسے وہ اپنے بدن پر لپیٹتی ہے۔ عیاض کا قول ہے کہ وہ اوڑھنی سے چھوٹا یا چوڑا ہوتا ہے۔ اس سے مراد ’مقنعۃ‘ (سرپر ڈالنے والی اوڑھنی) ہے اور ایک قول ہے کہ وہ چادر سے چھوٹا ہوتا ہے جس سے عورت اپنی پیٹھ اور سینہ ڈھانپتی ہے۔

’’ارشاد الساری‘‘ (۱: ۱۶۰) میں ہے کہ ’’جلباب سے مراد چادر کی مانند کھلی اوڑھنی ہے جس سے عورت اپنا سر اور پیٹھ ڈھانپتی ہے یا اس سے مراد قمیص ہے۔امام راغب نے اسے چادر یا قمیص تک محدود کر دیا ہے۔‘‘

شارحین کرام کے اقوال کا لب لباب یہ ہے کہ جلباب کا اطلاق یا تو کھلی یا چھوٹی اوڑھنی (Headgear) پر ہوتا ہے جسے عربی میں ’خمار‘ یا ’مقنع‘ کہا جاتا ہے یا اس کا اطلاق چھوٹی یا بڑی چادر (Loose Outergarment) پر ہوتا ہے، جسے عربی میں ’رداء‘، ’ازار‘، ’ملحفۃ‘ اور ’ملاء ۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہ چادر سر، سینہ اور پیٹھ کو ڈھانپنے کے لیے استعمال ہوتی ہے یا پھر اس کا اطلاق کھلے گریبان کی قمیص پر کیا جاتا ہے (یہ قمیص جیسے عورتیں پہنتی ہیں ویسے مرد بھی پہنتے ہیں)۔ اپنے مضمون میں میں نے حضرت عائشہ کی روایت کا حوالہ دیا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص کو جلباب کہا گیا ہے۔ آج بھی سوڈانی مرد جو لمبا کرتہ پہنتے ہیں اسے وہ ’جلابیۃ‘ کہتے ہیں۔ قمیص کی اس تعریف میں گاؤن( Gown, Robe and Cloak) عباء اور اوور کوٹ، سب شامل ہیں۔

یہ سب چیزیں خواہ اوڑھنی ہو یا چادر ہو یا گاؤن ہو، چہرے کو ڈھانپنے کے لیے قطعی استعمال نہیں ہوتے۔ خود سورۂ احزاب کی آیت بتاتی ہے کہ جلباب کا مقصد چہرہ ڈھانپنا نہیں، اگر ایسا ہوتا تو اس سے پہلے ’یدنین‘ کا فعل لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جن مفسرین نے اس مزاحمتی حکم سے چہرہ ڈھانپنے کا مفہوم نکالا ہے انھوں نے یہ بات لفظ ’یدنین‘ سے اخذ کی ہے نہ کہ لفظ جلباب سے۔

حضرت عائشہ سے مروی حدیث (روایت نمبر۱) کا جو حوالہ صاحب مضمون نے دیا ہے، اس کا جواب میں چوتھی قسط کے جواب میں دے چکا ہوں۔ یہ روایت سندکے اعتبار سے ضعیف ہے اور امہات المومنین کے ساتھ خاص ہے۔ اس روایت میں ’سدل‘ اور ’اسدال‘ کا فعل استعمال ہوا ہے جس کے معنی ڈھانپنا نہیں، بلکہ ایک خاص طریقے سے لٹکانا ہے، کیونکہ حالت احرام میں، اگرچہرہ ڈھانپا جائے تو فدیہ واجب ہو جاتا ہے۔

مضمون نگار نے زیرنظر روایت کا جو ترجمہ کیا ہے کہ ’’اس کی سہیلی اس کو چادر میں شریک کر لے۔‘‘ یہ کمزور ترجمہ ہے۔ اسے کرمانی، علامہ عینی اور قسطلانی نے محل نظر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’اس کی ساتھی اسے اپنی جلباب عاریتہ دے دے‘‘ بشرطیکہ اس کے پاس ایک سے بڑھ کر جلباب ہو۔ اس میں اس بات کی تاکید ہے کہ اسے ہر حال میں عیدین کی نماز کے لیے گھر سے باہر نکلنا چاہیے، خواہ اس کے لیے دوسری عورت سے جلباب مانگنا ہی کیوں نہ پڑے۔ کرمانی تو یہ کہتے ہیں کہ یہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کے برابر ہے۔

نہ الفاظ کی دلالت سے، نہ معانی کی دلالت سے اور نہ ہی لغت کی شہادت سے جلباب سے چہرہ چھپانے کا مفہوم نکلتا ہے یہی وجہ ہے کہ شارحین بخاری میں سے کسی نے بھی زیرنظر روایت میں چہرے کو چھپانے کا ذکر تک نہیں کیا۔ صرف اکیسویں صدی کے محقق کا ذہن رسا اس مفہوم تک پہنچا ہے۔

روایت نمبر ۲۰: ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام نبہان سے روایت ہے کہ ام سلمہ نے اس سے حدیث بیان کی کہ وہ اور حضرت میمونہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھیں، اسی دوران میں جب ہم آپ کے پاس تھیں کہ ابن ام مکتوم آئے اور یہ اس وقت کے بعد کا واقعہ ہے جب ہمیں حجاب کا حکم ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس سے چھپ جاؤ تو میں (ام سلمہ) نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، کیا وہ نابینا نہیں جو نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہمیں پہچان سکتا ہے؟ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا تم بھی نابینا ہو؟ کیا تم اسے دیکھ نہیں سکتیں؟

ابن قدامہ کی روایت میں میمونہ کی جگہ حفصہ کا نام ہے۔ علامہ البانی نے ’’ارواء الغلیل‘‘ میں لکھا ہے کہ ابوبکرالشافعی نے ’’الفوائد‘‘ (۳:۴۔۵) میں اس روایت کو یوں نقل کیا ہے ’من طریق وھب بن حفص نا محمد بن سلیمان نا معمر بن سلیمان عن ابیہ عن ابی عثمان عن اسامۃ قال: کانت عائشۃ وحفصۃ عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جالستین فجاء ابن ام مکتوم...الحدیث‘ ۔اس روایت کی رو سے حضرت عائشہ اور حفصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں جب ابن ام مکتوم آئے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی وھب بن حفص کی تکذیب ابو عروبہ نے کی ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کرتا تھا... امام قرطبی نے نقل کیا ہے کہ نبہان کی روایت اہل حدیث کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

سب سے پہلے ہم زیربحث حدیث کی سند کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ میں نے اپنے پہلے مضمون میں لکھا تھا کہ صاحب مضمون کی معلومات علامہ البانی کے بارے میں انتہائی ناقص ہیں۔ لگتا ہے کہ انھوں نے علامہ کی صرف ایک کتاب ’’حجاب المراۃ المسلمہ‘‘ پڑھی ہے اور بس ۔ اسی لیے انھوں نے اس حدیث کے بارے میں موقف کا حوالہ اسی کتاب سے دیا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ علامہ اس موقف میں ابن حبان، نووی، ترمذی اور ابن حجر کے مقابلہ میں اکیلے ہیں، کاش انھوں نے علامہ کی فن حدیث کے بارے میں کسی کتاب کا حوالہ دیا ہوتا۔ علامہ نے ’’ارواء الغلیل‘‘ (۶: ۲۱۰) میں زیربحث حدیث پر گفتگو کی ہے اور اسی قسم کی گفتگو انھوں نے ’’ارواء الغلیل‘‘ کی حدیث نمبر ۱۷۶۹ کے تحت بھی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ راوی نبہان کا تذکرہ امام ذھبی نے ’’ذیل الضعفاء‘‘ میں کیا ہے اور امام ابن حزم کا قول نقل کیا ہے کہ وہ مجہول ہے۔ امام بیہقی نے حدیث بیان کرنے کے بعد زیرنظر حدیث میں نبہان کے مجہول ہونے کی طرف اشارہ کر کے امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’جن اہل علم پر مجھے اعتماد ہے ان میں سے کسی نے اس حدیث کو ثابت نہیں کیا۔‘‘ ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۵، ۴۶۶) میں لکھتے ہیں ۔امام احمد کا قول ہے کہ نبہان نے دو عجیب وغریب حدیثیں روایت کی ہیں یعنی زیرنظر حدیث اور حدیث ’اذا کان لاحدا کن مکاتب فلتحجب منہ‘ ’’جب تمھارے یہاں کوئی آزاد غلام ہو تو اس سے چھپا کرو۔‘‘ گویا کہ انھوں نے نبہان کی روایت کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ اس سے صرف یہی دو حدیثیں مروی ہیں جو اصول کی مخالف ہیں۔ حافظ ابن عبدالبر کا قول ہے کہ نبہان مجہول ہے، وہ صرف زھری کی روایت سے جانا جاتا ہے اور فاطمہ بنت قیس کی حدیث صحیح ہے، اس لیے و ہ لازمی طور پر قابل حجت ہے۔ چنانچہ نبہان امام احمد، امام شافعی، امام ابن حزم، امام ذھبی، امام بیہقی، ابن عبدالبر اور امام قرطبی جیسے محققین کے نزدیک ضعیف ہے۔ لہٰذا ان جلیل القدر محدثین کی رائے کو ترجیح حاصل ہے۔ یہ صرف علامہ البانی کی رائے نہیں ہے۔ ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۵، ۴۶۶) میں دونوں متعارض احادیث کی بحث کو سمیٹتے ہوئے فرماتے ہیں کہ صحیح حدیث پر عمل کرنا اس حدیث پر عمل کرنے سے بہتر ہے جس کی سند مفرد ہو۔ یعنی فاطمہ بنت قیس کی روایت صحیح ہے اور نبہان کی روایت مفردالسند ہے۔

اب آئیے حدیث کے متن کی طرف، دو متفق علیہ احادیث اس حدیث کے مضمون کی نفی کرتی ہیں۔ ایک حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس سے فرمایا: ’’تم ابن مکتوم کے گھر میں عدت گزارو، کیونکہ وہ نابینا ہے جب تم کپڑے اتارو گی تو وہ تجھے دیکھ نہیں سکے گا۔‘‘

دوسری حدیث میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چادر سے ڈھانپا ہوا تھا دراں حالیکہ میں حبشیوں کو مسجد میں کھیلتے دیکھ رہی تھی۔

بعض شارحین نے ان احادیث میں موافقت کے لیے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ عورت کا مرد کو دیکھنا جائز ہے، جبکہ مرد کا عورت کو دیکھنا جائز نہیں۔ وہ زیرنظر حدیث کو تقویٰ پر محمول سمجھتے ہیں اور مذکورہ دونوں احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ صاحب مضمون نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کے حوالہ سے اسی رائے کی تائید کی ہے۔ ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ کے مصنف نے ایک دلیل یہ بھی دی ہے کہ عورتیں مسجد میں جاتی تھیں تو ان کی نظر مردوں پر پڑتی تھی (گویا مردوں نے اپنی آنکھیں بند کی ہوتی تھیں) پھر حجاب کا حکم عورتوں کو دیا گیا ہے نہ کہ مردوں کو (حالاں کہ قرآن نے واضح طور پر مردوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے:’’اور جب تم ان عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو حجاب کے پیچھے سے مانگو۔‘‘ (۳۳: ۵۳)) یہ نقطۂ نظر قطعی طور پر کتاب وسنت کے خلاف ہے۔

امام نووی مسلم کی شرح (۱۰: ۹۶) میں لکھتے ہیں کہ ’’بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ حجت پکڑی ہے کہ عورت کے لیے اجنبی مرد کو دیکھنا جائز ہے، جبکہ مرد کے لیے اجنبی عورت کو دیکھنا جائز نہیں۔ یہ قول ضعیف ہے، صحیح وہ ہے جو جمہور علما اور اکثر صحابہ کی رائے ہے کہ عورت کے لیے اجنبی مرد کو دیکھنا اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مرد کے لیے اجنبی عورت کو دیکھنا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ... اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ (۲۴: ۳۰، ۳۱)... کیونکہ فتنہ دونوں میں مشترک ہے۔‘‘ صاحب عون المعبود (۴: ۱۰۹) نے لکھا ہے کہ ’’عورت بھی انسان ہے اور مرد بھی انسان۔ ایک نوع کے لیے نظر جائز اور دوسری کے لیے ناجائز (یہ کیا منطق ہے)۔ جہاں تک فتنہ کے خوف سے نہ دیکھنے کا تعلق ہے۔ یہ خوف تو عورت کو زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ (۱۰: ۲۲۸) میں حافظ ابن عربی المالکی نے بھی یہی رائے پیش کی ہے۔

صحیح نقطۂ نظر یہی ہے جسے امام ابوداؤد نے زیرنظر حدیث کو بیان کرنے کے بعد ان الفاظ میں پیش کیا ہے: ’’یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیوں کے ساتھ خاص ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ فاطمہ بنت قیس نے ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزاری۔ آپ نے فاطمہ بنت قیس سے کہا: ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو، کیونکہ وہ اندھا ہے تم اس کے یہاں اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔‘‘ ان الفاظ کو پیش کرنے سے پہلے صاحب مضمون نے اعلیٰ درجہ کی علمی دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’حجاب کا حکم تو تمام مسلمان عورتوں کے لیے عام تھا، لیکن مردوں کی طرف نہ دیکھنے کا حکم صرف ازواج مطہرات کے لیے ہے۔‘‘ کس قدر واضح الفاظ میں امام داؤد کہہ رہے ہیں کہ اس حدیث میں حجاب کا حکم امہات المومنین کے لیے خاص ہے۔ اور کس قدر بھونڈے الفاظ میں صاحب مضمون اس کی غلط تاویل کر رہے ہیں! حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں کہا ہے کہ ابوداؤد نے دونوں حدیثوں کے درمیان بڑی خوب صورت موافقت پیدا کی ہے اور منذری نے بھی اپنے حواشی میں اسی طرح کی موافقت کی ہے اور ہمارے شیخ نے اس موافقت کو سراہا ہے۔ ابن قدامہ کی ’’المغنی‘‘ (۷: ۴۶۶) میں ہے کہ اثرم کا قول ہے، میں نے ابوعبداللہ (امام احمد) سے پوچھا: لگتا ہے کہ نبہان سے مروی حدیث ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے اور فاطمہ سے مروی حدیث سب لوگوں کے لیے عام ہے۔ امام احمد نے فرمایا: ہاں۔ امام قرطبی کا قول ہے کہ اگر نبہان کی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ ازواج کے احترام کے پیش نظر اسی قسم کی سختی ہے جیسی حجاب کے معاملے میں ان پر کی گئی ہے۔ الجامع لاحکام القرآن (۱۲: ۲۲۸) امام قرطبی کے الفاظ صاحب مضمون کی مذکورہ ’’حیلہ گری‘‘ کا پول کھول رہے ہیں۔

صاحب مضمون کا موقف ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا واجب ہے۔ اب وہ اس موقف سے رجوع کر کے اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ عورت اجنبی مرد کو دیکھ سکتی ہے، کیونکہ اگر چہرہ چھپا ہوگا تو پھر دیکھنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے؟ پھر عدت کا پورا عرصہ ایک عورت غیر محرم کے گھر گزار رہی ہے۔ کیا یہ ہمارے موقف کے حق میں ایک مضبوط دلیل نہیں ہے؟

صاحب مضمون نے اپنے موقف کے حق میں بیس روایات نقل کرنے کے بعد منکرین حجاب اور احادیث مبارکہ کا عنوان باندھ کر ان لوگوں کے دلائل کا ابطال کرنے کی کوشش کی ہے جو چہرے کے پردے کو واجب نہیں سمجھتے۔ مضمون نگار کی شایستگی کا یہ عالم ہے کہ وہ ایسے تمام لوگوں کو ،خواہ ان میں صحابۂ کرام، تابعین عظام، مفسرین، محدثین اور فقہا شامل ہوں، منکر حجاب کے لقب سے نوازتے ہیں۔ چھوٹا منہ اور بڑی بات، ان کا روے سخن علامہ البانی کی طرف ہے، کیونکہ اپنے محققانہ مضمون میں وہ ان ہی کے پیش کردہ دلائل کی تردید کرتے نظر آتے ہیں۔

اس قسط میں انھوں نے منکرین حجاب کی تین دلیلوں کو پیش کر کے ان کے جواب کی سعی لاحاصل کی ہے۔

پہلی دلیل: عبداللہ بن عباس سے مروی وہ حدیث ہے جس میں انھوں نے کہا کہ فضل بن عباس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پرآپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت آئی، فضل اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ ان کی طرف دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیرنے لگے اس عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول، اللہ کا فریضہ یعنی حج اس وقت آیا ہے، جبکہ میرا باپ بہت بوڑھا ہو چکا ہے اور وہ سواری پر ٹک کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔

اس حدیث کو بخاری نے تین مرتبہ اور امام مسلم ، ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، بیہقی ، امام مالک اور امام احمد نے بھی بیان کیا ہے۔ امام احمد کی روایت سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے جس سے تمام شبہوں کا ازالہ ہوجاتا ہے۔

وجہ استدلال یہ ہے کہ آپ نے فضل کا چہرہ موڑ دیا، مگر خثعمی عورت کو چہرہ ڈھانپنے کا حکم نہ دیا۔

علامہ البانی کا موقف یہ ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جمرۃ العقبہ کی رمی ہوچکی تھی اور عورت اپنا احرام کھول چکی تھی۔ جبکہ مضمون نگار کا موقف یہ ہے کہ وہ حالت احرام میں تھی، اس لیے آپ نے اس کو چہرہ چھپانے کا حکم نہ دیا۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قول فیصل کے طور پر اس پوری روایت کو نقل کیا جائے جو امام احمد نے حضرت علی سے بیان کی ہے۔ کیونکہ حافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۴: ۶۷) میں رقم طراز ہیں کہ ’’امام بخاری نے فضل کی روایت کو اس لیے ترجیح دی ہے، کیونکہ وہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور ابن عباس ضعیف لوگوں کے ساتھ مزدلفہ سے منیٰ میں آگئے تھے۔ ’باب التلبیہ والتکبیر‘ میں گزر چکا ہے کہ عطاء نے ابن عباس سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل نے خبر دی ہے کہ وہ تلبیہ کرتے رہے، یہاں تک کہ انھوں نے جمرۃ العقبہ کی رمی کی۔ پس فضل نے اپنے بھائی کو وہ سب کچھ بتایا جس کا انھوں نے اس حالت میں مشاہدہ کیا تھا۔ احتمال یہی ہے کہ خثعمیہ کا سوال جمرۃ العقبہ کی رمی کے بعد ہوا۔ ابن عباس اس واقعے میں موجود تھے، چنانچہ کبھی تو وہ یہ واقعہ اپنے بھائی فضل سے بیان کرتے ہیں اور کبھی اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں۔ اس بات کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو ترمذی، امام احمد، ان کے بیٹے عبداللہ اور طبری نے بیان کی ہے، جو حضرت علی سے مروی ہے۔ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ سوال رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربان گاہ کے قریب کیا گیا۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’خثعمی عورت کا سوال اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو دوسرے لوگوں نے اس موقع پر کیے۔ روایت میں ہے کہ جب آپ نے حضرت عباس سے کہا کہ میں نے ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کو دیکھا تو مجھے ان کے بارے میں شیطان کا خوف لاحق ہوا تو پھر ایک آدمی آیا اور پوچھنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میں نے قربانی سے پہلے سرمنڈوا لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: اب قربانی کرلو، کوئی حرج نہیں۔ پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میں نے حلق سے پہلے طواف افاضہ کر لیا ہے۔ آپ نے فرمایا: جاؤ سرمنڈواؤ، کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس کے بعد حافظ ابن حجر نے امام احمد کی روایت مختصراً نقل کی ہے جو یوں ہے: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں وقوف کیا اور فرمایا: یہ موقف (وقوف کی جگہ) ہے اور عرفات سارے کا سارا موقف ہے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ عرفات سے نکل گئے پھر آپ نے اسامہ کواپنے اونٹ پر پیچھے بٹھا یا اور جلدی جلدی چلنے لگے۔ لوگ دائیں بائیں سفر کر رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے لوگو، سکون کے ساتھ (چلو) پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو مغرب اور عشا کی نماز پڑھائی پھر آپ نے رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ پھر آپ مزدلفہ میں قزح کے مقام پر آئے اور وہاں ٹھہرے یہاں تک کہ (منیٰ میں) وادی محسر تک آگئے اور وہاں وقوف فرمایا۔ پھر اپنی اونٹنی کو مہمیز لگائی تو وہ تیزتیز چل پڑی یہاں تک کہ آپ وادی سے گزر گئے۔ پھر اونٹنی کو روکا اور فضل کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور چل پڑے یہاں تک جمرۃ (العقبہ) تک آئے اور رمی کی۔ پھر قربان گاہ میں آئے اور فرمایا: یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ سارے کا سارا قربان گاہ ہے۔ راوی کا قول ہے کہ خثعم کی ایک نوجوان لڑکی نے فتویٰ پوچھا اور کہا: بے شک، میرا باپ بہت بوڑھا ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے اول فول باتیں کرتا ہے۔ اس پر حج فرض ہوگیا ہے۔ کیا اگر میں اس کی طرف سے حج کروں تو وہ حج سے مستغنی ہوجائے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج ادا کرو۔راوی کا قول ہے کہ آپ نے فضل کی گردن کو موڑ دیا تو عباس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، آپ نے اپنے چچیرے بھائی کی گردن کو کیوں موڑا؟ آپ نے فرمایا: میں نے نوجوان لڑکے اور لڑکی کو دیکھا تو مجھے ان کے بارے میں شیطان کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس کے بعد لوگ آپ سے مختلف مسائل پوچھتے رہے۔‘‘ امام احمد کے بیٹے عبداللہ نے ’’زوائدالمسند‘‘ میں یہی روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے: ’’یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں آئے اور اپنی اونٹنی کو مہمیز لگائی پس وہ تیز چلتے ہوئے وادی سے نکل گئی۔ پھر آپ پہلے ہی کی طرح چلنے لگے یہاں تک کہ آپ نے جمرۃ (العقبہ) کی رمی کی پھر آپ قربان گاہ میں آئے اور فرمایا: یہ قربان گاہ ہے اور منیٰ سارے کاسارا قربان گاہ ہے۔ پھر آپ کے پاس قبیلۂ خثعم کی ایک نوجوان عورت آئی۔‘‘

یہ روایت اس قدر واضح ہے کہ اس کے بعد اس بات کی کوئی گنجایش نہیں رہ جاتی کہ کہا جائے کہ وہ عورت حالت احرام میں تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ صاحب مضمون نے حافظ ابن حجر کی پوری کی پوری عبارت میں سے صرف ایک جملہ نقل کر کے لفظ احتمال کو اپنی باطل دلیل کی بنیاد بنایا ہے اور یہ نہیں بتایا کہ حافظ صاحب نے اس احتمال کی تقویت پہلے ’باب التلبیہ والتکبیر‘ میں ابن عباس کی روایت سے کی ہے کہ فضل نے خود بتایا ہے کہ وہ تلبیہ پڑھتے رہے یہاں تک انھوں نے جمرۃ (العقبہ) کی رمی کی پھر انھوں نے مسند احمد بن حنبل کی حضرت علی کی روایت کو بطوردلیل پیش کیا ہے کہ یہ واقعہ رمی جمرہ کے بعد قربان گاہ کے نزدیک پیش آیا۔ اس لیے حافظ صاحب کا یہی قول قابل اعتماد ہے اور جو بات انھوں نے ابن بطال کے واضح اور درست استدلال کے رد میں کہی ہے وہ، جیسا کہ علامہ البانی نے کہا، ان کی بھول ہے۔ اس کی تقویت کے لیے انھوں نے کوئی دلیل نہیں دی۔ بالکل سچ کہا ہے ابن بطال نے کہ ’’مسلمان عورتوں پر ازواج مطہرات کی طرح حجاب فرض نہیں... اور یہ کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرہ چھپانا فرض نہیں، کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی، چاہے اس چہرے کو اجنبی دیکھ رہے ہوں۔‘‘

علامہ البانی کے دعویٰ کے جواب میں صاحب مضمون نے جو روایات نص قطعی کے طور پر پیش کی ہیں، ان میں سے نسائی اور ابن ماجہ کی روایت نمبر ۱اور ۲ البانی کے موقف کی تائید کرتی ہیں، کیونکہ دونوں روایات میں ’غداۃ نحر‘ ’’قربانی کی صبح‘‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے نہ کہ رمی کی صبح کی، جس سے یہ شبہ ہوتا کہ خثعمیہ کا واقعہ جمرہ کی رمی سے پہلے کا ہے ۔ البانی بھی تو یہی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ قربان گاہ کے قریب ہوا۔ یہ ترکیب خود بتا رہی ہے کہ وہ جمرۃ العقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر قربان گاہ تک پہنچ چکے تھے، جیسا کہ مسند احمد کی روایت سے صاف طور پر پتا چلتا ہے۔ نص قطعی وہ روایت ہے جس میں درجہ بدرجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا تفصیل سے ذکر ہوا ہے۔

روایت نمبر۴ تو صاحب مضمون نے بغیر سوچے سمجھے لکھ دی ہے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ خثعمی عورت حالت احرام میں تھی۔ اوپر مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے چلتے وقت حضرت اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھا اور وادی محسر سے نکل کر فضل بن عباس کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ اس حدیث سے نہ تو ان کا رمی کرنا ثابت ہوتا ہے اور نہ رمی نہ کرنا معلوم ہوتا ہے بس رواروی میں یہ روایت نقل کر دی گئی ہے۔

جہاں تک روایت نمبر۳ کا تعلق ہے، اس میں فضل بن عباس کا ذکر تک نہیں۔ مزدلفہ کی صبح جس عورت نے سوال کیا وہ کوئی اور عورت ہوسکتی ہے۔ حجۃ الوداع کے پورے سفر میں مختلف مقامات پر مختلف لوگوں نے سوال کیے۔ ہر سوال کو اس واقعہ سے جوڑنا حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ صحاح ستہ، موطا، مسنداحمد، بیہقی اور بزار سمیت تمام محدثین نے اس واقعہ کے بارے میں لکھا ہے کہ منیٰ میں ہوا۔ اسی طرح روایت نمبر۵ میں بہت سی ہودج نشیں عورتوں کا واقعہ بھی اس واقعہ سے علیحدہ ہے۔ ظاہر ہے مزدلفہ سے منیٰ تک کے سفرمیں کئی قافلے پاس سے گزرے ہوں گے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ یہ واقعہ اس واقعہ سے جوڑ دیا جائے۔

بات ہورہی ہے خثعمی عورت کے سوال کرنے اور فضل بن عباس کے اس کی طرف دیکھنے کی۔ اور بحث ہورہی ہے کہ آیا وہ حالت احرام میں تھی یا حالت احلال میں۔ اور دلیل پیش کی جارہی ہے ایک دوسرے واقعہ کی جس کا خثعمی عورت سے دور کابھی تعلق نہیں۔ تحقیق کا اصول ہے کہ پہلے تمام روایات کا تقابلی مطالعہ کر لیا جائے پھر کوئی حکم لگایا جائے۔

صاحب مضمون نے امام ابن حزم اندلسی اور ان کے تتبع میں علامہ البانی کے موقف کو معروف طریقہ کے خلاف قرار دیا ہے۔

علامہ البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘کے صفحہ ۶۴ پر فرمایا ہے: فرض کیا وہ خثعمی عورت حالت احرام میں تھی تو بھی ابن بطال کے استدلال میں قطعی کمی نہیں ہوجاتی، کیونکہ محرمہ اور غیر محرمہ کے لیے ’سدل‘ کرنا (اس کاترجمہ صاحب مضمون نے چہرہ ڈھانپنا غلط کیا ہے) تو جائز ہے (یہی موقف صاحب مضمون کا ہے)۔ مگر محرمہ کے لیے واجب ہے کہ وہ نقاب سے چہرہ نہ چھپائے۔ اگر اجنبیوں کے سامنے چہرے کا کھولنا جائز نہ ہوتا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کم ازکم) اس عورت کو ’سدل‘ (سر کے اوپر سے کپڑا لٹکانے) کا حکم تو دے سکتے تھے، جیسا کہ ابن حزم کا قول ہے اور خاص طور پر جبکہ عورت سب عورتوں سے بڑھ کر حسین وجمیل تھی اور فضل کے لیے باعث فتنہ ہوسکتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے یہ حکم نہ دیا، بلکہ صرف فضل کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا۔ صاحب مضمون فرماتے ہیں کہ ایسا حکم دینے میں مشقت تھی، کیونکہ معاملہ صرف ایک عورت کا نہ تھا، بلکہ بہت سی عورتوں کا تھا، جیسا کہ مسلم (روایت نمبر۵) میں ہے۔ سبحان اللہ، کتنا خوب صورت استدلال ہے۔ بات ہورہی ہے خثعمی عورت کی اور دلیل دی جارہی ہے ایک ایسی روایت کی جس میں خثعمی عورت کا قطعی ذکر نہیں۔ گویا وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ جن محدثین نے خثعمی عورت کا ذکر کیا ہے انھوں نے ایک فضول اور لایعنی بات کی ہے۔ اصل روایت تو وہ ہے جس میں خثعمی عورت کا کوئی ذکر نہیں اور جسے مسلم نے روایت کیا ہے۔

حافظ محمد زبیر صاحب! حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے نہ کہ جائز۔ علامہ البانی کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ امہات المومنین اور ان کی پیروی میں بعض عورتیں خاص حالات میں ’سدل‘ کرتی تھیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چلو آپ نے اس عورت کو چہرہ کھلا رکھنے سے منع تو نہ کیا، کم از کم ’سدل‘ کرنے کو تو کہا ہوتا۔ حالت احرام میں چہرہ ڈھانپنا قطعی ناجائز ہے (’سدل‘ کے معنی لغت میں دیکھیے) عہدنبوت سے لے کر آج تک سب عورتیں حالت احرام میں چہرہ کھلارکھتی ہیں۔ یہ عمل متواتر ہے اور اس پر سب فقہا کا اتفاق ہے۔ کتنی عورتوں کو آپ نے دیکھا ہے جو سر کے اوپر سے ڈنڈے کے ساتھ کپڑا باندھ کر دونوں طرف نیچے لٹکا لیتی ہیں (یعنی ’سدل‘ کرتی ہیں) اور اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ کپڑا چہرے سے چھونے نہ پائے؟ اسی لیے صاحب ’’عون المعبود‘‘ نے کہا ہے کہ یہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ذہن میں رہے کہ ’سدل‘ کی علما نے خاص حالات میں جبکہ مرد خواتین کے بالکل قریب ہوں اجازت دی ہے اسے واجب قرار نہیں دیا۔

یہ ہے صاحب مضمون کے استدلال کی حقیقت جو انھوں نے منکرین حجاب کے جواب میں بڑے بڑے عنوان باندھ کر کیا ہے اور جس کے لیے انھوں نے ’’حکمت قرآن‘‘ کے پورے چھ صفحات سیاہ کیے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ انھوں نے بقیہ دودلائل میں اتنی لاحاصل عرق ریزی نہیں کی۔

دلیل ثانی: حافظ محمد زبیر صاحب کا قول ہے کہ جو لوگ (یعنی علامہ ناصرالدین البانی اور ان کے ہم خیال) حجاب کے لزوم کا انکار کرتے ہیں ان کی دوسری دلیل یہ ہے: حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ’’میں عید کے دن نماز میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ نے بغیر اذان واقامت کے خطبہ سے پہلے نماز شروع کی۔ پھر آپ حضرت بلال کے سہارے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور اس کی اطاعت کی ترغیب دی۔ لوگوں کو وعظ کیا اور اللہ کی یاد دلائی پھر آپ چلے یہاں تک کہ عورتوں کے پاس آئے اور فرمایا: تم صدقہ کرو، کیونکہ تم میں سے اکثر جہنم کا ایندھن ہیں۔ عورتوں کے درمیان سے ایک عورت کھڑی ہوئی جس کے رخسار سرخی مائل سیاہ تھے۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں؟ آپ نے فرمایا: کیونکہ تم گلہ شکوہ زیادہ کرتی ہو اور ساتھی (شوہر) کی ناشکری کرتی ہو۔ راوی کا قول ہے کہ وہ عورتیں بلال کے کپڑے میں کانوں کی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔‘‘

یہ مسلم ’’کتاب العیدین‘‘ کے الفاظ ہیں اور یہ روایت عبدالملک بن ابی سلیمان نے عطاء کے حوالہ سے جابر بن عبداللہ سے کی ہے۔

ایک روایت ابن جریج نے عطاء کے حوالہ سے ابن عباس سے کی ہے۔ اس میں نہ تو اس بات کا ذکر ہے کہ عورتیں جہنم کا ایندھن ہیں اور نہ ہی اعتراض کرنے والی عورت کا تذکرہ ہے۔ زیور کے سلسلہ میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ عورتیں اپنی انگوٹھیاں صدقہ میں دے رہی تھیں۔ ہاں ایک اضافہ ہے کہ ابن جریج نے عطاء بن ابی رباح سے پوچھا، کیا وہ فطرانہ ادا کر رہی تھیں؟ تو انھوں نے کہا نہیں، وہ صدقہ وخیرات کر رہی تھیں۔ دوسرا سوال راوی نے عطاء سے یہ کیا کہ کیا یہ امام کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطبہ سے فارغ ہو کر وعظ ونصیحت کے لیے عورتوں کے پاس آئے تو انھوں نے جواب دیا: مجھے میری زندگی کی قسم، یہ ضروری ہے۔ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟ ایک اور روایت طاؤس نے عبداللہ بن عباس سے کی ہے کہ میں نے عیدالفطر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی اور ہمارے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان بھی تھے۔ ان سب نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ پڑھا گیا۔ راوی کا قول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے بعد نیچے اترے۔ یوں لگتا ہے کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے نیچے بٹھا رہے ہیں پھر آپ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے عورتوں تک پہنچے اور آپ کے ساتھ بلال تھے۔ آپ نے سورۂ ممتحنہ کی آیت: ’’اے نبی، جب تمھارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔‘‘ (۶۰: ۱۲) پڑھ کر فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا: تم اس بات پر ہو، یعنی اس بات پر تمھاری بیعت ہو چکی۔ ایک عورت کے سوا کسی نے آپ کی بات کا جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ہاں، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ راوی نہیں جانتا کہ وہ کون تھی۔ پھر بلال نے کپڑا پھیلا دیا اور کہا: لاؤ (یعنی صدقہ کرو) تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ پس وہ بلال کے کپڑے میں اپنی انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ امام بخاری نے اسے مختلف ابواب، مثلاً ’باب عظۃ النساء وتعلیمہن‘ ، ’باب العلم الذی بالمصلی‘، ’باب موعظۃ النساء‘، ’باب والذین لم یبلغوا الحلم منکم‘ (۲۴: ۵۸) اور ’باب بیعۃ النساء‘ (تفسیر سورۃ الممتحنہ) (۶۰: ۱۲)میں بیان کیا ہے۔

صاحب مضمون پہلی روایت یعنی مسلم ’’کتاب صلاۃ العیدین‘‘ کا متن بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ لفظ ’سفعاء الخدین‘ کے الفاظ سے منکرین حجاب (یعنی علامہ ناصرالدین البانی، کیونکہ انھوں نے یہ حدیث اپنی پیش کردہ تیرہ احادیث میں نمبر ایک کے تحت پیش کی ہے۔ ’’جلباب المراۃ‘‘۶۰) یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ اس عورت کا چہرہ کھلا تھا... حالاں کہ یہ درست نہیں۔ میں ان کی توجیہات پر تو بعد میں بحث کروں گا، مگر یہ بتاتا چلوں کہ امام ابن حزم نے یہ دلیل پکڑی ہے نہ کہ منکرین حجاب نے۔ اگر آپ ان کو بھی منکرین کے زمرے میں شمار کرتے ہیں تو آپ کو اس کا حق ہے۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں: ’’یہ ابن عباس ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور عورتوں کے ہاتھوں کو دیکھ رہے ہیں۔ پس یہ بات درست ہے کہ نہ عورت کے ہاتھ اور نہ اس کا چہرہ ’عورۃ‘ ہے، ان دونوں کے علاوہ اس کے لیے اپنا سارا جسم چھپانا فرض ہے۔‘‘ (المحلیٰ۳۹: ۲۱۷) حافظ ابن حجر ’’فتح الباری‘‘ (۹: ۳۴۴) میں فرماتے ہیں کہ ظاہری مسلک کے بعض علما نے اس روایت کے ظاہری الفاظ سے یہ دلیل پکڑی ہے کہ اجنبی کے لیے اجنبی عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنے کی اجازت ہے۔ انھوں نے دلیل دی ہے کہ جابر نے اس حدیث کو روایت کیا (اور عورت کو سرخی مائل سیاہ رخساروں والی کہا) اور بلال نے ان سے زیور لینے کے لیے کپڑا بچھایا ظاہری طور پر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ چہروں اور ہاتھوں کو کھولے بغیر ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔

روایت کی فضا (جوالنص)

مذکورہ بالا حدیث کو سمجھنے سے پہلے حدیث کے ماحول کو سمجھنا ازبس ضروری ہے۔ یہ عیدالفطر کا موقع ہے جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہواری والی عورتوں سمیت سب عورتوں کو عیدگاہ کی طرف نکلنے کی بطورخاص تاکید کی ہے اور فرمایا: اگر اس کے پاس جلباب نہ ہوتو دوسری عورت اسے جلباب عاریتہ دے دے۔ عورتوں نے کھلے منہ عیدگاہ میں مردوں سے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ بالکل اسی طرح جس طرح وہ پنج گانہ نماز مسجد نبوی میں ادا کرتی تھیں۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان نہ مسجد نبوی میں کوئی اوٹ تھی اور نہ عیدگاہ میں۔ نماز پڑھنے کے بعد اسی حالت میں انھوں نے خطبہ سنا۔ خطبہ دینے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے ان کے پاس آئے تو وہ اسی حالت میں تھیں۔ انھوں نے جلباب سے اپنے آپ کو لپیٹا ہوا تھا، مگر چہرے ان کے کھلے تھے، وہ عیدگاہ میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ جمہورعلما کا موقف بھی یہی ہے کہ حالت نماز میں جو اعضا کھلے رہیں گے وہی عام حالت میں بھی کھلے رہیں گے۔ اس بات کو میں کتاب وسنت کی روشنی میں پہلے مضامین میں ثابت کر چکا ہوں۔ اسی حالت میں حضرت جابر بن عبداللہ اور ابن عباس نے ان کو دیکھا اور حضرت بلال نے ان سے زیور وصول کیے۔ صاحب مضمون اپنے ذہن میں یہ تصور بٹھائے بیٹھے ہیں کہ عورتیں اپنا چہرہ چھپائے بیٹھی ہوئی تھیں اور سوال پوچھنے والی عورت بھی چہرہ چھپا کر کھڑی ہوئی۔ عورتیں ہاتھوں پر دستانے پہن کر یا موچنے کے ذریعہ سے حضرت بلال کے کپڑے میں زیور ڈال رہی تھیں۔ چہرے تو انھوں نے چھپا رکھے تھے انھیں کیا پتا تھا کہ صدقات اکٹھا کرنے والا بلال ہے یا کوئی اور؟ ہوسکتا ہے کہ وہ زیور زمین پر پھینک رہی ہوں، کیونکہ جلباب سے چہرہ چھپا ہوا ہو تو نظر کیا خاک آئے گا؟ پھر آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت تو برصغیر کے مذہبی پیشواؤں نے صرف دو چار سال پہلے دی ہے۔ صاحب مضمون عہدنبوت کے ماحول کو اپنی مسجدوں اور عیدگاہوں پر قیاس نہ کریں۔ عہد نبوت میں عورت فرض نمازیں تو ایک طرف رہیں، نماز استسقا میں بھی شامل ہوتی تھی (بلکہ نماز استسقا کی اصلی راوی عورت ہی ہے) مسجد نبوی میں بھرے مجمعے میں کھڑے ہو کر عورت کا سوال کرنا ایک معمول کی بات تھی۔ حافظ صاحب حدیث کی فضا کو سمجھ لیں تو ان کی سمجھ میں بات آسانی سے آجائے گی، مگر مجھے اس کی توقع بہت کم ہے، کیونکہ تعصب کی وجہ سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔

علامہ البانی ’’جلباب المراۃ‘‘ کے صفحہ۶۰ پر اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ چہرے کو چھپانا واجب نہیں، وگرنہ راوی اس عورت کی یہ تعریف کیسے کرتا کہ اس کے رخسار سرخی مائل سیاہ تھے۔ صاحب مضمون کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات درست نہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں۔‘‘ یہ سب توجیہات صاحب مضمون کے ذہن کی اختراع ہیں جن کے لیے انھوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔

پہلی توجیہ انھوں نے یہ بیان کی ہے کہ عورت کا چہرہ تو چھپا ہوا تھا، مگر اتفاقاً کپڑا چہرے سے سرک گیا تھا، یعنی سب عورتیں نماز پڑھ کر اور خطبہ سن کر اپنے چہرے چھپائے بیٹھی تھیں کہ اتفاق سے ایک عورت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھنے کے لیے کھڑی ہوئی۔ اتفاق سے اس کے چہرے سے کپڑا سرک گیا۔ اتفاق سے جابر بن عبداللہ نے ا ن کا چہرہ دیکھ لیا اور پھر اتفاق سے انھوں نے اس کی کیفیت بیان کردی۔ سب اتفاقات تھے جو کچھ ہوا برا ہوا، کیونکہ معمول سے ہٹ کر ہوا۔ یہ ہے مضمون نگار کا طرزاستدلال۔ ان کے نزدیک صحابی عورت نے برا کیا کہ بھرے مجمعے میں جس میں مرد بھی موجود تھے اور آج کل کی طرح نہ درمیان میں اوٹ تھی اور نہ پردہ لٹک رہا تھا آواز نکال کر (جو صاحب مضمون کے نزدیک ستر میں شامل ہے) رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال پوچھا اور جابر بن عبداللہ نے برا کیا کہ یہ جانتے بوجھتے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے، اس عورت کے چہرے کی تصویر کشی کردی۔

حدیث کے اس پہلو پر صحاح ستہ کے کسی شارح کی بھی آج تک نظر نہیں پڑی، اگر نظر پڑی ہے تو پندرہویں صدی ہجری کے محقق کی جو تنظیم اسلامی کا ملازم ہے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہی تھا کہ عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں اتار کر اپنے ہاتھوں سے حضرت بلال کے کپڑے میں ڈال رہی تھیں۔ انھوں نے بھی جو کیا برا کیا۔ کیونکہ عورت کا سارا جسم ہاتھوں سمیت ستر میں شامل ہے:

ناطقہ سر بہ گریبان کہ اسے کیا کہیے

دوسری توجیہ صاحب مضمون نے یہ کی ہے کہ جابر بن عبداللہ ’سفعاء الخدین‘ کے الفاظ بیان کرنے میں منفرد ہیں۔ میں نے تو آج تک یہی پڑھا تھا کہ سند میں انفراد ہوتا ہے۔ کسی لفظ میں بھی انفراد ہوسکتا ہے، یہ میری معلومات میں نیا اضافہ ہے۔ صاحب مضمون کو دوباتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔ ایک تو یہ کہ عید کے موقع پر مردوں اور عورتوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جو صحابی کھڑی ہونے والی عورت کے قریب تھا، اس نے اتنی وضاحت سے اس کے چہرے کا وصف بیان کیا۔ جابر بن عبداللہ نے اس کے گالوں کی رنگت کو دیکھا اور اسے بیان کردیا۔ عبداللہ بن عمر نے دیکھا کہ وہ صاحب رائے معلوم ہوتی ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے چہرہ دیکھ کر اندازہ کیا کہ وہ اعلیٰ طبقہ سے تعلق نہیں رکھتی اور عقل مند بھی معلوم نہیں ہوتی۔ چہرہ سب نے دیکھا، کوئی قریب تھا، کوئی دور، اس لیے ہر ایک نے اپنے اپنے الفاظ میں چہرے کا وصف بیان کیا۔ رہی عبداللہ بن عباس کی روایت، وہ تو متن کے اعتبار سے بھی جابربن عبداللہ کی روایت سے مختلف ہے۔ اس میں عورتوں کے بارے میں ’حطب جہنم‘ (جہنم کا ایندھن) کا ذکر تک نہیں۔ ابن عباس کی روایت میں عورتوں کی بیعت کے بارے میں سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر ۱۲ کا ذکر ہے۔ یہ پڑھ کر آپ نے فرمایا: تمھاری بیعت ہوگئی جس پر ایک عورت نے جواب دیا: ہاں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جابر بن عبداللہ کی روایت والی اور عبداللہ بن عباس کی روایت والی دو مختلف عورتیں ہیں۔

دوسری بات ان کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ روایت بالمعنیٰ ہے اور ایسی روایت کے الفاظ کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ مختلف راوی مختلف الفاظ بیان کرتے ہیں اور کئی باتیں ایک راوی کو یاد رہ جاتی ہیں اور دوسرا بھول جاتا ہے۔ ہاں اگر روایت باللفظ ہو تو اس میں تغیر کا امکان نہیں ہوتا۔

حضرت ابن عباس کی روایت میں راوی حسن بن مسلم کہتا ہے کہ اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت کون تھی۔ یہ الفاظ عبداللہ بن عباس کے نہیں ہیں، جیسا کہ مضمون نگار نے غلط سمجھا۔

تیسری توجیہ صاحب مضمون نے کی ہے کہ اس زمانے میں کپڑوں کی کمی تھی۔ ثبوت کے طور پر انھوں نے ام عطیہ کی جو روایت بیان کی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غربت کی وجہ سے ایک عورت کے پاس جلباب نہ ہونے کا امکان تھا، جبکہ دوسری عورتوں کے پاس دو یا اس سے زیادہ جلباب تھیں، چنانچہ نبی پاک نے یہ حکم دیا کہ وہ اپنی ایک جلباب عاریتہ دے دے۔ میں نے اوپر ابن عطیہ کی روایت پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک جلباب میں دو عورتوں والی شراکت کو علما نے ضعیف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ وہ ایک جلباب اس کو عاریتہ دے دے۔ اس روایت کے آخر میں صاحب مضمون نے عربی لغت کا سہارا لیا ہے جس میں وہ بالکل مسکین ہیں۔

حدیث کا ترجمہ کرتے وقت صاحب مضمون نے ’سفعاء الخدین‘ کا ترجمہ ’’پچکے رخساروں والی‘‘ کیا ہے جو بالکل غلط ہے۔ عربی کی کسی لغت اور کسی بھی شارح کی شرح میں یہ ترجمہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ آئیے، ہم دیکھتے ہیں کہ ’سفعاء‘ کے لغوی معنی کیا ہیں؟

سفِع یَسْفَع‘ کے معنی جھلسا دینا ہوتا ہے۔ یہ جھلسانا (Taning) آگ سے بھی ہوتا ہے اور لو سے بھی۔ احمد بن فارس بن زکریا ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں کہتے ہیں کہ ’س‘، ’ف‘ اور ’ع‘ کے مادہ کے بنیادی معنی ایک تو رنگ کے ہیں اور دوسرے پکڑنے کے۔ ’سفعۃ‘ کے معنی ہیں سرخی مائل سیاہی۔ خلیل کا قول ہے کہ جب تک سیاہ رنگ میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اسے ’سفعۃ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ الصحاح میں ہے: ’سفعۃ‘ اس تاریکی کو کہا جاتا ہے جس میں سرخی کی آمیزش ہو ’’المصباح المنیر‘‘ میں ہے: ’السفعۃ‘ وہ تاریکی ہے جس میں سرخی ملی ہوئی ہو۔ ’’المنجد‘‘ اور ’’المعجم الوسیط‘‘ میں بھی یہی معنی دیے گئے ہیں۔ حدیث میں لغت کی مشہور کتاب ’’نہایہ ابن اثیر‘‘ میں ہے: ’سفعاء الخدین‘ میں ’سفعۃ‘ سے مراد معمولی سی سیاہی ہے، اس میں دوسرے رنگ کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ شارح نسائی حافظ سیوطی کا قول ہے کہ ’سفعۃ‘ معمولی قسم کی سیاہی کو کہا جاتا ہے جس میں دوسرا رنگ ملا ہوا ہو۔ امام سندھی کا بھی یہی قول ہے کہ اس سے مراد معمولی سیاہی ہے۔ ’’عون المعبود‘‘ میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ’السفعۃ‘ معمولی سی سیاہی ہوتی ہے۔ ایک قول کے مطابق اس میں دوسرا رنگ ملا ہوتا ہے۔ اس سے مذکر کا صیغہ ’اسفع‘ ہے جس کے معنی ہیں سرخی مائل سیاہ رنگ والا۔ اور ’سفعائ‘ مونث کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں سرخی مائل سیاہ رنگ والی۔ تو ’سفعاء الخدین‘ کے معنی ہوں گے جس کے رخسار سرخی مائل سیاہ رنگ (Dark Brown) والے تھے۔ اس معنی کے سوا تمام معانی قطعی طور پر غلط ہیں۔ کاش، صاحب مضمون بتا دیتے کہ کس عالم نے اس کے معنی پچکے گالوں والی لکھا ہے؟ یہ لفظ صرف رنگ کے لیے خاص ہے چہرے کے خدوخال کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ صاحب مضمون نے سنن ابی دائود کی جو روایت نقل کی ہے، وہ زیرنظر حدیث سے قطعی مختلف ہے۔ اس میں ’سفعاء الخدین‘ کی جو صفت بیان ہوئی ہے، وہ صاحب منصب وجمال ہے جس کا خاوند فوت ہو چکا ہے اور جس نے اپنے آپ کو یتیم بچوں کے لیے وقف کیا ہوا ہے۔ اس عورت کے بارے میں منذری اور صاحب عون المعبود نے کہا ہے کہ طویل بیوگی اور یتیموں کی نگہداشت کی وجہ سے اس نے بنائوسنگار چھوڑ رکھا ہے، اس لیے اس کے چہرے کی سرخی میں سیاہی شامل ہوگئی ہے۔ وہ تو صاحب منصب وجمال ہے۔ محنت ومشقت کی وجہ سے اس کا چہرہ مرجھایا نہیں، محض اپنے آپ کی طرف توجہ نہ دینے سے اس کے چہرے کی رنگت بدلی ہے۔ ’سفعاء الخدین‘ کو قواعد (عمررسیدہ) کے ہم معنی قرار دینا صرف محقق حافظ محمد زبیر کا خیال ہے۔ وگرنہ ان دونوں میں کوئی مناسبت نہیں۔ انسان اپنے تصورات کی تائید کے لیے کس قدر دیدہ دلیری کے ساتھ قرآنی الفاظ کو غلط معنی پہناتا ہے۔ کیا ان لوگوں پر ’یحرفون الکلم عن مواضعہ‘ (۵: ۱۳) کا اطلاق نہیں ہوتا؟ صاحب مضمون نے آخر میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ واقعہ حجاب کی فرضیت سے پہلے کا ہے۔ یہ احتمال تاریخی لحاظ سے قطعی غلط ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری ’’کتاب الایمان‘‘ (۱: ۶۶) میں لکھا ہے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ عورتوں سے بیعت کا قصہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قطعی طور پر آیت حجاب کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے۔

علامہ ناصرالدین البانی نے اپنے موقف کی تائید میں تیرہ احادیث نقل کرنے کے بعد ’’جلباب المراۃ‘‘ صفحہ۷۴ پر اس دعویٰ کا ابطال کیا ہے کہ یہ تمام دلائل فرضیت جلباب سے پہلے عرصہ سے متعلق ہیں۔ علامہ کا استدلال یہ ہے کہ سرخی مائل سیاہ رخساروں والی عورت نے جلباب پہن رکھی تھی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کی نماز کے لیے حکم جلباب کی فرضیت کے بعد دیا اور یہ حکم حدیبیہ سے لوٹنے کے بعد آیت امتحان اور آیت بیعت کے نزول کے بعد دیا گیا۔ اس کی تائید ام عطیہ کا یہ قول کرتا ہے: ’لما قدم رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی المدینۃ‘ یعنی جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (حدیبیہ سے) مدینہ تشریف لائے۔ سورۂ الممتحنہ کی آیت مبایعت (آیت نمبر۱۲) (جس کا ابن عباس کی روایت میں ذکر ہے) فتح مکہ کے دن نازل ہوئی، جیسا کہ ’’الدرالمنثور‘‘ (۶: ۲۰۹) میں مقاتل کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے اور جیسا کہ ابن مردوبہ نے جابر سے روایت کی ہے (الدرالمنثور۶: ۲۱۱) لہٰذا صاحب مضمون کے اس احتمال کی کہ یہ واقعہ آیت جلباب سے پہلے کا ہے، قطعی کوئی گنجایش نہیں رہتی۔

اس حدیث سے اہل علم نے درج ذیل فقہی احکام کا استنباط کیا ہے:

۱۔ مردوں کی موجودگی میں اہل علم براہ راست عورتوں کو وعظ ونصیحت کر سکتے ہیں۔ وہ روایت جو ابن جریج نے عطاء سے کی ہے، اس کا واضح ثبوت ہے، کیونکہ عطاء نے ابن جریج کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے: یہ وعظ کرنا مجھے میری زندگی کی قسم، امام پر واجب ہے۔ انھیں کیا ہو گیا ہے، وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟

۲۔ وعظ ونصیحت سننے کے لیے، حصول علم اور دیگر معاملات کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا کھلا رکھنا جائز ہے۔ عبدالملک بن سلیمان نے جو روایت عطاء سے کی ہے، وہ اس کا واضح ثبوت ہے جو یوں ہے: عورتوں کے درمیان بیٹھی ہوئی عورت کھڑی ہوئی جس کے رخسار سرخی مائل سیاہ تھے اور اسی طرح یہ الفاظ کہ عورتیں بلال کے کپڑے میں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں۔ اس سلسلہ میں ’’فتح الباری‘‘ میں حافظ ابن حجر کا قول اوپر نقل ہوچکا ہے۔

زیربحث حدیث کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۴: ۱۳۱) میں قیس بن ابی حازم کی روایت سے کی ہے کہ میں اور میرا باپ حضرت ابوبکر کے یہاں ان کی حالت مرض کے دوران میں گئے۔ وہ سفید رنگ کے دبلے جسم کے آدمی تھے تو ہم نے گوری رنگت والی اور مہندی والے ہاتھوں والی عورت دیکھی یہ عورت اسماء بنت عمیس تھی جو مکھیاں ہٹانے کے لیے پنکھا ہلا رہی تھی۔ دیکھیے حضرت ابوبکر کی زوجہ محترمہ اجنبی آدمیوں کے سامنے اپنا چہرہ اور ہاتھ کھولے ہوئے ہے اور جناب صدیق اسے منع بھی نہیں کر رہے ہیں۔

تیسری دلیل جس کی بنا پر بقول صاحب مضمون منکرین حجاب (ذہن میں رہے کہ اس حدیث کو علامہ البانی نے اپنے موقف کی حمایت میں پیش کی جانے والی تیرہ روایات میں نمبر۳ کے تحت پیش کیا ہے) عورت کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ نہ واجب ہونے پر دلیل پکڑتے ہیں، وہ سہل بن ساعد کی روایت ہے کہ ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میں اس لیے آئی ہوں کہ اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کردوں (یعنی آپ سے نکاح کرلوں) راوی کا قول ہے کہ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور آپ نے غور سے اوپر سے لے کر نیچے تک اس پر نظر ڈالی پھر آپ نے اپنا سر جھکا لیا۔ پس جب عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ عورت بیٹھ گئی۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ امام بخاری نے درج ذیل ابواب میں اس کا ذکر کیا ہے:

۱۔ ’باب عرض المراۃ نفسہا علی الرجل الصالح‘: باب اس بارے میں کہ ایک عورت نیک آدمی کے لیے اپنے آپ کو پیش کرے۔

۲۔ ’باب النظر الی المراۃ قبل التزویج‘: باب اس بارے میں کہ شادی سے پہلے عورت پر نظر ڈالنا جائز ہے۔

۳۔ ’باب التزویج علی القرآن وبغیر صداق‘: باب اس بارے میں کہ مہر کے بغیر قرآن سیکھ کرنکاح کرنا جائز ہے۔

امام مسلم نے اس حدیث کو ’’کتاب النکاح‘‘ میں بیان کیا ہے اور باب یوں باندھا ہے۔ ’جواز عرض المراۃ نفسہا علی الرجل وتعریفہ رغبتہا فیہ وان لا غضاضۃ علیہا فی ذلک‘ ’’عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی مرد کے لیے پیش کرے اور اسے بتائے کہ وہ اس سے شادی کی رغبت رکھتی ہے۔ اس بات میں اس کے لیے ایسا کرنے میں کوئی ذلت نہیں۔‘‘

مذکورہ حدیث ایک لمبی روایت ہے، صاحب مضمون نے روایت کا وہی حصہ نقل کیا ہے جوعلامہ البانی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے ہاں، جہاں یہ ذکر ہے کہ اس عورت نے حضور سے یہ کہا کہ میں اپنے آپ کو آپ کے لیے ہبہ کرنے آئی ہوں وہاں علامہ البانی نے بریکٹ میں دوسری روایات کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ’’پس آپ خاموش ہوگئے۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے اسی عورت کو کچھ دیر تک کھڑے ہوئے دیکھا۔‘‘

روایت کا باقی حصہ یوں ہے: آپ کے صحابہ میںسے ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اگر آپ کو اس عورت کی حاجت نہیں تو اسے میرے ساتھ بیاہ دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تمھارے پاس مہر میں دینے کے لیے کچھ ہے؟ اس نے کہا: نہیں بخدا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ نے فرمایا: گھر جا کر دیکھو کوئی چیز ہے؟ پس وہ گیا اور لوٹ آیا اور کہنے لگا: بخدا مجھے کچھ نہیں ملا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو، خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ پس وہ گیا اور لوٹ آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، بخدا لوہے کی انگوٹھی بھی نہیں، لیکن یہ میرا تہ بند ہے۔۔۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے تہ بند کا کیا کرے گی (یا تو اپنے ازار بند کا کیا کرے گا) اگر تونے اسے پہنا تو وہ ننگی رہے گی اور اگر اس نے پہنا تو تم ننگے رہو گے۔ پس آدمی بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے دیکھ کر اس کو بلانے کا حکم دیا، جب وہ آیا آپ نے فرمایا: تجھے کتنا قرآن یاد ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے یہ یہ سورتیں یاد ہیں (ان کو گنوا دیا) آپ نے پوچھا: زبانی پڑھ سکتے ہو؟ اس نے کہا، ہاں۔ آپ نے فرمایا: جائو، میں نے اسے اس قرآن کے عوض میں تمھاری ملکیت میں دے دیا۔

حدیث کی فضا (جوالنص) 

ایک عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے۔ آپ کے پاس دوسرے صحابہ موجود ہیں، وہ اپنے آپ کو نکاح کے لیے پیش کرتی ہے۔ آپ اس غرض کے لیے اسے اوپر سے لے کر نیچے تک غور سے دیکھتے ہیں اور خاموش ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظر اس لیے تھی کہ دیکھا جائے کہ عورت شادی کے قابل بھی ہے کہ نہیں۔ یہ نظر کسی کھلی چیز پر پڑی تھی جو چہرے کے علاوہ اور کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی۔ اوپر والے لباس کو شادی کی غرض سے دیکھنا ایک بے معنی سی بات ہے۔ جب آپ نے کوئی فیصلہ نہ کیا تو وہ عورت بیٹھ گئی۔ مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک اور شخص نے شادی کی خواہش کی تو آپ نے ان دونوں کی شادی کروا دی۔

صاحب مضمون کا دعویٰ ہے کہ اس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ عورت کا چہرہ کھلا تھا پھر انھوں نے مضحکہ خیز توجیہ یہ پیش کی ہے کہ ’صعّد‘ اور ’صوّب‘ کے معنی ہیں کہ آپ نے عورت کے اوپر والے حصے اور نیچے والے حصے پر نظر ڈالی۔ گویا عورت کا جسم ایک نہیں تھا، بلکہ اس کے دوحصے تھے اور یہ حصے سر سے لے کر پائوں تک چھپی ہوئی عورت کے نظر آرہے تھے پھر اگرچہرے کو کھلا مانا جائے تو پنڈلیوں کو بھی کھلا ماننا پڑے گا۔ گویا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صحابہ کی موجودگی میںاس کا چہرہ کھلا تھا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کی پنڈلیاں بھی کھلی تھیں۔ یہ ساری باتیں مضمون نویس کے ذہن کی اختراع ہیں، ان کے لیے انھوں نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔

سب سے پہلے میں وہ توجیہ پیش کرتا ہوں جو حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ (۹: ۱۷۴) میں ’صعّد النظر فیھا وصوبہ‘ یعنی ’’اوپر سے نیچے تک دیکھا‘‘ کی بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: مہلب کا قول ہے کہ اس جملے میں اس بات کی دلیل ہے کہ مرد پر واجب ہے کہ جب تک اس کے دل میں رغبت نہ ہو وہ کسی عورت سے نکاح نہ کرے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا گویا کہ یہ نظر اس لیے ڈالی گئی تاکہ دیکھا جائے کہ اس عورت میں ایسی کوئی بات ہے جو شادی کی ترغیب دے، پورے طور پر چھپے ہوئے جسم پر نظر ڈالنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے جمہور فقہا نے شادی کی غرض سے دیکھنے کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنے کی اجازت دی ہے، کیونکہ یہ ستر میں شامل نہیں۔

حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ (۹: ۱۸۱، ۱۸۲) میں ’باب النظر الی المراۃ قبل التزویج‘ میں زیرنظر حدیث پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث سے شادی کی غرض سے نظر ڈالنے کا جواز اخذ کیا ہے۔ چنانچہ وہ مسلم و نسائی کی حضرت ابوہریرہ سے مروی روایت بیان کرتے ہیں کہ ’اذہب فانظر الیہا‘ ’’جائو، جا کر دیکھو، کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھ میں کچھ خرابی ہوتی ہے۔‘‘ پھر انھوں نے ترمذی اور نسائی کی مغیرہ بن شعبہ سے مروی روایت کا حوالہ دیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جا کر اپنی منگیتر کو دیکھو، اس سے تعلقات میں دوام ہوگا۔‘‘ پھر ابودائود کی جابر سے مروی روایت کاحوالہ دیا ہے کہ ’’مخطوبہ کی ایسی چیز کو دیکھو جو تمھیں نکاح کی ترغیب دے۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے نظر کے بارے میں امام ابن حزم، امام اوزاعی اور امام احمد بن حنبل کی رائے کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جمہور علما کا قول ہے کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ خاطب اپنی مخطوبہ کو دیکھے اور وہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کسی چیز کو نہ دیکھے۔ امام نووی ’’شرح مسلم‘‘ (۹: ۲۱۰) میں فرماتے ہیں کہ زیربحث حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو شادی کرنا چاہے اس کے لیے دیکھنا مستحب ہے۔ یہی ہمارا، امام مالک، امام ابوحنیفہ اور سب اہل کوفہ کا، امام احمد اور جمہور علما کا مذہب ہے۔ قاضی عیاض نے روایت کی ہے کہ بعض لوگ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ یہ غلط ہے اور صریحاً اس حدیث کے خلاف ہے اور امت کے اس اجماع کے خلاف ہے کہ خریدوفروخت، شہادت اور دیگر ضروریات کی صورت میں فقط عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنے جائز ہیں، کیونکہ وہ ’عورۃ‘ (ستر) نہیں ہیں۔

حافظ ابن حجر اور امام نووی کی ان تصریحات سے ثابت ہوگیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلے چہرے پر نظر ڈالی۔ کیونکہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔

صاحب مضمون کو اس ادیبانہ جملے کی سمجھ نہیں آئی کہ اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھنے سے کیا مراد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے غور سے دیکھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے اوپر والے حصے کو دیکھا پھر نچلے کو، چنانچہ ’’نہایہ ابن اثیر‘‘ میں ہے ’وصعّد فی النظر وصوّبہ یتاملنی‘ ’’یعنی مجھے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا اور اچھی طرح غور سے دیکھا‘‘ اس میں مبالغہ کا اظہار ہے۔ اور یہ کہنا کہ اوپر والے حصے کے دیکھنے سے نچلے حصہ کا دیکھنا لازم آتا ہے، ایک بچگانہ بات ہے۔ دیکھا اسی حصہ کو جس کا دیکھنا جائز ہے جس کا دیکھنا اجنبی کے لیے جائز نہیں، اس حصہ کو وہ کیسے دیکھ سکتے تھے؟ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہ ہوتا کہ اس عورت کی ایسی چیز کو دیکھا جائے جو نکاح کی ترغیب دے تو پھر دیکھنے کے لیے مبالغہ کا صیغہ بے معنی ہوجاتا ہے۔ جس عورت نے اپنے آپ کو پیش کیا اس کانام روایات میں خولہ بنت حکیم آیا ہے اور یہ واقعہ سورۂ احزاب کی آیت ’وامراۃ مومنۃ ان وہبت نفسہا للنبی‘ (۳۳: ۵۰) ’’اور مومن عورت اگر وہ اپنے تئیں نبی کو بخش دے، بشرطیکہ نبی اس کو نکاح میں لینا چاہے۔‘‘ کے بعد کا ہے ۔

صاحب مضمون سے میری درخواست ہے کہ وہ احادیث مبارکہ کے واضح احکام کو اپنے تصورات کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے ان کے معانی میں تحریف نہ کریں۔ صاحب مضمون نے اس حدیث کے ضمن میں ایک ایسی بات کہی ہے جو بے موقع اور بے محل ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اوپر سے نیچے تک اس لیے دیکھا کہ اس کے قد اور جسم کا جائزہ لیں، یعنی چہرے کو دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی صرف قد اور جسم کو دیکھنا مقصود تھا، کیونکہ عرب شادی کرتے وقت موٹی عورتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیا پتلی عورتیں قد اور جسم سے محروم ہوتی ہیں؟ یہ جملہ کچھ بے جوڑ سا معلوم ہوتا ہے اور شایستگی کے خلاف بھی۔ ایسی بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو عربی ادب سے آشنا نہ ہو۔ عرب کس عورت کو پسند کرتے تھے اس کے لیے صرف دو مصرعے پیش خدمت ہیں۔ پہلا مصرع اشعرالشعراء امری القیس کا ہے جو یوں ہے:

مہفہفۃ بیضاء غیر مفاضۃ
’’وہ پتلی کمر والی اور گوری رنگت والی ہے۔ اس کا پیٹ لٹکا ہوا نہیں۔‘‘

دوسرا مصرع ابوزبید طائی کا ہے جو یوں ہے:

ھیفاء مقبلۃ عجزاء مدبرۃ
’’سامنے سے اس کی کمر پتلی دکھائی دیتی ہے اور پیچھے سے اس کی سرین بھاری نظر آتی ہے۔‘‘

ان مصرعوں سے یہ تو پتا چل جاتا ہے کہ عرب موٹی عورت کو قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ میں نے قصداً دوسرے مصرعے حذف کر دیے ہیں، کیونکہ وہ مناسب حال نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انھیں ایسی بات کہنا زیب نہیں دیتا۔ چہرے کے پردے کے بارے میں تعصب انسان کے منہ سے کس قدر غلط باتیں نکلوادیتا ہے۔

آخر میں صاحب مضمون یہ تو مان گئے ہیں کہ عورت شادی کی غرض سے آئی تھی، اس لیے اس کا چہرہ کھلا تھا۔ مگر وہ یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اسے اہل مجلس نے بھی دیکھا ہو۔ گویا کہ ان سب نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ جب ایک عورت نے بھری مجلس میں کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنے آپ کو آپ کے ساتھ نکاح کے لیے پیش کرتی ہوں تو فطرتی طور پر سب کی نگاہیں اس کی طرف اٹھی ہوں گی۔ پھر اسی مجلس میں وہ بیٹھی رہی، ایک آدمی نے شادی کی خواہش کی اور دودفعہ مہر میں دینے کے لیے کوئی چیز لانے کے لیے اپنے گھر بھی گیا۔ اور وہ وہیں بیٹھی رہی۔ آخر آپ نے اس عورت کا نکاح اس شخص سے کر دیا۔ کیا اس شخص نے اس کا چہرہ نہ دیکھا ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں۔ اس حقیقت کو مان لینے سے صاحب مضمون بے کار تاویلوں اور غیرفطرتی باتوں سے بچ سکتے تھے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B