HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۲-۴ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَہُمْ، وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ، وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَہُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ، اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا{۲} 
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی، فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ، فَاِنْخِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً، اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ، ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلاَّ تَعُوْلُوْا{۳} وَاٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً، فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا، فَکُلُوْہُ ہَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا{۴} 


(اللہ سے ڈرو) اور یتیموں کے مال اُن کے حوالے کردو، نہ اپنے برے مال کو اُن کے اچھے مال سے بدلو ۴؎  اور نہ اُن کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھائو، ۵؎  اِ س لیے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔۶؎  ۲
اور اگر اندیشہ ہو کہ یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کر سکو گے تو (اُن کی) جو (مائیں) تمھارے لیے جائز ہوں، ۷؎  اُن میں سے دودو، تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرلو۔ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو ۸؎  یا پھر لونڈیاں جو تمھارے قبضے میں ہوں۔۹؎  یہ اِس کے زیادہ قریب ہے کہ تم بے انصافی سے بچے رہو۔ اور اِن عورتوں کوبھی اِن کے مہر دو، مہر کے طریقے سے۔ ۱۰؎  پھر اگر وہ خوشی سے کچھ چھوڑ دیں۱۱؎ تو اُس کو (البتہ)، تم مزے سے کھا سکتے ہو۔۳-۴

۴؎  اصل میں ’خبیث‘ اور ’طیب‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جس طرح اخلاقی لحاظ سے خبیث وطیب چیزوں کے لیے آتے ہیں، اس طرح مادی لحاظ سے عمدہ اور ناقص چیزوں کے لیے بھی آتے ہیں۔

۵؎  اصل الفاظ ہیں: ’ولا تاکلوا اموالھم الٰی اموالکم‘۔ ان میں ’الٰی‘ کا صلہ ’ضمًا‘ یا اس کے ہم معنی کسی لفظ سے متعلق ہے جو عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گیا ہے۔

۶؎  اس پوری آیت کا مدعا یہ ہے کہ یتیموں کے سرپرست ان کے مال ان کے حوالے کریں، اسے خود ہضم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ظلم وناانصافی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا گویا اپنے پیٹ میں آگ بھرنا ہے، لہٰذا کوئی شخص نہ اپنا برا مال ان کے اچھے مال سے بدلنے کی کوشش کرے اور نہ انتظامی سہولت کی نمایش کرکے اس کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر کھانے کے مواقع پیدا کرے۔ اس طرح کا اختلاط اگر کسی وقت کیا جائے تو یہ خردبرد کے لیے نہیں، بلکہ ان کی بہبود اور ان کے معاملات کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے۔

۷؎  اصل میں ’ما طاب لکم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان کے معنی ’جوپسند آئیں‘ اور ’جو راضی ہوں‘ کے بھی ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس معنی کو ہم نے ترجیح دی ہے، وہ موقع ومحل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

۸؎  یہ آیت اصلاً تعدد ازواج سے متعلق کوئی حکم بیان کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی، بلکہ یتیموں کی مصلحت کے پیش نظر تعدد ازواج کے اس رواج سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے لیے نازل ہوئی ہے جو عرب میں پہلے سے عام تھا۔ قرآن نے دوسرے مقامات پر صاف اشارہ کیا ہے کہ انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی ہے، اس کی رو سے خاندان کا ادارہ اپنی اصلی خوبیوں کے ساتھ ایک ہی مردوعورت میں رشتۂ نکاح سے قائم ہوتا ہے۔ چنانچہ جگہ جگہ بیان ہوا ہے کہ انسانیت کی ابتدا سیدنا آدم سے ہوئی ہے اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی بیوی پیدا کی تھی۔ یہ تمدن کی ضروریات اور انسان کے نفسی، سیاسی اور سماجی مصالح ہیں جن کی بنا پر تعدد ازواج کا رواج کم یا زیادہ، ہر معاشرے میں رہا ہے اور انھی کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی کسی شریعت میں اسے ممنوع قرار نہیں دیا۔ یہاں بھی اسی نوعیت کی ایک مصلحت میں اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ یتیموں کے مال کی حفاظت اور ان کے حقوق کی نگہداشت ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ لوگوں کے لیے تنہا اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا مشکل ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ یتیم کی ماں کو اس میں شامل کر کے وہ اپنے لیے سہولت پیدا کر سکتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ ان کی مائوں میں سے جو ان کے لیے جائز ہوں، ان کے ساتھ نکاح کر لیں۔ تاہم دوشرطیں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کر دی ہیں:

ایک یہ کہ یتیموں کے حقوق جیسی مصلحت کے لیے بھی عورتوں کی تعداد کسی شخص کے نکاح میں چار سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری یہ کہ بیویوں کے درمیان انصاف کی شرط ایک ایسی اٹل شرط ہے کہ آدمی اگر اسے پورا نہ کر سکتا ہو تو اس طرح کی کسی اہم دینی مصلحت کے پیش نظر بھی ایک سے زیادہ نکاح کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔

۹؎  یہ اس لیے فرمایا ہے کہ غلامی کا ادارہ اس وقت تک ختم نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ سورۂ محمد میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی ممانعت کے باوجود جو غلام پہلے سے معاشرے میں موجود تھے، ان کے لیے یہ استثنا باقی رکھنا ضروری تھا۔ بعد میں قرآن نے ان کے ساتھ لوگوں کومکاتبت کا حکم دے دیا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ لوح تقدیر اب غلاموں کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی آزادی کی تحریر اس پر، جب چاہیں، رقم کر سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں غلامی کو معیشت اور معاشرت کے لیے اسی طرح ناگزیر سمجھا جاتا تھا، جس طرح اب سود کو سمجھا جاتا ہے۔ نخاسوں پر ہر جگہ غلاموں اور لونڈیوں کی خریدوفروخت ہوتی تھی اور کھاتے پیتے گھروں میں ہر سن وسال کی لونڈیاں اور غلام موجود تھے۔ اس طرح کے حالات میں اگر یہ حکم دیا جاتا کہ تمام غلام اور لونڈیاں آزاد ہیں تو ان کی ایک بڑی تعداد کے لیے جینے کی کوئی صورت اس کے سوا باقی نہ رہتی کہ مرد بھیک مانگیں اور عورتیں جسم فروشی کے ذریعے سے اپنے پیٹ کا ایندھن فراہم کریں۔ یہ مصلحت تھی جس کی وجہ سے قرآن نے تدریج کا طریقہ اختیار کیا اور اس سلسلہ کے کئی اقدامات کے بعد بالآخر سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳۳ میں مکاتبت کا وہ قانون نازل فرمایا جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ اس کے بعد نیکی اور خیر کے ساتھ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت رکھنے والے کسی شخص کو بھی غلام بنائے رکھنے کی گنجایش باقی نہیں رہی۔ اس قانون کی وضاحت اگر اللہ نے چاہا تو ہم نور کی اسی آیت کے تحت کریں گے۔

۱۰؎  اصل میں ’نحلۃ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا نصب ہمارے نزدیک مصدر کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان عورتوں کا مہر اسی طریقے سے دیا جائے جس طرح عام عورتوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ عذر نہیں پیدا کرنا چاہیے کہ نکاح چونکہ انھی کی اولاد کی مصلحت سے کیا گیا ہے، اس لیے اب کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہی۔

۱۱؎  اصل الفاظ ہیں: ’فان طبن لکم عن شیء منہ‘۔ ان میں حرف ’عن‘ دست برداری کے مفہوم کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی اپنی خوشی سے اگر وہ مہر کے کسی حصے سے دست بردار ہو جائیں یا کوئی اور رعایت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔ لوگ اگر چاہیں تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔


[              باقی]


ــــــــــــــــــــــــــ

B