HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

چہرے کا پردہ اور ’’حکمت قرآن‘‘ (۳)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


’’اشراق‘‘ کے اگست ۲۰۰۵ کے شمارہ میں عنوان بالا پر میرے مضمون کے جواب میں حافظ محمد زبیر کے مضمون کی تیسری قسط ’’حکمت قرآن‘‘ بابت فروری ۲۰۰۶ کے شمارے میں شائع ہوئی تو اس کے آخر میں ’’باقی ‘‘ یا ’’جاری‘‘ کے الفاظ موجود نہ تھے جس پر میں یہ سمجھا کہ جواب ختم ہوچکا ہے، چنانچہ میں نے ’’جواب آں غزل‘‘ کو تین قسطوں تک محدود رکھ کر ادارۂ اشراق کے حوالہ کر دیا، جب میری نظر ’’حکمت قرآن‘‘ کے مارچ۲۰۰۶ کے شمارے پر پڑی تو اس میں حافظ صاحب کے مضمون کی چوتھی قسط دیکھی، اب اس قسط کا جواب پیش خدمت ہے۔

علمی مباحث سے پہلے میں ایک ایسی بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جس کا ذکر پورے مضمون میں کہیں نہیں، مگر صاحب مضمون کو وہ بہت ناگوار گزری ہے، چنانچہ انھوں نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ قائم کرکے اس کی تردید میں ’’حکمت قرآن‘‘ کے دو صفحے سیاہ کر دیے ہیں۔ اختلاط مردوزن کا موضوع میں نے اپنے مضمون میں کہیں نہیں چھیڑا۔ وجہ استدلال یہ تھی کہ دیہات اور شہر کی محنت کش عورتیں چہرہ ڈھانپ کر اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتیں اور اسی بات کو طبری، زمخشری، رازی، قرطبی اور ابن العربی جیسے فضلانے چہرہ کھلا رکھنے کی حکمت قرار دیا ہے۔ نہ جانے مضمون نگار اس بحث کو درمیان میں کیوں گھسیٹ لائے اور جو لوگ ان کی ہم نوائی نہیں کرتے، انھیں ظالم اور منکر حجاب جیسے القابات سے نوازنے لگے۔

اب آتے ہیں نفس مضمون کی طرف حافظ محمد زبیر صاحب نے چوتھی قسط میں اٹھارہ روایات پیش کی ہیں جو ان کے بقول ایسی احادیث مبارکہ ہیں، جو چہرے کے پردے پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں گیارہ روایات ایسی ہیں جن پر فن حدیث کی رو سے لفظ حدیث کا اطلاق نہیں ہوتا، کیونکہ وہ صحابۂ کرام کے اقوال ہیں، اس لیے ان کو آثار کہا جائے گا نہ کہ حدیث، مثلاً روایت نمبر ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۹،۱۵،۱۶،۱۸۔ اور باقی کی سات روایات حدیث کے زمرے میں آتی ہیں۔ دوسرے ان اٹھارہ روایات میں سے چھ یعنی روایت نمبر ۱،۳،۴،۶،۱۳ اور ۱۰ کاتعلق خاص طور پر امہات المومنین کے ساتھ ہے۔ پھر کچھ روایات ایسی ہیں جن کو کھینچ تان کر چہرے کے پردے کے حق میں پیش کیا گیا ہے۔ کچھ روایات ضعیف اور صحیح احادیث سے متصادم ہیں، جبکہ کچھ روایات کوسمجھنے میں صاحب مضمون نے ٹھوکر کھائی ہے۔ چار روایات ایسی ہیں جن میں عربی الفاظ کا اردو ترجمہ کرتے وقت فحش غلطیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

امہات المومنین کے لیے چہرے کے پردے کی تخصیص

اس موضوع پر میں نے اپنے اصل مضمون میں بات کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام زمخشری نے سورۂ احزاب کی آیت نمبر۳۵ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب آیات نمبر ۲۸ تا ۳۴ ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوئیں تو دوسری مسلمان عورتوں نے کہا کہ ہمارے بارے میں تو کچھ بھی نازل نہیں ہوا تو آیت نمبر ۳۵ نازل ہوئی جس میں مسلمان مردوں اور عورتوں کی صفات گنائی گئی ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے (فتح الباری ۸: ۴۲) حضرت سودہ سے مروی حدیث میں قاضی عیاض کے قول کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ امہات المومنین کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا چھپانا فرض ہے۔ وہ شہادت اور کسی اور غرض کے لیے بھی چہرہ نہیں کھول سکتیں۔ اور اشد ضرورت کے سوا وہ دور سے دکھائی دینے والا جسم بھی ظاہر نہیں کر سکتیں۔ حافظ ابن حجر نے حضرت سودہ کی حدیث کی بنیاد پر قاضی عیاض کے اس موقف کی تردید کی ہے کہ وہ چہرہ چھپا کر بھی باہر نہیں نکل سکتیں۔

سنن ابی داؤد(جلد سوم کتاب اللباس)میں ام سلمہ سے مروی حدیث میں عبداللہ بن ام مکتوم جیسے نابینا سے پردے کا حکم دیا گیا ہے، اس کو بیان کرنے کے بعد ابوداؤد کہتے ہیں کہ ’’یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے ساتھ خاص ہے۔‘‘ ابن قدامہ حنبلی ’’المغنی‘‘ (۷:۷۶۶) میں فرماتے ہیں کہ اثرم کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ (امام احمد) سے پوچھا کہ نبہان والی روایت جو ام سلمہ سے مروی ہے، کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں ہے اور فاطمہ بنت قیس والی روایت (جس میں اسے ابن ام مکتوم کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا تھا) کیا عام عورتوں کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔

سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۲۸تا۳۴ میں ضمائر کا مرجع امہات المومنین ہیں۔ ان آیات میں ازواج مطہرات کو خاص طور پر کہاگیا ہے کہ وہ عام عورتوں جیسی نہیں ہیں اور اختتام پر یہ کہا گیا ہے کہ اے نبی کی اہل بیت، تمھیں اللہ آلودگی سے پاک کرنا چاہتا ہے۔ ان آیات میں ازواج مطہرات کے امتیازی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کی جزاوسزا دگنی ہے۔ دوسرے ان کو طلاق دے کردوسری عورت سے شادی کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے اور ان کی وفات کے بعد ان سے نکاح حرام ہے۔ پھر ان کے گھروں میں آیات کا نزول ہوتا ہے چنانچہ ’قرن فی بیوتکن‘ اور آیت حجاب بھی انھی امتیازات میں سے ہے۔ ان آیات کی ابتدا وانتہا، ان کا انداز بیان، افعال و ضمائر کا استعمال، سب اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امہات المومنین کو منافقین کی سازشوں کے پیش نظر خاص خاص باتوں کی تعلیم دی گئی ہے۔

مجاہد نے سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۹ کی جو تفسیر کی ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ پردے کے بارے میں امہات المومنین اورعام مسلمان عورتوں کے درمیان قدر مشترک صرف یہ ہے کہ وہ اوڑھنیوں کو اپنی پیشانیوں پر باندھ لیں اور اگر کسی صحیح حدیث یا اثر سے ثابت ہو کہ امہات المومنین نے اپنا چہرہ ڈھانپا تو اسے ان کی خصوصیت سمجھا جائے گا۔ اس موضوع کے لیے جلال الدین سیوطی کی ’’الخصائص الکبریٰ‘‘ اور ’’کفایۃ الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب‘‘ (تحقیق ڈاکٹر محمد خلیل ھراس مطبعۃ المدنی۔ القاہرہ) کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ موخرالذکر ایک ضخیم کتاب ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے خصائص پر بحث کی گئی ہے۔ ہمارے موضوع (چہرے کے پردے) کے بارے میں ایک باب ہے جس کا عنوان ہے: ’اختصاص النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بتحریم رؤیۃ اشخاص ازواجہ لفرض الحجاب علیہن فی الوجہ والکفین‘ (۲/ ۳۱۵)یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت سے متعلق کہ ان کی ازواج کے دور سے دکھائی دینے والے جسم کا دیکھنا اس لیے حرام ہے، کیونکہ ان کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا پردہ فرض ہے۔ ان تصریحات کی روشنی میں روایت نمبر ۱،۳،۶،۱۳،۱۵ اور ۱۶ کو آسانی سے سمجھا جاسکتاہے۔

اب ہر روایت کا الگ الگ تجزیہ کیا جارہا ہے۔ صاحب مضمون نے بغیر کسی ترتیب کے سب روایات کو محض اپنے مزعومہ تصور کی تائید کے لیے اکٹھا کر دیاہے، میں ان تمام روایات کا ذکر ایک ساتھ کروں گا جو موضوع کے اعتبار سے باہم مربوط ہیں۔

روایت نمبر ۱،۲اور ۱۲ کاایک ساتھ ذکر ہوگا، کیونکہ ان کا موضوع حالت احرام میں عورت کے چہرے سے متعلق ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی ان کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔

پہلی روایت: ام المومنین عائشہ کا قول ہے کہ ہم حالت احرام میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ قافلے جب ہمارے برابر میں آتے تھے تو ہم جلباب کو اپنے سر کے اوپر سے چہرے پر لٹکا لیتے تھے، جب وہ ہم سے آگے گزر جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول دیتے تھے۔ یہ قول سنن ابن ماجہ میں لفظی تغیر کے ساتھ مروی ہے۔ وہاں ’الرکبان‘ (قافلہ) کی بجائے ’راکب‘ ( ایک سوار) ہے۔ ’سدل‘ کی بجائے ’اسدل‘ ہے اور ’جلباب‘ کی بجائے ’ثیاب‘ کا لفظ ہے۔

دوسری روایت: حضرت اسماء بنت ابی بکر کا قول ہے کہ ہم مردوں سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتی تھیں۔ روایت نمبر ۱۲ مرفوع حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جو بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے۔

سند کے اعتبار سے حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۳:۴۰۶) میں، امام نووی نے المجموع (شرح المہذب) (۷: ۲۵۱) میں، علامہ البانی نے ضعیف ابی داؤد (رقم، ۲۳۱۷) اور ضعیف ابن ماجہ (رقم، ۶۳۷، ۲۹۳۵) میں اور ارواء الغلیل (رقم، ۲۴،۱) میں روایت نمبر ۱ کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ارواء الغلیل میں ہے کہ اس روایت میں یزید بن ابی زیاد ہاشمی الکوفی بنو ہاشم کا غلام ہے جو ضعیف ہے۔ کبر سنی میں بدل گیا اور ’’تلقین‘‘ کرنے لگا۔ انھوں نے یہ بات حافظ کی التقریب (۷۷۱۷) کے حوالہ سے کہی ہے۔ حافظ صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ شیعہ تھا۔ اس لیے یہ قول قابل حجت نہیں۔ صاحب مضمون نے علامہ البانی سے نقل کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور حوالہ کے لیے ’’حجاب المرأۃ المسلمہ‘‘ کو پیش کیا ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کتاب کا فن حدیث سے کوئی تعلق نہیں، اس سے متعلق علامہ کی کتابیں وہی ہیں جن کا میں اوپر حوالہ دے چکا ہوں۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ علامہ البانی کے بارے میں ان کی معلومات انتہائی ناقص ہیں اور علم حدیث کے بارے میں ان کی معلومات تازہ ترین نہیں ہیں۔ میری ان سے گزارش ہے کہ وہ حدیث کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اس فن کا مطالعہ کریں، کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ دوسری روایت اسماء بنت ابی بکر کا قول ہے جسے امام حاکم نے المستدرک میں بیان کیاہے۔ اس اثر کے الفاظ کہ ’’ہم مردوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں‘‘، صریحاً روایت نمبر ۱۲ یعنی عبداللہ بن عمر سے مروی مرفوع حدیث کے ان الفاظ سے متصادم ہیں کہ ’’احرام والی عورت نہ نقاب پہنے اور نہ دستانے۔‘‘ محمد المنتصرالکتانی اپنی کتاب ’’معجم فقہ السلف‘‘ (۴: ۴۱۔۴۳) (مطبوعہ جامعہ ام القریٰ مکۃ المکرمہ) میں لکھتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن عمر نے ایک عورت کو دیکھا جس نے حالت احرام میں اپنے چہرے پر پردہ لٹکایا ہوا تھا۔ آپ نے اس سے کہا: اپنا چہرہ کھلا رکھو، کیونکہ عورت کا احرام چہرے میں ہے۔‘‘ ابن عمر سے مروی روایت کی تشریح حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر قرطبی نے اپنی معرکۃ الآرا تصنیف ’’التمہید‘‘ (۱۵: ۱۰۴۔۱۰۷) میں کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جمہور صحابہ اور تابعین کا اجماع اس بات پر ہے کہ عورت کا احرام چہرے میں ہے اور حالت احرام میں عورت کے لیے نقاب پہننا درست نہیں۔ اس بارے میں قطعی کوئی اختلاف نہیں ہاں، ایک قول اسماء بنت ابی بکر سے منقول ہے کہ احرام والی عورت اگر چاہے تو چہرہ ڈھانپ لے۔ حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے کہ حالت احرام میں عورت چاہے تو چہرہ ڈھانپ سکتی ہے اور انھی سے ایک روایت ہے کہ وہ چہرہ نہ ڈھانپے اور لوگوں کا عمل بھی اسی روایت پر ہے۔تاکہ خواہش نفس کا اتباع کرنے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ عورت نقاب کے علاوہ کسی اور چیز سے چہرہ ڈھانپ سکتی ہے۔ وہ آگے چل کر فرماتے ہیں: ’’اس بات پر اجماع ہے کہ عورت حالت نماز اور احرام میں اپنا چہرہ کھلا رکھے۔ ‘‘امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، اصحاب شافعی، امام اوزاعی اور ابو ثور کا قول ہے کہ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے چہرہ اور ہاتھوں کے سوا اپنا سارا بدن ڈھانپ کر رکھے۔ احرام والی اس عورت کے بارے میں جو اس حکم کی مخالفت کرے اور اپنا چہرہ چھپائے، ابن عبدالبر امام مالک کا قول نقل کرتے ہیں کہ اگر عورت کپڑا فوراً ہٹا لے تو ٹھیک ہے ،لیکن اگر اسے کچھ عرصے کے لیے چھوڑے رکھے تو اس پر فدیہ واجب ہے۔ مذکورہ بالا آثار سے چہرے کے پردے کے حق میں استدلال درست نہیں، کیونکہ:

۱۔ امام شافعی نے الرسالہ (مسئلہ نمبر۱۲۲۰، ۱۶۰۱) میں فقہ کا یہ اصول بیان کیا ہے کہ کسی صحابی کا وہ قول یا فعل جو صحیح حدیث سے متصادم ہو، قابل حجت نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث کی موجودگی میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ فلاں نے یوں کہا، فلاں نے ایسا کیا۔

۲۔ اگر ہم صحابہ اور تابعین کے ایسے آثار اور آرا کو اپنے اوپر لازم کر لیں جو اجتہاد کے لباس میں صحیح حدیث کے مخالف ہوں تو اس سے شرکا ایک ایسا دروازہ وا ہوجائے گا جو کبھی بند نہ ہوگا۔

۳۔ ان آثار سے بھی چہرے کا ڈھانپنا قطعی ثابت نہیں ہوتا۔ پہلی روایت میں لفظ ’سدل‘ یا ’اسدال‘ کے معنی یہ ہیں کہ کسی طریقے سے سر کے اوپر کپڑا لٹکا لیا جائے، بشرطیکہ وہ چہرے سے ہٹا رہے۔ دوسری روایت میں لفظ تغطیہ کو حافظ ابن حجر (فتح الباری ۳: ۴۰۶) اور علامہ البانی نے(جلباب المراۃالمسلمہ ۱۰۸) ’سدل‘ کے معنوں پر محمول کیا ہے۔ حافظ ابن حجر، عینی اور قسطلانی جیسے علما کی اس بارے میں رائے یہی ہے کہ احرام والی عورت کے لیے چہرے اور ہاتھوں کا چھپانا حرام ہے۔ لگتا ہے کہ امہات المومنین کبھی کبھی بوقت ضرورت جب مرد بالکل قریب ہوتے تھے تو بطور احتیاط ’سدل‘ سے کام لیتی تھیں اور ان کے اتباع میں بعض مسلمان عورتیں بھی ایسا کرتی ہوں گی، لیکن یہ عام قاعدہ نہ تھا۔ پھر شرط یہ تھی کہ کپڑا چہرے کو ہرگز نہ چھوئے وگرنہ فدیہ واجب ہوجاتا تھا۔ امام بیہقی نے حضرت عائشہ سے جو اثر روایت کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں ’تسدل الثوب علی وجہہا ان شاء ت‘ ’’عورت اگر چاہے تو اپنے سر کے اوپر سے کپڑا لٹکا سکتی ہے۔‘‘ حضرت عائشہ کا یہ اختیار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ چہرہ ان کے نزدیک ستر میں شامل نہیں، وگرنہ وہ اسے واجب قرار دیتیں۔

پھر ’سدل‘ سے چہرہ تو ہرگز نہیں چھپتا۔ ہوسکتا ہے کہ سامنے سے نظر نہ آئے، دونوں اطراف سے تووہ صاف دکھائی دے گا۔ ’’عون المعبود‘‘(۵:۲۸۶) مطبوعہ دارالفکر بیروت میں ہے: ’’یہ ناممکن ہے کہ کپڑا سر کے اوپر لٹکایا جائے اور وہ چہرے سے نہ لگے۔‘‘ ان الفاظ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عادتاً ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عہد رسالت سے لے کر آج تک لاکھوں عورتیں کھلے چہرے کے ساتھ حج کر رہی ہیں۔ جو عمل تواتر سے ثابت ہے، اسے ایک ضعیف قول کی بنیاد پر چھوڑنا علم کی معراج ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس شاذ عمل کو چہرے کے پردے کے ثبوت کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ آج بھی یہ فتویٰ دے کر دیکھ لیں کہ احرام والی عورت چہرہ چھپاکے رکھے، دیکھیں کیا درگت بنتی ہے۔

صاحب مضمون نے روایت نمبر ۱۲ میں امام ابن تیمیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے کہ جب عورتیں حالت احرام میں نہ ہوتی تھیں تو نقاب اور دستانے پہننا ا ن میں معروف تھا۔ امام صاحب نے یہ تو نہیں فرمایا کہ نقاب اور دستانے پہننا ان پر واجب تھا۔ جو لوگ اس سے وجوب کی دلیل پکڑتے ہیں، ان کو اسی منطق میں یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں مردوں کو عمامہ پہننے سے منع فرمایا تھا۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ وہ احرام کے بغیر سر پر عمامہ پہنتے تھے، لیکن کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے لیے عمامہ سر پر رکھنا واجب تھا؟

روایت نمبر ۳ ام المومنین حضرت عائشہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ مضمون کے آغاز میں میں نے مدلل طور پر امہات المومنین کے امتیازات کی نشان دہی کی ہے، اسی کی روشنی میں حضرت عائشہ کے اس قول کو سمجھنا چاہیے۔

روایت نمبر ۴ اور ۵ کا مضمون ایک ہی ہے یعنی مومن عورتیں نماز فجر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کرتیں تو جب آخر شب کے اندھیرے میں واپس جاتیں تو اندھیرے کی وجہ سے کوئی ان کو پہچان نہ سکتا تھا۔ صاحب مضمون نے ’غلس‘ کے معنوں کی غلط تاویل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے چہرے بھی چھپے ہوتے تھے۔ حالاں کہ حضرت عائشہ کے اس قول میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تاریکی کی وجہ سے ان کو کوئی پہچان نہ سکتا تھا۔ اگر یہاں چہرہ ڈھانکنا مراد لیا جائے تو پھر لفظ ’غلس‘ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں (۲: ۵۵) یہ دونوں قول نقل کیے ہیں جن کا ذکر صاحب مضمون نے کیا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی ذات کا پتا چلتا ہے کہ خدیجہ ہے یا زینب۔ امام نووی کا قول نقل کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں: ’’امام نووی کا تعاقب کیا گیا ہے، کیونکہ معرفت کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ اگر ان کے جسم کا سایہ مراد ہوتا توعلم کی نفی کی جاتی نہ کہ معرفت کی۔‘‘ انھوں نے داؤدی کے قول کی تردید کا ذکر کیا ہے کہ یہ کلام محل نظر ہے، کیونکہ ہر عورت کی ہیئت عام طور پر دوسری عورت سے الگ ہوتی ہے، خواہ اس کا بدن ڈھپا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔ پھر انھوں نے ابوالولید الباجی (متوفی۴۷۴) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ قول اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان عورتوں کے چہرے کھلے ہوئے تھے، کیونکہ اگر وہ نقاب میں ہوتیں تو چہرے کے ڈھانپنے کو نہ پہچانے جانے کی وجہ قرار دیا جاتا نہ کہ تاریکی کو۔ علامہ البانی نے اس روایت کو ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘(صفحہ۶۵) میں پیش کر کے اس سے چہرہ کھلا رکھنے پر استدلال کیا ہے۔ ان کا قول ہے کہ جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر جھٹپٹا نہ ہوتا تو وہ پہچانی جاتیں، کیونکہ عام طور پر عورتیں چہرے ہی سے پہچانی جاتی ہیں۔ انھوں نے الباجی کے ساتھ امام شوکانی (۲: ۱۵) کا حوالہ بھی دیا ہے ۔ پھر وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس سلسلہ میں ایک صریح روایت ملی ہے جسے ابو یعلیٰ نے اپنی مسند (۲: ۲۸۴) میں روایت کیا ہے، اس میں یہ الفاظ ہیں: ’ما یعرف بعضنا وجوہ بعض‘ یعنی ’’اندھیرے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے چہروں کو نہ پہچانتی تھیں۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ عورتیں چادروں میں لپٹی ہوئی نماز فجر کھلے چہرے کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور اسی حالت میں مسجد سے نکلتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ تاریکی میں چہرہ ڈھانپنے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک تاریکی ہو اوپر سے چہرہ بھی ڈھانپ لیا جائے، ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے۔ علما کے قول کے مطابق جو مقام زینت عبادتاً کھلا رہے گا، وہ عادتاً بھی کھلا رہے گا۔ روایت نمبر ۵ کو بھی علامہ البانی نے مذکورہ کتاب کے صفحہ ۷۸ پر بیان کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی صفیہ بنت شیبہ کے حوالہ سے حضرت عائشہ کے قول کو ابن ابی حاتم سے روایت کیا ہے کہ جب ہم سیدہ عائشہ کے یہاں تھیں تو انھوں نے قریشی عورتوں کی فضیلت کاذکر کیا اور پھر فرمایا، بخدا میں نے انصار کی عورتوں سے بڑھ کر فضیلت والی اور اللہ کی کتاب پر ایمان لانے والی اور تصدیق کرنے والی کوئی عورت نہیں دیکھی۔ جب سورۂ نور کی آیت ’ولیضربن بخمرھن علٰی جیوبھن‘ نازل ہوئی تو مرد ان کو اللہ کی آیت پڑھ کر سنانے لگے۔ ہر مرد نے اسے اپنی بیوی، بیٹی اور بہن کو پڑھ کر سنایا تو ان میں سے ہر عورت نے اپنی منقش چادر کو اللہ کی کتاب پر ایمان لاتے ہوئے اور تصدیق کرتے ہوئے اوڑھنی ’اعتجرن‘ بنایا اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایسے کھڑی ہوگئیں گویا کہ ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی (فتح الباری ۸: ۴۹۰) نے بھی اس اثر کا ذکر کیا ہے۔ علامہ البانی فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس بارے میں نص ہے کہ وہ آپ کے پیچھے ننگے چہروں کے ساتھ کھڑی ہوتیں۔ کیونکہ ’اعتجار‘ کے معنی اوڑھنی لینے کے ہیں۔ صحاح میں ہے: ’والمعجر ما تشد بہ المراۃ علی راسہا یقال اعتجرت المراۃ‘ معجر(مصدر میمی) کے معنی اوڑھنی اوڑھنے کے ہیں پس محاورہ یہ ہے کہ ’’عورت نے اوڑھنی اوڑھ لی۔‘‘

یہ عجب بات ہے کہ سورۂ نور میں حکم ہے کہ وہ اوڑھنیاں سینوں کے گرد لپیٹ لیں، لیکن صاحب مضمون اس سے مراد لیتے ہیں کہ اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں۔ آخر میں حافظ ابن حجر کا قول ہے کہ ’اختمرن ای غطین وجوہھن‘ ۔فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے پہلے تو اس آیت کے شان نزول کا حوالہ دیا ہے اور فراء کے حوالہ سے بتا یا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں ایسا کرتہ پہنا کرتی تھیں جن کا گریبان کھلا ہوتاتھا اور دوپٹا اس طرح اوڑھتی تھیں کہ اس کے کنارے سر کے پیچھے لٹکا لیے جاتے تھے، اس سے کان، سینہ اور گردن، سب کھلے رہتے تھے۔ حکم یہ ہوا کہ وہ اس دوپٹے کے دونوں لٹکے ہوئے حصوں کو اپنے سینوں اور گریبانوں پر اس طرح ڈال لیں کہ بدن کے مذکورہ حصے اچھی طرح چھپے رہیں۔ جو جملہ صاحب مضمون نے نقل کیا ہے اس کے فوراً بعد حافظ ابن حجر نے یہ جملہ لکھا ہے کہ خمار عورت کے لیے ایسے ہے جیسے مرد کے لیے پگڑی۔ ان دونوں کے درمیان چہرہ چھپانے والا جملہ عجیب سا بے جوڑ دکھائی دیتا ہے۔ میں نے خمر کا مادہ لغت کی مختلف کتابوں میں دیکھا ہے، یہ مادہ جب ثلاثی مجرد کے باب میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی چھپانے کے آتے ہیں جیسے ’خَمَر الشہادۃ‘ ا س نے گواہی کو چھپایا۔ مزید کے ابواب میں سے باب تفعیل یعنی ’خَمَّر‘ بھی انھی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جب مادہ باب افتعال ’ اِخْتَمَر‘ اور باب تفعل ’ تخمّر‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی صرف اور صرف اوڑھنی لینے یا خمیر ہونے کے ہیں۔ اگر صاحب مضمون کسی لغت سے یہ ثابت کردیں کہ ’اختمر‘ کے معنی چھپانے کے ہیں تو میں شکر گزار ہوں گا۔ حافظ ابن حجر کا ترجمہ چہرہ چھپانا ایک منفرد ترجمہ ہے، یہ ان کی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے جو تمام اہل لغت اور مفسرین کی رائے سے متصادم ہے۔

روایت نمبر ۶: ابوقعیس (صاحب مضمون نے ابوعقیس غلط لکھا ہے) کے بھائی افلح کے بارے میں ہے جو رشتہ میں ان کے رضاعی چچا تھے۔ میں اس بحث سے پہلو تہی کرتا ہوں کہ حضرت عائشہ کے دو رضاعی چچا تھے یا ایک۔ شارع بخاری کرمانی کہتے ہیں، افلح وہ چچا نہ تھے جن کے بارے میں حضرت عائشہ نے فرمایا، اگر فلاں زندہ ہوتا تو میرے یہاں آتا۔ ان کا خیال ہے کہ ان کے دو چچا تھے، ایک افلح اور دوسرے وفات پاچکے تھے۔ انھوں نے بعض علما کا قول نقل کیا ہے کہ حدیث زیربحث میں اور حضرت عائشہ کی مذکورہ حدیث میں دونوں چچا دراصل ایک ہی شخص ہے۔ انھوں نے ان کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت مانگی تو انھوں نے اجازت نہ دی، جب انھوں نے اس واقعہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کی تو آپ نے فرمایاکہ : اسے اجازت دے دو۔ امام بخاری نے اسے ’لبن الفحل‘ (مرد کا دودھ) کے عنوان سے روایت کیا۔ اس روایت میں موضوع بحث یہ ہے کہ آیا رضاعت کا تعلق عورت اور اس کے اقربا کے بارے میں ہے یا مرد کے رشتہ دار بھی رضاعت کی وجہ سے حرمت کا باعث بنتے ہیں۔ چہرے کا پردہ سرے سے یہاں موضوع بحث نہیں۔

اس سلسلہ میں دوباتیں ذہن میں رکھنی چاہییں۔ ایک تو یہ روایت حضرت عائشہ کے ساتھ مخصوص ہے، انھوں نے قرآن حکیم کی اس آیت پر عمل کیا جس میں مردوں سے کہا گیا ہے کہ اگر انھوں نے امہات المومنین سے کوئی چیز مانگنی ہو تو اوٹ کے پیچھے سے مانگیں۔ دوسری یہ کہ یہاں مسئلہ خلوت میں عورت کے یہاں داخل ہونے کا ہے۔ میں نے اپنے اصل مضمون میں واضح کر دیا ہے کہ مرد خلوت میں کسی عورت سے نہیں مل سکتا نہ چہرہ ڈھانپ کر اور نہ چہرہ کھلا رکھ کر، کیونکہ ان دونوں کے ساتھ حدیث کی رو سے تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ روایت نمبر ۸ کے تحت میں اس پر مزید لکھوں گا۔

حافظ ابن حجر کا جو قول نقل کیا گیا ہے کہ عورت اجنبی مردوں سے (حالت خلوت) میں ’’رکی رہے یا اوٹ کے پیچھے رہے۔‘‘ اس میں احتجاب کے معنی قطعی طور پر منہ چھپانے کے نہیں ہیں، اس روایت میں تو افلح نے اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تھی۔

روایت نمبر ۸: روایت نمبر ۷ سے پہلے میں روایت ۸پر اس لیے گفتگو کر رہا ہوں، کیونکہ اس کا مضمون روایت۶ جیسا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں پر داخل ہونے سے بچو یعنی عورت گھر میں تنہا ہو تو ان کے یہاں نہ جاؤ۔ ایک انصاری نے پوچھا خواہ داخل ہونے والا مرد کا قریبی رشتہ دار یعنی بھائی ہی کیوں نہ ہو؟ آپ نے فرمایا: وہ تو موت ہے۔دیور چونکہ آسانی سے خلوت کرسکتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ خلوت کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حدیث امام بخاری نے جس باب کے تحت نقل کی ہے، اس کا عنوان یوں ہے: ’باب لا یخلون رجل بامرأۃ الا ذو محرم والدخول علی المغیبات‘ یعنی یہ باب اس بارے میں ہے کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز خلوت نہ کرے سوائے اس کے جو محرم ہے اور کوئی مردکسی ایسی عورت کے گھر میں ہرگز داخل نہ ہو جس کا شوہر موجود نہ ہو۔ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد امام بخاری نے کتاب النکاح میں ایک اور باب باندھا ہے جس کا عنوان ہے: ’باب ما یجوز أن یخلو الرجل بامرأۃ عند الناس‘ یہ باب اس بارے میں ہے کہ اگر لوگوں کی موجودگی میں کوئی آدمی کسی عورت سے خلوت کرے تو یہ جائز ہے۔ اس باب کے تحت حضرت انس بن مالک سے مروی حدیث پیش کی گئی ہے کہ ایک انصاری عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ نے اس سے خلوت کی اور فرمایا تم عورتیں مجھے سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہو۔ ظاہر ہے کہ آپ کے پاس حضرت انس اور دوسرے لوگ بھی موجود تھے۔ یہ حدیث تو اکیلے مرد کے ساتھ کسی عورت کی خلوت کی ممانعت کرتی ہے۔ خواہ یہ خلوت چہرہ کھلا رکھ کر ہو یا چہرہ ڈھانپ کر ،اسے چہرے کے پردے میں صرف حافظ محمد زبیر جیسا فاضل ہی پیش کر سکتا ہے۔ اور حضرت انس سے مروی حدیث ان کے مزعومہ خیالات کی صراحۃً تردید کرتی ہے۔

روایت ۹ جس باب کے تحت بیان ہوئی ہے، اس کا عنوان ہے: ’باب کراہیۃ الدخول علی المغیبات‘ یعنی ایسی عورتوں کے گھر میں جانا مکروہ ہے جن کے شوہر گھر میں موجود نہ ہوں۔ شارح ترمذی عبدالرحمان مبارک پوری تحفۃ الاحوذی (۲: ۲۰۷) میں لکھتے ہیں کہ عورتوں کے گھر میں داخل ہونے کی کراہیت کا مطلب وہی ہے جو حدیث میں ہے کہ ’لا یخلون رجل بامرأۃ الا کان ثالثہا الشیطان‘ کوئی مرد کسی عورت سے خلوت نہ کرے، کیونکہ ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوگا۔

اب آتے ہیں اس حدیث کے مضمون کی طرف کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاتون ’عورۃ‘ (ستر) ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔ صاحب مضمون نے ’استشرف‘ کا غلط ترجمہ کیا ہے، کیونکہ جھانکنے کے لیے ’اشرف علی‘ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے۔

اس حدیث کے دوجملوں ’المراۃ عورۃ‘اور’استشرفھا الشیطان‘ پر الگ الگ گفتگو ہوگی۔ کیا عورت کا سارا جسم ’عورۃ‘ ہے۔ سب سے پہلے میں امام عبدالبر اندلسی کا قول نقل کرتا ہوں۔ وہ ’’التمہید‘‘ (۶: ۱۳۶) میں فرماتے ہیں کہ عورت کا سارا جسم سوائے چہرے اور ہاتھ کے قابل پوشیدگی ہے۔ اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے۔ اس کے بعد وہ ابوبکر بن عبدالرحمان بن الحارث کا قول نقل کرتے ہیں کہ عورت کا سارا جسم یہاں تک کہ اس کے ناخن بھی ستر ہیں۔ اس قول کی تردید میں وہ فرماتے ہیں کہ ابو بکر کایہ قول اہل علم کے اقوال کے منافی ہے ، کیونکہ علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت فرض نماز کھلے چہرے اور ننگے ہاتھوں کے ساتھ پڑھے گی اور ان کے ساتھ زمین کو چھوئے گی۔ یہ بات اس بات کی واضح دلیل ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔ امام طبری نے بھی یہی دلیل دی ہے کہ جو اعضا عبادتاً کھلے رہیں گے، وہی عادتاً کھلے رہیں گے۔

امام موفق الدین ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۱: ۶۳۹) میں ابوبکر کے قول کی تردید اصول کی بنیاد پر کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ’المراۃ عورۃ‘ ایک عام حکم ہے جس کی تخصیص اللہ کا قول ’الا ما ظہر منھا‘ اور وہ صحیح احادیث کرتی ہیں جو روایت ہوئی ہیں... جمہور علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آزاد عورت اپنے سر کو اوڑھنی سے ڈھانپے گی اور اگر حالت نماز میں اس کا سر کھلارہے تو اسے نماز دہرانی پڑے گی۔ امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ عورت کے پاؤں بھی چہرے کی طرح ستر میں شامل نہیں، کیونکہ وہ عام طور پر کھلے رہتے ہیں اور امام مالک، اوزاعی اور شافعی کا قول ہے کہ آزاد عورت کا سارا جسم سوائے چہرے اور ہاتھ کے قابل پوشیدگی ہے۔ اس لیے نماز میں ان کے علاوہ سارے جسم کو چھپانا واجب ہے، کیونکہ ابن عباس نے ’الا ما ظہر منہا‘ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں عورت کو نقاب اور دستانے پہننے سے منع فرمایا ہے۔ اگر چہرہ اور ہاتھ بھی ’عورۃ‘ ہوتے تو آپ ان کے چھپانے کو حرام قرار دنہ دیتے۔ یہ اس لیے ہے کہ ضرورت تقاضا کرتی ہے کہ خریدو فروخت کے لیے چہرہ اور لین دین کے لیے ہاتھ کھلے رہیں۔‘‘

علامہ ناصرالدین البانی ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ (ص۸۹) میں چہرہ کھلا رکھنے کے حق میں ۱۳صحیح احادیث بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: ’’پس ثابت ہوا کہ چہرہ ’عورۃ‘ نہیں جس کا چھپانا واجب ہو۔‘‘ ابن رشد (بدایۃ المجتہد ا: ۸۹) کے قول کے مطابق اکثر علما کا یہی مذہب ہے۔ ان میں امام ابوحنیفہ، مالک اور شافعی بھی شامل ہیں۔ ’’المجموع‘‘ (۳: ۱۶۹) میں ہے کہ امام احمد کا ایک قول بھی اسی مذہب کی تائید کرتا ہے۔ اسی مذہب کو امام طحاوی نے ’’شرح المعانی‘‘ (۲: ۹) میں امام محمد اور امام ابویوسف کی طرف منسوب کیاہے۔ مذہب شافعی کی اہم کتابوں میں قطعی طور پر اسی مذہب کو درست قرار دیا گیا ہے۔ شیخ شربینی نے ’’الاقناع‘‘ (۲: ۱۱۰) میں لکھا ہے کہ سیدہ عائشہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر اور جمہور تابعین کا بھی یہی مذہب ہے۔

حدیث کے دوسرے حصہ کا ترجمہ یہ ہے کہ جب یہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے۔ صاحب مضمون کا خیال ہے کہ عورت کو گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے، وگرنہ وہ شیطانی وسوسوں کی زد میں آجائے گی اور گھر کے اندر بیٹھی رہے گی تو محفوظ رہے گی۔ یہ نقطۂ نظر انسانی فطرت کے بھی خلاف ہے اور کتاب وسنت کے بھی۔ شیطانی وسوسوں کا اثر صرف عورت تک محدود نہیں ہوتا، مرد بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ گھر کے اندر بیٹھی ہوئی عورت پر شیطانی وسوسوں کا اتنا ہی اثر ہوتا ہے جتنا گھر سے باہر نکلنے والی عورت پر۔ قرآن حکیم کی تصریح کے مطابق شیطان سب لوگوں کے دلوں میں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، وسوسہ ڈالتا ہے اور فکر قرآنی کے مطابق جس شیطان کا ذکر کیا گیا ہے ہوسکتا ہے وہ مرد ہو۔ مناسب تو یہ ہے کہ اس شیطان کو باندھا جائے نہ کہ عورت کو باہر نکل کر نارمل زندگی گزارنے سے روک دیا جائے۔ اگر صاحب مضمون اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عورت کو گھر سے باہر نہ نکلنا چاہیے تو وہ کتاب وسنت کی صراحۃً مخالفت کے مرتکب ہورہے ہیں، کیونکہ قرآن نے صرف بن سنور کر باہر نکلنے کی ممانعت کی ہے ۔ پردے کے تمام احکام کا تعلق باہر نکلنے سے ہے، اگر عورت کو گھر میں محبوس کر دیا جائے تو پردے کے تمام احکام بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ عہد رسالت اور خلافت راشدہ کے دور میں بھی عورتیں مردوں سے چھپ کر زندگی نہیں گزارتی تھیں۔ وہ دینی، دفاعی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں گھر سے باہر نکل کر حصہ لیتی تھیں۔ اس کے لیے صاحب مضمون کو ’’طبقات ابن سعد‘‘ کی آٹھویں جلد، عمر رضا کحالہ کی کتاب ’’اعلام النساء‘‘ یا کم از کم سعید احمد انصاری کی ’’سیرت صحابیات‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ علامہ ناصرالدین البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۱۸۔۱۹ پر ام شریک انصاریہ، ابی اسید کی بیوی، اسماء بنت ابی بکر، حضرت عائشہ، ام سلیم، ربیع بنت معوذ، ام عطیہ اورام سلیم کی سرگرمیوں کا مختصر ذکر کیا ہے۔ یہ تو عہدرسالت کی بات تھی۔ خلافت راشدہ میں انھوں نے اسماء بنت یزید انصاریہ، خالد بن الولید کی ازواج اور سمراء بنت نہیک کی گھر سے باہر سرگرمیوں کا انتہائی اختصار سے ذکر کیا ہے۔ یہ ایک بہت ہی طویل موضوع ہے جس پر مستقل کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔

اس حدیث کے آخر میں امام ترمذی کے قول کا حوالہ دینا بہت مناسب ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابن صلاح کو تو حسن اور صحیح کا جوڑ ایک حدیث میں نفی اور اثبات کا جوڑ معلوم ہوتا ہے۔ تو حسن غریب کا کیا مقام ہوگا؟

اب روایت نمبر ۷کی طرف آتے ہیں جس کا مضمون روایت نمبر ۸ اور ۹ سے مختلف ہے۔ یہ حدیث عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جوبھی ازراہ تکبر اپنا کپڑا (پاؤں کے نیچے) کھینچے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نہیں دیکھے گا (’جّر‘ کے معنی کھینچنا ہوتے ہیں نہ کہ لٹکانا، جیسا کہ صاحب مضمون نے ترجمہ کیا ہے) حضرت ام سلمہ نے پوچھا: عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں؟ (ذیل کا ترجمہ دامن (Tail) ہے نہ کہ پلو، جیسا کہ صاحب مضمون نے ترجمہ کیا ہے۔ پلو تو دوپٹے کا ہوتا ہے) آپ نے فرمایا: اسے بالشت بھر لٹکا لیں۔ انھوں نے کہا: اس صورت میں ان کے پاؤں ننگے رہیں گے تو آپ نے فرمایا کہ وہ ایک ہاتھ لٹکا لیں اس سے زیادہ نہیں۔

اس حدیث کے متن کا زیر بحث موضوع سے کوئی تعلق نہیں بہرکیف مضمون نگار نے بدرجۂ اولیٰ کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے اسے موضوع سے جوڑنے کی کاوش کی ہے۔ اس حدیث میں دو باتیں زیربحث ہیں، آیا قدموں کا چھپانا واجب ہے؟ دوسری یہ کہ عورت کے دامن کی طوالت کتنی ہوگی۔

پہلی بات اختلافی ہے۔ امام ابوحنیفہ کا قول ’’المغنی‘‘ (۱: ۶۳۹) کے مطابق یہ ہے کہ پاؤں ستر میں شامل نہیں، کیونکہ وہ عادتاً کھلے رہتے ہیں۔ ان کا حکم چہرے کی مانند ہے، ان کی رائے میں قدموں کا چھپانا واجب نہیں۔ صاحب کشاف نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔ جو مسئلہ اختلافی ہو اسے وجوب کے لیے بطور دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا، وہ بدرجۂ اولیٰ کی دسترس سے باہر ہوتا ہے۔ صاحب مضمون کا اصرار ہے کہ وہ واجب ہے، علامہ البانی کا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن وہ بدرجۂ اولیٰ کی منطق کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ نماز میں چہرہ اور ہاتھ کھلے رہیں گے، جبکہ ان دونوں کے سوا سارا جسم ستر میں شامل ہو گا۔ وہ اس بارے میں امام مالک، اوزاعی اور امام شافعی کے ہم خیال ہیں کہ چہرے اور ہاتھوں کے سوا سارا بدن ستر میں شامل ہوگا۔ اس لحاظ سے صاحب مضمون کی رائے منفرد اور شاذ ہے جو قابل اعتنا نہیں۔

دوسری بات کہ عورت کا دامن کتنا طویل ہوگا، اس بارے میں شارح ترمذی نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (۳: ۴۷) میں حافظ ابن حجر کا قول نقل کیا ہے کہ:

’’ مردوں کے دامن کی دو حالتیں ہیں، حالت استحباب اور حالت جواز۔ پہلی صورت میں دامن کی طوالت نصف پنڈلی کے برابر ہوگی اور دوسری صورت میں اس کی طوالت دونوں ٹخنوں تک ہوگی۔ اسی طرح عورتوں کے دامن کی بھی دو صورتیں ہیں، حالت استحباب جو مردوں کی حالت استحباب سے بالشت بھر زیادہ ہو اور حالت جواز جو ان کی طوالت سے ایک ہاتھ زیادہ ہو۔ اس رائے کی تائید وہ روایت کرتی ہے جسے طبرانی نے الاوسط میں حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کے پیچھے ایک بالشت کا اندازہ لگایا اور فرمایا یہی عورت کا دامن ہے۔ اس اعتبار سے مستحب یہ ہے کہ عورت کا دامن آدھی پنڈلی سے بالشت بھر نیچے ہو۔ اس صورت میں پاؤں تو ننگے رہیں گے اور امام ابوحنیفہ کا قول صحیح ثابت ہوگا، ہاں عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ آدھی پنڈلی سے ہاتھ بھر نیچا کر لے۔ اللہ کی شریعت میں وسعت ہے تنگی نہیں۔‘‘

صاحب مضمون سے گزارش ہے کہ وہ حدیث سے استدلال کے وقت اس کے سب پہلووں پر غور کر لیا کریں، اور اپنے ذہن میں جمے ہوئے خیالات کی تائید کے لیے سوچے سمجھے بغیر دلیل پیش نہ کیا کریں ۔

روایت نمبر ۱۰ ایک حدیث ہے جسے امام بخاری نے ایک مستقل باب میں بیان کیا ہے۔

صاحب مضمون نے اس حدیث کا ترجمہ غلط کیا ہے لہٰذا ان کا استدلال بھی قطعی غلط ہے۔ اس کا چہرے کے پردے کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں۔اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: ’’ایک عورت اپنی جلد کو دوسری عورت کی جلد سے نہ ملائے اور پھر اپنے شوہر کے سامنے اس کی تعریف اس انداز سے نہ کرے کہ اسے محسوس ہو گویا وہ اسے خود دیکھ رہا ہے۔‘‘

مباشرت کے بنیادی معنی یہ ہیں کہ ایک کی جلد کو دوسرے کی جلد سے ملانا۔ علامہ عینی نے مباشرت کے معنی ’ملامسۃ‘ (ایک دوسرے کو چھونا) کیے ہیں اور دلیل کے طور پر نسائی کا یہ اضافہ پیش کیا ہے کہ ’لا تباشر المراۃ المراۃ فی الثوب الواحد‘ یعنی ایک عورت ایک ہی کپڑے میں دوسری عورت کے ساتھ جسم نہ ملائے، پھر مباشرت کا لفظ کنایۃً عورت سے ہم بستری کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے: ’لا تباشروھن وانتم عاکفون‘ (البقرہ۲: ۱۸۷) ’’حالت اعتکاف میں ان سے مجامعت نہ کرو۔‘‘

اس سے صرف ملنا مراد لینا، جیسا کہ صاحب مضمون نے لیا ہے، قطعی غلط ہے۔ اور انھوں نے جو استدلال کیا ہے کہ ’’اگر عورتوں میں حجاب کی پابندی نہ ہوتی تو مردوں کو اس بات کی ضرورت باقی نہ رہتی کہ ان کی بیویاں ان کے سامنے اجنبی عورتوں کے حسن وجمال کو بیان کریں، بلکہ مرد بذات خود عورتوں کو دیکھنے کی قدرت رکھتے۔‘‘کس قدر بودا استدلال ہے جو اس مفروضے پر قائم ہے کہ ایک عورت دوسری عورت سے ملاقات کر کے اس کے چہرے کی خوب صورتی اپنے شوہر کے سامنے بیان کرتی ہے۔ حکم یہ ہے کہ عورت ایک ہی کپڑے میں دوسری عورت کے ساتھ نہ لیٹے، اگر لیٹے تو پھر اس کے جسم کے اتار چڑھاؤ کو اپنے شوہر کے سامنے اس طرح بیان نہ کرے کہ پورا نقشہ کھینچ کے رکھ دے۔ یہاں بات چہرے کی نہیں ہو رہی، کیونکہ چہرے کا وصف بیان کرنے کے لیے ساتھ لیٹنا ضروری نہیں۔ بات جسم کے ان اعضا کی ہورہی ہے جو عادتاً مخفی رہتے ہیں اور عورت صرف بدن کے ساتھ بدن ملا کر ان کی خوبی کا اندازہ کر سکتی ہے۔ اور اگر ساتھ لیٹ ہی گئی ہے تو اپنے شوہر کے سامنے ان کی تعریف نہ کرے، وگرنہ اسی کو نقصان ہوگا۔ یہ ایک نہایت ہی لطیف اور خوب صورت نفسیاتی ہدایت ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر بیوی کی قدرومنزلت شوہر کی آنکھوں میں کم ہوجائے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ اسے طلاق دے کر اس عورت کے پیچھے لگ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اسے کتاب النکاح میں بیان کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کے ضمن میں یہ مسئلے بیان کیے ہیں کہ مرد دوسرے مرد کی شرم گاہ کو دیکھے، نہ ایک عورت دوسری عورت کی شرم گاہ کو۔

صاحب مضمون کے الفاظ سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کے حسن وجمال کو مردوں کی ضرورت کے تحت بیان کرتی ہے۔ عورتیں یہ بات اپنی عادت سے مجبور ہو کر بڑی سادگی سے کر جاتی ہیں، کیونکہ وہ اس کے اثر سے بے خبر ہوتی ہیں۔ کیا کوئی بیوی اپنے شوہر کے سامنے دوسری عورت کے خدوخال کو محض اس لیے پیش کر سکتی ہے کہ چونکہ میرا شوہر دوسری عورتوں کو دیکھ نہیں سکتا، اس لیے اسے یہ بتانا ضروری ہے؟ یہ بات درست نہیں لگتی۔ پھر کیا ایک مرد کھلے چہرے کے ساتھ سب عورتوں کو دیکھنے کی قدرت رکھ سکتا ہے۔ بہت سی ایسی عورتیں ہوں گی جن سے اس کی بیوی کی ملاقات ہو اور اس نے انھیں دیکھا تک نہ ہو، خواہ ان کا چہرہ کھلا ہی کیوں نہ ہو۔ خدارا اپنی غلط بات ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کی غلط تاویل سے باز رہیں۔

اس حدیث کے ضمن میں فتح الباری (۹: ۳۳۸) میں دواور حدیثوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ ’لا تباشر المراۃ المراۃ ولا الرجل الرجل‘ یعنی نہ ایک عورت اپنا بدن دوسری عورت کے ساتھ لگائے اور نہ مرد مرد کے ساتھ۔ دوسری حدیث ابن عباس سے مروی ہے ’لا ینظر الرجل الی عورۃ الرجل ولا تنظر المراۃ الی عورۃ المراۃ‘نہ مرد مرد کی شرم گاہ کو دیکھے اور نہ عورت عورت کی۔ ان دونوں روایات سے مباشرت کے معنی واضح ہو جاتے ہیں۔

روایت نمبر ۱۱ اور ۱۷ کا نفس مضمون ایک ہے کہ مرد کے لیے مستحب ہے کہ وہ شادی کی غرض سے عورت کو دیکھ لے۔ مقام حیرت ہے کہ جو بات چہرہ کھلا رکھنے کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتی ہے، اسے صاحب مضمون چہرہ چھپانے کے حق میں پیش کر رہے ہیں۔ اس مضمون کے بارے میں میں اپنے اصل مضمون اور جواب آں غزل میں غض بصر کے حکم کے تحت نسبتاً تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ بدن میں کوئی ایسی چیز موجود ہے جس پر نظر پڑتی ہے اور وہ چیز چہرے کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ چہرے پر نظر توجبھی پڑے گی جب وہ کھلا ہوگا، کیونکہ چھپے ہوئے چہرے پر نظر پڑنا ایک بے معنی سی بات ہے۔ سورۂ نور میں عورت اور مرد کو ایک دوسرے کو دیکھ کر نگاہیں نیچی کرنے کا مساویانہ حکم ہے۔ فقہا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ چہرے کو دیکھ کر نظریں نیچی کرنا واجب ہے نہ کہ چہرے کو چھپانا۔ شیخ محمد غزالی نے اپنی کتاب ’’السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ والحدیث‘‘ میں قاضی عیاض اور امام شوکانی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ عورت راستہ چلتے وقت اپنا چہرہ نہ ڈھانپے، بلکہ مردوں پر واجب ہے کہ وہ دیکھ کر اپنی نگاہیں نیچی کر لیں۔ علامہ ابن مفلح حنبلی اپنی کتاب ’’الآداب الشرعیہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے اور شافعی فقہا کے قول کے مطابق بغیر شہوت اور خلوت کے عورت کے چہرے پر نظر ڈالنا جائز ہے۔ یہ نگاہ عمومی نگاہ ہوگی۔ خصوصی نگاہ یہ ہے کہ آپ نے کسی کو دیکھا تو دیکھتے ہی چلے گئے۔ یہ نگاہ ممنوع ہے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا: اے علی، ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا، پہلی نگاہ تو تیری ہے دوسری نگاہ تیری نہیں یعنی یہ نگاہ غیر فطری ہے۔ فقہ کی تمام کتابیں نظرکے احکام سے بھری پڑی ہیں ۔ صاحب مضمون کو لکھنے سے پہلے ان کا مطالعہ کرنا چاہیے تھا۔ عورت کو شادی کی غرض سے دیکھنا خصوصی نگاہ سے متعلق ہے، مگر اس غرض کے لیے نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ زیرنظر روایت کا تعلق دوسری نگاہ سے ہے۔ اس بات کی وضاحت اس باب سے ہوتی ہے جو امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ کی روایت کے بارے میں باندھا ہے۔ اس کا عنوان ہے: ’ندب النظر الی وجہ المراۃ وکفیھا لمن یرید تزوجھا‘ یعنی جو شادی کرنا چاہے اس کے لیے عورت کا چہرہ اور ہاتھ دیکھنے مستحب ہیں۔ اس روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے انصاری عورت کا ہاتھ مانگا۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ دیا کہ اسے جا کر خصوصی طور پر دیکھ لو، کیونکہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ نقص ہوتا ہے۔ سنن ابی داؤد میں جابر بن عبداللہ کی روایت اس سے بھی زیادہ واضح ہے، ان سے مروی ہے: ’اذا خاطب احدکم المراۃ فان استطاع الی ان ینظر ما یدعوا الی نکاحھا فلیفعل قال فخطبت جاریۃ کتت اتخبالھا حتی رایت منھا ما دعا الی نکاحھا فتزوجتھا‘ ’’جب تم میں سے کوئی کسی عورت کا ہاتھ مانگے تو اگر وہ ایسی چیز کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح کی رغبت دلائے تو وہ ایسا ضرور کرے۔ راوی کا قول ہے کہ میں نے ایک لڑکی کا ہاتھ مانگا تومیں اسے چھپ چھپ کر دیکھتا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ چیز دیکھ لی جو مجھے نکاح کی ترغیب دے رہی تھی۔ پس میں نے اس سے شادی کر لی۔‘‘ ’’عون المعبود‘‘ (۶: ۹۶) میں اس حدیث کے تحت حافظ شمس الدین ابن قیم کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’امام احمد سے اس بارے میں تین اقوال منقول ہیں، ایک تو یہ کہ اس کا چہرہ اور ہاتھ دیکھے، دوسرے وہ اعضا جو عام طور پر ظاہر ہوتے ہیں جیسے گردن اور پنڈلیاں وغیرہ، تیسرے اس کا سارا بدن، خواہ وہ ستر میں داخل ہو یانہ ہو۔...‘‘ امام نووی کا قول ہے کہ ’’یہ دیکھنا مستحب ہے یہی ہمارا، امام مالک، امام ابوحنیفہ اور اہل کوفہ ، امام احمد اور جمہور علما کا مذہب ہے۔ صرف اس کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے، کیونکہ وہ ستر میں شامل نہیں۔ چہرے سے حسن کا اور ہاتھوں سے جسم کی تازگی کا پتا چلتا ہے۔ یہی ہمارا اور اکثر علما کا مذہب ہے۔ داؤد کا قول ہے کہ وہ سارے جسم کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ غلط ہے اور اجماع کے خلاف ہے پھر ہمارا، امام مالک، امام احمد اور جمہور کا مذہب ہے کہ اس دیکھنے کے لیے عورت کی رضامندی ضروری نہیں۔‘‘ امام نووی کے اس قول کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زیرنظر روایات کا تعلق خصوصی نظر سے ہے اور اس کو چہرہ ڈھانپنے کے لیے بطور دلیل قطعی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ حافظ ابن قیم کے قول کے مقابلے میں مولانا حافظ محمد زبیر کا یہ قول کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں حجاب کرتی تھیں یہی وجہ تھی کہ جب ایک مرد ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجتا تھا تو اس کے باوجود بھی دیکھ نہ سکتا تھا۔ کچھ عجیب سا لگتا ہے، اگر بات یہی تھی تو محمد بن مسلمہ نے چھپ کر نخلستان میں کام کرتی ہوئی عورت کو کیسے دیکھ لیا۔ یہ حدیث تو واضح طور پر ان کے قو ل کی تردید کر رہی ہے پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پتا چلا کہ انصاری عورتوں کی آنکھوں میں کچھ نقص سا ہے۔

اب ہم روایت نمبر ۱۱ کے متن کا صحیح ترجمہ لکھتے ہیں جو یوں ہے: ’’مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کے سامنے ایک عورت کا تذکرہ کیا جس سے میں منگنی کرنا چاہتا تھا۔۱؎  آپ نے فرمایا: جاؤ اس کو دیکھ لو۔‘‘ یعنی اسے خصوصی طور پر دیکھ لو کہ وہ اس قابل ہے۔۲؎  امکان غالب یہ ہے کہ انھوں نے اس لڑکی کو پہلے دیکھا ہو گا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خصوصی نگاہ ڈالنے کا مشورہ دیا جو صرف شادی کی غرض سے جائز ہے۔ اگلا جملہ یہ ہے کہ اس سے تمھارے درمیان تعلقات ہمیشہ رہیں گے۔۳؎   تعلقات میں دوام کیا ایک نظر دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے یا خصوصی نگاہ سے۔ آگے پھر حافظ صاحب نے غلط ترجمہ کیا ہے، اس عورت نے میری بات سن لی اور وہ پردے میں کھڑی تھی۔ ’ھی فی خدرہا‘ کا یہ غلط ترجمہ محض اس لیے کیا گیا ہے کہ ثابت کیا جائے کہ اس کے چہرے پر نقاب تھا۔ یہ قطعی غلط ترجمہ ہے اور علمی دیانت کے منافی ہے۔ ’خدر‘ کے معنی ہیں، مکان کا وہ حصہ جو لڑکیوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ چنانچہ علامہ سندھی نے اس سے یہ مفہوم نکالا ہے کہ لڑکی کنواری تھی۔ مغیرہ بن شعبہ یہ بات سرراہ نہیں کر رہے تھے جہاں ایک لڑکی منہ چھپائے کھڑی ہو۔ وہ گھر میں آئے ہیں جہاں لڑکی کے والدین بھی موجود ہیں اور لڑکی اس مکان کی خلوت گاہ میں کھڑی ان کی بات سن رہی تھی۔ ’فی خدرھا‘ کا جملہ بتا رہا ہے کہ وہ اپنی خلوت گاہ میں تھی نہ کہ پردے میں کھڑی تھی۔ جب لڑکی کے والدین نے فطرتی طور پر اس طرح بات کرنے کو ناپسند کیا تو لڑکی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سن کر باہر آگئی اور کہنے لگی کہ میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ اگر نبی پاک کا یہی حکم ہے تو سر آنکھوں پر ، وگرنہ میرا جائزہ لینے کی کوشش نہ کرنا۔ جب مغیرہ نے اسے اچھی طرح دیکھ لیا تو اس سے شادی کر لی۔ ایک آدمی لڑکی کا ہاتھ مانگنے کے لیے اس کے گھر جا کر والدین سے بات کر تا ہے ان کو ناگوار گزرتا ہے۔ لڑکی رسول کا فرمان سن کر خلوت گاہ سے باہر آتی اور اس سے بات کرتی ہے، اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حجاب کرتی تھیں، اگر تو وہ لڑکی مغیرہ بن شعبہ سے سرراہ ملتی اور اس نے نقاب اوڑھا ہوتا تو پھر تو کہا جاسکتا تھا کہ لڑکیاں اس زمانے میں نقاب اوڑھتی تھیں۔ علاوہ ازیں روایت نمبر ۱۷ ضعیف ہے، کیونکہ سنن ابن ماجہ، تحقیق محمود محمد محمود حسن نصار، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ۱۹۹۸ (۲: ۴۲۶) میں ہے کہ اس کی سند میں حجاج ابن ارطاۃ ہے جو ضعیف اور مدلس ہے۔ روایت میں عنعنہ بھی ہے۔ امام بیہقی نے طبقات کبریٰ میں اسے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند میں اختلاف ہے، کیونکہ اس کا مدار حجاج بن ارطاۃ پر ہے، رہی یہ بات کہ محمد بن مسلمہ کو چھپ کر دیکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ضرورت تھی، کیونکہ وہ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے اور جیسا کہ سنن ابی دائود کی مذکورہ روایت میں ہے کہ وہ شہوت کی نظر ڈال کر وہ چیز دیکھنا چاہتے تھے جو ان کو نکاح کی ترغیب دے۔ یہ مقصد اس ایک نظر سے پورا نہیں ہوسکتا تھا جس کو عورت کے چہرے پر ڈالنے کی اجازت ہے۔ 

روایت نمبر ۱۳ اور ۱۵ میں ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے بعد اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھالیا۔ اور جب اونٹنی کو ٹھوکر لگی تو آپ صفیہ سمیت نیچے گر گئے۔ ابو طلحہ مدد کو بڑھے تو آپ نے فرمایا عورت کی خبر لو، پس وہ اپنے منہ پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہ کی طرف آئے۔ ایک روایت میں ہے کہ سواری پر بیٹھتے وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو ڈھانپ کر اپنے پیچھے بٹھایا اور اپنی چادر ان کی پیٹھ اور چہرے پر ڈال دی۔ یہ روایت ام المومنین حضرت صفیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ حضرت ابوطلحہ نے مدد کے لیے بڑھنے سے پہلے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم امہات المومنین کے امتیازات میں شامل ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری (۶: ۱۹۳) میں دمیاطی کے حوالہ سے اس روایت کے تضاد کو پیش کیا ہے کہ یہ راوی کا وہم ہے، کیونکہ غزوۂ عسفان بنو لحیان کے خلاف ۶ھ میں ہوا، جبکہ حضرت صفیہ کو اونٹنی پر پیچھے بٹھانے کا واقعہ ۷ھ یعنی غزوۂ خیبر کا ہے۔ حافظ صاحب نے دونوں غزوات کے تقارب کی بنیاد پر توافق کرنے کی کوشش کی ہے، مگر سچی بات یہ ہے کہ بات نہیں بنی، کیونکہ فرق دوچار دن کا نہیں پورے سال کا ہے۔ اسی طرح روایت نمبر ۱۵ بھی انھی کے ساتھ مخصوص ہے اور یہی امتیاز روایت نمبر ۱۶ میں حضرت ام سلمہ کو حاصل ہے۔

روایت نمبر ۱۴: اس روایت کو ابودائود نے حضرت ام سلمہ سے روایت کیا ہے کہ ’’اگر تم میں سے کسی کے پاس ایسا غلام ہو جس کے پاس آزادی کی قیمت چکانے کے لیے اثاثہ ہو تو وہ اس سے حجاب میں رہے۔‘‘

علامہ ناصرالدین البانی نے ’’ضعیف ابی دائود‘‘ (رقم، ۵۴۹) ’’ارواء الغلیل‘‘ (رقم،۱۷۶۹) اور ’’المشکاۃ‘‘ (رقم، ۳۴۰۰) میں اس حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ’’ارواء الغلیل‘‘ میں انھوں نے اس کا سبب یوں بیان کیا ہے کہ راوی نبہان کا تذکرہ امام ذہبی نے ذیل الضعفاء میں کیا ہے اور لکھا ہے کہ ابن حزم کا قول ہے کہ وہ مجہول ہے۔ امام بیہقی نے حدیث بیان کرنے کے بعد نبہان کے مجہول ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور امام شافعی کا قول نقل کیا ہے کہ جن اہل علم پر مجھے اعتماد ہے، ان میں سے کسی نے اس حدیث کو ثابت نہیں کیا۔ پھر علامہ البانی فرماتے ہیں کہ میری رائے میں اس حدیث کے ضعیف ہونے پر جو بات دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ امہات المومنین کا عمل اس کے خلاف تھا اور راوی کے خیال کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب انھی سے ہے۔

اس بات کے باوصف کہ یہ امہات المومنین کے ساتھ خاص ہے، میں ایک اور پہلو سے اس کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ غلام بھی انسان ہے اور مکاتب (پیسے دے کر آزاد ہونے والا) بھی انسان۔ عورت کے لیے دونوں غیر محرم ہیں، اس لیے دونوں اجنبی ہیں۔ دونوں کی طرف سے کسی نہ کسی وقت شہوت کا اندیشہ ہے۔ پھر یہ فرق کیوں؟ محض اس لیے کہ ایک ملکیت میں ہے اور دوسرا ایک مدت تک ملکیت میں رہنے کے بعد ملکیت سے نکل چکا ہے۔

اس مسئلہ کے حل کے لیے اصل حکم ’او ما ملکت ایمانھن‘ ہے (۲۴: ۳۱، ۳۳، ۵۵) ’’یا وہ جو ان کے زیردست ہیں۔‘‘ مفسرین کرام نے ان آیات کے ضمن میں دو آرا پیش کی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق ’او ما ملکت ایمانھن‘ میں غلام اور لونڈیاں، دونوں شامل ہیں، دوسری رائے کے مطابق اس میں صرف لونڈیاں شامل ہیں۔ امام طبری اور ان کی پیروی میں دوسرے مفسرین نے دونوں آرا کا تذکرہ کیا ہے جو مفسرین اس استثنا میں غلاموں اور لونڈیوں، دونوں کو شامل سمجھتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ غلام اپنے آقا کی خدمت بجا لاتے ہیں، اس لیے ان سے پردہ کرنے میں دقت پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ بھی محرموں میں شمار ہوتے ہیں اور وہ ان کی مانند ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے علاوہ تمام مخفی مقامات زینت دیکھ سکتے ہیں۔ اس رائے کو حضرت عائشہ اور ام سلمہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور حضرت عائشہ کی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ ان کا غلام ان کو ننگے سر کنگھی کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔ اور ایک اور غلام سے انھوں نے کہا تھا کہ مجھے قبر میں اتارنے کے بعد تم آزاد ہو۔ اس مسلک کے حامیوں میں سے بعض نے غلام سے مراد عورتوں کے غلام لیے ہیں، جبکہ دوسروں نے اس میں شوہر کے غلام کے ساتھ دوسروں کے غلاموں کو بھی شامل کیا ہے اور اس سلسلہ میں ابن جریج کی قرأت ’او ما ملکت ایمانھم‘ کو پیش کیا ہے۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ غلام غلام ہوتا ہے اور آقا آقا۔ اس لیے غلام اپنی مالک کو شہوت کی نظر سے دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ہاں، البتہ جب وہ آزاد ہوجاتا ہے تو ایسا ممکن ہے، کیونکہ وہ محرم سے سے اجنبی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ زیرنظر روایت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر غلام کے پاس اتنا پیسا ہو کہ وہ اس سے اپنی آزادی خریدلے تو اسی وقت سے وہ محرم سے اجنبی بن جاتا ہے، جبکہ مجاہد سے روایت ہے کہ جب تک غلام کے ذمہ اپنی آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک درہم بھی باقی ہوتا ہے، وہ محرم ہی رہتا ہے اور امہات المومنین اس سے پردہ نہیں کرسکتیں۔ اسی روایت کی بنا پر علامہ البانی نے ’’ارواء الغلیل‘‘ میں زیربحث روایت کے بارے میں کہا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ امہات المومنین کا عمل اس کے خلاف تھا۔

دوسری رائے یہ ہے کہ ’او ما ملکت ایمانھن‘ میں صرف لونڈیاں شامل ہیں۔ قرآن سے ان کی دلیل یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے سے فوراًپہلے ’او نسائھن‘ یا ان کی عورتوں کا ذکر ہے اور فوراً بعد ان مردوں کا ذکر ہے جن کو نکاح کی رغبت نہ رہے۔ نظم قرآنی کے تحت پہلے آزاد عورتوں کو، پھر لونڈیوں کو، پھر بوڑھے مردوں کو اور پھر بچوں کو استثنا میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ ترتیب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں مراد لونڈیاں ہی ہیں۔ یہ رائے عبداللہ بن مسعود ، سعید بن المسیب اور ابن سیرین کی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی بھی یہی رائے ہے اور امام شافعی کا ایک قول جسے اکثر شافعی علما نے صحیح قرار دیا ہے، یہی ہے۔ معروف تابعی سعید بن المسیب شروع میں پہلی رائے کے قائل تھے۔ پھر انھوں نے اس رائے سے رجوع کر لیا اور فرمایا: آپ لوگ سورۂ نور کی آیت سے دھوکا نہ کھائیں۔ ’او ما ملکت ایمانھن‘ سے مراد لونڈیاں ہیں، کیونکہ غلام مرد ہوتے ہیں نہ ان کا شمار شوہروں میں ہو سکتا ہے اور نہ ہی محرموں میں۔ ان سے نکاح کا جواز اس بات کی دلیل ہے کہ مالک کے بارے میں وہ جنسی شہوت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ طائوس سے پوچھا گیا کہ کیا غلام عورت کا سر اور قدم دیکھ سکتا ہے انھوں نے کہا کہ یہ بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔ ہاں، اگر غلام کم عمر ہوتو وہ دیکھ سکتا ہے۔ رہی داڑھی والے مرد کی بات، اسے بالکل اجازت نہیں۔ امام زمخشری کا قول ہے کہ درست بات یہی ہے کہ اس سے مراد لونڈیاں ہیں، کیونکہ غلام تو اجنبی ہوتا ہے، خواہ مرد ہو یا نامرد۔ سید قطب شہید ’’فی ظلال القرآن‘‘ (۴: ۲۵۱۴) میں فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے، مراد لونڈیاں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ لونڈیوں کے ساتھ غلام بھی شامل ہیں۔ پہلا قول زیادہ درست ہے۔ اس رائے کے مطابق وہ بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے جس پر صاحب مضمون نے اپنی دلیل دی تھی۔

قرآن حکیم نے جس استثنا کا ذکر کیا ہے اس کا تعلق مخفی زینت سے ہے نہ کہ ظاہری زینت سے۔ اس سے چہرے کو چھپانے پر استدلال کرنا بے معنی سی بات بنتی ہے۔ صاحب مضمون تو ایک اجنبی مرد کو محرم قرار دے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ محرم کی طرح عورت کی مخفی زینتوں کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس سے تو ہمارے موقف کی بدرجۂ اولیٰ تائید ہوتی ہے کہ آپ اسے مخفی زینت کو دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں ہم تو اسے صرف ظاہری زینت چہرے اور ہاتھوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ میری مضمون نگار سے گزارش ہے کہ حدیث یا اثر کا حوالہ دینے سے پہلے قرآن مجید کا بھی مطالعہ کر لیا کریں۔

روایت نمبر ۱۸: حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کیا، اس کے ہاتھ میں ایک تحریر تھی۔ آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا: مجھے کیا پتا یہ ہاتھ مرد کا ہے یا عورت کا۔ اس نے کہا:یہ عورت ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر تو عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کا رنگ بدل لیتی یعنی مہندی لگا لیتی۔

ویسے تو صاحب مضمون نے لفظ ’استشرف‘ (روایت نمبر ۹)’لا تباشر‘(روایت نمبر۱۰) لفظ ’خدر‘ (روایت نمبر۱۱) کا اردو ترجمہ کر کے اپنی عربی دانی کا سکہ پہلے ہی جما دیا ہے، مگر یہ روایت تو ان کی عربی دانی کا شاہ کار ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمایے: ’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پردے کے پیچھے سے ایک خط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔‘‘ روایت میں ’او مأت‘ کا لفظ یا تو صاحب مضمون کو سمجھ نہیں آیا یا دیدہ ودانستہ حذف کر دیا گیا ہے، عورت نے اس ہاتھ سے اشارہ ہی کیا تھا جس میں ایک تحریر پکڑی ہوئی تھی، مگر صاحب مضمون فرماتے ہیں کہ اس نے خط دے دیا، لیکن ترجمہ کی معراج اگلے جملے میں ہے۔ جملہ یہ ہے: ’فقبض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یدہ‘ اس کا ترجمہ صاحب مضمون نے یہ کیا ہے: آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ عربی زبان سے معمولی شدبد رکھنے والا آدمی اتنی بات تو جانتا ہے کہ عربی میں’ہ‘ کی ضمیر مذکر کے لیے اور ’ھا‘ کی ضمیر مونث کے لیے ہوتی ہے۔ صاحب مضمون یہ نہ سمجھ سکے کہ ’یدہ‘ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ ہے نہ کہ عورت کا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ عربی لفظ ’قبض‘ کے معنوں سے ناآشنا ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ’قبض‘ کے معنی (جیسے اردو زبان میں) صرف پکڑنے کے ہیں۔ حالاںکہ عربی میں اس کے معنی سکیڑنے ، اکٹھا کرنے اور روکنے کے ہیں، جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے، ’یقبض ویبسط‘ ’’اللہ روزی کو تنگ کرتا ہے اور وہی کشادہ کرتا ہے۔‘‘ گویا ’قبض‘ ’بسط‘ کے مقابلہ میں ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’عورت نے تحریر دینے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔‘‘ مضمون نگار یہ تو برداشت کر سکتے ہیں کہ اجنبی عورت کا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھما دیں، مگر یہ ان کو گوارا نہیں کہ عورت کا چہرہ کھلا ہو۔ حدیث مبارک میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اجنبی عورت کا ہاتھ چھوا تک نہیں۔ صاحب مضمون کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے پنجے سے اس عورت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ترجمہ کرتے وقت یہ تو سوچ لیا ہوتا کہ میرے منہ سے کیا بات نکل رہی ہے۔

اب آئیے حافظ زبیر صاحب کے استدلال کی طرف۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں عورت کا پردے کے پیچھے سے آپ کو خط دینا (حالاںکہ دیا نہیں تھا) یہ واضح کر رہا ہے کہ عورتیں آپ کے زمانے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو پردے میں ہوتی تھیں۔

یہی حدیث سنن نسائی (۸: ۱۴۲) ’الخضاب للنسائ‘ کے باب میں یوں مروی ہے۔ ’عن عائشۃ ان امراۃ مدت یدھا الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکتاب فقبض یدہ فقالت یا رسول اللّٰہ مددت یدی الیک بکتاب فلم تاخذہ فقال انی لم ادر اید المراۃ او رجل قالت: بل ید المراۃ قال لو کنت امراۃ لغیرت اظفارک بالحنائ‘ ’’حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نے تحریر کے ساتھ اپنا ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا تو آپ نے ہاتھ کھینچ /سمیٹ لیا تو عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے ایک تحریر کے ساتھ آپ کی طرف بڑھایا، مگر آپ نے اسے پکڑا نہیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے بالکل پتا نہ تھا کہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا۔ عورت نے کہا: بلکہ عوت کا ہاتھ تھا تو آپ نے فرمایا: اگر تو عورت ہوتی تو اپنے ناخنوں کا رنگ مہندی لگا کر بدل لیتی۔‘‘ حدیث کا یہ متن ابی دائود کے متن سے واضح تر ہے، مگر اس میں اس بات کا ذکر تک نہیں کہ عورت نے پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھایا۔ طبرانی نے ’’الاوسط‘‘ (۴: ۴۵۹) میں حدیث نمبر ۳۷۷۷ کے تحت ہوبہو اسی متن کو نقل کیا ہے جو نسائی کا ہے اور یہی متن صحیح معلوم ہوتا ہے۔ آخر میں امام طبرانی نے لکھا ہے کہ یہ روایت حضرت عائشہ سے صرف اسی سند سے بیان ہوئی ہے جس میں مطیع بن میمون اور صفیہ بنت عصمہ ہیں۔ یہ مطیع بن میمون کی منفرد روایت ہے۔ نسائی کا متن ابودائود سے زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں مطیع بن میمون نے ’حدثتنا صفیۃ بنت عصمۃ‘ کہا ہے، جبکہ ابی دائود میں صرف ’عن صفیۃ بنت عصمۃ‘ ہے۔ سنن ابی دائود میں زیرنظر روایت سے پہلے حضرت عائشہ ہی سے مروی ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ جب ہند بنت عتبہ (ابو سفیان کی بیوی) نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، میری بیعت قبول کیجیے تو آپ نے جواب دیا کہ میں تمھاری بیعت اس وقت تک قبول نہیں کروں گا جب تک تم (مہندی لگا کر) اپنی ہتھیلیوں کا رنگ تبدیل نہیں کرو گی، کیونکہ وہ تو درندے کے پنجے معلوم ہوتے ہیں۔ اس روایت میں بھی پردے کا قطعی کوئی ذکر نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ عورتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے وقت عام طور پر پردہ نہیں کرتی تھیں۔ ممکن ہے کہ کچھ عورتیں ایسا کرتی ہوں، مگر اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ ڈھانپنا واجب ہے۔

زیرنظر حدیث تو ہمارے موقف کی تائید کرتی ہے۔ یہ تو صاحب مضمون بھی مانتے ہیں کہ عورت نے اپنا ہاتھ بڑھایا، حالاں کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کا سارا بدن ’عورۃ‘ (ستر) ہے۔ چہرہ اور ہتھیلی زینت ظاہرہ میں شامل ہیں، اس لیے مہندی، انگوٹھی اور سرمہ کو دیکھنا جائزہے۔ ان روایات میں صاف طور پر بیان ہوا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کو دیکھا، وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ عورت کا ہاتھ ہے یا مرد کا، خواہ وہ عورت پردے کے پیچھے سے ہاتھ بڑھائے یا سامنے آکر، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔ آپ کو یہ بات پسند تھی کہ عورت اور مرد کے ہاتھ میں مہندی لگا کر فرق واضح ہوجائے۔

غالباً اسی لیے علامہ البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ۷۰ پر حضرت عائشہ کی روایت کو پیش کیا ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے آئی، اس نے مہندی نہیں لگائی ہوئی تھی، آپ نے اس سے اس وقت تک بیعت نہ لی جب تک کہ اس نے مہندی نہ لگا لی۔ چہرے کو کھلا رکھنے کے ثبوت میں انھوں نے جو تیرہ احادیث پیش کی ہیں ان میں اس حدیث کا آٹھواں نمبر ہے۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ زینت ظاہرہ کا دیکھنا اجنبی مردوں کے لیے جائز ہے۔ سنن ابی دائود ’’کتاب الزکاۃ‘‘ میں حضرت سعد کی روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت لی تو ایک جلیل القدر بلند قامت عورت جو چہرے مہرے سے مضر قبیلے کی لگتی تھی، کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول، ہمارا بوجھ ہمارے باپوں ، بیٹوں پر ہے ہم شرعی طور پر ان کی جائداد سے کیا خرچ کرسکتے ہیں۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورت نے آپ کے حضور میں چہرہ کو چھپایا ہوا نہیں تھا۔

جہاں تک اس روایت کی سند کا تعلق ہے۔ علاء الدین علی بن عثمان الماروینی نے (متوفی ۷۴۵) جو ابن اترکمانی کے نام سے مشہور ہیں ’’سنن بیہقی الجوہف النقی‘‘ کے نام سے شرح لکھی ہے، اس میں انھوں نے امام ذہبی کی ’’الکاشف‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس کا راوی مطیع بن میمون ضعیف ہے اور صفیہ بنت عصمہ مجہول الحال ہے، اس لیے یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔

اس روایت سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات حددرجہ پسند تھی کہ عورتوں کے ہاتھ مردوں کی طرح نہ ہوں، بلکہ ان پر مہندی لگی ہوئی ہو۔ مضمون نگار نے صرف بوجھ ڈالنے کے لیے روایت کو بیان کیا ہے۔ بہرکیف میں نے روایت کی سند اور اس کے متن کا تجزیہ کر دیا ہے۔

یہ ہیں وہ اٹھارہ روایتیں جن سے ’’حکمت قرآن‘‘ کا پیٹ بھرا گیا ہے۔ قارئین اس بات کااندازہ کر سکتے ہیں کہ آیا مضمون نگار نے کوئی وزنی دلیل پیش کی ہے یا صرف بوجھ ڈالنے کی کوشش کر کے جمہور علما کے مسلک کی تردید کی ہے۔

[باقی]

ــــــــــــــــــــــــــ

۱؎ ’نکاح کرنا چاہتا تھا‘ غلط ترجمہ ہے۔

۲؎ صاحب مضمون نے جو ترجمہ کیا ہے ’’ایک نظر دیکھ لو۔‘‘ وہ الفاظ اور مفہوم، دونوں کے اعتبار سے غلط ہے۔ 

۳؎ حافظ صاحب نے ’تمھارے مابین محبت کا باعث ہوگی‘، غلط ترجمہ کیا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B