HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: آل عمران ۳: ۱۹۰-۲۰۰ (۲۹)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَاخْتِلاَفِ الَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ{۱۹۰} الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا، وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ، وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً، سُبْحٰنَکَ، فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ{۱۹۱} رَبَّنَآ، اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْْتَہٗ، وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ{۱۹۲} رَبَّنَآ، اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ، فَاٰمَنَّا رَبَّنَا، فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا، وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا، وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ{۱۹۳} رَبَّنَا، وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ، وَلاَ تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ{۱۹۴}
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ، مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی، بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ، فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ، وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ، ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ{۱۹۵}
لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلاَدِ{۱۹۶} مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِہَادُ{۱۹۷} لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْْرٌ لِّلْاَبْرَارِ{۱۹۸}
وَاِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْہِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ لاَ یَشْتَرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلاً اُولٰٓـئِکَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ{۱۹۹}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۲۰۰}
(یہ ۲۶۴ عقل کے اندھے ہیں، اِس لیے پیغمبر پر ایمان کے لیے نشانی مانگتے ہیں، ورنہ) حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کے بنانے میں اور دن اور رات کے باری باری آنے میں اُن لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو بصیرت والے ہیں۔ اُ ن کے لیے جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے اور زمین وآسمان کی خلقت میں غور کرتے رہتے ہیں۔۲۶۵ (اُن کی دعا یہ ہوتی ہے کہ) پروردگار، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو اِس سے پاک ہے کہ مقصد کے بغیر کوئی کام کرے۔ سو ہم کو دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ پروردگار، تو نے جسے دوزخ میں ڈالا، اُسے درحقیقت بڑی رسوائی میں ڈال دیا اور (وہ ایسی جگہ ہے کہ) ظالموں کا (وہاں) کوئی مددگار نہ ہو گا۔۲۶۶ پروردگار، ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا کہ لوگو، اپنے پروردگار کو مانو تو ہم نے مان لیا۔۲۶۷ اب تو ہمارے گناہوں کو بخش دے، اے مالک۔ ہماری برائیوں کو ہم سے دور کردے اور ہمیں (اپنے) وفادار بندوں کے ساتھ موت دے۔ پروردگار، اپنے رسولوں کی زبان سے جو وعدے تو نے کیے ہیں،۲۶۸ وہ ہمارے لیے پورے کر دے اور قیامت کے دن ہمیں رسوا نہ کر۔ بے شک، تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے۔۲۶۹ ۱۹۰-۱۹۴
سو اُن کے پروردگار نے اُن کی یہ دعا (اِس طرح) قبول فرمائی کہ ۲۷۰ مرد ہو یا عورت، میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا کوئی عمل ضائع نہ کروں گا۔۲۷۱ تم سب آپس میں ایک ہی ہو۔۲۷۲ لہٰذا جنھوں نے ہجرت کی ہے اور جو اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں اور میری راہ میںستائے گئے اور (میرے لیے) لڑے اور مارے گئے ہیں، اُن کے گناہ میں اُن سے دور کر دوں گااور ایسے باغوں میں اُن کو داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔۲۷۳ ۱۹۵
اِس ملک کے شہروں میں منکروں کی یہ چلت پھرت ۲۷۴ تجھے کسی مغالطے میں نہ ڈالے، (اے پیغمبر)۔ یہ تھوڑا سا لطف ہے،۲۷۵ پھر اِن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے۔ اِس کے برخلاف جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے، اُن کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کی طرف سے اُن کے لیے پہلی مہمانی ہے۲۷۶ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، اُس کے وفادار بندوں کے لیے وہ کہیں بہتر ہے۔۱۹۶-۱۹۸
اور (اِن وفادار بندوں سے اہل کتاب بھی خالی نہیں ہیں)۔ یہ حقیقت ہے کہ اِن اہل کتاب میں ایسے بھی ہیں جو خدا پر سچا ایمان رکھتے ہیں، اُس (کتاب) پر ایمان رکھتے ہیں جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے اور اُس پر بھی جو (اِس سے پہلے) اُ ن کی طرف نازل کی گئی تھی، اللہ سے ڈرتے ہوئے۔ وہ اللہ کی آیتوں کو تھوڑی قیمت پر بیچ نہیں دیتے۔ اُن کا اجر اُن کے پروردگار کے پاس ہے۔ (وہ بہت جلد اُنھیں مل جائے گا)، اِس لیے کہ اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔۱۹۹
ایمان والو، (آخری فتح تمھاری ہوگی، لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ) صبر کرو، اپنے حریفوں کے مقابلے میں پامردی دکھائو، مقابلے کے لیے تیار رہو اور (تمام معاملات میں) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ کامیاب رہو۔۲۰۰

۲۶۴؎  سورہ کی آخری فصل ختم ہوئی۔ یہاں سے اب خاتمۂ سورہ کی آیات شروع ہوتی ہیں۔

۲۶۵؎  اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اہل عقل اور ارباب بصیرت وہی ہیں جو اس کارخانۂ ہستی پر غور کر کے خدا اور آخرت کے ذکروفکر تک رہنمائی حاصل کریں۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ کا ذکر ہر حال میں مطلوب ہے اور جس طرح یہ ذکر مطلوب ہے، اسی طرح فکر بھی مطلوب ہے، اس لیے کہ آخرت کا یقین اسی فکر سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو تو ذکر محض زبان کا ایک شغل بن کر رہ جاتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔

۲۶۶؎  ان آیتوں میں قرآن نے کمال بلاغت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ جو سچے ارباب بصیرت خدا کو یاد رکھتے اور زمین وآسمان کی خلقت میں غور کرتے رہتے ہیں، ان کا یہ ذکروفکر کس طرح انھیں صحیح نتائج تک پہنچا دیتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ ذکروفکر خودبخود ان کو اس نتیجے تک پہنچادیتا ہے کہ یہ عظیم کارخانہ بے غایت وبے مقصد نہیں ہو سکتا اور جب بے غایت وبے مقصد نہیں ہو سکتا تو لازم ہے کہ یہ محض اتنے ہی پر تمام نہ ہوجائے، جتنا ظاہر ہورہا ہے، بلکہ ضروری ہے کہ ایک دن ایسا آئے جس میں گناہ گار اور نیکو کار، دونوں اپنے اپنے اعمال کا بدلہ پائیں اور اس دنیا کی خلقت میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہو۔
آسمان وزمین کی خلقت اور رات اور دن کی آمدوشد میں جو نشانیاں ہیں، ان کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ ان کی تفصیل پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ گوناگوں پہلووں سے آفاق کی ان نشانیوں کو نمایاں کیاہے جو شہادت دیتی ہیں کہ اس کائنات کے پیچھے صرف ایک عظیم طاقت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ عظیم حکمت بھی ہے۔ صرف بے پناہ قدرت ہی نہیں ہے، بلکہ بے پایاں رافت ورحمت بھی ہے۔ صرف بے اندازہ کثرت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کثرت کے اندر نہایت حیرت انگیز توافق وتوازن بھی ہے۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ اس دنیا کا پیدا ہونا نہ تو کوئی اتفاقی سانحہ ہے، نہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، بلکہ یہ ایک قدیروحکیم، عزیزوغفور اور سمیع وعلیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ اس وجہ سے یہ بات اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ یہ خیروشر اور نیک و بد کے درمیان امتیاز کے بغیر یوں ہی چلتی رہے یا یوں ہی تمام ہوجائے۔ اگر ایسا ہوتو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ یا تو اس کا کوئی خالق و مالک ہی نہیں ہے، یہ آپ سے آپ کہیں سے آدھمکی ہے اور اسی طرح چلتی رہے گی یا یہ کہ نعوذباللہ اس کا خالق کوئی کھلنڈرے مزاج کا ہے جو کسی کو گداگر، کسی کو تونگر، کسی کو ظالم اور کسی کو مظلوم بنا کر اس کا تماشا دیکھ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں اس قدرت اور اس حکمت کے بالکل منافی ہیں جن کی شہادت اس کائنات کے گوشے گوشے سے مل رہی ہے۔ ایسی علیم وحکیم ہستی کی شان علم وحکمت کے یہ بات بالکل منافی ہے کہ وہ کوئی بے حکمت کام کرے۔
اس طرح اس کائنات کی قدرت وحکمت پر غور کرنے والا شخص نہ صرف خدا تک، بلکہ اقرار آخرت تک خود پہنچ جاتا ہے اور جس کا ذہن اس حقیقت تک پہنچ جائے گا، ظاہر ہے کہ جزاوسزا کے تصور سے اس کا دل کانپ اٹھے گا اور اس کے اندر شدید داعیہ اس بات کے لیے پیدا ہوگا کہ وہ اس عذاب اور اس رسوائی سے پناہ مانگے جو ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو اس دنیا کو بس ایک کھلنڈرے کا کھیل سمجھتے رہے اور اس طرح انھوں نے اپنی ساری زندگی بالکل بطالت میں گزار دی۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۲۲۷، ۲۲۸)

ان آیتوں کے آخری جملے پر غور کیجیے تو یہ بات بھی ان میں واضح کردی گئی ہے کہ قیامت کے دن اس رسوائی سے زیادہ تر وہ لوگ دوچار ہوں گے جو جھوٹی شفاعتوں پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔چنانچہ فرمایا ہے کہ اس دن ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا۔

۲۶۷؎  یعنی معجزات اور خوارق نہیں مانگے اور نہ کٹ حجتیاں کی ہیں، بلکہ پیغمبر کی آواز اور اس کا چہرہ ہی ہمارے لیے معجزہ بن گیا۔ چنانچہ ہم نے جب یہ دیکھا کہ خدا اور آخرت پر ایمان کی یہ دعوت ہمارے دل کی آواز ہے، ہمارا باطن اس کی شہادت دیتا ہے اور علم وعقل بھی اسی کا تقاضا کرتے ہیں تو بغیر کسی تردد کے ہم نے اسے مان لیا ہے۔

۲۶۸؎  اصل میں ’ما وعدتنا علی رسلک‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ایک مضاف عربیت کے قاعدے کے مطابق حذف ہوگیا ہے، یعنی ’علی السنۃ رسلک‘۔

۲۶۹؎  اپنے ایمان پر اظہار فخر کے بجائے یہ ان ارباب بصیرت نے نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دیا ہے کہ جس طرح اس نے قبول حق کی توفیق عطا فرمائی ہے، اسی طرح وہ ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر فرمائے اور اس راہ کی مشکلات ان کے لیے آسان کردے۔

۲۷۰؎  یہ نہایت بلیغ اسلوب میں دعا کی قبولیت کا اظہار ہے۔ گویا ادھر یہ دعا زبان پر آئی اور ادھر جواب آگیا کہ پروردگار نے اسے قبول کر لیا ہے۔

۲۷۱؎  یہ ان تمام اہل ایمان کی حوصلہ افزائی ہے جو خدا کی راہ میں ہجرت اور جہاد جیسے مراحل سے گزرے اور معاندین اسلام کے ہاتھوں لرزہ خیز مظالم کا ہدف بنے رہے۔ مرد ہو یا عورت کے الفاظ اس جملے میں خاص طور پر اس لیے بڑھائے گئے ہیں کہ اس زمانے میں خواتین پر جو ستم توڑے جارہے تھے، وہ ایسے سخت تھے کہ ان کو سن کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اس ٹکڑے نے کلام کو بالکل مطابق حال کردیا۔ اور کون اندازہ کر سکتا ہے کہ ان دو لفظوں نے ان مظلوم خواتین کی کتنی ڈھارس بندھائی ہوگی جو محض اسلام کی خاطر طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۲۳۱)    

۲۷۲؎  یہ اس بات کی دلیل بیان فرمائی ہے کہ مردوعورت، دونوں کا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیوں ایک ہی حیثیت رکھتا ہے؟ اس سے اگر غور کیجیے تو قرآن نے ان تمام جاہلی نظریات کی تردید کر دی ہے جوعورت کو ایک فروتر مخلوق اور مرد کو اس کے مقابل میں برترقرار دیتے تھے۔

۲۷۳؎  اصل میں ’ثوابًا من عند اللّٰہ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ثوابا‘ مصدر کے محل میں ہے اور اس کے معنی اس ثمرے اور نتیجے کے ہیں جو کسی عمل کے ردعمل میں اس عمل کے کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ اس تعبیر کی بلاغت استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس طرح واضح فرمائی ہے:

’’۔۔۔بندوں کے حقیر اعمال پر اللہ تعالیٰ جو ابدی اور لازوال انعامات عطا فرمائے گا، ان کو ثواب کے لفظ سے تعبیر کرکے رب کریم نے بندوں کے اعمال کی قدروقیمت بڑھائی ہے۔ ورنہ ذرے اور پہاڑ میں کیا نسبت ہے۔ ’من عند اللّٰہ، واللّٰہ عندہ حسن الثواب ‘ کے الفاظ سے اسی بعد کو رفع فرمایا گیا ہے۔ یعنی ہے تو تمھارے ہی عمل کا بدلہ، لیکن ہے اللہ کے پاس سے، جس کے پاس حسن ثواب کے خزانے ہیں۔ وہ داتا جس کو جتنا چاہے دے دے۔ اس کے پاس کیا کمی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۲/ ۲۳۱)

۲۷۴؎  اصل میں لفظ ’تقلب‘ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ آزادی وخودمختاری اور ایک نوعیت کا غلبہ اور زور ہے جو پیغمبر کے منکروں کو مسلمانوں کے مقابل میں اس وقت سرزمین عرب میں حاصل تھا۔

۲۷۵؎  اصل میں ’متاع قلیل‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ خبر ہے جس کا مبتدا یہاں اس لیے حذف کر دیا گیا کہ ساری توجہ اسی خبر پر مرکوز رہے۔

۲۷۶؎  اصل میں لفظ ’نزلا‘ آیا ہے۔ اس کا نصب حال کے لیے ہے اور یہ اس ضیافت کے لیے آتا ہے جو کسی مہمان کے آنے پر سب سے پہلے اسے پیش کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے پہلی پیش کش ہی جنت ہوگی۔ اس کے بعد انھیں مزید کیا ملنے والا ہے، اس کا اندازہ اس پیش کش سے کیا جاسکتا ہے۔

ــــــــــــــــــ

ـــــــ جاوید                           

اتوار، ۵مارچ۲۰۰۶ء             

B