قال۱ ابو ہریرۃ: جاء رجل الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللّٰہ انا نرکب البحر ونحمل معنا القلیل من الماء فان توضانا بہ عطشنا افنتوضأ بہ؟
فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہو الطہور ماؤہ، الحل میتتہ.
’’ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا: اے رسول اللہ، ہم سمندر کے سفر کے لیے کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں، اس سفر پر ہم پانی کی بہت تھوڑی مقدار لے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پھر پیاسے رہ جائیں گے، اس صورت میں کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرسکتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: ہاں، اس کا پانی طاہر۱ اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘۲
۱۔ مراد یہ ہے کہ سمندر کا پانی عام پانی کی طرح ہے، اس لیے اس سے وضو کیا جا سکتا ہے۔
۲۔دوسری بات یہ فرمائی کہ اس کا مردار حلال ہے۔قرآن مجید میں مردار کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ مچھلی کے مردہ ہونے کے باوجود حلال ہونے کے وجوہ یہ ہیں:
ایک تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ’میتۃ‘ کا لفظ اپنے عرف میں مردہ مچھلی اور مردہ ٹڈی کے لیے نہیں بولا جاتا، اس لیے قرآن کی حرمتوں میں بیان شدہ ’میتۃ‘ (مردار) کی حرمت ان کو شامل نہیں ہوگی۔ استاد گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:
’’سمندر کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’ھو الطہور ماؤہ الحل میتتہ‘ بھی اسی تخصیص کے ساتھ ہے اور اس میں ’میتۃ‘ سے مراد مردہ مچھلی اور اس طرح کی بعض دوسری چیزیں ہی ہیں جن کے لیے لفظ ’میتۃ‘ باعتبار لغت تو بولا جاسکتا ہے، لیکن عرف و عادت کی رعایت سے انھیں ’میتۃ‘ نہیں کہہ سکتے‘‘۔(میزان ۳۱۳)
علامہ زمخشری اسی عرف کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان القائل اذا قال: اکل فلان میتۃ، لم یسبق الوہم الی السمک و الجراد.(الکشاف ۱ /۲۱۵)
’’جب کہنے والا یہ کہتا ہے کہ فلاں نے ’میتۃ‘ (مردار) کھایا تو کسی کا خیال مردہ مچھلی اور مردہ ٹڈی کی طرف نہیں جاتا۔‘‘
دوسری وجہ یہ ہے کہ مچھلی اور ٹڈی، دونوں ایسے جانور ہیں،جن میں دم مسفوح نہیں ہوتا۔اس لیے جب انھیں کاٹا جاتا ہے تو ان کا خون نہیں بہتا۔چنانچہ خون والے جانوروں، مثلا گائے بکری کے ذبح کرنے کی علت یعنی خون یہاں موجود نہیں ہے، اس لیے اس کے ذبح کا حکم موقوف ہو گا۔ چنانچہ انھیں خود پکڑ کر کاٹ لینا اور مردہ حالت میں پانا، دونوں یکساں ہیں۔
۱۔یہ روایت ٹھیک انھی الفاظ کے ساتھ درج ذیل مقامات میں آئی ہے: موطا، رقم ۴۱،ابو داؤد، رقم ۸۳، صحیح ابن حبان، رقم۱۲۴۳، مسند احمد، رقم ۸۷۲۰،البیہقی الکبریٰ، رقم ۱ ، ۱۸۷۴۴ ، ابن ماجہ، رقم ۳۸۶،الدارمی، رقم ۷۲۹، ۲۰۱۱،صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۱۱ ،۱۱۲،سنن الترمذی، رقم ۶۹،سنن النسائی (المجتبی)، رقم ۵۹، ۳۳۲۔
مختلف الفاظ کے ساتھ یہ روایت ان مقامات پر آئی ہے: صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۵۸، ۱۲۴۴، السنن الکبریٰ، رقم ۵۸، ۴۸۶۲، مسند احمد، رقم ۷۲۳۲، ۸۸۹۹، ۹۰۸۸، ۱۵۰۵۴، سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۲، ۶، ۱۱۲۷، ۱۸۷۴۵، ۱۸۷۶۹، سنن ابن ماجہ، رقم ۳۸۷، ۳۸۸، ۳۲۴۶، سنن النسائی، رقم ۴۳۵۰، مصنف عبد الرزاق، رقم ۳۱۸، ۳۱۹، ۳۲۰، ۳۲۱۔
یہ روایت مسند احمد،رقم ۸۸۹۹میں ان الفاظ کے ساتھ بھی واردہوئی ہے:
عن ابی ہریرۃ ان ناسا اتوا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقالو: انا نبعد فی البحر ولا نحمل من الماء الا الاداوۃ والاداوتین لانا لا نجد الصید حتی نبعد أفنتوضا بماء البحر؟ قال نعم فانہ الحل میتتہ الطہور ماؤہ.
’’ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے،اور آپ سے گزارش کی کہ ہم سمندر میں دور تک چلے جاتے ہیں، اور ہم بس دو ایک چھوٹے مشکیزے بھر کر پانی لے جاتے ہیں پھر جب ہم شکار نہیں پاتے تو ہمیں دور جانا پڑتا ہے، تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو وغیرہ کرلیا کریں؟آپ نے فرمایا: ہاں،کیونکہ اس کا مردار حلال اور اس کا پانی طاہر ہے۔‘‘
بہت سی روایتوں میں سوال اور آنے والے کی نوعیت پر کوئی بات موجود نہیں ہے بس مختصر سے انداز میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ’ عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فی ماء البحر ہو الطہور ماؤہ الحل میتتہ‘۔ ’’ابو ہریرہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سمندر کے پانی کے بارے میں یہ بتایا، اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
اسی طرح یوں بھی روایت ہے:
عن جابر ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سئل عن ماء البحر فقال ہو الطہور ماؤہ الحل میتتہ.
’’جابر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کے بارے میں پوچھا گیا ، تو آپ نے فرمایا : یہ پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے ۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت صحیح ابن حبان، رقم ۵۲۵۸، مصنف عبد الرزاق، رقم ۳۱۸، ۳۱۹، ۳۲۰، السنن الکبریٰ، رقم ۴۸۶۲، مسند احمد، رقم ۷۲۳۲، ۱۵۰۵۴، سنن البیہقی، رقم ۱۱۲۷، ۱۸۷۴۵، سنن ابن ماجہ، رقم ۳۸۸، ۳۲۴۶، صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۱۲ اورسنن النسائی، رقم ۴۳۵۰میں آئی ہے۔
یہ روایت ان تفصیلات کے ساتھ بھی وارد ہوئی ہے:
عن ابی ہریرۃ یقول: کنا عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوما فجاء ہ صیاد. فقال: یا رسول اللّٰہ اخبرنا ننطلق فی البحر نرید الصید، فیحمل معہ احدنا الاداوۃ، وہو یرجو ان یاخذ الصید قریبا، فربما وجدہ کذلک وربما لم یجد الصید حتی یبلغ من البحر مکانا لم یظن ان یبلغہ. فلعلہ یحتلم او یتوضا، فان اغتسل او توضا بہذا الماء فلعل احدنا یہلکہ العطش. فہل تری فی ماء البحر ان نغتسل بہ او نتوضا بہ اذا خفنا ذلک! فزعم ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: اغتسلوا منہ وتوضاوا بہ فانہ الطہور ماؤہ، الحل میتتہ.(سنن البیہقی، رقم۴۹۳)
’’ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک مچھیرا آپ کے پاس آیا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں عرض کی: یا رسول اللہ ہمیں ایک بات بتائیے،ہم ماہی گیری کی غرض سے سمندر میں جاتے ہیں، ہم میں سے ہر ایک اپنے ساتھ اس امید میں تھوڑا سا پانی لے لیتا ہے کہ شکار قریب ہی مل جائے گا،کبھی تو ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن کبھی ہمیں مچھلی نہیں ملتی ،اور ہم آگے بڑھتے جاتے ہیں حتیٰ کہ ہم سمندر میں ایسی جگہ جا پہنچتے ہیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ وہاں آئے گا۔ اتنی دور نکل آنے کی بنا پر یہ ہو سکتا ہے کہ وہاں نہانے یا وضو وغیرہ کی حاجت ہو جائے۔ اگر وہ پینے کے اس پانی سے نہا لے یا وضو کر لے تو (پانی ختم ہونے کی صورت میں) ہو سکتا کہ وہ پیاس سے مرجائے،بھلا آپ کی سمندر کے پانی کے بارے میں کیا رائے ہے، اگر ہمیں موت کا ڈر ہو تو کیا اس کے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں؟ ابو ہریرہ کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا تھا: اس سے نہاؤاور وضو بھی کرو، اس لیے کہ اس کا پانی طاہر اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
یہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مسند احمد، رقم ۹۰۸۸،مصنف عبد الرزاق، رقم ۳۲۱، البیہقی، رقم ۲، ۶ میں آئی ہے۔ مسند احمد کی روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
انہ جاء ہ ناس صیادون فی البحر فقالوا یا رسول اللّٰہ انا اہل ارماث وانا نتزود ماء یسیرا ان شربنا منہ لم یکن فیہ ما نتوضا بہ وان توضانا لم یکن فیہ ما نشرب افنتوضا من ماء البحر فقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نعم فہو الطہور ماؤہ الحل میتتہ.( ۹۰۸۸)
’’آپ کے پاس کچھ لوگ آئے جو ماہی گیر تھے۔ انھوں نے آپ سے عرض کی: یا رسول اللہ ہم چھوٹی چھوٹی کشتیوں کے مالک ہیں، اس لیے تھوڑا سا پانی ہی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اگر ہم اس سے پی لیتے ہیں تو وضو کے لیے کچھ نہیں بچتا، اور وضو کریں تو پینے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں؟آپ نے فرمایا ہاں، کیوں کہ اس کاپانی طاہر اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
مصنف عبد الرزاق، رقم ۳۲۱میں ان لوگوں کو بنی مدلج سے بتایا گیا ہے: ’ان ناسا من بنی مدلج سالوا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انا نرکب ارماثا لنا‘۔ ’’بنو مدلج کے کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم تختہ نما کشتیوں والے ہیں۔‘‘ اسی روایت میں’نتزود‘ کی جگہ پر یہ الفاظ آئے ہیں کہ: ’ویحمل احدنا مویہا لشفتہ‘۔ ’’آدمی تھوڑا سا پانی ہونٹوں کی پیاس بجھانے کے لیے لے جاتا ہے۔‘‘
مصنف عبد الرزاق کی مذکورہ بالا روایت میں سوال کے اندر یہ بات بھی بیان ہوئی ہے: ’فان توضانا بماء البحر وجدنا فی انفسنا وان توضانا منہ عطشنا‘ ۔ ’’اگر ہم سمندر کے پانی سے وضو کرتے ہیں تو یہ بات ہمارے دل میں کھٹکتی ہے،اور اگر صاف پانی سے نہائیں تو پیاس ستائے گی۔‘‘
سنن البیہقی، رقم ۶میں ’أتی نفر الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘۔’’ایک گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور ان میں سوال اس انداز سے پوچھا گیا ہے: ’فقالوا أخبرنا نصید فی البحر ومعنا من الماء العذب فربما تخوفنا العطش فہل یصلح أن نتوضا من البحر الملح؟ فقال نعم توضؤوا منہ‘ ۔’’انھوں نے کہا: ہمیں یہ بتائیے کہ ہم ماہی گیری کے لیے جاتے ہیں، اور ہمارے پاس تھوڑا سا پانی ہوتا ہے، جس وجہ سے پیاسے رہ جانے کا کھٹکا لگا رہتا ہے، تو کیا یہ صحیح ہوگا کہ ہم سمندر کے پانی سے وضو کر لیا کریں۔ آپ نے فرمایا : ہاں، اس سے وضو کر لیا کرو۔‘‘
ابن ماجہ، رقم ۳۸۷میں یہی روایت یوںآئی ہے:
عن بن الفراسی قال: کنت اصید وکانت لی قربۃ اجعل فیہا ماء وانی توضات بماء البحر فذکرت ذلک لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال ہو الطہور ماؤہ، الحل میتتہ.
’’ابن فراسی کی روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں ماہی گیری کرتا تھا، میری ایک چھوٹی سی مشک تھی، جس میں میں پانی لے جاتا تھا۔ میں سمندر کے پانی سے وضو کیا کرتا تھا، میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: سمندر کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘
ان تمام مرویات کے خلاف جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، ایک روایت سنن البیہقی، رقم ۱۸۷۶۹ یوںآئی ہے:
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما القی البحر او جزر عنہ فکلوہ وما مات فیہ وطفا فلا تاکلوہ عن جابر رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال ما اصطدتموہ وہو حی فکلوہ وما وجدتم میتا طافیا فلا تاکلوہ.
’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کو سمندر باہر نکال پھینکے،یا جس چیز کو چھوڑ کر سمندر پیچھے ہٹ جائے، وہ تو تم کھا لو، البتہ جو چیز اس کے اندر مر جائے اور اس کی سطح پر تیرنے لگے، تو اسے نہ کھاؤ، جابر ہی سے روایت ہے کہ جو تم شکار کرو اور وہ زندہ ہو تو وہ کھالو، اور جو مردہ اور سطح سمندر پر تیرتی چیز پاؤ، تو اسے نہ کھاؤ۔‘‘
اگرچہ اس کی تاویل ممکن ہے ،مگر اس کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لیے کہ اس روایت کوسنن البیہقی ہی میں ضعیف قرار دیا گیا ہے۔
_______________