HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان کی شاخیں

(مسلم، رقم ۳۵)


عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَۃً وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَان.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی سترسے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ ‘‘
عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ اَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَۃً. فَاَفْضَلُہَا قَوْلُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَدْنَاہَا اِمَاطَۃُ الْاَذَی عَنِ الطَّرِیْقِ وَالْحَیَاءُ شُعْبَۃٌ مِنَ الِایْمَانِ.
’’حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑی چیز لا الٰہ الا اللہ کا اقرار ہے اوران میں سے ایک چھوٹی سی چیز راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
لغوی مباحث

شعبۃ: اصل معنی درخت کی شاخ کے ہیں۔ لیکن یہ اردو کے لفظ شاخ ہی کی طرح اجزا و فروع کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

بضع: ’بضع‘ ب کی فتح اور کسرہ کے ساتھ بولا جاتا ہے۔ اس کے لغوی معنی ’’کسی چیز کے حصے‘‘ کے ہیں اور اس کا اطلاق تین سے دس اور ایک رائے کے مطابق تین سے نو کے عدد پر کیا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے سات مراد ہوتا ہے۔ ایک اور رائے یہ ہے کہ اس سے دوسے دس اور بارہ سے بیس کے درمیان کے عدد مراد ہوتے ہیں۔ ’ بضع وسبعون‘ کا عدد محاورۃً استعمال ہوا ہے۔ اس سے کوئی خاص تعداد مراد نہیں ہے۔ یہ محض کثرت کے معنی ادا کر رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اعداد کا یہ استعمال ہماری زبان میں بھی ہے اور موقع ومحل کی مناسبت سے اس غرض کے لیے کوئی بھی عدد بولا جا سکتا ہے۔ عدد کے اس نوع کے استعمال کی مثال قرآن مجید میں بھی ہے۔ منافقین کے بارے میں دعا سے منع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’ استغفر لہم او لا تستغفر لہم ان تستغفر لہم سبعین مرۃ فلن یغفر اللّٰہ لہم‘( تم ان کی مغفرت کی دعا کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر مرتبہ بھی مغفرت کی دعا کرو گے تو اللہ ان کو معاف نہیں کرے گا)۔

افضلہا، ادناہا: ’افضل‘ کا لفظ یہاں اس کی دینی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ہے یعنی اس بات کو ماننے کا اجر اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ہے۔ ’ادنٰی‘ کے لغوی معنی ’’سب سے کم‘ ‘کے ہیں۔ یعنی دینی اعمال میں اہمیت کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا عمل ہے۔

الحیاء: ایک نفسیاتی حالت، یعنی ان امور اور اشیا سے گریز، اعراض کی کیفیت اور احساس ندامت جن سے نسبت پر آدمی برا یا گھٹیا سمجھا جاتا ہے۔ جھجک بھی درحقیقت غلطی سے بچنے کے جذبے ہی کا بے محل اظہار ہے۔ اس لیے اس کے لیے بھی حیا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

معنی

یہ روایت دین کی ایک اہم حقیقت کو بیان کرتی ہے۔ روایت میں ایمان کے مظاہر کے لیے شاخ کے لفظ کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کو ایک پیڑ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایمان کے کشت دل میں جڑ پکڑتے ہی انسان کے افکار واعمال میں جو عظیم الشان تغیر واقع ہوتا ہے اور انسان کے قول وفعل کی صورت میں جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، اسے اس پیڑ کی شاخیں قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی کلمۂ طیبہ کو پیڑ ہی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سورۂ ابراہیم میں ہے:

اَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَآء. تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(۱۴: ۲۴۔۲۵)
’’ کیا تم نے غور نہیں کیا، اللہ تعالیٰ نے کس طرح کلمۂ طیبہ کی مثال بیان کی ہے۔ وہ ایک شجرۂ طیبہ کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں اتری ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اپنا پھل ہر فصل میں اپنے رب کے حکم سے دیتا رہتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘

اس آیت میں’ پھل‘ سے کردار کے وہی مظاہر مراد ہیں جنھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شعبۃ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن سراپا خیر ہو۔ اس کے عقائد صحیح خطوط پر استوار ہوں۔ اس کے اعمال اعمال صالحہ ہوں۔ اس کی خلقت میں ودیعت کردہ خیر یعنی عدل ، حیا اور خیرخواہی وغیرہ پوری طرح فعال ہوں۔ اس کی فطرت کے صالح داعیات قوی ہوں اور وہ عوامل جو اسے برائی کی طرف دھکیلتے ہیں غیر موثر ہو جائیں۔یہاں تک کہ اس کے جذبات بھی ایمان کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر صحیح محل اور مناسب صورت میں ظاہر ہونے لگیں۔

اس روایت میں یہ حقیقت نمایاں کی گئی ہے کہ ایمان محض کچھ حقائق کو تسلیم کر لینے کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو جب دل میں اترتی ہے تو آدمی ایک نیا جنم لیتا ہے۔ اس کائنات کی اعلیٰ ترین سچائی کے اقرار سے وہ اس کائنات کے خالق ومالک سے جڑ جاتا ہے اور انسانوں سے اس کی خیر خواہی اس طرح نمایاں ہوتی ہے کہ وہ راستے سے تکلیف دہ چیزہٹائے بغیر آگے نہیں بڑھ پاتا۔حیا کا جذبہ اپنی صحیح صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور وہ کسی بھی برائی یا بری خصلت کو اپنے لیے باعث عار سمجھنے لگ جاتا ہے۔

بعض شارحین نے ایمان کے اجزا کو معین کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ یہاں عدد کسی معین تعداد کے بیان کرنے کے لیے نہیں ہے۔ دین کے تمام اجزا ایمانیات، عبادات اور معاملات ہر ہر چیز میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت ایک عامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ بنتے، یہی رویہ معین کرتے اور یہی اس کا ہدف طے کرتے ہیں۔

متون

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی گفتگو سے ماخوذ یہ روایت متعدد محدثین نے نقل کی ہے۔ کسی نے صرف حیا والا جملہ ہی روایت کیا ہے۔ کسی نے ایمان کے شعبوں اور حیا والا جملہ روایت کیا ہے۔ اور اکثر نے اعلیٰ اور ادنیٰ والا جملہ بھی نقل کیا ہے۔ ایک آدھ روایت ایسی بھی ہے جس میں اعلیٰ اور ادنیٰ والی بات تو نقل ہوئی ہے، لیکن حیا والاجملہ موجود نہیں ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے ان میں سے صرف دو متن منتخب کیے ہیں۔ اس روایت کے ان جملوں میں لفظی فرق بھی ہیں۔ کسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رسول اللہ کا لفظ آیا ہے اور کسی میں نبی کالفظ اختیار کیا گیا ہے۔ ایمان کے مظاہر کے لیے کسی روایت میں شعبہ کا لفظ اور کسی میں باب کا لفظ آیا ہے۔ اکثر متون میں شعبہ کا لفظ مروی ہے۔ روایت کے معنی کے ساتھ اس کی مناسبت بھی زیادہ ہے۔شعبوں کی تعدادکسی روایت میں سترسے کچھ اوپر اور کسی روایت میں ساٹھ سے کچھ اوپر بتائی گئی ہے۔ بعض روایات میں راوی نے شک یعنی ’ أو‘ کے ساتھ دونوں عدد دے دیے ہیں۔ ایک روایت میں ’ اثنان وسبعون‘ یعنی بہتر (۷۲) کا لفظ بھی روایت ہوا ہے۔بعض کے نزدیک ایمان کے مظاہر میں سے سب سے بڑی چیز تو حید ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں توحید کے بیان کے لیے ’لا الٰہ الا اللّٰہ‘ کا کلمہ ہی اختیار کیا ہے۔ اس روایت میں بھی ایسا ہی ہے۔ البتہ کسی متن میں اس پر ’قول‘ اور کسی میں اس پر ’شہادۃ‘ کا لفظ مضاف کیا گیا ہے اور کسی روایت میں یہ ان کے بغیر نقل ہوا ہے۔ اسی طرح ’سب سے بڑی ‘ کے لیے کسی روایت میں ’افضل‘ کسی میں’ اعلٰی‘ اور کسی میں’ ارفع‘ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ ’سب سے چھوٹی‘ کے لیے ان روایات میں ’ادنٰی‘ یا ’اوضع‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ہمارے خیال میں ’ ادنٰی‘ کا لفظ ہی درست ہے۔ اس جملے میں ایک دل چسپ اختلاف بھی منقول ہے ۔ تقریباً تمام کتب روایت میں ’ اماطۃ الأذی‘ ہی کا لفظ آیا ہے، لیکن ابوداؤد میں اس کے بجائے ’ اماطۃ العظم‘ کی ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’أذی ‘ جیسے جامع لفظ کے مقابلے میں ’ عظم‘ کا لفظ کسی طرح بھی موزوں نہیں۔ کتب حدیث میں ایک روایت اور بھی ملتی ہے جس میں ایمان اور نفاق کے کچھ شعبے بیان ہوئے ہیں۔ یہ روایت واضح کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبے کے لفظ سے کس پہلو کو واضح کرنا چاہتے ہیں۔

عن أبی أمامۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الحیاء والعی شعبتان من الایمان والبذاء والبیان شعبتان من النفاق.(ترمذی، رقم۲۰۲۷)
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیا اور کم گوئی ایمان کے دو شعبے ہیں اور فحش گوئی اور بسیارگوئی نفاق کے دو شعبے ہیں۔‘‘
کتابیات

بخاری، رقم۹۔ مسلم، رقم۳۵۔ ابوداؤد، رقم۴۶۷۶۔ ترمذی، رقم۲۶۱۴، ۲۰۲۷۔ نسائی، رقم ۵۰۰۴، ۵۰۰۵، ۵۰۰۶۔ ابن ماجہ، رقم۵۷۔ احمد، رقم۶۸۳،۶۸۴،۶۸۵،۶۸۶۔ ابن حبان، رقم۱۶۶، ۱۶۷، ۱۸۱، ۱۹۰، ۱۹۱۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۳۵، ۱۱۷۳۶، ۱۱۷۳۷۔ الأدب المفرد، رقم۵۹۸۔ابن شیبہ، رقم ۲۵۳۳۹۔ معجم اوسط، رقم۶۹۶۲، ۹۰۰۴۔

—————————


B