ابو داؤد، رقم۲۴۸۸کے مطابق بیان کیاجاتاہے کہ
روی أنہ جاء ت امرأۃ إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقال لہا أم خلاد وہی منتقبۃ تسأل عن ابنہا وہو مقتول فقال لہا بعض أصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جئت تسألین عن ابنک وأنت منتقبۃ؟ فقالت: إن أرزأ ابنی فلن أرزأ حیائی. فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ابنک لہ أجر شہیدین. قالت: ولم ذاک یا رسول اللّٰہ؟ قال: لأنہ قتلہ أہل الکتاب.
’’روایت ہے کہ ایک مرتبہ ام خلاد نامی ایک خاتون نقاب اوڑھے اپنے اس بیٹے کی تلاش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوئی جو شہید ہوچکاتھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی نے اس سے پوچھا: تم اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی ہو، جبکہ تم نے نقاب اوڑھ رکھاہے؟۱ خاتون نے جواب دیا: اگر میں نے اپنا بیٹا کھو دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ میں نے اپنی حیابھی کھودی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تمھارے بیٹے کے لیے دو شہیدوں کا اجر ہے۔ اس نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (ایسا اس لیے ہوگا) کیونکہ اسے اہل کتاب نے شہید کیا ہے۔ ‘‘
یہ واقعہ بیہقی ، رقم۱۸۳۷۲ اور ابویعلیٰ، رقم۱۵۹۱ میں بھی روایت ہوا ہے۔
واقعہ کی تینوں روایات کی سند میں پہلے چار راوی مشترک ہیں۔ ان میں سے عبدالخبیر اور فرج بن فضالہ کے بارے میں سند کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ان پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا۔ ۲
مذکورہ واقعہ کی کوئی بھی سند ایسی نہیں ہے جسے قابل اعتماد سمجھا جائے، اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس روایت کی نسبت کو درست نہ سمجھا جائے۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
———————
۱ اس سوال کی وجہ شایدیہ ہو کہ نقاب کی موجودگی میں جب یہ معلوم ہی نہیں ہوگاکہ خاتون کون ہے تواس کے بیٹے کے بارے میں کیسے بتایا جاسکے گا۔
۲ عبدالخبیر کے بارے میں معلومات کے لیے دیکھیے: الضعفاء الکبیر ۳/ ۱۱۵، الجرح والتعدیل ۶/ ۳۸، الکامل فی الضعفاء ۵/ ۳۴۷، المرجوحین ۲/ ۱۴۱، تہذیب الکمال ۱۶/ ۴۶۷، تہذیب التہذیب ۶/ ۱۱۳، ضعفاء البخاری ۱/ ۷۹، تقریب التہذیب ۱/ ۳۳۴، التاریخ الکبیر ۶/ ۱۳۷۔
فرج بن فضالہ کے بارے میں معلومات کے لیے دیکھیے: الضعفاء الکبیر ۳/ ۴۶۲، الجرح والتعدیل ۷/ ۸۵، المرجوحین ۲/ ۲۰۶، تہذیب التہذیب ۸/ ۲۳۴، ضعفاء البخاری ۱/ ۹۵، تقریب التہذیب ۱/ ۴۴۴، التاریخ الکبیر ۷/ ۱۳۴، الکامل فی الضعفاء ۶/ ۲۸، الکاشف ۲/ ۱۲۰۔
——————————————