HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

سید احمد شہید کی تحریک جہاد کی ناکامی

اٹھارہویں صدی ہندی مسلمانوں کے سیاسی زوال کے آغاز کی صدی ہے۔ اس دور زوال میں شاہ ولی اللہ کی پیدایش بلاشبہ ایک اعجوبہ تھا۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کے ہمہ گیر زوال کو روکنے کی جو کوششیں کیں وہ زیادہ تر نظری اور علمی نوعیت کی تھیں، یعنی قرآن وحدیث کے علوم ومعارف کی تعلیم واشاعت وغیرہ۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں ’فک کل نظام‘ یا دوسرے لفظوں میں غلبۂ اسلام کا جو انقلابی تصور دیا تھا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متعدد وجوہ سے وہ کوئی عملی اقدام نہ کرسکے۔ لیکن آگے چل کر ان کی علمی تصانیف نے ایسے اصحاب دل و دماغ پیدا کردیے جو انقلابی کام کے لیے موزوں تھے۔ سیداحمد شہید اور ان کے رفقا کا تعلق اسی گروہ سے تھا۔

سید احمد شہید نے جس وقت تحریک جہاد شروع کی ہندوستان کے بڑے حصے پر انگریز قابض ہوچکے تھے، صرف چند مقامات تھے جہاں ابھی ان کے اقتدار کی تکمیل باقی تھی۔ انھی مقامات میں سے پنجاب کا صوبہ بھی تھا جہاں سکھ قوم اپنے ایک لیڈر رنجیت سنگھ کی قیادت میں برسر اقتدار تھی۔ سید صاحب کی تحریک جہاد کا رخ اسی گروہ کی طرف تھا۔

اس میدان جہاد کے انتخاب کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پنجاب اور سرحد کے مسلمان سکھوں کے توہین آمیز مظالم، اسلامی شعائر کی بے حرمتی اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹ کی وجہ سے سخت ذہنی اور نفسیاتی اذیت میں مبتلا تھے اور کسی نجات دہندہ کے منتظر تھے۔چنانچہ سید صاحب نے مسلمانوں کو اس ذلت سے نجات دلانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لیے پوری طرح مستعد ہوگئے۔ ۱؂

سید صاحب کی غیر معمولی شخصیت، ان کے بعض رفقا بالخصوص مولانا عبدالحئ اور مولانا سید اسماعیل شہید کے علم و فضل اور جوش خطابت کی وجہ سے تحریک جہاد کو نہایت قلیل وقت میں زبردست تائید وحمایت حاصل ہوئی اور مخلص و دین دار مسلمانوں کا ایک جتھا سکھوں سے لڑنے کے لیے تیار ہوگیا۔ سیرت نگاروں کے بیان کے مطابق اس جہادی لشکر کا ہر فرد زہد و تقویٰ کے اعتبار سے بلند درجہ رکھتا تھا۔ ’’دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر اور رات کو جاے نماز پر ہوتے تھے۔ خدا سے ڈرنے والے، آخرت کے حساب کو یاد رکھنے والے اور ہر حال میں راستی پر قائم رہنے والے تھے۔ ۲؂ ‘‘ اس تحریک کے قائدین بھی علم و تقویٰ کا پیکر اور قرن اول کے مسلمانوں کی پاکیزہ زندگی کا نمونہ تھے۔

لیکن ان تمام روحانی اوصاف ومحاسن کے باوجود تحریک جہاد ناکام ہوگئی۔ متعدد اہل علم نے اس ناکامی سے بحث کی ہے اور اس کے اسباب بیان کیے ہیں۔ لیکن راقم سطور کے خیال میں ناکامی کے بعض وجوہ اب بھی تشنۂ تحریر ہیں۔ عام طور پر مورخین نے تحریک جہاد کی ناکامی کے جو وجوہ بیان کیے ہیں وہ، گوکہ اہم ہیں، زیادہ تر خارجی نوعیت کے ہیں، مثلاً نفاذ شریعت میں تعجیل اور بعض قبائلی رسوم کی مخالفت وغیرہ۔ ۳؂ انھوں نے داخلی اسباب سے بالعموم تعرض نہیں کیا ہے حالاں کہ ان کی تفہیم کے بغیر ناکامی کی صحیح توجیہ ممکن نہیں ہے۔ اگلی سطروں میں ہم پہلے ناکامی کے خارجی اسباب اور اس کے بعد داخلی اسباب سے بحث کریں گے۔

ابتدا میں سرحدی مسلمانوں نے سید صاحب کا ساتھ اس لیے دیا کہ وہ ان کو عالم، متقی اور خدا ترس سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ سکھوں کے مظالم سے ان کو نجات دلائیں گے۔ گویا انھوں نے سید صاحب کا استقبال امیر جہاد کی حیثیت سے کیا تھا نہ کہ حاکم ریاست کی حیثیت سے۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:

’’یہ حقیقت ٹھیک ٹھیک ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ سید صاحب اس امامت کے بعد صرف کاروبار جہاد کی تنظیم کے مختار بنے تھے، رؤسا وخوانین کے عام امور ریاست سے انھیں کوئی تعلق نہ تھا۔‘‘ ۴؂

لیکن بعد کے واقعات سے، جن میں نفاذ شریعت کا معاملہ بہت اہم ہے، قبائلی سرداروں نے گمان کیا کہ سید صاحب نفاذ شریعت کی آڑ میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ گمان غلط نہ تھا۔ نفاذ شریعت کا صریح مطلب امور ریاست میں مداخلت تھا۔ چنانچہ بیعت امامت کے بعد ان کے مقرر کردہ افراد نہ صرف لوگوں سے عشر وصول کرتے تھے، بلکہ خلاف شریعت کاموں پر ان کو سزائیں بھی دیتے تھے۔ ۵؂

حقیقت یہ ہے کہ اہل سرحد کی ایمانی حالت اس وقت شریعت کے اس بار گراں کی متحمل نہ تھی۔ ان کی اکثریت، جن میں سرداران قبائل بھی شامل تھے، احکام شریعت کی تعمیل بالخصوص عشر کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں تھی۔ چنانچہ نواکلئی اور شیخ جانا کے لوگوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ فرماں برداری کے لیے تیار ہیں، لیکن انھیں عشر سے معاف رکھا جائے۔۶؂ احمد خان کمال زئی نے بھی اداے عشر سے انکار کیا اور جنگ مروان پیش آئی۔ ۷؂ عشر کے معاملے میں ان کا توحش اس حد تک تھا کہ عنایت اللہ خاں، رئیس الاڈنڈ نے مولانا اسماعیل سے دوران گفتگو میں صاف کہہ دیا کہ ’’اگر آپ نے ہم پر عشر نافذ کردیا تو اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسری زمین پر چلے جائیں گے۔‘‘۸؂

اس معاملے میں سرحدی علما نے بھی قبائلی سرداروں کا ساتھ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عشر اور دوسرے ناموں سے جو تھوڑی بہت رقم نکالی جاتی تھی وہ ملاؤں کو ملتی تھی اور وہی ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ نفاذ شریعت کے بعد وہ اس کے حق دار نہ تھے کہ عشر از روے فقہ صرف امام ریاست کا حق ہے۔۹؂ مزید براں قبائل میں ایک رسم یہ تھی کہ ایک بھاری رقم لے کر لڑکیوں کی شادی کی جاتی تھی، جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں بڑی عمر تک گھروں میں بیٹھی رہ جاتی تھیں۔۱۰؂ یہ رسم دختر فروشی کے مترادف تھی۔ نفاذ شریعت کے ساتھ ہی اس غیر اسلامی رسم کا خاتمہ کردیا گیا۔ اس حکم کو سرحدی مسلمانوں نے پسند نہیں کیا۔۱۱؂

سید صاحب کے بعض رفقا کا غیر حکیمانہ طرز عمل بھی موجب فتنہ بنا۔ انھوں نے نفاذ شریعت میں تشدد سے کام لیا۔ باپ دادا کے رسوم پر چلنے والوں کو کافر قرار دیا گیا۔۱۲؂ مولوی خیر الدین شیر کوٹی نے سید صاحب سے شکایت کی کہ ’’مجھے جس بستی میں اترنے کا اتفاق ہوا وہاں کے لوگوں کو قاضیوں کا شکوہ گزار پایا۔ وہ بعض اوقات معمولی خطاؤں پر زیادہ جرمانہ لیتے ہیں۔‘‘۱۳؂

انھی اسباب سے سرحدی مسلمان بالخصوص اہل سمہ تحریک جہاد کے خلاف ہوگئے اور قاضیوں اور عشر وصول کرنے والوں کی شہادت کا الم ناک واقعہ پیش آیا جو بالآخر تحریک جہاد کی ناکامی پر منتج ہوا۔

ماننا ہوگا کہ نفاذ شریعت ایک عاجلانہ قدم تھا۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایک طویل مدت تک اہل سرحد کی دینی اور اخلاقی تربیت کی جاتی اور خود ان کے علما کو اصلاح معاشرہ کے لیے تیار کیا جاتا۔ سکھوں سے محاذ آرائی کے پیش نظر بھی اس معاملے میں محتاط روش درکار تھی۔ لیکن سید صاحب کے مزاج میں جو عجلت تھی، جس پر تفصیلی گفتگو ہم آگے چل کر کریں گے، اس نے ان کو زیادہ سوچنے کا موقع نہیں دیا اوران سے ایک بڑی غلطی سرزد ہوئی۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

’’سید صاحب اور شاہ اسماعیل شہید نے جس علاقہ میں جاکر جہاد کیا اورجہاں اسلامی حکومت قائم کی، اس علاقہ کو اس انقلاب کے لیے پہلے اچھی طرح تیار نہیں کیا تھا۔ ان کا لشکر تو یقیناًبہترین اخلاقی و روحانی تربیت پائے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھا۔ مگر یہ لوگ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے جمع ہوئے تھے اور شمالی مغربی ہندوستان میں ان کی حیثیت مہاجرین کی سی تھی۔ اس علاقہ میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ خود اس علاقہ ہی کی آبادی میں پہلے اخلاقی و ذہنی انقلاب برپا کردیا جاتا تاکہ مقامی لوگ اسلامی نظام حکومت کو سمجھنے اور اس کے انصار بننے کے قابل ہوجاتے۔ دونوں لیڈر غالباً اس غلطی میں مبتلا ہوگئے کہ سرحد کے لوگ چونکہ مسلمان ہیں اور غیر مسلم اقتدار کے ستائے ہوئے بھی ہیں، اس لیے وہ اسلامی حکومت کا خیر مقدم کریں گے۔ اسی وجہ سے انھوں نے جاتے ہی وہاں جہاد شروع کردیا اور جتنا ملک قابو میں آیا اس پر اسلامی خلافت قائم کردی۔ لیکن بالآخر تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ نام کے مسلمانوں کو اصلی مسلمان سمجھنا اور ان سے وہ توقعات رکھنا جو اصلی مسلمانوں ہی سے پوری ہوسکتی ہیں، محض ایک دھوکا تھا۔ وہ لوگ خلافت کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ جب ان پر یہ بوجھ رکھا گیا تو خود بھی گرے اور اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے۔‘‘۱۴؂

مولانا کا یہ تبصرہ بالکل صحیح اور حقائق پر مبنی ہے۔ تحریک جہاد کی ناکامی میں جو داخلی اسباب موثر ثابت ہوئے ان میں اتحاد فکر و عمل کا فقدان، عجلت وبے صبری، شخصیت پرستی اور توکل کا غیر قرآنی تصور جیسے عوامل زیادہ اہم ہیں۔ تفصیل درج ذیل ہے۔

اتحاد فکر و عمل کا فقدان

راقم کے نزدیک تحریک جہاد کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اس میں اتحاد فکر و عمل کا فقدان ہے۔ ایک طرف سکھ تھے جو ایک ہی لیڈر کے زیر قیادت پوری طرح منظم تھے اور ان کا ایک ہی مقصد تھا یعنی سکھ ریاست کا استحکام اور اس کی توسیع۔ اس مقصدکے لیے پوری قوم سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار تھی۔ دوسری طرف مسلمان تھے جن کا کوئی واحد قائد نہیں تھا۔ سید صاحب کی حیثیت بیعت امامت کے بعد زیادہ سے زیادہ امیر جہاد کی تھی۔ سرحدی قبائل کے سرداروں نے انھیں حاکم ریاست کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا، بلکہ امیر جہاد کی حیثیت کو بھی انھوں نے بجبر و اکراہ قبول کیا تھا۔ خود قبائلی سردار باہم شیر وشکر نہ تھے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔ طرفہ ستم یہ کہ سید صاحب کی جماعت بھی پوری طرح متحد نہیں تھی۔ مولوی محبوب علی دہلوی کو سید صاحب کے طرز زندگی پر سخت اعتراض تھا۔ مثلاً یہ کہ ’’وہ نفیس لباس پہنتے ہیں، لذیذ کھانا کھاتے ہیں، اس کے برعکس مجاہدین چکیاں چلاتے ہیں، گھاس چھیلتے ہیں اور پاؤ بھر غلہ پاتے ہیں۔‘‘۱۵؂

تحریک جہاد کا مقصد بھی ایک نہ تھا، ہندوستانی مجاہدین بلاشبہ دل سے چاہتے تھے کہ سکھوں کا اقتدار نیست و نابود ہو اور اس کی جگہ مسلم اقتدار قائم ہو۔ اس مقصدکے لیے وہ نذرانۂ دل و جاں پیش کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن زیادہ تر سرحدی مسلمان اس نیک جذبے سے خالی تھے۔ ان کے مقاصد دنیوی تھے یعنی حصول مال و زر وغیرہ۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:

’’اکوڑے او ربازار کی لڑائیوں سے یہ حقیقت واضح ہوچکی تھی کہ اہل سرحد میں نظم وجمعیت قطعاً موجود نہیں اور نہ ان کے سامنے دینی مقاصد ہیں۔ سید صاحب کا ساتھ دیتے، تو اس لیے نہیں کہ ان بلند اغراض کے لیے جان لڑائیں جن کی خاطر سید صاحب رائے بریلی سے نکل کر سرحد پہنچے تھے۔ محض مال کی خاطر معیت اختیار کرتے۔ جب مال مل جاتا تو رزم وپیکار کی ہر مصلحت سے بے پروا ہوکر گھروں کی راہ لیتے۔‘‘۱۶؂

چنانچہ جنگ شید و میں، جو سکھوں سے پہلی دو بدوجنگ تھی، مسلمانوں کے جماعتی نقائص کھل کر سامنے آگئے۔ یار محمد خاں، حاکم پشاور نے غداری کی اور سکھوں سے ساز باز کرکے نہ صرف جنگ میں کوئی حصہ نہ لیا، بلکہ سید صاحب کو کھانے میں زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ انجام کار مسلمانوں کو شکست ہوئی اور چھ ہزار غازی شہید ہوئے۔ ۱۷؂

اس بدترین شکست کے بعد بھی مسلمانوں کے ارباب حل وعقد نے احتساب عمل کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی، بلکہ الٹا ان کی صفوں میں مزید انتشار پیدا ہوگیا اور باہم خوں ریزی شروع ہوگئی جس کا سلسلہ مجاہدین کے قتل عام پر ختم ہوا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ ان کو عین حالت نماز میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا۔ ۱۸؂ تحریک جہاد کا یہ ایک دردناک باب ہے۔

عجلت و بے صبری

تحریک جہاد کی ناکامی کی دوسری بڑی وجہ امیر جہاد کی عجلت وبے صبری ہے، جو ان کے مزاج میں پختہ ہوچکی تھی۔ یہ خرابی اگر کسی فرد میں ہو تو اس کے لیے سخت مضرت رساں ہے اور اگر کسی جماعت کے امیر میں ہو تو پھر اس جماعت کی تباہی یقینی ہے۔

مورخین کے بیان کے مطابق سید صاحب اپنے رفقا کے ساتھ ہندوستان سے چل کر پہلے کابل پہنچے اور وہاں سے براہ خیبر پشاور میں داخل ہوئے، پھر وہاں سے نوشہرہ پہنچے۔ اس وقت مجاہدین کی کل تعداد پندرہ سو تھی جن میں پانچ سو ہندوستانی تھے۔۱۹؂ ان مجاہدین کی جنگی بے سروسامانی کا حال یہ تھا کہ سب کے پاس بندوقیں بھی نہ تھیں۔۲۰؂ سامان حرب کی قلت کے علاوہ مجاہدین دوسری مشکلات سے بھی دوچار تھے۔ ’’سردی کا موسم تھا، برف باری ہورہی تھی اور ان کے پاس نہ رہنے کو مکان تھے، نہ اوڑھنے کو کپڑے، اس کے علاوہ فاقہ کشی ایک اور جاں گداز مصیبت تھی۔ مجاہدین کے پاس کھانے کو کوئی چیز نہ تھی۔ کئی کئی دن فاقے کرتے یا درختوں کی پتیاں ابال کر بھوک کی آگ بجھاتے۔‘‘ ۲۱؂ ان کے بالمقابل سکھ تھے جن کی تعداد سات سے دس ہزار تک تھی اور وہ پوری طرح مسلح تھے۔ ان کے پاس کثیر تعداد میں بندوقوں کے علاوہ آٹھ توپیں بھی تھیں۔ ۲۲؂

اس ناموافق صورت حال کا لازمی تقاضا تھا کہ سید صاحب مجاہدین کی حالت زار کی طرف توجہ کرتے اور اسلامی لشکر کی حربی اور غیر حربی ضرورتوں کو حتی المقدور پورا کرتے، لیکن ان کی عجلت پسند طبیعت نے ان ضروری امور سے صرف نظر کرلیا اور انجام کار جنگ شیدو میں شکست ہوئی جیساکہ پہلے بیان ہوا۔

یہی عجلت وبے صبری تھی جو بالاکوٹ کی جنگ میں تحریک جہاد کی فیصلہ کن شکست کی ایک بڑی وجہ ثابت ہوئی۔ اس موقع پر لڑائی کی جو اسکیم باہمی مشورہ سے تیار کی گئی وہ یہ تھی کہ ’’سکھ مٹی کو ٹ سے اتر کر ٹیلے اور قصبے کے درمیان نشیب میں پہنچیں تو ان پر حملہ کیا جائے، اس نشیب میں زیادہ تر شالی کے کھیت تھے، ان میں رات کو پانی چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ زمین دلدل بن کر زیادہ سے زیادہ ناقابل گزر ہو جائے۔ ماحول کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بہترین اسکیم تھی۔ اس لیے کہ سکھ جب اوپر سے اتر کر نشیب میں پہنچ جاتے تو پہلے انھیں دلدل سے سابقہ پڑتا۔ اسے عبور کرلیتے تو پھر قصبے کی سمت میں ان کے سامنے چڑھائی تھی۔ دونوں صورتیں ان کے لیے خطرناک تھیں۔ دلدل میں آگے پیچھے یا دائیں بائیں نقل و حرکت مشکل تھی۔ دلدل سے گزر کر چڑھائی میں ان کے سانس پھول جاتے اور تیزی سے پیش قدمی نہ کرسکتے۔ غازی دلدل سے باہر کھڑے کھڑے ان پر گولیاں برسا سکتے تھے، جو سکھ دلدل سے گزر آتے ان پر چڑھائی کے وقت حملہ کرسکتے تھے۔ اسی اسکیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مختلف جماعتوں کو مناسب مقامات پر مورچہ بندی کا حکم دیا گیا۔‘‘ ۲۳؂

بالاکوٹ کے محل وقوع کے اعتبار سے یہ ایک بہترین دفاعی اسکیم تھی۔ سید صاحب نے شہادت سے گیارہ دن پہلے نواب محمد وزیر خاں، والی ٹونک کو جو خط لکھا وہ ملاحظہ ہو:

’’میں پکھلی کے پہاڑوں میں آگیا ہوں، یہاں کے باشندے حسن اخلاق سے پیش آئے اور کاروبار جہاد میں اعانت کے پختہ وعدے کیے اورہمیں قیام کے لیے جگہ دی۔ چنانچہ فی الحال قصبہ بالاکوٹ میں جمعیت خاطر کے ساتھ ٹھہرا ہوں۔ کفار کا لشکر بھی مجاہدین کے مقابلے کی غرض سے تین چار کوس پر ڈیرے ڈالے پڑا ہے۔ چونکہ یہ مقام (بالاکوٹ) نہایت محفوظ ہے، لشکر خدا کے فضل سے یہاں تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔‘‘۲۴؂

لیکن قارئین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مذکورہ دفاعی اسکیم کی خلاف ورزی کسی عام مجاہد نے نہیں، بلکہ امیر جہاد سید صاحب نے کی۔ غلام رسول مہر لکھتے ہیں:

’’اس پر سب کو تعجب ہوا، اس لیے کہ لڑائی کی جو اسکیم پہلے سے طے ہوچکی تھی وہ یہ تھی کہ جب تک سکھ نشیب میں نہ پہنچ جائیں ان پر حملہ نہ کیا جائے۔ وہ ابھی نشیب سے دور تھے کہ خود سید صاحب نے حملہ کردیا۔‘‘۲۵؂

یہ حملہ نہیں، خودکشی کا ایک عمل تھا۔ سید صاحب نے رات کے وقت بالاکوٹ کے نشیبی حصے میں، جیسا کہ بیان ہوا، پانی چھڑوادیا تھا تاکہ وہ دلدل ہوجائے اور سکھوں کے لیے پیش قدمی دشوار ہو۔ لیکن اب وہ اپنے ہی دام میں گرفتار ہوگئے۔ خود ان کے اور ان کے ساتھیوں کے پیر کیچڑ میں پھنس گئے۔ لعل محمد جگدیش پوری کا بیان ہے کہ ’’سید صاحب اوپر کی مسجد سے نیچے کی چھوٹی مسجد میں تشریف لائے، تھوڑی دیر ٹھہر کر ہلہ کیا اور تکبیر کہتے ہوئے آگے بڑھے۔ جن کھیتوں میں رات کو چشمے کا پانی چھڑوایا تھا ان میں جا پہنچے۔ ایک جگہ مینڈ سے آپ کا پاؤں پھسل کر کیچڑ میں جاتا رہا اور اس پاؤں کا جوتا اسی کیچڑ میں رہ گیا۔ میں نے جلد اس کو کیچڑ سے نکال کر حضرت کے پاؤں میں پہنادیا۔ آپ تو آگے چلے گئے۔ کچھ دور چل کر میرا بھی پاؤں پھسل کر کیچڑ میں چلاگیا۔‘‘۲۶؂

اس عاجلانہ اقدام کے نتیجے میں نہ صرف مجاہدین کو شکست فاش ہوئی، بلکہ تحریک جہاد کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہوگیا۔ اسی لڑائی میں سید صاحب کے ساتھ سید اسماعیل صاحب نے بھی جام شہادت نوش کیا۔۲۷؂

شخصیت پرستی

تحریک جہاد کی ناکامی کی تیسری اہم وجہ شخصیت پرستی ہے۔ اس تحریک میں سید صاحب کی حیثیت محض امیر جہاد کی نہ تھی، بلکہ وہ شیخ طریقت یعنی مجاہدین کے پیر و مرشد بھی تھے۔ ان کی نظرو ں میں تحریک جہاد اور سید صاحب لازم و ملزوم تھے۔ ان کی ذات سے ہٹ کر تحریک جہاد کا کوئی تصور ان کے ذہنوں میں نہ تھا۔ چنانچہ جس وقت بالاکوٹ کی جنگ میں یہ خبر پھیلی کہ سید صاحب شہید ہوگئے ہیں تو مجاہدین کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور انھوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا۔ سید جعفر علی نقوی لکھتے ہیں:

’’دوران جنگ میں سید صاحب کی گم شدگی کی خبر سن کر جاں نثار ارادت مندوں نے لڑائی سے ہاتھ کھینچ لیا اور بے قرار ہوکر آپ کی تلاش میں سوبہ سو پھرنے لگے۔ سکھوں کی گولیاں جو شربت شہادت سے لبریز تھیں، کھا کھاکر رحمت الہٰی کی آغوش میں پہنچتے رہے۔‘‘۲۸؂

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’میں اور منشی محمد انصاری پاس پاس کھڑے لڑ رہے تھے۔ اچانک قاضی علاء الدین لڑائی سے دست کش ہوکر حضرت کا حال پوچھتے ہوئے آئے، منشی انصاری نے بھی لڑنا چھوڑ دیا اور حضرت کی تلاش میں بائیں جانب چلے گئے۔ اسی حالت میں یہ دونوں بزرگ گولیاں کھاکر شہید ہوگئے۔‘‘ ۲۹؂

اسلام میں اصل اہمیت خدا کے دین اور اس کے قیام و استحکام کوحاصل ہے نہ کہ کسی فرد اور جماعت سے اندھی جذباتی وابستگی۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ مجاہدین کا لشکر بہت سی خوبیوں کے باوجود اس معاملے میں نقطۂ اعتدال سے ہٹا ہوا تھا۔

یہ ٹھیک وہی غلطی تھی جس کا صدور دور رسالت میں جنگ احد کے موقع پر ہوا۔ دوران جنگ میں یہ خبر مشہور ہوگئی کہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔یہ خبر سن کر صحابہ دل شکستہ ہوگئے اور ان کی ایک جماعت لڑائی سے دست کش ہوگئی۔قرآن میں صحابہ کو ان کی اس غلطی پر متنبہ کیا گیا ہے: ’’محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو بس ایک رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔ تو کیا اگر وہ وفات پاگئے یا قتل کردیے گئے تو تم پیٹھ پیچھے پھر جاؤگے۔ جو پیٹھ پیچھے پھر جائے گا وہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا اور اللہ شاکروں کو ضرور بدلہ دے گا۔‘‘ (سورۂ آل عمران۳: ۱۴۴) لیکن مجاہدین نے قرآن کی اس تنبیہ پر کوئی توجہ نہ دی۔

توکل کا غیر قرآنی تصور

تحریک کی ناکامی کا چوتھا اہم سبب توکل کا غیر قرآنی تصور ہے۔ صوفیا کی جماعت نے اس معاملے میں ہر دورمیں بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا ہے۔۳۰؂ قرآن مجید میں صاف لفظوں میں توکل اور تدبیر کے التزام کی تلقین کی گئی ہے۔ عین حالت جنگ میں صحابہ کو نماز باجماعت کی ادائیگی کاحکم دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اسلحے لیے رہیں کہ مبادا کفار ان کو غافل پاکر حملہ کردیں۔ (سورۂ نساء۴: ۱۰۲) تدبیر اور توکل میں جو لطیف ربط ہے اس کا ذکر قرآن مجید کی ایک دوسری سورہ میں اس طرح ہوا ہے:

’’اور اس نے کہا، تم سب ایک ہی دروازے سے (شہر میں) داخل نہ ہونا، بلکہ متفرق دروازوں سے جانا۔ میں اللہ کے فیصلہ کے مقابلے میں تمھارے کسی کام نہیں آسکتا۔فیصلہ کرنا بس اللہ کا کام ہے (اس ظاہری تدبیر کے باوجود) میں اسی پر بھروسا رکھتا ہوں اور بھروسا کرنے والوں کو اسی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘ (سورۂ یوسف۱۲: ۶۷)

اس آیت کے مطابق اللہ کے ایک پیغمبر یعنی یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ جب وہ غلہ لینے کے لیے مصر میں داخل ہوں تو کس تدبیر سے داخل ہوں۔ لیکن اس تعلیم کے فوراً بعد یہ بھی ارشاد ہوتا ہے کہ اس تدبیر سے تم یہ نہ سمجھ لینا کہ میں اللہ کے کسی فیصلہ کو ٹال سکتا ہوں۔ انسان صرف تدبیر کا مکلف ہے، فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس خوب صورتی سے اللہ کے اس پیغمبر نے تدبیر اور توکل کے باہمی ربط کی وضاحت کی ہے اس سے بہتر اس کی وضاحت ممکن نہیں ہے۔۳۱؂

مقام حیرت ہے کہ قرآن مجید کی اس تعلیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی موجودگی میں سید صاحب نے بالاکوٹ کی جنگ میں تدبیر سے بے اعتنائی دکھائی۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر سید صاحب چاہتے تو بالاکوٹ میں سکھوں کے نرغے سے بچ کر نکل سکتے تھے۔ مثلاً وہ پہاڑوں پر چلے جاتے۔ بعض مخلصوں نے، جن میں ناصر خاں اور حبیب اللہ خاں قابل ذکر ہیں، اس کا مشورہ بھی دیا۔۳۲؂ یہ بھی ممکن تھا کہ پل پر سے گزر کر مشرقی کنارے پر چلے جاتے یا وادی کا غان میں جا ٹھہرتے، جہاں کے سادات حمایت کے لیے تیار تھے۔۳۳؂ لیکن سید صاحب نے ان تمام مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو مع لشکر دیدہ و دانستہ ہلاکت میں ڈالا۔ سوال یہ ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب ان کے ایک معتقد کے لفظوں میں ملاحظہ ہو:

’’بالاکوٹ آتے وقت پہاڑ پر ٹھہر گئے تھے اور رات کے وقت دیر تک درختوں کے جھنڈ میں رہے تھے تو اسی وقت سے طبیعت میں ایک غیر معمولی تغیر پیدا ہوگیا تھا۔ تدابیر پر بہت کم توجہ دیتے تھے، زیادہ تر تقدیر پر توکل و اعتماد کے کلمات زبان پر جاری رہتے تھے۔‘‘۳۴؂

اس جواب سے توکل اور تدبیر کی بے ربطی صاف ظاہر ہے، اور یہ خیال قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ کوئی فرد، خواہ وہ کتنا ہی متقی ہو، خدا کی سنت کی خلاف ورزی کرکے اس کے نتائج سے نہیں بچ سکتا ہے اور سید صاحب کو بھی یہ جرعۂ تلخ پینا پڑا۔ چونکہ سید صاحب امیر جہاد تھے، اس لیے ان کی بے تدبیری کے نتائج بد سے مجاہدین کی جماعت کو بھی دوچار ہونا پڑا۔

متذکرہ بالا اسباب و حقائق کی روشنی میں اگر غور کیا جائے تو تحریک جہاد کی ناکامی پرکوئی تعجب نہ ہوگا۔ اگر نتیجہ اس کے برعکس نکلتا تو اس کو معجزہ ہی کہا جاتا۔ خدا کی اس دنیا میں، جو حکیمانہ سلسلۂ اسباب سے مربوط ہے، ضروری اسباب و تدابیر سے چشم پوشی کرکے کامیابی کی امید رکھنا دراصل زمین شور سے روئیدگی کی توقع رکھنے کے مترادف ہے۔

———————

۱؂ تفصیل کے لیے دیکھیے: سیرت سید احمد شہید،حصۂ اول مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، لکھنؤ ۱۹۸۶ء ۔

۲؂ تجدید واحیائے دین، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، دار السلام جمال پور، پٹھان کوٹ پنجاب (چوتھا ایڈیشن)۷۱۔

۳؂ موج کوثر، شیخ محمد اکرام، لاہور (آٹھواں ایڈیشن) ۱۹۶۸، ۳۱، ۳۲۔

۴؂ سید احمد شہید حصۂ اول، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۳۷۴۔

۵؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۸۶۔

۶؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۱۷۔

۷؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۲۷۔

۸؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۸۸۔

۹؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۱۲، ۲۱۳، مزید دیکھیے: موج کوثر، ۳۰۔

۱۰؂ سید احمد شہید ، حصۂ دوم، غلام رسول مہر، کتاب منزل، کشمیری بازار، لاہور ۱۹۵۲، ۲۱۲، ۲۱۳، مزید دیکھیے: موج کوثر، ۵۶۔

۱۱؂ رسم دختر فروشی کے خاتمہ کے ساتھ ہی بارہ دن کے اندر بالغ افغان لڑکیوں کی شادی کا حکم دیا گیا۔ (دیکھیے: تاریخ مسلمانان پاکستان وبھارت مؤلفہ: سیدہاشمی فرید آبادی، پاکستان، کراچی ۱۹۵۳ء، ۲۹۷) بہت سی افغان لڑکیاں ہندی مجاہدین سے بھی منسوب ہوگئیں۔ افغانوں کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ ان کی لڑکیوں کی شادی جبراً اور وہ بھی غیر افغانوں سے ہو۔دیکھیے: سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۲۸۲، ۲۹۲، ۳۲۶۔

۱۲؂ سید احمد شہید، ۲۱۷۔ مزید دیکھیے: موج کوثر، ۳۰۔

۱۳؂ موج کوثر، ۳۱۔

۱۴؂ تجدید واحیائے دین، ۷۵۔ مزید دیکھیے: موج کوثر، ۳۱۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جماعتوں اور قوموں کی نفسیات میں بڑی مشابہت ہے۔ ماضی میں جو غلطیاں بعض افراد یا جماعتوں کی طرف سے صادر ہوچکی ہوتی ہیں انھی غلطیوں کو بعد میں آنے والے لوگ مختلف عوامل کے زیر اثر دہرانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا۔ سید صاحب کی تحریک جہاد کی ناکامی کا صحیح جائزہ لینے کے باوجود انھوں نے ٹھیک وہ غلطی کی جو تحریک جہاد کے قائدین سے سرزد ہوچکی تھی، یعنی مسلمانوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے بغیر پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی کوشش۔

۱۵؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۲۷۔

۱۶؂ سید احمد شہید، حصۂ اول، ۳۲۷۔

۱۷؂ سید احمد شہید، حصۂ اول، ۴۰۱۔

۱۸؂ موج کوثر،۳۲۔

۱۹؂ شیخ محمد اکرام نے مجاہدین کی تعداد پانچ سات ہزار لکھی ہے جو صحیح نہیں ہے۔ دیکھیے: موج کوثر، ۲۵۔

۲۰؂ سید احمد شہید، حصۂ اول، ۳۴۹۔

۲۱؂ موج کوثر، ۲۶، ۲۷۔

۲۲؂ سید احمد شہید، حصۂ اول، ۳۴۹۔

۲۳؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۸۵۔

۲۴؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۷۸۔

۲۵؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۹۴۔

۲۶؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۹۷۔

۲۷؂ بالاکوٹ کے حادثۂ فاجعہ سے ثابت ہوگیا کہ زہد و تقویٰ، جو اں مردی اور خیر خواہی امت جیسے اوصاف کے باوجود سید صاحب کے اندر فوجی قیادت کی صلاحیت کی بے حد کمی تھی۔ ان کے مقابلے میں سید اسماعیل شہید کے اندر یہ وصف بدرجۂ اتم موجود تھا اور مختلف مواقع جنگ پر اس کا مظاہرہ بھی ہوا۔ اگر اسلامی لشکر کی زمام انتظام ان کے ہاتھ میں ہوتی تو عجب نہیں کہ جنگ بالاکوٹ کا نقشہ کچھ دوسرا ہوتا۔

۲۸؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۴۱۷۔

۲۹؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۴۲۳۔

۳۰؂ توحید کا قرآنی تصور، الطاف احمداعظمی، مطبوعہ دہلی ۱۹۹۰ء، ۱۶۵ ۔۱۶۸، مزید دیکھیے: راقم ہی کی کتاب: وحدۃ الوجود، ایک غیر اسلامی نظریہ، باب اول۔

۳۱؂ توحید کا قرآنی تصور، ۱۷۵،۱۷۸۔

۳۲؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۸۱۔

ناصر خاں نے سید صاحب کو مشورہ دیا کہ پیچھے پہاڑ پر چلا جانا بہتر ہے۔ اس کے جواب میں سید صاحب نے فرمایا ’’خان بھائی! آپ کہتے تو سچ ہیں، لیکن اب کفار کے ساتھ یہیں لڑیں گے۔‘‘ (سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۸۱)

۳۳؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۸۳۔

۳۴؂ سید احمد شہید، حصۂ دوم، ۳۸۳۔

————————————

B