[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مضمون کی دوسری قسط کو حافظ محمد زبیر سلفی صاحب نے دلیل ثانی کے طور پر حکمت قرآن کے جنوری ۲۰۰۶ کے شمارے میں پیش کیا ہے۔ اس میں مضمون نگار نے سورۂ نور کی آیت ۳۰ اور ۳۱ کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے ان آیات مبارکہ کی تحقیق میں کوتاہی کی ہے۔سورۂ احزاب کی آیات کے سلسلہ میں میں نے اس تمنا کا اظہار کیاتھا کہ کاش صاحب مضمون ان آیات کے بارے میں عربی مفسرین کا اسی طرح حوالہ دیتے جس طرح انھوں نے سورۂ احزاب کی آیات میں ان کے اقوال کو نقل کر کے قارئین کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے کہ گویا پردے کے اصل احکام یہی ہیں۔ حالانکہ اس آیت میں پردے کے حدود بیان نہیں ہوئے، اس لیے اس سے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ چہرے کا چھپانا واجب ہے یا نہیں؟ پردے کی حدود کو متعین کرنے والی سورۂ نور کی آیات ہیں جن کے بارے میں مضمون نگار نے مفسرین کے اقوال کو نقل کرنے میں دانستہ طور پر پہلو تہی کی ہے۔
سب سے پہلے فاضل مضمون نگار نے قرآن میں زینت کے مفہوم پر بحث کی ہے اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ چونکہ قرآن میں زیادہ تر زینت کا لفظ کپڑوں یا بناؤ سنگار کی مادی چیزوں کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ عورت کے اعضا کے لیے، اس لیے چہرہ زینت کے مفہوم میں داخل نہیں۔ قرآن حکیم کے کسی مفسر نے وہ نتیجہ نہیں نکالا جو صاحب مضمون نے نکالا ہے۔ میں زینت کے بارے میں صاحب کشاف اور امام رازی کی فطری اور مصنوعی زینت کی بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے حافظ صاحب سے ایک سادہ سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ اگر عورت نے بازو بند، گلو بند، کمر بند، بالیاں اور پازیب نہ پہن رکھے ہوں تو ان زینتوں کو تمام مردوں کے لیے دیکھنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا اللہ کے قول ’لا یبدین زینتہن الا لبعولتہن‘ (اور نہ ظاہر کریں اپنی زینت کو، مگر اپنے شوہروں کے سامنے) میں بھی زینت سے مراد کپڑے اور بناؤ سنگار کی مادی چیزیں ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ آیت زیر بحث میں زینت سے مراد مقامات زینت ہیں وگرنہ معاذاللہ پوری آیت کا کوئی مفہوم نہ نکلے گا۔ اس بات کی طرف ابو بکر جصاص نے احکام القرآن (۳: ۳۱۶) میں توجہ دلائی ہے۔ حافظ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے مذعومہ خیالات کی تائید کے لیے اتنی بڑی جسارت سے کام نہ لیں، جو تحریف کے زمرے میں ہو۔ لباس کو صرف اس وقت زینت کہاجا سکتا ہے جب بدن کا کوئی حصہ نمایاں ہو، لیکن اگر عورت نے پورا بدن جلباب سے ڈھانپ رکھا ہو تو ہم اس لباس کو زینت نہیں کہہ سکتے۔ معلوم ہو اکہ زینت سے مراد عضو زینت ہے، اسے کپڑوں سے تعبیر کرنا بے معنی ہے۔ کیونکہ بدن کے علاوہ کپڑوں کو دیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ انھیں نہ پہننے کی صورت میں دیکھ رہے ہوں۔ جن زینتوں کا ظاہر کرنا جائز ہے، ان مقامات زینت کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے اور جن زینتوں کو چھپانا واجب ہے، ان مقامات کو چھپانا بھی واجب ہے۔ اس صورت میں اس کا کوئی مفہوم نہیں نکلتا کہ عورتیں اپنی زینتوں کو آشکار نہ کریں، مگر وہ لباس جو اوپر پہنا جاتا ہے۔ اوپر پہنا جانے والا لباس قابل اخفا نہیں جس سے استثنا کیا جائے، لیکن اس کے برعکس ابن عباس، ابن عمر اور تابعین میں سے سعید بن جبیر، مجاہد، مسور بن مخرمہ، عبدالرحمان بن زید، عکرمہ، جابر بن زید، عطاء بن ابی رباح اور ضحاک نے اس زینت سے مراد جس کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، چہرہ، ہتھیلی اور ان کی زینت یا صرف چہرہ اور ہتھیلی لیے ہیں۔ قدیم وجدید تمام مفسرین نے ’الا ما ظہر منہا‘ کی تفسیر ابن عباس یا ابن عمر کے قول کے مطابق کی ہے۔ جمہور علما کا یہی مسلک ہے جیسا کہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ (۱: ۸۹) میں لکھا ہے۔ ان علما میں سے ائمۂ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ، مالک اور شافعی کا یہی مسلک ہے اور امام احمد بن حنبل کا ایک قول بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ ابن ہبیرہ حنبلی نے اپنی کتاب’’الافصاح‘‘ میں لکھا ہے کہ ائمۂ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے کہ چہرہ قابل پوشیدگی نہیں اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔ ابن قدامہ اور دیگر حنبلی فقہا نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ علامہ ابن مفلح حنبلی کا قول ہے کہ عورت پر واجب نہیں کہ وہ اپنا چہرہ چھپائے، بلکہ مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کرلے۔ ائمۂ اربعہ کے علاوہ امام اوزاعی، امام ابن حزم اور دور جدید میں یوسف القرضاوی اور شیخ محمد غزالی جیسے فقہا کی بھی یہی رائے ہے۔ عہد رسالت اور خلافت راشدہ میں اسی کے مطابق عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے ثبوت میں علم حدیث کے محقق علامہ البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۶۰ سے لے کر ۷۲ تک تیرہ مستند احادیث اور صفحہ ۹۶ سے لے کر صفحہ ۱۰۳ تک ۱۶ مستند آثار نقل کیے ہیں۔ مضمون نگارنے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کے اقوال پر تنقید کی ہے۔ مگر انھوں نے جن روایات پر تنقید کی ہے وہ تفسیر طبری میں ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ (۳: ۳۸۳) میں زیاد بن ربیع، صالح الدھان اور جابر بن زید کے حوالہ سے ابن عباس کا قول ہے جس میں راوی مسلم الملائی موجود ہی نہیں۔ دوسری روایت جو انھوں نے امام بیہقی سے نقل کی ہے وہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی ہے اور اس میں احمد بن عبدالجبار موجود ہی نہیں جسے حافظ صاحب ضعیف ٹھہرا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی کتاب میں دوتین اور روایات ہیں جو ان اقوال کی تصدیق کرتی ہیں۔ علامہ البانی نے مصنف ابن ابی شیبہ میں عبداللہ بن عباس کے اقوال کو اپنی کتاب کے صفحہ۵۹ پر صحیح قرار دیا ہے۔ یہ مضمون نگا ر کی صریح دیدہ دلیری ہے کہ وہ ان اقوال کو قرآن کے سیاق وسباق کے منافی قرار دے رہے ہیں گویا اکیسویں صدی میں جو بات حافظ محمد زبیر کو سمجھ آئی ہے اس کا ادراک کسی مفسر، کسی محدث اور کسی فقیہ کو نہیں ہوا۔
مضمون نگار حضرت عائشہ سے مروی ابو داؤد کی روایت کو گول کر گئے ہیں، جس کو کم وبیش سب مفسرین نے ’الا ما ظہر منھا‘ کی تفسیر کے سلسلہ میں پیش کیا ہے جو اگرچہ مرسل ہے، مگر اس کی تقویت امام بیہقی، امام ذہبی، امام منذری، امام شوکانی، زیلعی اور ابن حجر عسقلانی کے پائے کے محدثین نے کی ہے۔ امام بیہقی ابن عباس کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ دیگر صحابہ نے زینت ظاہرہ کی جو تعریف کی ہے اس سے اس قول کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
رہا عبداللہ بن مسعود کا قول تو اس کی طرف کسی صاحب علم نے توجہ نہیں دی۔ علامہ البانی نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵۳ پر اس کے دو سبب بیان کیے ہیں:
ایک یہ کہ ابن مسعود نے زینت ظاہرہ سے مراد مطلقاً کپڑے تو لیے ہیں، مگر اس اطلاق کا اقرار بھی نہیں کرتے۔ کپڑوں میں تو داخلی کپڑے بھی شامل ہیں، مگر وہ اس سے مراد صرف اوپر والے کپڑے یعنی جلباب لیتے ہیں۔ زینت کا اطلاق تو داخلی کپڑوں پر ہوتاہے نہ کہ ظاہری کپڑوں پر۔
دوسرے یہ کہ یہ تفسیر آیت کے بقیہ حصے یعنی ’لا یبدین زینتہن الا لبعولتہن‘ سے لگا نہیں کھاتی، کیونکہ یہ زینت بعینہٖ وہی ہے جو پہلی زینت ہے۔ عربی زبان کا اسلوب ہے کہ جب اسم معرفہ کو دہرایا جاتا ہے تو وہ بعینہٖ وہی ہوتا ہے جو پہلے مذکور ہو۔
مضمون نگار نے اپنے موقف کی تائید میں ابن عطیہ کے قول کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے استثنا سے مراد وہ چیزلی ہے جو اس پر غالب آجائے۔ امام قرطبی نے ابن عطیہ کے قول پر یوں تبصرہ کیا ہے:
’’میں کہتا ہوں کہ یہ قول خوب ہے، مگر چونکہ چہرے اور ہاتھ میں غالب آنے والی چیز عادتاً اور عبادتاً ان کا ظہور ہے جیسا کہ حج اور نماز میں ہوتا ہے۔ پس مناسب یہی ہے کہ استثنا ان دونوں کے بارے میں ہو۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ابو داؤد نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے۔‘‘
عادتاً اور عبادتاً چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنا پڑتا ہے اور انھیں چھپانے کے لیے تکلف کرنا پڑتا ہے۔ علامہ البانی نے حافظ ابن قطان فاسی کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے۔ اسے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۵۱ سے صفحہ ۵۳ تک دیکھا جا سکتا ہے۔ بڑی ہی بصیرت افروز بحث ہے۔
صاحب مضمون کا کہنا ہے کہ ’’سورۂ نور کے پردے کی آیات گھر کے اندر پردے کے متعلق ہیں نہ کہ گھر کے باہر کے پردے کے، جبکہ گھر سے باہر کے پردے کا ذکر سورۂ احزاب کی آیات میں ہے۔‘‘ سچی بات یہ ہے کہ گھر کے اندر پردے کا مفہوم میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ گھر تو بذات خود پردہ ہوتاہے، پردے کے اندر پردہ کیا معنی؟ اس بات کا ذکر کسی قدیم وجدید عربی مفسر نے نہیں کیا۔ اس بات کو تو صاحب مضمون نے بھی تسلیم کیا ہے جبھی وہ خود فرماتے ہیں کہ اس فرق کو ملحوظ نہ رکھ کر مدت سے علما نے ٹھوکر کھائی ہے۔ ان میں ان کے نزدیک سیدہ عائشہ، ابن عباس، ابن عمر، کبار تابعین ہیں اور انھی میں طبری، زمخشری، رازی، ابن حبان اندلسی، محمود آلوسی، قرطبی، نسفی، طنطاوی جوہری، سید قطب شہید، عبدالحمید کشک اور شیخ طاہر بن عاشور کے مرتبہ کے مفسر ہیں۔ اس سے اگر بچے ہیں تو مولانا حافظ محمد زبیر صاحب سلفی۔
عورت نے تو اجنبی مرد سے پردہ کرنا ہے خواہ وہ گھر کے اندر ہو یا باہر۔ کیا مضمون نگار یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عورت اگر گھر کے اندر ہوتو وہ چہرہ کھلا رکھے گی اور صرف گھر کے باہر چہرہ چھپائے گی؟ اگر یہ بات ہے تو ہمارا یہ موقف ثابت ہوگیا کہ عورت پر اجنبی کے سامنے چہرہ چھپانا واجب نہیں۔ یاوہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ وہ اپنوں کے سامنے بھی نگاہیں نیچی کرکے گھومے پھرے گی اور گھر کے مرد بھی ایسا کریں گے اور وہ محرم مردوں کے سامنے زمین پر پاؤں نہیں مارے گی، اس خوف سے کہ اس کی مخفی زینت ظاہر نہ ہوجائے۔ اگر یہ بات ہے تو حافظ صاحب مجھے کوئی ایسا گھر دکھا دیں، جہاں محرم عورت اور مرد نگاہیں نیچی کر کے رہتے ہوں اور جہاں عورت اس ڈر سے پاؤں زمین پر نہ مارتی ہو کہ کہیں اس کا گھر والا پائل کی جھنکار نہ سن لے۔ سورۂ نور کی آیات ۳۰ اور ۳۱ اپنے مضمون کے لحاظ سے اس رائے کو باطل قرار دیتی ہیں۔ آیت ۳۰ اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ عورت کے جسم میں کوئی ایسی ننگی چیز ضرور ہے جس کی طرف نگاہ اٹھنے کا امکان ہے اور یہ چیز چہرے اور ہاتھوں کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور یہ آیت یہ بھی بتلاتی ہے کہ اس کا تعلق ایسے مقام سے ہے، جہاں اجنبی مرد اور اجنبی عورتیں گھوم پھر رہی ہوں جبھی تو اللہ نے عورت اور مرد کو نگاہیں نیچی رکھنے کا برابر کا حکم دیاہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق، جیسا کہ مضمون نگار کہتے ہیں، گھرکے اندر سے ہے یا گھر کے باہر سے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ آپ کا قول ہے کہ اس کا تعلق گھر سے باہر کے پردہ سے ہے۔ بخاری، مسلم، ابوداؤد، بیہقی اور احمد نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ایاکم والجلوس با لطرقات فاذا ابیتم الا المجالس فاعطوا الطریق حقہ قالوا ما حق الطریق یا رسول اللّٰہ؟ قال غض البصر.
’’تم لوگ سرراہ بیٹھنے سے بچو اور اگرتمھیں بیٹھنا ہی پڑ جائے تو راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول، راستے کاحق کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی کرنا۔‘‘
راستے گھر کے اندر نہیں ہوا کرتے۔ اس نص قطعی کی مخالفت میں یہ جملہ تراشنا کہ اس کا تعلق گھر کے اندر سے ہے، کہاں کا انصاف ہے؟
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’یا علی لا تتبع النظرۃ النظرۃ فان لک الاولی ولیست لک الآخرۃ‘ (اے علی، ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو کیونکہ پہلی نظر تو تمھاری ہے دوسری تمھاری نہیں۔) یعنی پہلی نظر جائز ہے۔ اس روایت کو ابو داؤد، ترمذی اور طحاوی نے بیان کیا ہے۔ حاکم نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح تسلیم کیا ہے۔ امام ذہبی بھی ان سے متفق ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پہلی نظر جو جائز ہے، کہاں پر پڑتی ہے؟ ظاہر ہے کہ چہرے پر۔ گھر کے اندر پڑتی ہے یا باہر، ظاہر ہے کہ گھر کے باہر۔
مسلم، ابو داؤد، ترمذی، دارمی، طحاوی، بیہقی، حاکم اور امام احمد نے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ’سالت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن نظر الفجاۃ فامرنی ان اصرف نظری‘ (میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نظرکے بارے میں پوچھاتو آپ نے مجھے حکم دیا کہ اپنی نظر پھیر لو۔)علامہ ابن مفلح حنبلی نے اپنی کتاب ’’الآداب الشرعیہ‘‘ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا عورت پر اپنا چہرہ چھپانا واجب ہے یا چہرے کو دیکھ کر نگاہیں نیچی کرنا واجب ہے؟ جریر بن عبداللہ سے مروی حدیث بیان کر کے وہ فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں دلیل ہے کہ عورت پر راہ چلتے اپنا چہرہ چھپانا واجب نہیں۔ اسے (زیادہ سے زیادہ) مستحب کہا جا سکتاہے۔ ہاں، مرد پر ہر حالت میں واجب ہے کہ وہ اپنی نگاہیں بچائے، وہ صرف شرعی غرض کے لیے دیکھ سکتا ہے۔ شیخ محی الدین نووی نے بھی اسی بات کا ذکر کیا، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ہمارے اور شافعیوں کے نزدیک اجنبی عورت کی طرف بغیر شہوت اور خلوت کے دیکھنا جائز ہے۔‘‘
’غض البصر‘ کا حکم اس بات کے لیے نص قطعی ہے کہ چہرہ چھپانا واجب نہیں۔ سورۂ نور کی آیت ۳۱ کا یہ ٹکڑا ’ولا یضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن‘ ’’اور اپنے پاؤں کو زمین پر نہ ماریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت کی چیزیں معلوم ہو جائیں (یعنی پازیب کی جھنکار نہ اٹھے)‘‘ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ اس حکم کا تعلق بھی ’ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن‘ کی طرح گھر کے باہر سے ہے نہ کہ گھرکے اندر سے۔ ثابت یہ ہوا کہ سورۂ نور کی آیت ۳۰ اور ۳۱ گھر سے باہر پردے کے بارے میں ہے، اسے گھر کے اندر پردے سے مخصوص کرنا کتاب وسنت کی واضح خلاف ورزی ہے۔
علامہ ناصرالدین ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۸۶ پر رقم طراز ہیں کہ ’’یہ سمجھنا کہ جلباب اوڑھنا صرف گھر سے باہر ضروری ہے، درست نہیں، عورت گھر سے باہر ہو یا گھر کے اندر اسے جلباب پہننا چاہیے۔‘‘ اپنے قول کی تائید میں انھوں نے قیس بن زید کی روایت پیش کی ہے اور صفحہ۸۷ کے حاشیہ میں تفصیل کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے اور بتایا ہے کہ روایت صحیح ہے۔ روایت یوں ہے:
’’بے شک، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ بنت عمر کو طلاق دی... پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں آئے تو انھوں نے جلباب اوڑھ لیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبریل آئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہاکہ حفصہ سے رجوع کرلو وہ تو روزہ دار اور شب بیدار ہیں۔ وہ جنت میں آپ کی بیوی ہوں گی۔‘‘
اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۵ پر حضرت عائشہ سے مروی ایک حدیث ابن سعد کے حوالہ سے پیش کی ہے کہ ’لا بد للمراۃ من ثلاثۃ اثواب تصلی فیہن.درع وجلباب وخمار‘، ’’عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین کپڑوں میں نماز پڑھے۔ قمیص، جلباب (چادر یا گاؤن) اور اوڑھنی۔‘‘ نماز تو عورت گھر کے اندر بھی پڑھتی ہے۔ ضروری نہیں کہ جلباب گھر سے باہر ہی پہنا جائے۔
فاضل مضمون نگار نے آیت کے ایک ایسے ٹکڑے سے جو چہرہ کھلا رکھنے کے بارے میں نص قطعی ہے، بالکل غلط استدلال کیا ہے۔ وہ ٹکڑا ہے: ’ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن‘، ’’چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر اچھی طرح ڈال لیں۔‘‘ مفسرین نے اس ٹکڑے کا شان نزول یہ لکھا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں اپنا دوپٹا سر پر اوڑھ کر اس کے کناروں کو نبطیوں کی مانند پیٹھ پر لٹکا لیتی تھیں، جس سے ان کا گریبان اور سینہ کھلا رہتا تھا۔ یہ حکم اسی بارے میں نازل ہوا ہے۔ امام ابن حزم اندلسی المحلیٰ میں فرماتے ہیں:
فامرہن اللّٰہ تعالیٰ بالضرب بالخمار علی الجیوب. وھذا نص علی ستر العورۃ والعنق والصدر وفیہ نص علی اباحۃ کشف الوجہ، لا یمکن غیر ذلک.( ۳ :۲۱۶، ۲۱۷)
’’پس اللہ نے عورتوں کو اوڑھنیاں سینوں پر اچھی طرح لپیٹنے کا حکم دیا ہے اور یہ آیت ستر گردن اور سینے کو چھپانے کے بارے میں نص کا درجہ رکھتی ہے اور یہ اس بات پر منصوص ہے کہ چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے۔ اس کے علاوہ اس کا اور کوئی مطلب ہوہی نہیں سکتا۔‘‘
آپ نے اندازہ کیا کہ امام موصوف کس پر زور انداز میں کہہ رہے ہیں کہ یہ چہرہ کھلا رکھنے کے بارے میں نص قطعی ہے، اسی لیے اللہ نے اوڑھنیوں کو چہرے پر ڈالنے کا حکم نہیں دیا۔ اور ایک ہمارے حافظ صاحب ہیں جو میبذی اور ایساغوجی کی فرسودہ منطق کی سان پر کلام الہٰی کو چڑھا کر اپنے مزعومہ خیالات کی تائید فرما رہے ہیں۔ پتا نہیں یہ دلالت اولیٰ کس بلا کا نام ہے؟
علامہ البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ صفحہ ۵۷ میں حافظ ابن القطان کے حوالہ سے بتایا ہے کہ سورۂ نور کی آیت کا یہ ٹکڑا ’یدنین علیہن من جلابیبہن‘ کی تفسیر ہے۔ یعنی اس میں ’ادناء‘ کی حد کا تعین کیا گیا ہے کہ وہ اتنا نیچے کیا جائے گا جس سے کانوں کی بالیاں اور گلے کا ہار چھپا رہے گا۔ قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصے کی تفسیر کرتا ہے۔ سورۂ نور کے اس ٹکڑے سے ظاہر ہوگیا کہ چہرہ چھپانا واجب نہیں۔ اس سے لازم آتا ہے کہ چہرہ ’ادناء‘ کی قید سے آزاد ہے، وگرنہ دونوں آیات میں تعارض رہے گا۔
یہ عجیب بات ہے کہ سورۂ احزاب کی آیت میں لفظ ’ادناء‘ کے کنایہ سے چہرہ مراد لیا گیا اور سورۂ نور کی آیت میں طریق اولیٰ کی دلالت سے چہرہ مراد لیا گیا۔ ایسا حکم جو واجب کا درجہ رکھتا ہو، اس کو صراحت سے بیان کرنے کی بجائے کنایہ اور دلالت اولیٰ سے کام لیا گیا۔ کیا اللہ تعالیٰ کو ایک واجب حکم صادر کرنے کے لیے (معاذاللہ) نہ چہرے کی عربی آتی تھی اور نہ چھپانے کی؟ کچھ تو خدا سے ڈرنا چاہیے۔
حافظ صاحب نے حافظ ابن حجر کا قول نقل کیا ہے کہ ’اختمرن‘ سے مراد ہے کہ انھوں نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔ اسی حوالہ یعنی الفتح (۸: ۴۹۰) پر حافظ ابن حجر کا یہ قول ہے کہ ’والخمار للمراۃ کالعمامۃ للرجل‘، ’’عورت کے لیے اوڑھنی ایسے ہے جیسے مردکے لیے پگڑی۔‘‘ قدیم وجدید سب علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خمار سے مراد اوڑھنی ہے۔ اور اس بارے میں حدیث ہے کہ ’لا یقبل اللّٰہ صلاۃ حائض الا خمار‘، ’’اللہ سن بلوغ تک پہنچنے والی عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘ النہایہ ابن اثیر، تفسیر حافظ ابن کثیر اور شوکانی کی فتح القدیر میں کہا گیا ہے کہ ’خمر‘ جمع ہے ’خمار‘ کی جس سے سرڈھانپا جاتا ہے۔ لغت کی کتابوں میں ’خَمَر‘ اور ’خمّر‘ کے معنی ڈھانپنے کے آتے ہیں، مگر ’اختمر‘ اور ’تخمّر‘ (باب افتعال اور تفعل) کے معنی صرف اور صرف اوڑھنی لینے کے ہیں۔
مضمون کی تیسری قسط میں فرماتے ہیں کہ حجاب کے جو معنی پروفیسر صاحب مراد لیتے ہیں یعنی آڑ اور اوٹ، وہ اس کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کے منافی ہیں۔ مضمون نگار نے اپنے مضمون میں لغت کا ایک ہی حوالہ دیاہے جو لفظ حجاب کے بارے میں لسان العرب کے الفاظ ہیں: ’کل ما حال بین شیئین حجاب‘ ،’’یعنی دوچیزوں کے درمیان حائل ہونے والی ہر چیز کو حجاب کہاجاتاہے۔‘‘ میں نے بھی تو یہی کہا ہے کہ اس سے مراد آڑ اور اوٹ ہے نہ کہ پہناوا۔ یہ تو میرے ہی موقف کی تائید ہے۔ میرا مضمون نویس سے مشورہ ہے کہ لغت دیکھنے کی عادت ڈالیں، تحقیق کا پہلا قدم یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اس قسط میں حافظ صاحب نے حجاب کے بارے میں جو بحث کی ہے، اس کامکمل جواب میرے مضمون میں موجود ہے۔ حافظ صاحب ازراہ عنایت اس مضمون کا بغور مطالعہ کریں۔ ہاں دلیل رابع میں حافظ صاحب نے حسب عادت قرآن حکیم کی آیت کو اپنے مزعومہ خیالات پر چسپاں کرنے کی غلطی کی ہے، اس کی نشان دہی ضرور کروں گا۔
سورۂ نورمیں ارشاد ربانی ہے:
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِیْ لَا یَرْجُونَ نِکَاحاً فَلَیْْسَ عَلَیْْہِنَّ جُنَاحٌ أَن یَضَعْنَ ثِیَابَہُنَّ غَیْْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِیْنَۃٍ.(۲۴ :۶۰)
’’اور بڑی عمر کی عورتیں جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (اوپر کے) کپڑے اتار رکھیں بغیر اس کے کہ سنگار دکھاتی پھریں۔‘‘
حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ ’ثیاب‘ سے مراد اضافی کپڑے ہیں، مثلاً جلباب یا نقاب، نہ کہ دوپٹا یا سینے کو ڈھانپنے والی چادر۔
’ثیاب‘ سے مراد اوپر والا لباس ہے۔ اس کی تفسیر روح المعانی میں یوں کی گئی ہے:
ای الثیاب الظاہرۃ لا یفضی وضعہا لکشف العورۃ کالجلباب والرداء والقناع الذی فوق الخمار.(۱ :۲۱۶)
’’اس سے مراد اوپر والا لباس ہے جس کے اتارنے سے ستر ننگا نہیں ہوتا، مثلاً جلباب، چادر اور سرپوش جو اوڑھنی کے اوپر ڈالا جاتا ہے۔‘‘
ابن جریر طبری جن کا حافظ صاحب نے حوالہ دیا ہے، نے بھی یہی تعبیر کی ہے ’ثیاب‘ یعنی جلباب اور جلباب سے مراد وہ چادر یا سرپوش ہے جو اوڑھنی کے اوپر لیا جاتا ہے۔ حافظ صاحب نے عربی لغت سے بے خبری کی وجہ سے ’قناع‘ کا ترجمہ نقاب کیا ہے جو قطعی غلط ہے۔ ’قناع‘ ، ’مقنع‘ اور ’مقنعۃ‘ سے مراد سر پوش ہے نہ کہ نقاب۔ المعجم الوسیط میں ہے ’القناع ما تغطی بہ المراۃ راسہا‘ ’’قناع اسے کہا جاتا ہے جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔ ‘‘صحاح اور القاموس المحیط میں ’المقنع والمقنعۃ‘ کے یہی معنی لکھے ہیں کہ اس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے۔ یہ غلطی حافظ صاحب سے اس لیے سرزد ہوئی ہے کہ ان کے سر میں یہ سودا سمایا ہوا ہے کہ جلباب سے چہرہ ڈھانپا جاتا ہے جو بات صریحاً لغت اور کتاب وسنت کے خلاف ہے۔
البحر المحیط میں ’ثیاب‘ کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’جلباب، چادر، وہ چادر جو اوڑھنی سے اوپر لی جاتی ہے۔ چادر جو کپڑوں کے اوپر اوڑھی جاتی ہے یا اوڑھنیاں یا چادر اور اوڑھنی، بہت سے اقوال ہیں۔‘‘ وہ عورت جو سن رسیدہ ہوجاتی ہے اسے ’امراۃ واضع‘ یعنی ایسی عورت جو اپنی اوڑھنی اتار دیتی ہے، کہاجاتا ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نہ دوپٹا ہے نہ چادر، اب حافظ صاحب کی بات مانی جائے یا ابو حیان اندلسی کی جو لغت کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔
امام رازی نے تفسیر کبیرمیں ایک قرأت کا ذکر کیاہے جو سدی نے اپنے شیوخ سے روایت کی ہے، وہ یوں ہے:
ان یضعن خمرہن رؤسہن.(۲۳ :۳۴)
’’یعنی اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سروں سے اتار دیں۔‘‘
اکثر مفسرین نے ’ثیاب‘ سے مراد جلباب لیا ہے یعنی بڑی عمر کی عورتوں کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جلباب یعنی چادر اپنے سر سے اتار دیں۔ فقہ جعفری میں عبداللہ حلبی نے ابو عبداللہ امام جعفر سے روایت کی ہے کہ انھوں نے ’ثیاب‘ سے مراد خمار اور جلباب، دونوں لیے ہیں۔ یعنی بوڑھی عورتیں اوڑھنی اور جلباب، دونوں اتار سکتی ہیں بشرطیکہ خود نمائی اور خود آرائی نہ کرنا چاہیں۔
علامہ ناصرالدین البانی نے ’’جلباب المراۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ۱۸۵ پر آیت زیربحث سے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ یہ آیت اس بات پر منصوص ہے کہ عورت کے لیے واجب ہے کہ وہ اوڑھنی پر جلباب (بڑی چادر) اوڑھے۔ وہ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ چہرہ کوستر سمجھنے والے ایک ایسی بات پر، جو واجب نہیں زور دیتے ہیں، مگر اس بات پر زور نہیں دیتے جو واجب ہے یعنی اوڑھنی کے اوپر چادر لینا۔
اس تحقیق کی روشنی میں حافظ زبیر صاحب کا ’فلیس علیہن جناح‘ سے استدلال بے معنی سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں مضمون نگار سے باردگر گزارش کرتا ہوں کہ وہ آیات قرآنی کو اپنے روایتی خیالات پر چسپاں کرنے سے گریز کریں۔
۱۔ اگر دلوں میں تقویٰ نہ ہو تو چہرے پر گز بھر کپڑا ڈال کر مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ذہنی خباثت سے محفوظ نہیں رکھا جاسکتا۔ نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت کرنے کا یہ فطری ملکہ بچپن میں حسن تربیت اور بڑے ہو کرصحیح مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ قرآنی تعبیر لباس التقویٰ کے یہی معنی ہیں۔
۲۔ چہرے کا پردہ واجب نہیں جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے جائز قرار دیاہے، اسے حرام قرار دینا گناہ ہے۔
۳۔ سورۂ احزاب کا نزول سورۂ نور سے پہلے ہوا۔ آیت ۵۹ ان عورتوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کو اوباشوں کی ایذارسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں پردے کے حدود کا تعین نہیں۔ یہ آیت آمدورفت میں وقار کے دستور کے بارے میں ہے۔
۴۔ جلباب کا مقصد چہرہ چھپانا نہیں۔ قرآن کی آیت سے یہی ظاہر ہوتاہے، وگرنہ اس سے پہلے ’یدنین علیہن‘ کا اضافہ نہ کیا جاتا۔
۵۔ ’ادناء‘ کے بنیادی معنی جیسا کہ احمد بن فارس نے ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں، ابن قتیبہ دینوری نے ’’مشکل القرآن‘‘ میں اور امام راغب اصفہانی نے ’’مفردات‘‘ میں لکھا ہے: ’’قریب کرنے کے ہیں یعنی پہننے کے لیے قریب کرلیں۔‘‘ اگر ’ادناء‘ کو آیت زیربحث میں اپنے اصل معنوں میں لیاجائے تو چہرے کو چھپانے اور نہ چھپانے کی بحث سرے سے ختم ہوجاتی ہے۔
۶۔ ’ادناء‘ کے مجازی معنی نیچا کرنے یا لٹکانے کے بھی لیے گئے ہیں۔ مفسرین نے ’ادناء‘ کے کنایہ سے یہ مفہوم نکالا ہے کہ جلباب کا کچھ حصہ چہروں پر بھی ڈال لیا جائے تاکہ عورت بدفطرت لوگوں کی دست درازی سے کلیتہً محفوظ ہو جائے۔ اس بات کی طرف ان کی توجہ ان ضعیف روایتوں نے دلائی ہے کہ یہ حکم لونڈیوں کے مقابل آزاد عورتوں کے لیے ہے، یہ تمام مفسرین اس حکم کو دائمی اور کلی تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لیے انھوں نے سورۂ نور کی تفسیر میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا چھپانا واجب نہیں۔
۷۔( ۱)مضمون نگار نے سورۂ احزاب میں مفسرین کے اقوال کو تفصیل سے ذکر کر کے اور سورۂ نور میں ان کے اقوال کو نظر انداز کر کے علمی دیانت کا ثبوت نہیں دیا۔
(ب)آیت حجاب میں لفظ حجاب کے معنی اوٹ اور آڑ ہیں نہ کہ پہناوا۔ اس آیۂ کریمہ کا شان نزول، انداز تخاطب اور خاتمہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ آیت امہات المومنین کے ساتھ خاص ہے۔ منافقوں کی سازشوں کے پیش نظر امہات المومنین کو خاص خاص باتو ں کی تعلیم دی گئی ہے۔
۸۔ سورۂ نور سورۂ احزاب کے بعد نازل ہوئی۔ بدن کے کن اعضا کو ظاہر کرنا ہے اور کن کو چھپانا واجب ہے، اس کا تعین اسی سورۂ مبارکہ میں کیا گیا ہے اور اس بارے میں یہ قول فیصل کا درجہ رکھتی ہے۔
۹۔ ’الا ما ظہر منہا‘ (سوائے اس کے جو ظاہر ہوجائے) کی تفسیر کے بارے میں دواقوال ہیں۔ ایک قول عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کا ہے جس کی تائید ابوداؤد میں حضرت عائشہ سے مروی حدیث بھی کرتی ہے۔ اس قول کے مطابق چہرہ اور ہاتھ ظاہری زینت میں شامل ہیں، ان کا چھپانا واجب نہیں۔ عہدرسالت اور خلافت راشدہ میں اسی قول پر عمل ہوتا رہا ہے۔ جمہور صحابہ، تابعین، مفسرین، محدثین، اور ائمۂ اربعہ نے اسی قول کی تائید کی ہے۔ دوسرا قول عبداللہ بن مسعود کا ہے کہ زینت ظاہرہ سے مراد اوپر والے کپڑے یعنی جلباب ہے۔ کسی صاحب علم نے اس قول کی طرف توجہ نہیں دی، کیونکہ وہ بقول امام ابوبکرالجصاص، بے معنی ہے۔
۱۰۔ غض بصر کا حکم اور دوپٹوں کو سینے کے گرد لپیٹنے کا حکم اس بارے میں نص قطعی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ چھپانا واجب نہیں۔
۱۱۔ سورۂ نور کی آیات کا تعلق گھر سے باہر ماحول سے ہے، جیسا کہ آیت۳۰ اور۳۱ کے نفس مضمون اور احادیث نبوی سے ثابت ہوتا ہے۔
۱۲۔ مضمون نویس نے قرآنی آیات ’یحفظن فروجہن، ولیضربن بخمرہن علی جیوبہن، لا یضربن بارجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن او لیس علیہن جناح ان یضعن ثیابہن‘ کو وہ معنی پہنانے کی جسارت کی ہے جو ان کے مزعومہ تصورات کے مطابق ہیں۔ ان کی یہ جسارت آیات قرآنی کی تحریف کے مترادف ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انھوں نے ان آیات کی تفسیر بغیر کسی سند اور حوالے کے کی ہے۔
۱۳۔ مضمون نویس نے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کے اقوال کی تکذیب کر کے انھیں قرآن کے سیاق و سباق کے منافی قرار دیا ہے۔ میں نے ان کے اس زعم باطل کی تردید ’’جواب آں غزل‘‘ میں کر دی ہے۔
میری مولانا حافظ محمد زبیر سلفی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ بدن کے ان اعضا کو چھپانے پر زور دیں جن کا چھپانا کتاب وسنت کی رو سے واجب ہے، عصر حاضر میں اس بات کی زیادہ ضرورت ہے اور ان چیزوں کو چھپانے کے لیے اپنا وقت اور طاقت ضائع نہ کریں جن کو کتاب وسنت کی رو سے ظاہر کرنا جائز ہے۔ اللہ کی جائز قرار دی ہوئی چیز کو حرام قرار دینا بہت بڑا جرم ہے۔
[باقی]
_________________