بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ، حَتّٰیٓ اِذَا فَشِلْتُمْ، وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ، وَعَصَیْْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَٓا اَرٰکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ. مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ، ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ، وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ، وَاللّٰہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ{۱۵۲}
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلاَ تَلْوٗنَ عَلٰٓی اَحَدٍ، وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرٰکُمْ، فَاَثَابَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّکَیْْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ، وَلاَ مَٓا اَصَابَکُمْ، وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ{۱۵۳}
ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا، یَّغْشٰی طَآئِفَۃً مِّنْکُمْ، وَطَآئِفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْہُمْ اَنْفُسُہُمْ، یَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ، یَقُوْلُوْنَ: ہَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْْئٍ، قُلْ: اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ، یُخْفُوْنَ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ مَّا لاَ یُبْدُوْنَ لَکَ، یَقُوْلُوْنَ: لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْْئٌ، مَّا قُتِلْنَا ہٰہُنَا، قُلْ: لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمْ، وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ، وَلِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ{۱۵۴}
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ، اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا، وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ {۱۵۵}
اللہ نے (اپنی مدد کا) جو وعدہ تم سے کیا تھا، وہ تو اُس وقت اُس نے پورا کر دیا، جب تم اللہ کے اذن ۲۲۳ سے اُن کو تہ تیغ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ خود تم نے کمزوری دکھائی اور حکم کی تعمیل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور اُس چیز کو دیکھنے کے بعد (پیغمبر کی) نافرمانی کی جس کے تم آرزومند تھے۔ (یہ حقیقت ہے کہ) تم میں کچھ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کے۔ (چنانچہ) اللہ نے (اِس فتح کے بعد) پھر تمھارا رخ اُن سے پھیر دیا تاکہ تمھاری آزمایش کرے، ۲۲۴ (اِس لیے کہ جو لوگ دنیا کے طالب ہیں، وہ تم سے چھٹ کر الگ ہوجائیں)۔ اور حق یہ ہے کہ اُس نے پھر بھی تمھیں معاف ہی کر دیا ۲۲۵اور اللہ مسلمانوں پر بڑی عنایت فرمانے والا ہے۔ ۱۵۲
یاد کرو، جب تم بھاگے جا رہے تھے ۲۲۶ اور کسی کو مڑ کر دیکھ بھی نہیں رہے تھے اور اللہ کا پیغمبر تمھیں پیچھے سے پکار رہا تھا تو اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا، ۲۲۷ اِس لیے کہ (اِس امتحان سے گزرنے کے بعد آیندہ) کسی چیز کے ہاتھ سے جانے اور کسی مصیبت کے آنے پر تم رنجیدہ خاطر نہ ہو، ۲۲۸ اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے باخبر ہے۔ ۱۵۳
اِس غم کے بعد پھر اللہ نے تم پر اطمینان نازل فرمایا، ایک ایسی نیند کی صورت میں جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھارہی تھی اور کچھ وہ تھے کہ جنھیں اپنی جانوں کی پڑی تھی۔ ۲۲۹ وہ خدا کے متعلق بالکل خلاف حقیقت جاہلیت کے گمانوں میں مبتلا ہورہے تھے۔ ۲۳۰ وہ کہہ رہے تھے کہ ان معاملات میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ (اِن سے) کہہ دو کہ تمام معاملات اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔ وہ اپنے دلوں میں وہ کچھ چھپائے ہو ئے ہیں جو تم پر ظاہر نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی دخل ہوتا تو ہم یہاں اس طرح مارے نہ جاتے۔ ۲۳۱ کہہ دو کہ اگر تم گھروں میں ہوتے تو جن کے لیے قتل ہونا لکھا تھا، وہ اپنی قتل گاہوں تک پہنچ کر رہتے۔ (لہٰذا اس بات کوایک مرتبہ پھر اچھی طرح سمجھ لو کہ یہ سب محض اِس لیے ہوا کہ اللہ تمھیں الگ الگ کرے) ۲۳۲ اور تمھارے سینوں میں جو کچھ چھپا ہوا ہے، اُس کو پرکھے اور تمھارے دلوں کے کھوٹ چھانٹ دے، اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ دلوں کو جانتا ہے۔۱۵۴
تم میں سے جو لوگ دونوں گروہوں کی مڈبھیڑ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے، ۲۳۳ اُن کی اِس لغزش کا سبب یہ تھا کہ اُن کے گناہوں کی شامت سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگا دیے تھے۔ ۲۳۴ (تاہم) اللہ نے اُنھیں معاف کر دیا۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، وہ بڑا بردبار ہے۔۱۵۵
۲۲۳؎ اصل میں ’باذنہ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جنگ کا جو غیر معمولی نتیجہ پہلے مرحلے میں سامنے آیا، وہ محض تمھاری قوت وتدبر سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے آیا تھا۔
۲۲۴؎ یہ اس ابتلا کی طرف اشارہ ہے جو احد کے موقع پر مسلمانوں کو پیش آیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...تمام ارباب سیر متفق ہیں کہ اس جنگ میں مسلمانوں کا ابتدائی حملہ بہت کامیاب رہا۔ انھوں نے دشمن پر غلبہ پالیا تھا ، لیکن ایک دستہ جو ایک اہم درے کی حفاظت پر مامور تھا اور جس کو حضور کی طرف سے ہدایت تھی کہ وہ کسی حال میں بھی اپنی جگہ کو نہ چھوڑے، قبل ازوقت اپنی جگہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے پر مصروف ہوگیا۔ صرف تھوڑے سے آدمی اس دستے کے اپنی جگہ پر قائم رہے۔ اس چیز سے دشمن کے ایک دستے نے فائدہ اٹھایا اور کاوا لگا کر اس نے پشت سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور یہ حملہ ایسا اچانک اور کامیاب ہوا کہ مسلمان اوسان کھو بیٹھے۔ ‘‘(تدبر قرآن۲/ ۱۹۳)
۲۲۵؎ یعنی غلطی تو تم نے ایسی کی تھی کہ اس پر تمھیں سزا ملتی، لیکن اللہ کی عنایت ہے کہ اس نے تم کو معاف کر دیا اور دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے بجائے محض ایک ابتلا سے گزارنے کے بعد سلامتی سے گھروں کو واپس آجانے کا موقع فراہم کردیا۔
۲۲۶؎ اصل میں لفظ ’اصعاد‘ آیا ہے۔ اس کے معنی کسی چڑھائی کی سمت میں جانے کے ہیں۔ اسی سے ’اصعد فی العدو‘ کا محاورہ نکلا ہے، جس میں کسی سمت میں منہ اٹھا کر بھاگ کھڑے ہونے کے معنی پیدا ہوگئے ہیں۔
۲۲۷؎ اصل میں ’غمًا بغم‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ب‘ تلبس کے مفہوم میں ہے۔ یعنی پہلے شکست کا غم پیش آیا، پھر اس کے ساتھ ہی لپٹا ہوا ایک دوسرا غم بھی سامنے آگیا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
’’...ہمارے نزدیک اس غم سے مراد وہ غم ہے جو اس دوران میں مسلمانوں کو کفار کی اڑائی ہوئی اس افواہ سے پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید کر دیے گئے۔ اس افواہ کا ذکر تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں بھی ہے اور قرآن کی اس آیت سے بھی اس کا اشارہ نکلتا ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ تم اس طرح بگ ٹٹ بھاگے چلے جارہے تھے کہ تمھیں اپنے دہنے بائیں کا بھی ہوش نہیں رہا تھا کہ تم ذرا مڑ کے دیکھ سکتے کہ کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے، یہاں تک کہ اس رسول کی طرف بھی تم نے توجہ نہیں کی جو تمھارے پیچھے سے تمھیں برابر پکار تا رہا کہ اللہ کے بندو، میری طرف آئو۔ اس کے بعد ’ف‘کے ساتھ، جو عربی میں نتیجہ کے بیان کے لیے آتی ہے، اس غم کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ غم پیغمبر کی ذات ہی سے متعلق ہوگا تاکہ پیغمبر کی جو ناقدری ان سے صادر ہوئی ہے، اس پر ان کو تنبیہ کی جائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۹۳)
۲۲۸؎ مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے ابتلا اور مصیبتوں سے گزر کر یہ حقیقت تم پر واضح ہو جائے کہ دنیا اصلاً کھونے اور پانے کی نہیں، بلکہ امتحان کی جگہ ہے، لہٰذا اس میں پیش آنے والے ہر حادثے کو اسی زاویۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد توقع ہے کہ تمھارے اندر وہ مایوسی اور دل شکستگی کبھی پیدانہ ہوگی جو انسان کے عزم وحوصلہ کو ختم کر دیتی ہے اور تم ہمیشہ پابرجا رہو گے۔
۲۲۹؎ یعنی اگرچہ دشمن جاچکا تھا، لیکن جیسا کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے، اپنے خوف اور بزدلی کی وجہ سے وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ معلوم نہیں کس وقت وہ دوبارہ ان پر آپڑے۔
۲۳۰؎ اصل الفاظ ہیں: ’یظنون باللّٰہ غیر الحق ظن الجاھلیۃ‘ ۔ ان میں ’ظن الجاھلیۃ‘ ’غیرالحق‘ کی وضاحت ہے اور اس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کی بزدلی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سوچنے کا انداز اب تک وہی ہے جو اسلام کی نعمت سے بہرہ یاب ہونے سے پہلے زمانۂ جاہلیت میں تھا۔
۲۳۱؎ ان کا خیال تھا کہ اس جنگ کے بارے میں پیغمبر استبداد اور خود رائی سے کام نہ لیتے اور مدینہ کے اندر محصور رہ کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی جو تجویز پیش کی گئی تھی، اسے مان لیتے تو یہ افسوس ناک صورت حال پیش نہ آتی جو اس وقت آئی ہے۔
۲۳۲؎ اصل میں ’ولیبتلی اللّٰہ ما فی صدورکم‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، ان میں عطف کی واؤ دلیل ہے کہ یہ پوری بات یہاں عربیت کے اسلوب پر حذف ہے۔
۲۳۳؎ یعنی احد کے دن، جب بعض کمزور قسم کے مسلمان عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی شرارتوں سے متاثر ہو گئے تھے۔
۲۳۴؎ یہ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ ان کی کچھ پچھلی غلطیاں تھیں جن کے سبب سے شیطان انھیں گم راہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...گناہ سے گناہ جنم لیتا ہے اور شیطان کے داؤں انھی لوگوں پر زیادہ آسانی سے کارگر ہوتے ہیں جن کے اندر گناہ کی کوئی جڑ موجود ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ جب آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس کو دل میں جگہ نہ پکڑنے دے، بلکہ استغفار اور توبۂ نصوح کے ذریعے سے اس کا استیصال کردے۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۱۹۷)
[ باقی]
ـــــــــــــــــــ