HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

جنت کی خوش خبری

(مسلم، رقم ۳۱)

 

حدَّثَنَا اَبُوْہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ: کُنَّا قُعُوْدًا حَوْلَ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. مَعَنَا اَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِی نَفَرٍ. فَقَامَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْنِ اَظْہُرِنَا فَاَبْطَاَ عَلَیْنَا وَخَشَیْنَا اَنْ یُقْتَطَعَ دُوْنَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ. فَخَرَجْتُ اَبْتَغِی رَسُولَ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَیْتُ حَاءِطًا لِلْاَنْصَارِ لِبَنِی النَّجَّارِ. فَدُرْتُ بِہِ ہَلْ اَجِدُ لَہُ بَابًا فَلَمْ اَجِدْ فَاِذَا رَبِیْعٌ یَدْخُلُ فِی جَوْفِ حَاءِطٍ مِنْ بِءْرٍ خَارِجَۃٍ. وَالرَّبِیْعُ الْجَدْوَلُ. فَاحْتَفَزْتُ کَمَا یَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ. فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ. فَقُلْتُ: نَعَمْ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ. قَالَ: مَا شَأنُکَ؟ قُلْتُ: کُنْتَ بَیْنَ اَظْہُرِنَا. فَقُمْتَ، فَاَبْطَاْتَ عَلَیْنَا. فَخَشِیْنَا اَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا، فَفَزِعْنَا. فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَزِعَ. فَاَتَیْتُ ہَذَا الْحَاءِطَ. فَاحْتَفَزْتُ کَمَا یَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَہٰؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَاءِی. فَقَالَ: یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ وَاَعْطَانِی نَعْلَیْہِ. قَالَ: اذْہَبْ بِنَعْلَیَّ ہَاتَیْنِ. فَمَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَرَاءِ ہَذَا الْحَاءِطِ یَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ. فَکَانَ اَوَّلَ مَنْ لَقِیْتُ عُمَرُ. فَقَالَ: مَا ہَاتَانِ النَّعْلَانِ؟ یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ. فَقُلْتُ: ہَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِیْ بِہِمَا مَنْ لَقِیْتُ یَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ بَشَّرْتُہُ بِالْجَنَّۃِ. فَضَرَبَ عُمَرُ بِیَدِہِ بَیْنَ ثَدْیَیَّ، فَخَرَرْتُ لِاِسْتِی. فَقَالَ: ارْجِعْ یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ. فَرَجَعْتُ اِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَجْہَشْتُ بُکَاءً وَرَکِبَنِی عُمَرُ فَاِذَا ہُوَ عَلَی اَثَرِی. فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: مَا لَکَ یَا اَبَا ہُرَیْرَۃَ. قُلْتُ: لَقِیْتُ عُمَرَ فَاَخْبَرْتُہُ بِالَّذِی بَعَثْتَنِیْ بِہِ. فَضَرَبَ بَیْنَ ثَدْیَیَّ ضَرْبَۃً خَرَرْتُ لِاِسْتِی. قَالَ: ارْجِعْ. فَقَالَ لَہُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ. قَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ، بِاَبِی اَنْتَ وَاُمِّی. اَبَعَثْتَ اَبَا ہُرَیْرَۃَ بِنَعْلَیْکَ مَنْ لَقِیَ یَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا کَلْبُہُ بَشَّرَہُ بِالْجَنَّۃِ. قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ فَاِنِّی اَخْشَی اَنْ یَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُونَ. قَالَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّہِمْ.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھ ہوئے تھے۔ لوگوں میں ہمارے ساتھ ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں سے اٹھے (اور کہیں چلے گئے) آپ نے ہمارے پاس (واپس) آنے میں کافی تاخیر کردی۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کو ہم سے ورے ہی (دشمن سے کوئی) تکلیف نہ پہنچ جائے۔ چنانچہ ہم ڈر گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان گھبرانے والوں میں میں سب سے پہلا آدمی تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتا ہوا نکلا، یہاں تک کہ میں انصار میں سے بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچ گیا۔میں اس کے گرد گھوما کہ کہیں اس کا دروازہ پاؤں۔ لیکن مجھے (دروازہ تو )نہیں ملا، (مگر کیا دیکھتا ہوں )کہ ایک نالہ ہے جو باہر والے کنویں سے دیوار کے خلا میں داخل ہو رہا ہے...۔ ۱؂ چنانچہ میں اسی طرح سمٹا جس طرح لومڑی سمٹتی ہے اور اس (راستے سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا۔ فرمایا: ابوہریرہ۔ میں نے کہا: جی یا رسول اللہ۔ فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: آپ ہمارے بیچ تشریف فرما تھے۔ پھر آپ اٹھے (تشریف لے گئے ) اور آپ نے ہمارے پاس (واپس) آنے میں بہت تاخیر کر دی۔ ہمیں اندیشہ ہوا کہ آپ کوہماری غیر موجودگی میں کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو۔ ان گھبرانے والوں میں میں سب سے پہلے گھبرایا تھا۔ چنانچہ میں (نکلا اور) اس باغ تک آگیا ۔ (نالے کے راستے اندر داخل ہونے کے لیے) میں اسی طرح سمٹا جیسے ایک لومڑی سمٹتی ہے۔ یہ (دوسرے لوگ) میرے پیچھے ہیں۔ فرمایا: ابوہریرہ، اور آپ نے مجھے اپنے جوتے عنایت کیے، میرے یہ جوتے لے جاؤ ۔ اس دیوار کے پیچھے جو بھی تمھیں ملے اور وہ یہ اقرار کرتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس بات پر اس کا دل یقین رکھتا ہوتو اسے جنت کی بشارت دینا۔چنانچہ پہلا آدمی جس سے میں ملا (حضرت ) عمر (رضی اللہ عنہ) تھے۔ انھوں نے پوچھا: یہ جوتے کیا ہیں؟ میں نے کہا: یہ جوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ آپ نے مجھے یہ دے کر بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ اس بات کا اقرار کرتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کا دل اس پر یقین رکھتا ہو تو اسے جنت کی بشارت دوں۔ یہ سن کر (حضرت) عمر (رضی اللہ عنہ) نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ کہا: ابوہریرہ، لوٹو۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف واپس چل پڑا۔میں رونے کو تھا۔ (حضرت) عمر (رضی اللہ عنہ) نے میرے اوپر چڑھائی کی ہوئی تھی اور وہ میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔ (ہمیں دیکھ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوہریرہ تمھیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ملاقات عمر سے ہوئی اور میں نے انھیں وہ بات بتائی جو آپ نے مجھے بتانے کے لیے بھیجا تھا۔لیکن انھوں نے سن کر میرے سینے پر ایسا مارا کہ میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ پھر کہا: واپس چلو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر، تم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا آپ نے ابوہریرہ کو جوتے دے کر بھیجا ہے کہ یہ جس سے ملیں اوروہ اقرار کرتا ہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہو تو اسے جنت کی بشارت دیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں۔ انھوں نے کہا: آپ یہ نہ کریں مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسا کرنے لگیں گے۔ لوگوں کو عمل کر نے دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انھیں عمل کرنے دو۔‘‘
لغوی مباحث

یقتطع دوننا: ’یقتطع‘ مجہول ہے، یعنی دشمن آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ ’دوننا‘ سے یہاں صحابہ سے دوری مراد ہے۔

حائط: لفظی طور پر اس سے چاردیواری مراد ہے۔ لیکن یہ باغ کے لیے آتا ہے، کیونکہ باغ کے گرد چار دیواری ہوتی تھی۔

فاجہشت بکاء: روہانسا ہونا، آہ و زاری کرنا۔ یہاں وہ شدید بے کسی کی کیفیت مراد ہے جو حضرت عمر کے سخت ردعمل کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔

معنی

یہ روایت تین حوالوں سے قابل توجہ ہے۔ نمایاں ترین چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاحضرت ابوہریرہ اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے مکالمہ ہے۔ اس میں جو چیز بیان ہوئی ہے ، وہ اس سے پہلے کی روایتوں میں زیر بحث آچکی ہے۔ یعنی ان روایتوں میں قول ایمان سے مراد محض زبان سے ایمانیات کا تلفظ نہیں ہے۔ یہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب ان صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کے لیے خوش خبری ہے جو اس وقت اس کلمے کے بولنے اور ماننے والے بنے، جب یہ کلمہ اجنبی تھا اور اس کا بولنا اپنے جان ومال اور تعلقات کو خطرے میں ڈالنا تھا۔ مزید براں یہ وہ لوگ نہیں تھے جواسے محض ایک علمی حقیقت سمجھتے تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ اس کلمہ کی حقیقت اسلامی زندگی کے سرعنوان کی ہے۔ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ یہ بات اس طرح لوگوں کو نہ بتائی جائے، اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ ان کے نزدیک کلمۂ ایمان محض تلفظ کی چیز نہیں ہے، بلکہ عمل صالح اس کا لازمی تقاضا ہے اور اگر لوگوں نے کہیں اسے اس کے ظاہری مفہوم میں لے لیا تو وہ اس تقاضے کو فراموش نہ کردیں۔علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس میں ’’دل کے یقین‘‘ کا اضافہ کیا ہے۔ جب کوئی بات دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے تو زندگی کے انداز ہی بدل کے رکھ دیتی ہے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ مسلمان ہیں، لیکن ان کے اخلاق وکردار مسلمانوں والے نہیں ہیں۔ اس کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایمانیات صرف زبان کی نوک پر ہیں۔ دل کی دنیا اس سے کماحقہ آشنا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اس قول کو اپنے قلب میں اتار لیتا ہے تو اس کی شخصیت بدلنا شروع ہو جاتی ہے اور وہ اپنے خیالات واعمال میں موجود برائیوں سے ایک ایک کر کے جان چھڑانے کی راہ پر گام زن ہو جاتا ہے۔ یہ ایمان قیمتی ہے۔اسی ایمان کے حاملین اس رحمت خداوندی کے مستحق ہیں ۔جو لوگ ایمان کی اس سطح سے آشنا ہوتے ہیں ، انھیں رحمت اور بخشش کی خبر عمل کے بارے میں مزید مستعد کرتی ہے۔ لیکن بعض کے ہاں اس کے برعکس نتیجہ بھی نکل سکتا ہے۔ اسی بات کی نشان دہی حضرت عمر نے کی تھی اور اسے مانتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ کو یہ بات بیان کرنے سے روک دیا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملتی جلتی بات مختلف مواقع پر ارشاد فرمائی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ ہمارے خیال میں اس سوال کی وجہ داعی کے کلام اورعلمی اور تصنیفی زبان کے فرق کو نظر انداز کرنا ہے۔ داعی اپنی بات کو دلوں میں اتارنے کے لیے انذار وتبشیر کے مختلف اسالیب اختیار کرتا ہے۔چنانچہ اس کے کلام میں دین کے مختلف پہلووں کو ایک خاص زور سے بیان کرنے کی متعدد مثالیں نظر آئیں گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا وہ جنت میں چلا گیا، وہاں یہ کہتے ہوئے بھی ملتے ہیں، مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔اس اسلوب کا فائدہ یہ ہے کہ مخاطب کی آرا ہی تبدیل نہیں ہوتیں ، اس کا دل بھی تبدیل ہو جاتاہے۔

دوسرا حوالہ وہ واقعہ ہے جو اس مکالمے کے دروبست کی حیثیت سے اس روایت میں بیان ہوا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینے میں اس وقت پیش آیا جب دشمن سے کسی کارروائی کی توقع کی جار ہی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت ابوہریرہ غزوۂ خیبر کے موقع پر ایمان لائے تھے۔ یہ غزوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کم وبیش چار سال پہلے پیش آیا تھا۔اس زمانے میں اسلامی حکومت بڑی حد تک مستحکم ہو چکی تھی۔ لہٰذا یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ خطرہ کس گروہ کی طرف سے تھا۔ اہل مکہ سے کسی خلاف مروت عمل کی توقع نہیں کی جا سکتی اور یہود کی طاقت کا استیصال ہو چکا ہے۔ مزید براں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ ایسا ہی خطرے کا زمانہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی کیوں نکلے تھے۔ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ حالات نارمل تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے میں تاخیر ہوئی تو صحابہ کی شدت محبت نے انھیں اندیشوں میں مبتلا کر دیا۔

تیسرا حوالہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک باغ میں جانا ہے۔ اس پر دو پہلووں سے بات ہو سکتی ہے۔ ایک یہ کہ آپ اس باغ میں کیوں گئے تھے۔ دوسرے یہ کہ حضرت ابوہریرہ اس باغ تک کیسے پہنچے۔ویسے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس باغ میں جانے کے کئی سبب قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن زیادہ قرین قیاس یہی محسوس ہوتا ہے کہ حضور کا یہ جانا ذاتی نوعیت کا تھا۔یعنی اس کا سبب حضور کی کوئی داعیانہ سرگرمی نہیں تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس باغ تک کیسے پہنچے تواس کا ایک جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے۔ لیکن باغ میں داخل ہونے کے طریقے سے یہ بات زیادہ قرین قیاس محسوس ہوتی ہے کہ حضور تفریح طبع کے لیے اس باغ میں جاتے رہتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ کو یہ بات معلوم تھی ، اس لیے وہ اسی باغ تک گئے اور اس میں داخل ہونے کی جو صورت پہلے سامنے آئی اسی کو اختیار کر لیا۔مزید براں حضرت عمر بھی حضور کے پیچھے اسی باغ کی طرف آرہے تھے یہ بھی اسی بات کا ایک قرینہ ہے کہ حضور کا ادھر آنا ایک معمول کی بات تھی۔

اس روایت کی چند ضمنی باتیں بھی قابل توجہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دے کر بھیجتے ہوئے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جوتے عنایت کیے تھے۔یہ حضرت ابوہریرہ کودی گئی خبر کے حضور ہی کی طرف سے ہونے کا سرٹیفیکیٹ تھا۔ اس سے یہ پہلو بھی نمایاں ہوتا ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ خیال تھا کہ ابوہریرہ کی طرف سے یہ بات ماننے میں لوگ متامل ہوں گے۔ اسی طرح اس واقعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے اپنے بارے میں اضطراب سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے یہ چاہا کہ انھیں ان کے ایمان کے ثمر سے آگاہ کریں۔ باقی رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بات بیان نہ کرنے کا مشورہ دینا تو اس کی وجہ محض یہ تھی کہ لوگ جملے کو اس کے ظاہری معنی میں لیں گے۔یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ایک صحابی نے (نعوذ باللہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کے بارے میں رہنمائی دی ہے۔ یہ مسئلہ دین کے بیان کا نہیں تھا۔ دین کے حوالے سے صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع تھے اور ان کو بے کم وکاست حضور کی پیروی کرنا تھی۔ یہ معاملہ تدبیر کا تھا اور تدبیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے صائب مشورے قبول فرماتے تھے۔حضرت عمر کا مشورہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمومی رویے کے عین مطابق تھا۔ ہم اس سے پہلے حضرت معاذ والی روایت میں پڑھ چکے ہیں کہ خود حضور نے حضرت معاذکو یہی بات کہی تھی۔

اس واقعے میں حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سختی کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستگی کی ایک لمبی تاریخ رکھتے تھے۔ انھیں حضور کے صحابہ میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ جس کا اظہار اس روایت میں بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ہم حضور کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے اندر ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) بھی موجود تھے۔ حضرت عمر کی سختی ایک بڑے کی اپنے خورد پر سختی ہے۔ روایت کے سیاق وسباق سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گرانا نہیں چاہتے تھے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ حضرت عمر کے حضرت ابوہریرہ کو واپس موڑنے کے لیے لگائے گئے ہاتھ نے انھیں گرا دیا۔

اس روایت میں پیٹھ کے لیے’ است‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ’ است‘ کا لفظ ایک صریح لفظ ہے۔ عام طور پر ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو صریح نہ ہوں اورکہنے والاکنایے کے الفاظ سے اپنی بات ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ نے ایک صریح لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کھلے طریقے سے بات کرنا ناموزوں نہیں سمجھا جاتا تھا۔

متون

یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ صحیح ابن حبان میں نقل ہوئی ہے۔دونوں کا متن کم وبیش ایک ہے۔ چند لفظی فرق ہیں۔ مثلاً: ابن حبان میں رسول اللہ کے بجائے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ آئے ہیں۔ ’ بین أظہرنا‘ کی جگہ ’بین ظہرینا ‘ آیا ہے۔ ’ فخرجت أبتغی‘ کے لیے ’ فخرجت أتبع‘ آیا ہے۔ ’ فإذا ربیع‘ سے پہلے ’ فلم أجد ‘ کی تصریح نہیں ہے۔ ’ من بئر خارجۃ ‘ کے بجائے ’ من خارجہ ‘ آیا ہے۔پہلے ’ فاحتفزت‘ کے ساتھ ’ کما یحتفز‘ کی وضاحت نہیں ہے۔ ’ کنت بین أظہر نا ‘ کی جگہ ’ قمت بین أظہرنا‘ نقل ہوا ہے۔ صاحب مشکوٰۃ نے بھی اپنی کتاب میں یہ روایت لی ہے ۔ انھوں نے حوالہ تو مسلم کا دیا ہے، لیکن ان کے متن اور مسلم کے متداول متن میں کچھ فرق ہے۔ متداول متن میں جہاں ’ فدرت ‘ کا فعل آیا ہے وہاں صاحب مشکوٰۃ نے ’فساورت ‘ کا فعل نقل کیا ہے۔ اسی طرح اس متن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ لقیک ‘ کی جگہ ’لقیت‘کے الفاظ بولے تھے۔

کتابیات

مسلم، رقم۳۱ ۔ ابن حبان، رقم۴۵۴۳۔

 ______________

B