HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

مسجد اور عورت (۲)

امام ابن حزم اندلسی کا مسلک


[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


۴۔ حضرت عائشہ سے مروی حدیث کے ناقابل حجت ہونے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ نئی باتیں ایجاد کرنے کا عمل بلاشک بعض عورتوں سے سرزد ہوتا ہے اور بعض سے نہیں ہوتا۔ یہ محال ہے کہ بعض عورتوں کی بدعت پسندی کی وجہ سے دوسری عورتوں کو کارخیر سے روک دیا جائے۔ ہاں اگر اس سلسلہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ کا کوئی حکم نازل ہوتا تو اور بات تھی ۔ اس کو سنا بھی جاتا اور مانا بھی جاتا، بے شک اللہ کا فرمان ہے: ’ولا تکسب کل نفس الا علیھا ولا تزر وازرۃ وزر اخریٰ‘ (الانعام۶: ۱۶۴) ’’کوئی شخص (بدی) نہیں کماتا، مگر اس کا وبال اس پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔‘‘

۵۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ اگر نئی بات یا نیا کام عورتوں کو مسجد جانے سے روکنے کا سبب ہوتا تو زیادہ موزوں یہ تھا کہ وہ ان کو بازار اور ہر راستے سے روکنے کا سبب بھی بنتا۔ یہ لوگ بدعت پسندی کی وجہ سے عورتوں کو خاص طور پر مسجد جانے سے کیوں روکتے ہیں اور ان کو سب راستوں سے کیوں نہیں روکتے؟ بلکہ ابو حنیفہ نے تو ڈھائی دن کی مسافت پر ان کو اکیلے سفر کرنے اور دشت وصحرا میں سیر وسیاحت کی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور اسے مکروہ نہیں سمجھا۔ اسی طرح اختلاط کو بھی مکروہ نہیں سمجھنا چاہیے۔

۶۔چھٹی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ کی رائے یہ نہیں تھی کہ ان کو اس وجہ سے روکا جائے اور نہ آپ نے یہ فرمایا کہ ان کو روکو، کیونکہ وہ نئی نئی باتیں پیدا کر رہی ہیں، بلکہ یہ بتایا کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے تو ان کو منع کرتے۔ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ اگر رسول علیہ السلام نے ان کو منع کیاہوتا تو ہم بھی منع کرتے، جب آپ نے ان کو منع نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں ان کو منع کرنے والے۔ نتیجتاً ان کا فعل خلاف سنت بھی ہے اور قول عائشہ کے بھی خلاف ہے۔ اپنے پیروکاروں کو اس وہم میں مبتلا کرنا کہ حضرت عائشہ نے اپنے کلام سے عورتوں کو مسجد کی طرف نکلنے سے منع فرمایا ہے، جھوٹ ہے۔ آپ نے ایسا نہیں کیا۔ کسی کو رسوا کرنے سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔

وضاحتی نوٹ: (حضرت عائشہ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت مسجد میں جائے تو ان آداب کی پابندی کرے جو حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی اس نے خوش بو نہ لگائی ہو، بنی ٹھنی نہ ہو۔ ان کا قول ان عورتوں کے لیے تنبیہ ہے جو ان آداب کو نظر انداز کرتی ہیں۔امام ابن تیمیہ فتاویٰ (۲۹: ۲۹۶) میں فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ کا مقصد مطلقاً عورتوں کومنع کرنا نہ تھا، کیونکہ ہر عورت تو ایسا نہیں کرتی تھی۔ ان کا مقصد تو صرف ان کو روکنا تھاجو نئی نئی باتیں کرتی تھیں۔)

رہی عبدالحمید بن منذر سے مروی حدیث وہ ایک مجہو ل آدمی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون ہے؟ ایک مجہول آدمی کی روایت کی بنیاد پر ثقہ راویوں کی متواتر روایات کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔ جہاں تک عبداللہ بن رجاء غدانی کی روایت کا تعلق ہے تو وہ کثرت سے تحریف اور غلطیاں کرتا ہے۔ وہ قابل حجت نہیں۔ یہی بات اس کے بارے میں عمرو بن علی الفلاس وغیرہ نے کہی ہے۔ پھر اگر یہ حدیث اور عبداللہ بن رجاء غدانی کی حدیث صحیح بھی ہو، حالانکہ وہ صحیح نہیں ہیں تو بھی وہ اپنے متن میں ان ثابت شدہ احادیث سے متصادم ہیں جن کو ہم نے بیان کیا ہے اور اس حکم سے بھی متصادم ہیں، جو رسول علیہ السلام نے خلوت گاہوں میں بیٹھنے والی اور حیض والی عورتوں تک کو نماز عید میں حاضر ہونے کا دیا۔ اور حکم دیا کہ جس کسی کے پاس جلباب (چادر یا عبا) نہیں ، وہ دوسری عورت سے عید کی نماز کے لیے عاریۃً لے لے۔ اوراس حدیث سے بھی متصادم ہے جو ہمارے لیے بیان کی...عبداللہ بن مسعود نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’صلاۃ المراۃ فی بیتھا افضل من حجرتھا وصلا تھا فی مسجدھا افضل من صلاتھا فی بیتھا‘، ’’اپنے گھر میں عورت کی نماز اپنے چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اور اپنی (محلہ کی مسجد) میں اس کی نماز اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ اپنی مسجد سے مراد بلاشبہ محلے کی مسجد ہے۔اس کے علاوہ کوئی اور مسجد ہو نہیں سکتی، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد گھر کی مسجد ہوتی تو آپ یوں فرماتے: اپنے گھر میں نماز پڑھنا اس کے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ ایسی فضول اور بے معنی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے بعید ہے، اگر بات ایسے ہی ہے جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے تو صحیح یہ ہے کہ ان دونوں حکموں میں سے ایک حکم منسوخ ہے۔

یا آپ کا یہ فرمان کہ: ’’بے شک، عورت کی مسجد میں نماز گھر میں نماز سے افضل ہے‘‘ اور آپ کا عورتوں کو عید اور مسجد کی طرف نکلنے کی ترغیب دینا آپ کے اس قول سے منسوخ ہے کہ: ’’عورت کی گھر میں نماز مسجد میں نماز سے بہتر ہے اور اپنی مسجد میں نماز عید کے لیے باہر نکلنے سے بہتر ہے۔‘‘ یا آپ کا یہ فرمان کہ: بے شک، عورت کی گھر میں نماز اپنی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور اپنی مسجد میں نماز عید کے لیے باہر نکلنے سے بہتر ہے۔‘‘ آپ کے اس قول سے منسوخ ہے کہ: ’’بے شک عورت کی اپنی مسجد میں نماز گھر میں پڑھنے سے افضل ہے اور نماز عید کے لیے عورتوں کو نکلنے کی جو ترغیب آپ نے دی ہے وہ بہتر ہے۔‘‘

ان دونوں صورتوں میں سے ایک صورت تو لازماً ہوگی۔ خبر صحیح کو کسی دلیل کے بغیر یقینی طور پر منسوخ قرار دینا روا نہیں۔

ہم نے اس مسئلہ پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ مسجد اور عید گاہ کی طرف عورتوں کا خروج ادائیگی نماز کے علاوہ ایک زائد عمل ہے۔ سحرخیزی، تاریکی، بھیڑ بھاڑ، تپتی ہوئی دوپہر، بارش اور سردی کی کلفت اس پر مستزاد ہے، اگر اس عمل زائد کی فضیلت منسوخ ہوتی تو دونوں میں سے ایک صورت ہوتی اور کوئی تیسری صورت ممکن نہیں یا تو مسجد اور عید گاہ میں عورت کی نماز گھر میں نماز کے مساوی ہوتی۔ اس صورت میں یہ سارا زائد عمل لغو اور باطل ٹھہرتا اور محض تکلف اور تھکان ہوتا۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور شکل نہ ہوتی، مگر مخالفین بھی اس کا دعویٰ نہیں کرتے یا پھر جیسا کہ مخالفین کا قول ہے کہ مسجدوں اور عید گاہ میں نماز ان کی گھروں میں نماز سے کم فضیلت والی ہو گی۔ اس صورت میں سارے کا سارا مذکورہ عمل لازمی طور پر گناہ ہوگا، جو فضیلت کو کم کرتا ہے ۔ کیونکہ جو زائد عمل ایک نماز کی فضیلت کو بالکل اس جیسی نماز سے کم کردے، وہ حرام ہی تصور ہوگا۔ اس کے علاوہ اور کسی تصور کاامکان نہیں۔ اس مسئلہ کو نماز میں مستحب اعمال کے ترک کرنے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ان مستحب اعمال کو کرنے سے اجر کم نہیں ہوتا۔ ان کا چھوڑنا گناہ کا باعث نہیں بنتا، بلکہ اس کا مطلب چند نیک کاموں کو چھوڑنا ہے، جبکہ ایسا کام جس کا کرنے والا مشقت اٹھاتا ہے اور جو اس کے اس اجر کو تلف اور ضائع کر دیتا ہے جو اس کام کے نہ کرنے سے اسے ملتا، بلاشبہ حرام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ کراہت میں تو اصلاً کوئی گناہ نہیں اور نہ اس میں عمل کا ضیاع ہے اس میں تو اجر کا حاصل نہ ہونا اور وبال کا پڑنا ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ گناہ فقط اس صورت میں ہوگا جب کسی عمل کو حرام سمجھ کر ضائع کر دیا جائے۔

زمین پر بسنے والے سب لوگ (مسلمان) اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک عورتوں کو اپنے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے سے کبھی منع نہیں فرمایا اور نہ ان کے بعد خلفاے راشدین نے ایسا کیا۔ درست بات یہی ہے کہ یہ ایک غیر منسوخ عمل ہے۔ یہ بلاشبہ ایک نیک کام ہے ، اگر ایسانہ ہوتا تو رسول علیہ السلام اسے برقرار نہ رکھتے اور عورتوں کو اس حالت میں نہ چھوڑتے کہ وہ بغیر کسی فائدے کے، بلکہ الٹا نقصان کی خاطر تکلیف اٹھاتی رہیں۔ یہ تو تنگی اور اذیت ہے نہ کہ خیر خواہی اور ہمدردی۔ جب یہ بات یقینی ہے تو حکم (مسجد میں عورتوں کے جانے کا) ناسخ ہے اور دوسرا حکم (منع کرنے کا) منسوخ ہے۔ یہ تو اس صورت میں ہے اگر مذکورہ دونوں حدیثیں صحیح مان لی جائیں، لیکن ان دونوں احادیث کے غیر صحیح ہونے کی وجہ سے کیا صورت بنے گی؟

ہم نے عبدالرزاق کی سند سے سفیان ثوری سے اور انھوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے کہ عمر بن الخطاب نے سلیمان بن ابی حثمہ کو حکم دیا کہ وہ رمضان کے مہینے میں مسجد کے پچھلے حصے میں عورتوں کی امامت کریں۔ عبدالرزاق نے معمر سے اور انھوں نے زہر ی سے روایت کی ہے کہ عاتکہ بنت زین بن عمرو بن نفیل حضرت عمر بن الخطاب کی بیوی تھیں۔ وہ نماز کے لیے مسجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں۔ حضرت عمر انھیں کہا کرتے۔ بخدا تو جانتی ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا تو وہ جواب دیتیں کہ میں اس وقت تک نہیں رکوں گی جب تک آپ مجھے منع نہیں کریں گے۔ جس دن حضرت عمر کو خنجر لگا وہ مسجد میں تھیں۔

امام علی بن حزم کا قول ہے کہ اگر امیرالمومنین کو علم ہوتا کہ مسجد میں نماز پڑھنے سے بیوی کو کوئی اجر نہیں ملے گا تو وہ انھیں منع کرنے سے کبھی باز نہ آتے۔ اور اگر انھیں علم ہوتا کہ یہ عمل ان کے اجر کو کم کرتا ہے یا اسے ضائع کرتا ہے۔ تو پھر کیا کیفیت ہوتی؟ آپ کے اس قول میں کہ ’’میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔‘‘ ان کے لیے کوئی دلیل نہیں۔ کیونکہ نفسی میلان میں کوئی گناہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر مسلمان اگراسے اللہ کا خوف نہ ہو، رمضان میں بھوک پیاس کی حالت میں کھانا پینا پسند کرتا ہے اور چھوٹی راتوں کی ٹھنڈی صبحوں میں نیند چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھنا پسند نہیں کرتا اورانسان ہر خوب صورت لڑکی کو دیکھ کر ملاقات چاہتا ہے۔ چنانچہ آدمی اگر ممنوع چیز کو پسند کرے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ اپنے دل کو رغبت سے موڑنا اس کے بس میں نہیں، اصل اہمیت تو اس کے صبر اور اس کے عمل کوحاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’کتب علیکم القتال وھو کرہ وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیئا وھو شر لکم‘ (البقرہ۲: ۲۱۶) ’’تم پر قتال فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو ناگوار ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تم کو ناگوار ہو اور وہ تمھارے لیے اچھی ہواورہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو۔‘‘

عبدالرزاق کی سند سے محمد بن عمارہ نے عمرو الثقفی اور اس نے عرفجہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب لوگوں کو رمضان میں قیام لیل کا حکم دیتے تھے۔ پس وہ ایک امام مردوں کے لیے اور ایک امام عورتوں کے لیے مقرر کرتے۔ پس آپ نے مجھے عورتوں کی امامت کاحکم دیا تو میں نے ان کی امامت کی۔

امام علی بن حزم کاقول ہے کہ جوان اور بوڑھی عورتیں (مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے) برابر ہیں۔

بے محل نہ ہوگا اگر ’المحلی‘ کی اس بحث کے آخر میں عصر حاضر کے عالم جامعۂ اسلامیہ مدینہ منورہ کے استاد اور شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ شیخ محمد غزالی مرحوم کی کتاب ’السنۃ النبویۃ بین اھل الفقہ واھل الحدیث‘ کا اقتباس پیش کر دیا جائے۔ جو اس مسئلہ پر مزید روشنی ڈالتا ہے۔شیخ محمد غزالی فرماتے ہیں:

’’نماز باجماعت اسلام کا ایک شعار ہے۔ جب سے اسلامی معاشرہ قائم ہوا مسجد اسلامی سرگرمیوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مل بیٹھنے کی جگہ ہے، جہاں پر محبت اورتعاون کے جذبے کے ساتھ چہرے سے چہرہ اور ہاتھ سے ہاتھ آپس میں ملتے ہیں۔‘‘( ۶۰۔۶۴)

مومن قدم سے قدم اور شانے سے شانہ ملا کر اللہ تعالیٰ کے سامنے باہم پیوستہ صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ (’اقیموا الصلٰوۃ‘ میں مردوں اور عورتوں، سب کو اقامت صلوٰۃ کا حکم ہے اور نماز باجماعت اقامت کا اہم جز ہے۔) خشوع وخضوع سے قرآن کی سماعت اور رکوع وسجود میں تسبیح وتحمید انھیں سنوارتی ہے۔

نماز کی فکری اور اخلاقی تاثیر خاصی گہری ہے۔ قرآن کی تلاوت معیار کو بلند کرتی ہے اور تقویٰ پیدا کرتی ہے اور باربار کی ملاقات خاص اور عام تعلقات کی محافظ ہوتی ہے۔ نماز سے مسلم امہ اس قابل ہوجاتی ہے کہ وہ آج اور کل کا سامنا باہم آشنا بن کر کرے نہ کہ اجنبی بن کر۔ اسی وجہ سے نماز باجماعت کو دین کی علامت ٹھہرایا گیا ہے۔ بعض فقہا کی رائے ہے کہ پانچوں نماز یں باجماعت پڑھنا فرض ہے جو صحیح عذر کے بغیر ساقط نہیں ہوتا، لیکن جمہور علما کا قول ہے کہ نماز باجماعت سنت موکدہ ہے۔

کیا نماز مرد اور عورت، دونوں کے لیے سنت موکدہ ہے؟ ظاہری فقہ کے علما کی یہی رائے ہے ۔ لیکن اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔

صحیح سنت میں وارد ہے کہ عورت اپنے گھر کی نگہبان ہے اور وہ اپنے زیرنگرانی افراد کے لیے جواب دہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کے معاملات خاص طور پر شیر خوارگی اور کام کاج سے لوٹنے والے مرد کے استقبال کی تیاری، عورت کے لیے باجماعت نماز پنج گانہ کی پابندی کے راستے میں حائل ہے۔ اس لیے ہماری رائے یہ ہے کہ اس کے لیے باجماعت نماز میں حاضری اس وقت مطلوب ہے جب وہ گھر کے کام کاج سے فارغ ہو جائے۔ جب وہ اپنے فرائض سرانجام دے لے تو پھر اس کے خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے مسجد میں جانے سے روکے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے:’’تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔‘‘ ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے مسجد نبوی کا ایک دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص کر رکھا تھا اور آپ نے انھیں مسجد کی پچھلی صفوں میں کھڑا ہونے کی ہدایت کی تھی، کیونکہ یہ بات رکوع وسجود میں ان کے لیے محفوظ تر تھی اور آپ نے ان مردوں کو ڈانٹ ڈپٹ کی جو ان کی صفوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ بالکل اسی طرح آپ نے ان عورتوں کوبھی ڈانٹ ڈپٹ کی جو مردوں کی صفوں سے قریب ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔ مسجد میں عورتوں کی صفیں عہد رسالت اور خلافت راشدہ کے دور میں برقرار رہیں۔ اس بنا پر کسی ہنگامہ کرنے والے نے کوئی ہنگامہ نہیں کیا، یہ صفیں نماز فجر سے شروع ہو کر عشا تک چلتی تھیں۔

اکثر اوقات رمضان میں تراویح کے لیے عورتوں کی بھر پور جماعت ہوتی تھی۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ نماز عید اورخطبہ کی سماعت میں ان کی شرکت اسلام کا ایک شعار ہے۔لیکن عالم نسواں کی ترقی کا جو پودا اسلام نے لگایا تھا وہ اب مرجھا کر سوکھنے لگا ہے۔ عورتوں کو کتابت کی تعلیم سے روکنے کے لیے حدیث وضع کی گئی تاکہ وہ پہلے کی طرح ان پڑھ رہیں۔اس جہالت کا فائدہ کسے ہے؟

جب امت کے نصف حصے پر جہالت اور بے بصری ٹھونس دی جائے تو آنے والی نسلوں کی نشوونما کیسے ہوگی؟

پھر ایک اور حدیث کا چرچا ہوا جو عورتوں کو تمام نمازیں باجماعت ادا کرنے سے روکتی ہے، بلکہ ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ جب وہ گھر میں نماز پڑھنا چاہیں تو وحشت زدہ اورالگ تھلگ جگہ منتخب کریں، کیونکہ تہ خانے میں اس کی نماز کمرے میں پڑھنے سے افضل ہے اور تاریکی میں اس کی نماز روشنی میں پڑھنے سے افضل ہے۔

اس حدیث کا راوی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی سنت متواترہ کو پس پشت ڈال رہا ہے۔

وہ نماز پڑھنے والی عورت کو باعث اذیت سمجھتا ہے اوراسے تنگ ترین اور بعید ترین جگہ میں قید کرنا ضروری گردانتا ہے۔ آئیے ہم اس غریب حدیث کو پڑھیں جس کا ذکر ابن خزیمہ وغیرہ نے کیاہے۔

’’ام حمید ابو حمید ساعدی کی زوجہ نے روایت کی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا: مجھے پتا ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو، حالانکہ اپنی خواب گاہ کے اندر تمھاری نماز اپنے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور اپنے کمرے کے اندر تمھاری نماز اپنے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور احاطے کے اندر تمھاری نماز اپنے قبیلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے او ر اپنے قبیلے کی مسجد میں تمھاری نماز میری مسجد میں پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘ راوی کا قول ہے کہ انھوں نے حکم دیا تو ان کے گھر کے انتہائی دور دراز اور انتہائی تاریک حصے میں ان کے لیے مسجد بنائی گئی۔ وہ اپنی وفات تک اسی میں نماز پڑھتی رہیں۔ حدیث میں بیت سے مراد خواب گاہ اور کمرے سے مراد ڈرائنگ روم ہے۔ پہلے میں نماز دوسرے میں نماز سے افضل ہے۔ اور ڈرائنگ روم میں نماز گھر کے احاطہ (آنگن) میں نماز سے افضل ہے اور احاطے میں نماز قبیلے کی مسجد میں نماز سے افضل ہے۔ جوں جوں جگہ تنگ اور وحشت زدہ ہوتی جاتی ہے، نماز افضل ہوتی جاتی ہے۔

ابن خزیمہ نے جس باب میں اس مسئلے کا ذکر کیا ہے، اس کا عنوان رکھا ہے ’صلاۃ المراۃ فی بیتھا افضل من صلاتھا فی مسجد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وان قول النبی علیہ الصلاۃ والسلام صلاۃ فی مسجدی ھذا افضل من الف صلاۃ فیما سواء من المساجد انما اراد بہ صلاۃ الرجال دون صلاۃ النساء‘ ،’’عورت کی اپنے گھر (خواب گاہ) میں نماز مسجد نبوی میں نماز سے افضل ہے اور یہ جو نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ: میری اس مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے ۔ اس سے مراد مردوں کی نماز ہے نہ کہ عورتوں کی۔‘‘

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے تو نبی کریم پورے دس سال فجر سے لے کر عشا کی نماز باجماعت پڑھنے کی عورتوں کو اجازت کیوں دیتے رہے؟ آپ نے ان کے داخل ہونے کے لیے مسجد کا ایک دروازہ کیوں مخصوص کیا؟ اس مشقت کو اٹھانے کی بجائے انھیں گھروں میں رہنے کی نصیحت کیوں نہ کی؟ اس ڈر سے کہ ماں کی توجہ نماز سے ہٹ نہ جائے آپ نے شیر خوار بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز فجر میں دوچھوٹی سورتوں کی تلاوت پر اکتفا کیوں کیا؟ آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو؟ رسول کریم کی وفات کے بعد خلافت راشدہ میں عورتوں کی صفیں کیوں بڑھ گئیں؟

بے شک ابن حزم نے عورتوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنے والی احادیث کی تکذیب کرکے اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی سکون پہنچایا ہے۔

اصطلاحات حدیث کے علما کا قول ہے جب کسی ثقہ راوی کی مخالفت اس سے بڑھ کر ثقہ راوی کرے تو وہ حدیث شاذ شمار ہوگی ۔ اور اگر راوی ثقہ نہ ہو، بلکہ ضعیف ہو تو حدیث متروک اور منکر ہوگی۔

صحیحین (صحیح بخاری اور مسلم) میں کوئی ایسی حدیث وارد نہیں جس سے عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع کرنے کا مفہوم نکلے۔ یہ ساری کی ساری روایتیں مردود ہیں۔ اگر ایک ضعیف راوی عملی مشہورو متواتر سنت کے خلاف حدیث بیان کرے تو پھر کیا کیفیت ہوگی؟اس کی مروی حدیث تو آغاز میں سے خارج ازامکان ٹھہرے گی۔

مسلمانوں پر ایسا وقت بھی آیا جب صحیح سنت مردہ ہو گئی۔ یہ المیہ ابھی تک باقی ہے اور ایسے معاشرے اس المیے کی طرف داری کرتے ہیں جن کو متروک ومنکر روایات کے علاوہ کسی بات کا علم نہیں۔اگر عورت بن سنور کر نماز باجماعت میں حاضر ہوتو ممانعت قابل قبول ہے، کیونکہ مسجدوں میں جانا زیب وزینت کی نمایش اور فتنہ پھیلانے کے لیے نہیں، وہ تو اللہ کو راضی کرنے کی ایک کاوش اورتقویٰ کی تخم ریزی کا ایک موقع ہے۔

عورتوں کو اس شر سے روکنا تو اللہ کے رسول کے اس حکم کے نفاذ کے لیے ہے کہ ’’وہ خوش بو لگا کر نہ نکلیں۔ ‘‘یعنی عام سا لباس پہن کر قدرتی وضع قطع کے ساتھ نکلیں نہ کہ خوش بو لگا کر متکبرانہ چال ڈھال کے ساتھ۔رہی بات عورتوں کے لیے مسجدوں میں جانے کی حرمت کا حکم، تو یہ ایک ایسا مسلک ہے جس سے اسلام کا کوئی واسطہ نہیں۔ ’وباللّٰہ تعالٰی التوفیق‘۔

________________

B