الطاف احمد اعظمی
[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کے قانون طلاق کو موجودہ دور کے جملہ قوانین طلاق پر برتری حاصل ہے۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ اول الذکر وحی پر مبنی قانون ہے یعنی اس کا ماخذ خداے علیم وخبیر کی ذات ہے جس میں کوئی تبدیلی اور تغیر ممکن نہیں، اور اسی کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق اس جہان آب وگل کی ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے طبعی وظائف انجام دے رہی ہے اور اس میں حد درجہ توافق و سازگاری ہے، کہیں معمولی قسم کا بھی کوئی اختلاف ونزاع نہیں ہے۔ سب موجودات کی جبین نیاز اس حاکم مطلق کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ اس کے برخلاف دوسرا قانون وہ ہے جس کا ماخذ انسان کا ذہن ہے جو اپنے تمام حیرت انگیز کمالات کے باوجود بہرحال نقص وتغیر کے عیب سے خالی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ارتقائی عمل رکھتا ہے، یعنی نقص سے گزر کر کمال تک پہنچتا ہے اور یہ کمال بھی اضافی ہے، مستقل اور قائم بالذات نہیں ہے۔ ایک خاص وقت اور زمانے میں جو چیز اکمل وکامل سمجھی جاتی ہے، وہ آگے چل کر حالات کے تغیر کے ساتھ ناقص بن جاتی ہے۔ اس کا اطلاق انسان کے وضع کردہ قوانین پر بھی ہوتا ہے خواہ وہ کسی دور میں بنایا گیا ہو اور اس کے بنانے والے کتنے ہی جلیل القدر ماہرین قانون ہوں۔
لیکن اس واضح حقیقت کے باوجود کیا سبب ہے کہ تقریباً ہر دور میں خدا کے قانون کے مقابلے میں انسانی قانون کو ترجیح دی گئی ہے اور آج بھی یہ صورت برقرار ہے۔ اس کی وجہ راقم سطور کے نزدیک یہ ہے کہ ہر زمانے میں ایک مختصر وقت کے بعد خدا کا قانون اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں رہا، اس میں تاویل وتفسیر کی شکل میں انسانی ذہن شامل ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے کلی قوانین کے مقابلے میں فقہا کے وضع کردہ جزئی قوانین پر زیادہ توجہ مرکوز ہو گئی اور ان کو کلی اصولوں کی طرح غیر متغیر سمجھ لیا گیا جیسا کہ اس وقت اسلامی قوانین کا حال ہے، اور اس کا قانون طلاق بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ خدا کا کلی قانون کچھ اور تھا اور تقلید پرست اور جزئیات کے دل دادہ علماوفقہا کی قیل وقال نے اس کو کچھ اور بنا دیا ہے جیسا کہ آگے قارئین دیکھیں گے۔
اسلام کی نظر میں نکاح کی حیثیت غیر معمولی ہے اور اس کو میثاق غلیظ یعنی پختہ عہد سے تعبیر کیا گیا ہے: ’وَاَخَذْنَ مِنْکُمْ مِّیْثَاقاً غَلِیْظاً‘ (النساء۴: ۲۱) ’’اور وہ (منکوحہ عورتیں) تم سے میثاق غلیظ (پختہ عہد) لے چکی ہیں۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نکاح دراصل ایک سماجی معاہدہ ہے جس کے دوفریق ہیں، مرد اور عورت۔ اسلام میں معاہدے کی پابندی پر بہت زور دیا گیا ہے، خواہ یہ معاہدہ دو افراد کے درمیان ہو یا دو قوموں کے درمیان، اور خواہ اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان ہو۔ قرآن مجید میں ایک سے زیادہ مقامات پر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں اور اس کو توڑنے سے گریز کریں۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَہْدِ اِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُوْلاً.(بنی اسرائیل۱۷ :۳۴)
’’عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کی باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘
قرآن مجید میں متقین کی جن اہم صفات کا ذکر ہوا ہے ، ان میں ایک اہم صفت عہد کی پابندی ہے، فرمایا گیا ہے:
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ.(المومنون۲۳ :۸)
’’اور وہ (اپنے پاس رکھی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہدوپیماں کا خیال رکھنے والے ہیں۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے:
بَلٰی مَنْ أَوْفٰی بِعَہْدِہٖ وَاتَّقٰی فَإِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ.( آل عمران۳ :۷۶)
’’جس نے اپنے عہد کو پورا کیا اور اس کی خلاف ورزی سے بچا تو بے شک، اللہ ایسے ہی خدا ترسوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اگر یہ عہدوپیماں کفار اور مسلمانوں کے درمیان ہو تب بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اس کی پاس داری کریں اور اس کو ناحق توڑنے سے بچیں، فرمایا ہے:
کَیْْفَ یَکُوْنُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِندَ اللّٰہِ وَعِندَ رَسُولِہٖٓ إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوْاْ لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ. (التوبہ۹ :۷)
’’مشرکین کا عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے (قابل لحاظ) رہے گا بجز ان کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا ہے۔ پس جب تک وہ تم سے سیدھی طرح رہیں(یعنی معاہدے پر قائم رہیں) تم بھی ان سے سیدھی طرح رہو (یعنی معاہدے پر قائم رہو)۔‘‘
یہودی قوم جن وجوہ سے اللہ کی نظر میں مبغوض ٹھہری ، ان میں سے ایک بڑی وجہ ان کی عہد شکنی ہے۔ قرآن مجید میں اس قوم کی عہد شکنی کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ہے:
أَوَکُلَّمَا عَاہَدُوْا عَہْداً نَّبَذَہُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ .(البقرہ۲ :۱۰۰)
’’اور جب بھی ان لوگوں نے کوئی عہدوپیماں کیاتو ان کے کسی فریق نے اس کو ضرور پس پشت ڈالا ہے۔‘‘
آیات مذکورہ سے واضح ہو گیا کہ اسلام کی نظر میں عہدوپیماں کی غیر معمولی اہمیت ہے اور عہد شکنی کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نکاح جیسا کہ اوپر بیان ہوا، ایک معاہدہ ہے جو زوجین کے درمیان ان کی باہمی رضامندی سے طے پاتا ہے۔ یہ معاہدہ ایک خاندان (فیملی) کی بنا ڈالنے اور مل جل کر ازدواجی زندگی گزارنے سے متعلق ہوتا ہے۔ جس طرح دوسرے سماجی معاہدات مختلف اسباب سے ٹوٹ جاتے ہیں ، اسی طرح معاہدۂ نکاح کا ٹوٹ جانا بھی عین ممکن ہے۔ لیکن دوسرے سماجی معاہدات، مثلاً معاہدۂ بیع وشراء، کے مقابلے میں معاہدۂ نکاح کا ٹوٹ جانا اپنے عواقب و اثرات کے لحاظ سے ایک خطرناک چیز ہے۔ اس لیے اسلامی شریعت نے اس معاملے میں غایت درجہ حزم واحتیاط سے کام لینے کی ہدایت کی ہے۔ چنانچہ اسلامی شریعت نے ان تمام ضروری احتیاطی تدابیر کو بیان کیا جن سے نکاح کا تحفظ ہو اور طرفین میں اختلاف ونزاع واقع نہ ہو۔ ان احتیاطی تدابیر کو ہم یہاں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
۱۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو جن میں مرد اور عورت، دونوں شامل ہیں، ہدایت کرتا ہے کہ وہ شادی سے پہلے خوب غوروفکر کر لیں اور جن امور کی تفتیش وتحقیق ضروری ہو ، ان کی خوب اچھی طرح تحقیق کر لیں۔ یہاں تک کہ اگر مرد اپنی زیر تجویز بیوی کو دیکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو تو شریعت اجازت دیتی ہے کہ وہ اس کو کسی عمدہ بہانے سے دیکھ لے۔ یہی اختیار لڑکی کے ولی کو دیا گیا ہے اور اس کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر شادی نہ کی جائے۔ اگر کسی لڑکی کا نکاح حد بلوغ کو پہنچنے سے پہلے کر دیا گیا ہے تو اسلامی شریعت اس کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ بلوغت کی منزل میں قدم رکھتے ہی اگر چاہے تو اس نکاح کو ختم کر دے۔ معلوم ہوا کہ طرفین کی مرضی کے بغیر اسلام میں نکاح ممنوع ہے۔
لیکن موجودہ مسلم معاشرے میں نکاح کے اس زریں اسلامی اصول کو جس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، وہ سب پر عیاں ہے۔ یہ امر نہایت برا سمجھا جاتا ہے کہ مرد کسی بہانے سے اس لڑکی کو دیکھ لے جو اس کی شریک حیات بننے والی ہے۔ اسی طرح عورت سے اس کی مرضی معلوم کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ آج بہت سی شادیاں طرفین کی رضا مندی کے بغیر انجام پاتی ہیں۔ یہ غیر اسلامی رواج ان مسلمانوں میں زیادہ ہے جو غیر تعلیم یافتہ ہیں یا رواجی مذہب کے دل دادہ ہیں۔ اس طرح کی شادیاں بسااوقات زوجین کے لیے غیر مفید، بلکہ تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں۔ اور اس کا لازمی نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگر مذکورہ اسلامی اصول کی پیروی کی جائے تو حفظ نکاح آسان ہو گا۔
۲۔ کوئی مرد یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ اس میں سب خوبیاں ہیں، عیب ایک بھی نہیں ہے، اور نہ کوئی عورت اس بات کی مدعی ہو سکتی ہے۔ اس لیے معاشرتی زندگی کا ایک سنہرا اصول یہ ہے کہ خامیوں سے صرف نظر کیا جائے اور خوبیوں پر نظر رکھی جائے۔ اسی صورت سے عائلی زندگی کی گاڑی صحیح خطوط پر چل سکتی ہے۔
زوجین کے درمیان خوش گوار تعلقات کے قیام کے لیے مذکورہ اصول کی پیروی نہایت ضروری ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ مرد اور عورت اپنی نفسیات اور طبائع کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف، بلکہ متضاد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ کمال علم وقدرت ہے کہ اس نے ضدین میں نہ صرف اتحاد پیدا کر دیا، بلکہ دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے ایک ناگزیر سماجی ضرورت بن گیا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک فریق دوسرے فریق کونظر انداز کر کے کبھی خوش گوار زندگی نہیں گزار سکتا۔ ضدین کے اس اتحاد کو قرآن مجید میں وجود خدا کی ایک بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ (الروم۳۰: ۲۱)
اس اتحاد میں بھی اختلاف کا فطری عنصر، بہرحال موجود ہوتا ہے۔ اس لیے فریقین پر واجب ہے کہ وہ ہر حال میں فطرت کے اس اختلاف پر نظر رکھیں اور اس کو اس کی فطری حد سے کبھی آگے بڑھنے نہ دیں۔ مرد ہمیشہ سوچے کہ اگر اس کی بیوی کے اندر کوئی کمی یا خامی ہے تو اس میں کوئی خوبی بھی ضرور ہوگی اور عجب نہیں کہ جو کمی ہے وہ اس کے حق میں باعث خیر ہو۔ اس حکیمانہ پہلو کی طرف قرآن مجید میں ان لفظوں میں مردوں کی توجہ مبذول کرائی گئی ہے:
وَعَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَإِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰٓی أَنْ تَکْرَہُوْا شَیْْئاً وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْْرًا کَثِیْرًا.(النسا ء۴ :۱۹)
’’بیویوں کے ساتھ بھلے ڈھنگ سے زندگی گزارو اگرچہ وہ تم کو ناپسند ہوں۔ عین ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دی ہو۔‘‘
۳۔ طلاق کے اسباب میں دو سبب کثیر الوقوع ہیں، ایک مرد کی جانب سے عورت کے نان ونفقہ کی عدم ادائیگی اور اس کے ساتھ حسن سلوک میں کمی یااس کا فقدان، اور دوسرے عورت کی زبان درازی اور نافرمانی ۔ چنانچہ قرآن مجید میں مردوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ خوش اطواری کے ساتھ زندگی گزاریں(النساء۴:۱۹)، ان کی کوتاہیوں سے چشم پوشی کریں اور لڑائی جھگڑے کے بجائے صلح جوئی کی روش اختیار کریں، فرمایا گیا ہے:
وَإِنِ امْرَأَۃٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِہَا نُشُوْزًا أَوْ إِعْرَاضًا فَلاَ جُنَاْحَ عَلَیْْہِمَٓا أَن یُّصْلِحَا بَیْْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْْرٌ وَأُحْضِرَتِ الأَنْفُسُ الشُّحَّ وَإِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(النساء۴ :۱۲۸)
’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے بے پروائی کا قطعی احتمال ہو تو اس امر میں کوئی مضایقہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کر لیں، اور صلح بہتر ہے۔ اور طبیعتوں میں حرص پیوستہ ہے۔ اگر تم (اپنی عورتوں کے ساتھ) اچھا برتاؤ کرو گے اور (برے سلوک) سے بچو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘
اسی طرح عورتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں۔ قرآن میں انھی عورتوں کو صالح کہا گیا ہے جو اپنے شوہروں کی بات مانتی ہیں اور اپنی عفت وپاک دامنی کی حفاظت کرتی ہیں۔ (النساء۴: ۳۴)
آج کل بہت سی جدید تعلیم یافتہ خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ شوہروں کی اطاعت کا حکم دے کر اسلام نے ان کا مرتبہ گھٹایا ہے۔ گھٹایا نہیں، بڑھایا ہے۔ فیملی کی حیثیت ایک ادارے کی سی ہے اور دوسرے سماجی ادارات کی طرح یہاں بھی ضروری ہے کہ ایک منتظم ہو جس کی بات مانی جائے۔ قرآن مجید کا فیصلہ ہے کہ یہ حیثیت مرد کو حاصل ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد ڈکٹیٹر بن جائے۔ فیملی کے منتظم ہونے کی حیثیت سے یہ بات اس کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کرے اوراس کے حقوق کسی لیت ولعل کے بغیر ادا کرے۔ اس حسن سلوک اور خبرگیری کے عوض میں عورت کے ذمہ شوہر کی اطاعت ہے۔ اگر ایک فریق نے بھی اپنے فرائض سے پہلو تہی کی تو پھر ازدواجی زندگی کا قیام واستحکام ناممکن ہے۔ خاندان کی بقا کا تقاضا ہے کہ فریقین اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔ طلاق کی نوبت آتی ہی اس وقت ہے جب کسی فریق کی جانب سے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی سرزد ہوتی ہے۔
مسلمانوں میں ان کی نادانی اور علما کی غلط رہنمائی کی وجہ سے یہ غلط رواج عام ہو گیا ہے کہ فوراً ہی طلاق دے دی جاتی ہے۔ یہ اسلام کے قانون طلاق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح کی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اگر یہ فعل کسی حقیقی اسلامی ریاست میں واقع ہو تو طلاق دینے والا سخت سزا پائے گا۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس کے قانون طلاق میں تدریج کا اصول بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے تو اس کو اس عمل سے پہلے چند مراحل سے گزرنا ہو گا ، اس کے بعد ہی طلاق کا مرحلہ آئے گا۔ ان تدریجی مراحل کی تفصیل درج ذیل ہے۔
عورتوں کے احساسات وجذبات بڑے نازک ہوتے ہیں، وہ نازک آبگینہ کی مانند ہیں کہ ذرا سی ٹھیس لگی اور ٹوٹ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں معمولی معمولی باتوں پر بہت جلد برافروختہ ہو جاتی ہیں اور بسا اوقات ان کی یہ برافروختگی شوہر کی نافرمانی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ عورتوں کی اس فطری کمزوری کی وجہ سے قرآن مجید میں مردوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ اگر عورتیں نافرمانی کریں تو مشتعل نہ ہوں اور رد عمل میں کوئی عاجلانہ فیصلہ نہ کر بیٹھیں، بلکہ صبر سے کام لیں۔ مردوں کی دانائی اس میں ہے کہ وہ ان کے ساتھ دل داری کا معاملہ کریں اور محبت سے سمجھائیں۔ اگر اس کے باوجود وہ نافرمانی سے باز نہ آئیں تو ان کو خواب گاہ سے علیحدہ کر دیا جائے۔ یہ تدبیر بھی ناکام ہو جائے اور وہ عدم تعاون کی روش نہ چھوڑیں تو پھر بادل نخواستہ ان کو جسمانی سزا دی جائے (النساء۴: ۳۴) شاید اس طرح وہ رجوع کر لیں اور طلاق کی نوبت نہ آئے۔
بہت سی عورتیں اور بعض مرد بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام نے نافرمان عورتوں کو جسمانی سزا کا حکم دے کر ان کی سخت توہین کی ہے۔ یہ ان کی کم فہمی ہے۔ انھوں نے اس سزا کو اس کے مخصوص محل سے الگ کر کے دیکھا ، اس لیے اس سزا کی حکیمانہ مصلحت کو وہ سمجھ نہیں سکے۔ قرآن مجید نے یہ سخت سزا اس لیے تجویز کی ہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں اس نے خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اس آخری اور بظاہر ناپسندیدہ تدبیر کو بھی اختیار کر لیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی نظر میں طلاق کس درجہ ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس نے یہ تو گوارا کر لیا کہ نافرمان عورت کو جسمانی سزا دی جائے، لیکن اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ اس عورت کوچھوڑ دیا جائے اور اس کی نادانی کی وجہ سے خود اس کا اور اس کے بچوں کا مستقبل تاریک ہو جائے۔
اس کے علاوہ جسمانی سزا کا حکم اس صورت میں دیا گیا ہے جب پہلی دو صورتیں (افہام اور خواب گاہ سے علیحدگی) ناکام ہو جائیں۔ ان تدابیر کی ناکامی اس امر کا ثبوت ہو گا کہ عورت کے اندر منفی داعیات بہت سخت ہیں۔ ایک نارمل عورت کے لیے یہی سزا بہت کافی ہے کہ شوہر اس سے تعلق زن وشو ختم کر لے۔ لیکن اگر کوئی عورت یہ سزا بھی جھیل جاتی ہے اور نافرمانی کی روش نہیں چھوڑتی تو اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس کی فطرت میں سرکشی ہے۔ لیکن اسلام اس سرکش عورت کوبھی چھوڑنے کا حکم نہیں دیتا، بلکہ اس کو راہ راست پر لانے کے لیے جسمانی سزا تجویز کرتا ہے تا کہ وہ نافرمانی کی راہ چھوڑ دے اور شوہر کی مطیع وفرماں بردار بن جائے۔ اور اس طرح وہ طلاق کے تباہ کن نتائج سے محفوظ ہو جائے۔
لیکن اگر جسمانی سزا بھی بے اثر ثابت ہو اور عورت بدستور نشوز کی روش اختیار کیے رہے تو ہر منصف مزاج شخص کا یہی فیصلہ ہو گا کہ اب طلاق کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ لیکن اسلامی قانون کی خوبی دیکھیں کہ وہ اب بھی توقف اختیار کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ مرد اور عورت ، دونوں کے خاندان سے ایک ایک فرد بطور حکم لیا جائے اور ایک فیملی کورٹ بنائی جائے۔ یہ کورٹ اس بات کی حتی المقدور کوشش کرے کہ طرفین میں مصالحت ہو جائے اور طلاق واقع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر وہ صدق دل سے باہم ملنا چاہیں گے تو وہ ان میں اتحاد پیدا کر دے گا۔ (النساء۴: ۳۵)
اگر فیملی کورٹ بھی فریقین کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب نہ ہو تو اس وقت اسلام مرد اور عورت، دونوں کو جدا ہو جانے کا اختیار دیتا ہے۔ مرد کو یہ اختیار طلاق کی صورت میں اور عورت کو خلع کی شکل میں حاصل ہے۔
قرآن مجید کی ایک سے زیادہ سورتوں میں اسلام کے قانون طلاق کا ذکر آیا ہے، مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا ہے:
الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّآ آتَیْْتُمُوْہُنَّ شَیْْءًا إِلاَّ أَنْ یَّخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُوْلٰءِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَٓا أَنْ یَّتَرَاجَآَا إِنْ ظَنَّآ أَنْ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلاَ تَتَّخِذُوْٓا آیَاتِ اللّٰہِ ہُزُوًا وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ وَمَآ أَنْزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ أَن یَّنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکٰی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۲۹۔۲۳۲)
’’طلاق دو مرتبہ ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق، خواہ چھوڑ دینا خوش اسلوبی کے ساتھ۔ اور تمھارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ (وقت رخصت) اس میں سے کوئی چیز بھی واپس لو جو تم نے ان کو دے رکھی ہے۔ مگر اس وقت جب میاں بیوی کو احتمال ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے، اور تم کو بھی (اے مسلمانو،) یہ اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی ضابطوں کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہو گا اس (مال کے لینے دینے) میں جس کو دے کر عورت گلو خلاصی حاصل کرلے۔ یہ خدائی ضابطے ہیں، ان ضابطوں سے ہرگز تجاوز نہ کرو۔ اور جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کر جائے تو ایسے ہی لوگ اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ پھر اگر کسی نے (تیسری مرتبہ) عورت کو طلاق دے دی تو اب وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔ پھر اگر یہ (دوسرا) خاوند اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ دوبارہ مل جائیں بشرطیکہ دونوں حدود اللہ کو قائم رکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ اور یہ خداوندی ضابطے ہیں۔ اللہ ان ضابطوں کو ان لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے جو اہل دانش ہیں۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو قاعدہ کے موافق روک لو یا قاعدہ کے موافق ان کو رخصت کر دو۔ ان کو ستانے کی غرض سے ہرگز نہ روکو۔ اور جو شخص ایسا کرے گا سو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور اللہ کے احکام کے ساتھ کھلواڑ نہ کرو۔ اور جو نعمتیں اللہ کی تم پر ہیں ، ان کو یاد کرو اور (خصوصاً) اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے جس کے ذریعہ سے وہ تم کو نصیحت کرتا ہے۔ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے ڈرو اور یقین رکھو کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی معیاد (عدت) پوری کر لیں تو تم ان کو اس بات سے نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ قاعدہ کے موافق باہم رضامند ہوں۔ اس بات کی نصیحت تم میں سے ہر اس شخص کو کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اس نصیحت کو قبول کرنا تمھارے لیے زیادہ صفائی اور زیادہ پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ (اس قانون کی حکمت کو) جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘
ان آیات کی روشنی میں اسلام کے قانون طلاق کی درج ذیل اہم خصوصیات کا علم حاصل ہوتا ہے:
۱۔ اسلام کے قانون طلاق کی پہلی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں طلاق دینے اور اس کے واقع(Operational) ہونے میں تین ماہ کا فصل ۱ رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ شوہر کے حق رجعت کو دو طلاقوں تک محدود کیاگیاہے جیسا کہ ’الطلاق مرتان... الخ‘ کے جملے سے واضح ہے۔ لیکن بہت سے علما و فقہا نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ طلاق دو مجلس یا دو الگ الگ طہر میں دی جائے۔ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
’’مرتان کے لفظ میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ دو طلاق بیک وقت وبیک لفظ نہ ہوں بلکہ دو طہروں میں الگ الگ ہوں۔ ’الطلاق مرتان‘ سے بھی دو طلاق کی اجازت ثابت ہو سکتی تھی مگر ’مرتان‘ ایک ترتیب وتراخی کی طرف مشیر ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ دو طلاقیں ہوں تو الگ الگ ہوں۔ مثال سے یوں سمجھیے کہ کوئی شخص کسی کو دو روپے ایک دفعہ دے دے تو اس کو دو مرتبہ دینا نہیں کہتے۔ الفاظ قرآن میں دو مرتبہ دینے کا مقصد یہی ہے کہ الگ الگ طہر میں دو طلاقیں دی جائیں۔‘‘ ۲ (معارف القرآن ۱ /۵۶۰)
اس سلسلے میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں:
’’ایک ہی دفعہ دو طلاقیں دے دینی مکروہ ہیں، کیونکہ ’مرتان‘ کا لفظ تفریق پر دلالت کرتا ہے اور اشارۃً عدد پر۔ اور (’الطلاق‘ میں) لام جنس کے لیے ہے۔ پس قیاس تو یہ چاہتا ہے کہ اکٹھی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں اور جب دو طلاقیں معتبر نہ ہوئیں تو تین اکٹھی دینی تو بدرجۂ اولیٰ معتبر نہ ہوں گی، کیونکہ تین میں دو سے زیادہ زیادتی ہے۔‘‘(تفسیر مظہری، قاضی ثناء اللہ پانی پتی۱ /۳۰۰)
لیکن راقم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں ہے۔ ’الطلاق مرتان‘ سے دو الگ الگ مجلس یا طہر میں طلاق دینا مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے دو ایسی رجعی طلاقیں مراد ہیں جن کے دینے کا اختیار ایک مرد کو اپنی پوری ازدواجی زندگی میں حاصل ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ حالت طہر میں طلاق دے اور عدت کے اندر رجوع کر لے پھر آگے چل کر کسی سبب سے دوسری مرتبہ طلاق دے اور پھر عدت کے اندر رجوع کر لے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی موقع پر تیسری طلاق دے دی تو اب اس کا حق رجوع ساقط ہو گیا اور عورت اس سے جدا ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ ’الطلاق مرتان‘ سے تعداد طلاق کی تحدید بھی مقصود ہے جو ایام جاہلیت اور شروع اسلام میں غیر محدود تھی۔ عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ابتداے اسلام میں لوگوں کی حالت یہ تھی کہ بے حدوحساب طلاقیں دیتے تھے۔ کوئی یہ کرتا کہ بیوی کو طلاق دے دی اور جب اس کی عدت ختم ہونے کے قریب آئی تو رجوع کر لیا پھر اسی طرح طلاق دے دی محض بیوی کو ستانے کی غرض سے۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ ’الطلاق مرتان‘ ۔ ۳
ہم نے اوپر ’الطلاق مرتان‘ کا جو مفہوم بیان کیا ہے ، اس کی تائید مشہور صحابی حضرت رکانہ کے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں ان کی طلاق کا واقعہ مذکور ہے۔ اہل حدیث کا مسلک اسی روایت پر ہے اور اس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق عہد نبوی میں دی، دوسری طلاق عہد فاروقی میں اور تیسری طلاق عہد عثمانی میں دے کر بیوی کو چھوڑ دیا۔ ۴ یہی مطلب ہے ’الطلاق مرتان...فان طلقھا...‘ کا۔
قرآن مجید نے ہر اس زیادتی کا تدارک کیا جو اہل عرب کی ازدواجی زندگی میں عورتوں کے ساتھ روا رکھی جاتی تھی۔ عربوں میں طلاق کی ایک شکل ایلاء تھی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ایلاء اہل جاہلیت کی طلاق تھی۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ ایلاء اہل جاہلیت کا ستانا تھا۔ جب کسی کو اپنی بیوی سے محبت نہیں ہوتی تھی اور وہ یہ بھی نہ چاہتا کہ کوئی دوسرا اس سے نکاح کرے تو وہ یہ قسم کھا لیتا کہ میں کبھی اس کے نزدیک نہ جاؤں گا۔ اس کو اس طرح چھوڑے رکھتا کہ وہ نہ مطلقہ ہوتی اور نہ خاوند والی۔ شروع اسلام میں بھی اس طلاق کا رواج تھا۔ پھر اسلام نے اس کی مدت متعین کی۔۵
قرآن مجید نے اس نوع کی طلاق کی جو مدت متعین کی، وہ چار ماہ ہے۔ حکم دیا کہ شوہر اس مدت کے اندر رجوع کر لے ورنہ طلاق دے۔ اس طلاق کو طلاق رجعی کے درجہ میں رکھا گیا ہے۔ دارقطنی نے اسحاق سے جو روایت نقل کی ہے ، اس میں حضرت عمر کا قول ہے کہ جب چار مہینے گزر جائیں تو وہ ایک ہی طلاق ہے اور وہ طلاق والی عورت کی طرح عدت پوری کرے۔
اس نوع کی طلاق میں بھی جو حد درجہ تکلیف دہ طلاق ہے، شوہر کے حق رجوع کو باقی رکھا گیا ہے۔ ۶ معلوم ہوا کہ اسلام کی نظرمیں صحیح اور پسندیدہ طلاق وہ ہے جس میں عدت کے ساتھ رجعت کا دروازہ کھلا ہو۔
۲۔ اسلام کے قانون طلاق کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جس طرح مرد کو طلاق کا حق ہے اسی طرح عورت کو بھی اس کا حق حاصل ہے کہ وہ مہر کی رقم دے کر شوہر سے آزادی حاصل کر لے۔ ۷ اس کو اصطلاح فقہ میں خلع کہا جاتا ہے۔
۳۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اگر شوہر عدت کے اندر رجوع نہ کرے، لیکن بعد میں بیوی کو واپس لینا چاہے اور عورت بھی راضی ہو تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں عورت کے گھر والوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ رجعت کے اس عمل میں مانع نہ ہوں۔ ۸ اس سے بالکل ظاہر ہے کہ رجعت اسلام کی نظر میں ایک نہایت پسندیدہ امر ہے۔ ان علماے کرام کی عقلوں پر رونا آتا ہے جو منشاے قرآن کے خلاف زوجین کو ملنے سے روکتے ہیں، محض اس بنا پر کہ نادان شوہر کے منہ سے غصے میں یا جہالت کی وجہ سے تین طلاق کے الفاظ نکل گئے۔
۴۔ اسلام کے قانون طلاق کی چوتھی اہم خصوصیت یہ ہے کہ طلاق رجعی کے بعد عورت کو گھر سے نکالنا ممنوع ہے، البتہ یہ کہ اس نے کوئی بے حیائی کا کام کیا ہو۔
۵۔ پانچویں اہم خصوصیت یہ ہے کہ عدت مکمل ہونے پر، خواہ عورت کو واپس لیا جائے اور خواہ رخصت کیا جائے، یعنی طلاق کا عمل واقع ہو جائے، دونوں صورتوں میں دو معتبر گواہوں کی گواہی ضروری ہے۔ موخر الذکر دو اہم خصوصیات کا ذکر سورۂ طلاق میں ان لفظوں میں آیا ہے:
یٰٓأَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ یَّأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ أَمْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّأَشْہِدُوْا ذَوَیْْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَأَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ.(الطلاق۶۵: ۱۔۲)
’’اے نبی (تم لوگوں سے کہہ دو کہ) جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو عدت کے وقت میں (یعنی طہر میں) طلاق دو اور عدت کو یاد رکھو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو جو تمھارا آقا اور حاکم ہے۔ ان عورتوں کوان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں بجز اس کے کہ وہ بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ خدا کے مقرر کیے ہوئے ضابطے ہیں۔ اور جو شخص ضوابط خداوندی سے تجاوز کرے گا تو اس نے خود اپنا ہی نقصان کیا۔ تم کو خبر نہیں شاید اللہ تعالیٰ اس (طلاق) کے بعد (ملاپ کی) کوئی صورت پیدا کردے۔ پھر جب وہ عورتیں اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو خواہ تم ان کو قاعدہ کے موافق روک لو یا قاعدہ کے موافق ان کو رخصت کردو۔ اور اپنے میں سے دو معتبر گواہوں کواس پر گواہ کر لو اور (اے گواہو، اگر گواہی کی حاجت پڑے تو) کسی رورعایت کے بغیر ٹھیک ٹھیک گواہی دو۔‘‘
آ ج کل مسلمانوں میں جس قسم کی طلاق کا رواج ہے ، اس میں قرآن کے قانون طلاق کے مذکورہ تمام پہلووں کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ پھر بھی ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں ۔ خرابی صرف تین طلاقوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ پورا مسلم معاشرہ غیر اسلامی رسوم ورواج سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں اس کا موقع ومحل نہیں کہ ان سماجی خرابیوں کو بیان کیا جائے۔ لیکن تین طلاقوں کی جو خرابی علما کے غلط فتووں کی وجہ سے مسلم سماج میں سرایت کر گئی ہے ، اس کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس خرابی نے ہزاروں معصوم عورتوں اور بچوں کی زندگیوں کو تباہ کیا ہے اور ان کے مستقبل کو تاریک بنایا ہے۔
فقہاے احناف کہتے کہ اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے ایک ہی مجلس میں بیک وقت تین طلاقیں (طلاق ثلاثہ) دے دیں تو وہ واقع ہو جائیں گی یعنی طلاق بائن اور اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی۔ اور بغیر نکاح ثانی (حلالہ) کے وہ اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔ یہ فقہ حنفی کا معروف مسلک ہے اور عرصۂ دراز سے بہت سے مسلم ملکوں میں رائج ہے۔ لیکن اہل حدیث کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق سمجھا جائے گا اور شوہر کو عدت کے اندر حق رجوع حاصل ہوگا۔ امامیہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ راقم کے نزدیک یہی مسلک درست ہے، اول الذکر مسلک سراسر خلاف قرآن ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو آگے آرہی ہے۔
جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں، تین طلاقوں کا تعلق ازدواجی زندگی کے تین مختلف زمانوں سے ہے۔ انھی تین متفرق طلاقوں کو عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں بعض صحابہ نے غلطی سے جمع کر لیا۔ انھوں نے سمجھا کہ ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ، خواہ تین طلاقوں کو تین الگ الگ وقتوں میں دیں اور خواہ ان کو جمع کر کے ایک ہی وقت میں دے دیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ تاویل منشاے قرآن کے خلاف تھی۔ امام نسائی بہ روایت محمود بن لبید نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں۔ آپ غصہ میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ یہ سنتے ہی ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول، کیا میں اس کو قتل نہ کر دوں ’الا اقتلہ‘۔ ۹
لیکن آپ کی اس ناراضی کے باوجود بہت سے صحابہ غصہ میں اپنی بیویوں کو ایک ہی وقت میں تین اور بسا اوقات اس سے زیادہ طلاقیں دے ڈالتے اورپھر غصہ ٹھنڈا ہونے پر افسوس کرتے۔ آگے چل کر اس غلط طریقۂ طلاق کا کثرت سے رواج ہو گیا اور آج تک یہ غیر شرعی طریقۂ طلاق مسلم معاشرہ میں رائج ہے۔
اس سلسلے میں جو روایتیں ہم تک پہنچی ہیں ، ان کے تحقیقی جائزہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس طرح کی جو طلاقیں دی گئیں ، ان میں آپ کاطرز عمل مختلف تھا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو جاتا کہ تین طلاقیں وقتی اشتعال میں آکر دی گئی ہیں اور طلاق دینے والے کی نیت بیوی کو چھوڑنے کی نہیں تھی تو اس طلاق کو طلاق رجعی قرار دیتے اور شوہر کو رجوع کا حکم صادر فرماتے۔ اور جب یہ یقین ہو جاتا کہ طلاق دینے والے کی نیت بیوی کو چھوڑنے کی تھی تو طرفین میں تفریق کرا دیتے۔
دونوں فیصلوں کی نظیریں کتب حدیث میں موجود ہیں۔ اول الذکر فیصلہ کی بہترین نظیر حضرت رکانہ کی طلاق ہے۔ اس طلاق کا ذکر حدیث کی مختلف کتابوں،ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی میں مختلف سندوں کے ساتھ آیا ہے۔ اکثر ارباب علم نے امام داؤد کی روایت کو جس میں ’البتتہ ‘کا لفظ ہے، صحیح قرار دیا ہے۔ یہ لفظ عربوں کی بول چال میں تین طلاقوں کے لیے کثیر الاستعمال تھا، لیکن تین اس کا صریح مفہوم نہ تھا۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رکانہ کی طلاق کو رجعی قرار دیا۔ لیکن اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ کی تحقیق یہ ہے کہ ابو داؤد کی سند میں بعض مجہول راوی ہیں جن کی تضعیف امام بخاری اور دوسرے محدثین نے کی ہے۔ اس بنا پر ابن تیمیہ نے امام احمد بن حنبل کی مسند میں مروی روایت کو باعتبار سند زیادہ قوی بتایا ہے اور اسی کو ترجیح دی ہے۔ روایت اس طرح ہے:
’’ابن عباس نے روایت کی ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں۔ اس پران کو شدید رنج ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا، تم نے کس طرح طلاق دی تھی۔ انھوں نے کہاکہ تین طلاق۔ پھر پوچھاکہ ایک ہی مجلس میں؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ ایک ہی طلاق ہے، اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ چنانچہ رکانہ نے رجوع کر لیا۔‘‘ ۱۰
دوسری طلاق کی مثال حضرت عویمر عجلانی کی ہے جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کیا اور پھر کہا: اللہ کے رسول میں اس پر جھوٹ بولنے والا ہوں گا اگر میں نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا، اور پھر عویمر نے اس کو تین طلاقیں دیں قبل اس کے کہ رسول اللہ ان کو حکم دیتے۔ ۱۱
حضرت ابو ذر نے اس واقعہ کو حضرت سہل بن سعد کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد فرمایا:
’’تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نافذ فرمایا۔ اور رسول اللہ کے سامنے جو کچھ پیش آیا ، وہ سنت قرار پایا۔ سعد فرماتے ہیں کہ اس موقع پر میں رسول اللہ کے پاس حاضر تھا۔ پس اس کے بعد لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ سنت رائج ہوگئی کہ ان کے درمیان تفریق کرادی جائے اور پھر وہ کبھی جمع نہ ہوں۔‘‘ ۱۲
دونوں واقعات میں طلاق کا فرق بالکل واضح ہے۔ آخر الذکر واقعہ کی شدت کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ حضرت عویمر نے رسول اللہ کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کیا اور پھر طلاق دے دی۔ اس طرز عمل سے صاف عیاں ہے کہ صحابی مذکور اپنی بیوی سے حد درجہ نالاں تھے اور وہ کسی قیمت پر اس کو اپنے پاس رکھنے کے لیے آمادہ نہ تھے۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں تفریق کرا دی۔ لیکن حضرت رکانہ کے معاملے میں اس سے بالکل مختلف طرز عمل اپنایا۔ ان کے رنج وصدمہ کو دیکھ کر آپ سمجھ گئے کہ انھوں نے تین طلاقیں شدت غضب سے مغلوب ہو کر دے دی تھیں۔ اس سے مقصود بیوی سے دائمی ترک تعلق نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے ان کے حق میں رجوع کا فیصلہ دیا۔
ان دونوں واقعات طلاق سے یہ فقہی اصول مستنبط ہوا کہ فتویٰ محض واقعے کی ظاہری صورت کو دیکھ کر نہیں دینا چاہیے، بلکہ ان احوال وکوائف کامطالعہ ضروری ہے جن کے زیر اثر فعل طلاق واقع ہوا ہے۔
اس فقہی اصول کو پیش نظر رکھیں تو اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہو جاتا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں طلاق کے بارے میں یہ دستور تھا کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ لوگ اس معاملہ میں جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں جس میں ان کے لیے مہلت تھی اس لیے مناسب ہو گا اگر ہم اس کو ان پر نافذ کر دیں تو آپ نے نافذ کر دیا۔ ۱۳
عہد رسالت میں طلاق دینے والے کی نیت کا لحاظ کر کے طلاق ثلاثہ کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا تھا۔ یہی طرز معاملہ خلیفۂ اول کے دور حکومت میں رہا اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں بھی اسی سنت پر عمل رہا جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج کے حالات میں طلاق دینے والے کی نیت کا لحاظ نہ کیا جائے۔ اگر شوہر حلفاً یہ بیان دے کہ تین طلاقوں سے اس کی نیت بیوی کو چھوڑنے کی نہیں تھی محض غصے میں تین کے الفاظ منہ سے نکل گئے تو اس طلاق کو طلاق رجعی قرار دیا جانا چاہیے ، کیونکہ اسلام کے قانون طلاق کا منشا یہ ہے کہ جب زوجین ملنا چاہیں تو ان کو ملنے دیا جائے۔ لیکن اگر تحقیق کے بعد یہ معلوم ہو کہ شوہر نے طلاق کسی وقتی جذبے سے مغلوب ہو کر نہیں دی ہے، بلکہ یہ اس کا خوب سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور وہ بیوی کو واپس لینے کے لیے بالکل آمادہ نہیں ہے تو پھر تفریق کرا دی جائے بشرطیکہ وہ ان تمام واجبات کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو جو بیوی سے ترک تعلق کی صورت میں اس پر شرعاً واجب ہوتے ہیں۔
جہاں تک حضرت عمر فاروق کے فیصلے کا تعلق ہے تو وہ ایک وقتی اجتہاد تھا اور اس دور کے مخصوص حالات ومسائل کے عین مطابق تھا، اور حاکم کو اجتہاد کا حق حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اس فیصلہ سے اس وقت کسی صحابی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔ امام طحاوی لکھتے ہیں:
’’پس حضرت عمر نے اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب فرمایا۔ ان لوگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ صحابہ بھی تھے جن کو اس سے پہلے رسول کریم کے زمانے کے طریقے کا علم تھا تو ان میں سے کسی نے انکار نہیں کیا اور نہ اسے رد کیا۔‘‘ ۱۴
وہ روایتیں (آثار صحابہ) جن میں تین طلاقوں کو طلاق بائن بتایا گیا ہے ، ان کا تعلق اسی دور سے ہے۔ حضرت عمر فاروق کے مذکورہ اجتہاد کو جسے بعض اہل علم نے تعزیری فیصلہ بتایا ہے، اسلام کے اصل قانون طلاق کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔ موجودہ حالات کاتقاضا ہے کہ عہد نبوی کے فیصلہ کو اختیار کیا جائے تاکہ ہزاروں مسلم خاندانوں کو تباہی سے بچایا جاسکے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ، دونوں میں مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل تھا۔ اس کے علاوہ ان کے معاشرہ میں مطلقہ اور بیوہ عورتوں کا نکاح ثانی آسانی کے ساتھ ہو جاتا تھا۔ وہ مطلقہ عورتیں جن کا کوئی پرسان حال نہ ہوتا ، ان کی کفالت اور خبر گیری ریاست کی ذمہ داری تھی۔ اس وقت یہ سب حالات عنقا ہیں ، اس لیے حضرت عمر کے اجتہادی فیصلے کوطلاق ثلاثہ کے واقع ہو جانے کے حق میں بطور دلیل پیش کرنا دلیل کم نظری ہے۔ ہر فتویٰ کو اس کے مخصوص ماحول میں رکھ کر دیکھنا چاہیے۔
اسلام نے طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ بتایا ہے کہ عورت کو حالت طہر میں مقاربت کے بغیر ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے۔ عدت گزرنے کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی۔ عدت گزرنے سے پہلے شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ رجوع کر لے۔ عدت کے بعد نکاح ثانی کی صورت میں عورت کو واپس لیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ واپسی کے لیے تیار ہو۔
ابو داؤدکی ایک روایت میں ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور ہوجائے تو ایک طلاق دے دے۔ اگر رجعت کا ارادہ نہ ہو تو اسے ویسے ہی رہنے دے یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز ہے ’ابغض الحلال الی اللّٰہ الطلاق‘ ۔۱۵
بہت سے نیم خواندہ مسلمان سمجھتے ہیں کہ جب تک تین بار طلاق کے الفاظ نہ کہے جائیں تو طلاق واقع ہی نہیں ہوتی۔ اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ جب ایک بار کہہ دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے تو پھر الفاظ طلاق کی تکرار بے سود ہے اور اس سے نفس واقعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ الفاظ طلاق کی تکرار بالعموم طلاق کو موکد کرنے کی غرض سے ہوتی ہے یا شوہر غصہ کی حالت میں مشتعل ہو کر تعداد طلاق کو بڑھا دیتا ہے۔ مثلاً یوں کہے کہ میں نے تم کو سو طلاقیں دیں۔ اس فعل سے گو کہ قابل مذمت ہے، طلاق کی نوعیت جوں کی توں قائم رہتی ہے یعنی وہ ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہوگا۔ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ بار اس نازیبا حرکت کا مرتکب ہو تو وہ یقیناًسزا کا مستحق ہے۔ حضرت عمر کے بارے میں روایت ہے کہ ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دینے والا کوئی شخص جب ان کے پاس لایا جاتا تو اس کو درے لگاتے۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک مجلس یا طہر میں تین طلاقیں دینا خلاف سنت ہے، اور یہ بلا شبہ خلاف سنت ہے، لیکن الگ الگ تین مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا مطابق سنت ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جس طرح ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا خلاف سنت ہے اسی طرح تین الگ الگ مجلسوں یا طہروں میں طلاق دینا بھی خلاف سنت ہے۔ فرق صرف درجے کا ہے۔ اول الذکر طلاق بدعت ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے، لیکن ثانی الذکر کو بدعت کے خانہ سے اس لیے نکال دیا گیا ہے کہ اس میں شوہر کے لیے غوروفکر اور رجعت کا موقع باقی رہتا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ طریقۂ طلاق بھی خلاف سنت ہے۔ مولانا مفتی محمد شفیع نے لکھا ہے:
’’یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور بہت سے دوسرے فقہا نے تیسری طلاق کو جائز نہیں رکھا ہے، اس کو وہ طلاق بدعت کہتے ہیں۔ اور دوسرے فقہا نے تین طلاقوں کو صرف اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں۔ ان فقہا کی اصطلاح میں اس کوبھی طلاق سنت کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں ہے کہ اس طرح تین طلاقیں دینا مسنون اور محبوب ہے بلکہ طلاق بدعت کے مقابلے میں اس کو طلاق سنت اس معنی سے کہہ دیا گیا کہ یہ بدعت میں داخل نہیں۔‘‘ (معارف القرآن ۱ /۵۵۹)
اگر کوئی شخص خلاف سنت طلاق دیتا ہے، مثلاًایک مجلس میں بیک دفعہ تین طلاقیں دے دے تو ایسے شخص کو تنبیہ کی جائے اور اس کے اس فعل کو کالعدم قرار دے کر اس کو سنت (اصل قانون) کی طرف لوٹایا جائے۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ اکثر علما وفقہا تسلیم کرتے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق بدعت ہے اور بعض کے نزدیک ناجائز اور حرام، لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار ہے کہ وہ واقع ہو جاتی ہیں۔ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:
’’اپنے سارے اختیارات طلاق کو ختم کر کے تین طلاق تک پہنچنا اگرچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب ہوا جیسا کہ سابقہ روایت میں لکھا جا چکا ہے۔اور اسی لیے جمہور امت کے نزدیک یہ فعل غیر مستحسن اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود جب کسی نے ایسا کر لیا تو اس کا وہی اثر ہونا چاہیے جو جائز طلاق کا ہوتا یعنی تین طلاقیں واقع ہو جائیں اور رجعت کا اختیار نہ ہو، اور نکاح جدید کااختیار بھی سلب ہو جائے۔‘‘(معارف القرآن ۱ /۵۶۳)
بعض علما نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ علامہ زرقانی نے شرح موطا میں لکھا ہے کہ جمہور امت تین طلاقوں کے واقع ہونے پر متفق ہیں، بلکہ ابن عبدالبر کے نزدیک اس پر اجماع ہے اور اگر اس کے خلاف کوئی قول ہے تو اس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ ۱۶
شیخ الاسلام نووی نے لکھا ہے کہ امام شافعی، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام احمد اور سلف وخلف کے بہت سے علما کا خیال ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ۔ البتہ، طاؤس اور بعض اہل ظاہر کے قول کے مطابق ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔ ۱۷
طاؤس اور عکرمہ جیسے ارباب فقہ کا صرف یہی فتویٰ نہیں ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں طلاق رجعی کے حکم میں داخل ہیں، بلکہ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ طریقہ خلاف سنت ہے ، اس لیے اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو سنت کی طرف لوٹایا جائے۔ یہی قول ابن اسحاق کا ہے۔ ۱۸
اس قول کی تائید عبداللہ بن عمر کے واقعۂ طلاق سے ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ حضرت عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ حضور سنتے ہی غصہ ہو گئے۔ پھر فرمایا: اسے چاہیے کہ عورت سے رجوع کر لے یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائے پھر اسے حیض آئے پھر پاک ہو جائے، اس کے بعد اگر طلاق ہی دینی ہے تو حالت طہر میں مقاربت کے بغیر طلاق دے دے۔ پس یہی وہ عدت (وقت) ہے جس میں عورتوں کو طلاق دینے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ۱۹
اکثر علما وفقہا نے غالباً قانون کے اس پہلو پر غور نہیں کیا اور اگر غور کیا تو کسی سبب سے اس سے صرف نظر کر لیا کہ وضع قانون کا مقصد افراد معاشرہ کے درمیان عدل وقسط کا قیام ہے یعنی ایک فرد دوسرے فرد کے ساتھ ظلم وزیادتی کا معاملہ نہ کرے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اس کے لیے ’حدود اللّٰہ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ گویا قانون وہ حد مقرر کرتا ہے جس سے تجاوز کرنا افراد معاشرہ کے لیے نقصان کا موجب ہے۔ اسی طرح ہر قانون چاہتا ہے کہ اس کو جوں کا توں نافذ کیا جائے۔ دنیوی حکومتوں میں بھی قانون کا احترام اور اس کی مکمل پیروی لازمی خیال کی جاتی ہے اور اس کی خلاف ورزی موجب سزا ہوتی ہے۔ پھر اسلام کے قانون طلاق کے بارے میں یہ خیال کس طرح قائم کر لیا گیا کہ اس کی مکمل پیروی ضروری نہیں ہے اور اس کی عدم تعمیل قابل مواخذہ نہ ہوگی۔
اس پس منظر میں غور کریں تو تسلیم کریں گے کہ تین طلاق کا موجودہ طریقہ نہ صرف عورت اور اس کے بچوں کے ساتھ زیادتی، بلکہ ظلم صریح کے مترادف ہے۔ تعجب اس پر ہے کہ اس زیادتی کو بچشم سردیکھنے کے باوجود اس غلط طریقۂ طلاق کے اثرات کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جو مسلمان اسلام کے قانون طلاق کی خلاف ورزی کرتا، اس کو سزا دی جاتی اور اصل قانون کی طرف رجعت کے لیے اس کو مجبور کیا جاتا۔ لیکن معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ سزا تو درکنار طلاق ثلاثہ کے پردے میں ان کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کریں۔
اگر آپ کسی مفتی سے پوچھیں کہ فلاں شخص نے مغرب کی نماز میں تین رکعتوں کے بجائے دو ہی رکعت ادا کی ہیں تو کیا اس کی نماز ہو گئی؟ فوراً جواب ملے گاکہ ہرگز نہیں، وہ خطا کار ہے۔ وہ ہرگز یہ فتویٰ نہ دے گا کہ نماز تو ہو گئی، لیکن یہ نماز بدعت ہے اور مصلی قصور وار ہے۔ اسی طرح اگر کوئی صاحب نصاب مسلمان اپنے مال کی زکوٰۃ مقررہ نصاب سے کم نکالے تو ہر دارالافتا سے ایک ہی فتویٰ صادر ہو گا کہ زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی، اس لیے کہ اس نے اسلام کے قانون زکوٰۃ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر اسلامی ریاست ہوگی تو اس نالائق کی پشت پر تازیانے پڑیں گے اور اس کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ مقررہ نصاب کے مطابق زکوٰۃ ادا کرے۔
لیکن یہی مفتیان کرام اور علماے عظام اسلام کے قانون طلاق کی خلاف ورزی کے معاملے میں اس سے بالکل مختلف طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ تین طلاقیں دینے والے سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تمھاری طلاق واقع نہیں ہوئی اس لیے کہ خلاف قاعدہ دی گئی ہے، تم کو اصل قانون کے مطابق طلاق دینی ہوگی اگر تم فی الواقع اپنی بیوی سے رشتۂ زوجیت کا انقطاع چاہتے ہو۔ اس کے برعکس یہ کہا جاتا ہے کہ طلاق تو واقع ہو گئی مگر تم نے گناہ کا کام کیا۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی جو دینی اور اخلاقی حالت ہے اور جس نوع کے سیاسی اور معاشی بحران سے ملت دوچار ہے، اس کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے طلاق کے معاملے میں صرف دو متبادل ہیں۔ ایک یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو، جس کا آج کل رواج ہے، ایک طلاق رجعی قرار دیا جائے، اور دوسرا متبادل یہ ہے کہ اسے کالعدم قرار دے کر طلاق دینے والے سے کہا جائے کہ وہ بیوی کو واپس لے اور سنت کے مطابق حالت طہر میں بغیر جنسی مقاربت کے طلاق دے اور عدت کا خیال رکھے۔ اگر بیوی کو واپس لینا ہے تو عدت کے اندر رجوع کرے ورنہ حسن سلوک کے ساتھ اسے رخصت کردے۔ اس کے سوا ہر طریقۂ طلاق بدعت وضلالت ہے۔
_________________