بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَقَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ: اٰمِنُوْا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ، وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ، لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ{۷۲} وَلَا تُؤْمِنُوْٓا اِلَّا لِمَنْ تَبِعَ
دِیْنَکُمْ، قُلْ: اِنَّ الْھُدٰی ھُدَی اللّٰہِ، اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ اَوْیُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ، قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ{۷۳} یَّخْتَصَُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ{۷۴}
وَمِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ، وَمِنْھُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لَّایُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ، اِلَّا مَادُمْتَ عَلَیْہِ قَآئِمًا، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ، وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ، وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ{۷۵} بَلٰی ، مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی ، فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ{۷۶}
اوراہل کتاب کا ایک گروہ کہتا ہے کہ مسلمانوں پر جو کچھ نازل ہوا ہے ، اُس پر صبح ایمان لائو اورشام کو اُس کا انکار کردیا کر و تاکہ وہ بھی برگشتہ ہوں، ۱۳۳؎ اوراپنے مذہب والوں کے سوا کسی کی بات نہ مانا کرو ــــ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر ) کہ ہدایت تو اصل میں اللہ کی ہدایت ہے ۱۳۴؎ ـــــ (اِس لیے نہ مانا کرو کہ ) مبادا اِس طرح کی چیز کسی اور کو بھی مل جائے جو تمھیں ملی ہے ۱۳۵؎ یا تم سے وہ تمھارے پروردگار کے حضور میں حجت کرسکیں۔ ۱۳۶؎ اِن سے کہہ دو کہ فضل تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جسے چاہتا ہے ، عطاکردیتا ہے اوراللہ بڑی وسعت اوربڑے علم والاہے۔ ۱۳۷؎ وہ جس کو چاہتا ہے، اپنی رحمت کے لیے خاص کرلیتا ہے اور اُس کا فضل بہت بڑا ہے۔ ۱۳۸؎ ۷۲۔۷۴
(تم اِن سے توقع رکھتے ہو کہ تمھارے پیغمبر کے معاملے میں یہ انصاف کی بات کہیں گے ) ۱۳۹؎ اور(اِدھر صورت حال یہ ہے کہ ) اہل کتاب میں وہ لوگ بھی ہیں کہ اگر تم مال و دولت کا ڈھیر اُن کے پاس امانت رکھ دو تو وہ تمھیں ادا کردیں گے اوروہ بھی ہیں کہ اگر تم ایک دینا ر بھی اُن کی امانت میںدے دو تو جب تک اُن کے سر پر سوار نہ ہوجائو ، وہ اُس کو تمھیں ادا نہ کریں گے۔ ۱۴۰؎ یہ اِ س وجہ سے کہ اُنھوں نے کہہ رکھا ہے کہ اِن امیوںکے معاملے میں ہم پرکوئی الزام نہیں ہے ۔ ۱۴۱؎ اور(حقیقت یہ ہے کہ ) وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ ہاں، کیوں نہیں؟ ۱۴۲؎ (اللہ کا طریقہ تویہ ہے کہ)جو اُس کے عہد کو پورا کر ے اور پرہیز گار رہے ،
(وہ اُسے محبوب ہے)، اس لیے کہ اللہ پرہیز گاروںسے محبت کرتا ہے۔۱۴۳؎ ۷۵۔۷۶
۱۳۳؎ یہ انھی چالوں میں سے ایک چال ہے جو یہود نے اپنے اس منصوبے کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں چلیں کہ آپ کے ساتھی بن کر آپ کو اورآپ کی دعوت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ ...ان میں سے ایک چال یہ بھی تھی کہ ان کے لیڈروں نے اپنے کچھ آدمیوں کواس بات کے لیے تیار کیا کہ وہ پہلے اپنے ایمان و اسلام کا اظہار و اعلان کر کے مسلمانوں کے اندرشامل ہوں ، پھر اسلام کی کچھ خرابیوں کا اظہار کر کے اس سے علیحدگی اختیار کرلیا کریں۔ ا س کا فائدہ انھوں نے ایک تو یہ سوچا ہوگا کہ اس طرح بہت سے جدید العہد مسلمانوں کا اعتماد اسلام پر سے متزلزل ہو جائے گا، وہ یہ سوچنے لگیں گے کہ فی الواقع اسلام میں کوئی خرابی ہے جس کے سبب سے یہ پڑھے لکھے لوگ اسلام کے قریب آکر اس سے بدک جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس تدبیر سے وہ خود اپنی قوم کے عوام کو اسلام کے اثر سے بچا لے جائیں گے، جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ان کی اپنی قوم کے کچھ پڑھے لکھے لوگ اسلام کو آزما کر چھوڑ چکے ہیں تو ان کی وہ رغبت کمزو رہو جائے گی جو اسلام اورمسلمانوں کی کشش کے سبب سے ان کے اندر اسلام میں داخل ہونے کے لیے پیدا ہوتی تھی۔ ‘‘(تدبرقرآن۲/ ۱۱۹)
۱۳۴؎ یہ ٹکڑا سلسلۂ کلام کا جزو نہیں ہے، بلکہ جملۂ معترضہ ہے جس سے ایک غلط بات کی بر سر موقع تردید فرمادی گئی ہے۔ اصل سلسلۂ کلام اس طرح ہے : ’ولا تومنوا الا لمن تبع دینکم ان یوتی احد‘ اور ’ان‘ سے پہلے ’مخافۃ‘ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہوگیا ہے۔ یہود جن لوگوں کو اپنے منصوبے کے مطابق ایمان لانے کے لیے بھیجتے تھے، انھیں بڑی شد و مد کے ساتھ یہ تاکید بھی کردیتے تھے کہ بنی اسرائیل سے باہر وہ کسی پیغمبر کی تصدیق نہ کریں۔ ان کی تمام ضلالت چونکہ اسی ایک بات پر مبنی تھی، اس لیے قرآن نے برسر موقع انھیں ٹوک دیا ہے کہ تعصب کا یہ کیسا جنون ہے جس میں یہ لوگ مبتلا ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ اصل ہدایت تو اللہ کی ہدایت ہے، خواہ وہ کسی اسرائیلی پیغمبر سے ملے یا اسماعیلی سے۔ ہر شخص کواسی کا طالب ہوناچاہیے۔ نجات اگر حاصل ہوگی تو اسی سے ہوگی۔ اس کا ذریعہ یہودیت یا نصرانیت نہیں ہے ۔
۱۳۵؎ یعنی ایسا نہ ہوکہ مذہبی قیادت کا جو منصب اس وقت تمھیں حاصل ہے، وہ کسی دوسرے کو بھی حاصل ہوجائے۔ اس سے اشارہ بنی اسمٰعیل کی طرف ہے جن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تھی۔ قرآن نے اسے مبہم اس لیے رکھا ہے کہ یہودیہ بات زبان سے نہیں کہتے تھے۔
۱۳۶؎ یہ ان کے اس احمقانہ اندیشے کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کوئی بات ان کے کسی آدمی کی زبان سے نکل گئی تو مسلمان اسے قیامت کے دن ان کے خلاف حجت بنائیں گے۔
۱۳۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے فیصلے تمھارے فیصلوں کی طرح تعصبات پر مبنی نہیں ہوتے کہ ان میں کسی اور کے لیے گنجایش ہی نہ رہے۔ وہ بڑی وسعت اوربڑے علم والاہے۔ اسے معلوم ہے کہ کون کس چیز کا مستحق ہے اورکون مستحق نہیں ہے۔
۱۳۸؎ اس جملے میں جن دوباتوں کی طرف اشارہ ہے ، ان کی وضاحت استاذامام امین احسن اصلاحی نے اس طرح فرمائی ہے :
’’...ایک تو اس بات کی طرف کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ایک عظیم اور بے پایاں برکت ورحمت ہے۔ دوسری اس بات کی طرف کہ یہ بنی اسمٰعیل پر اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے کہ اس نے ان کے خاندان کو اس عظیم اورعالم گیر برکت کے ظہور کے لیے منتخب فرمایا۔ اس سے لازمی نتیجہ کے طور پردو باتیں نکلتی ہیں :ایک یہ کہ بنی اسمٰعیل پریہ حق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس عظیم انعام کی قدر کریں اوراس کے شکر گزار ہوں۔ دوسری یہ کہ بنی اسرائیل کے غصہ اور حسد کے علی الرغم اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم برکت سے امیوں کونوازا۔ وہ جس کو چاہے اپنی رحمت کے لیے خاص کرے، اس کی مشیت میں خود اس کی حکمت کے سوا اورکسی کو بھی دخل نہیں ہے۔ ‘‘(تدبر قرآن۲/ ۱۲۲)
۱۳۹؎ یعنی وہ پیشین گوئیاں پوری دیانت داری کے ساتھ بیان کردیں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق ان کے پیغمبروں نے کی تھیں اورجن کے وہ امین بنائے گئے تھے۔
۱۴۰؎ یہ قرآن نے دین وشریعت کے معاملے میں ان کی خیانت کا سبب بیان کیا ہے کہ جو لوگ دنیا کی اس متاع حقیر کو ادا کرنے میں لیت ولعل کرتے ہیں ، وہ اتنی بڑی امانت کس طرح ادا کریں گے اوردنیا کے سامنے نبی امی کی صداقت کی گواہی کس طرح دیں گے؟ تاہم یہ بات بھی قرآن نے اس کے ساتھ واضح کردی ہے کہ ان میں سے جو لوگ امانت دار ہیں، وہ اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں گے اور جلد یا بدیر آپ کی تصدیق کرکے اسلام کی نعمت سے بہرہ ورہوجائیں گے۔
۱۴۱؎ یہود کا نظریہ تھا کہ تورات میںدوسروں کا مال باطل طریقوں سے کھانے کی جو ممانعت بیان ہوئی ہے، اس کا تعلق غیر قوموں سے نہیں ہے ۔بنی اسمٰعیل کو وہ امی کہتے اورانھی قوموں میں شامل سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں بھی ان کے مولویوں کا فتویٰ یہی تھاکہ ان کا مال ہڑپ کرجاناکوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس کی اجازت دے رکھی ہے ۔
۱۴۲؎ یعنی کیوں الزام نہیں ہے؟ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔بدعہدی اور خیانت جس کے ساتھ بھی کی جائے ، ہر حال میںممنوع ہے۔اللہ نے اس کی اجازت کبھی کسی شخص یا قوم کو نہیں دی ہے۔
۱۴۳؎ اس جملے میں جو اب شرط حذف ہے جسے ہم نے کھول دیا ہے۔ یہود کی جو باتیں اوپر نقل ہوئی ہیں، یہ ان پر استدراک ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ یہود کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ان کے لیے خدا کے ہاں کوئی خاص مرتبہ و مقام ہے جس کے سبب سے وہ دوسروں سے بالاتر اورامیوں کے معاملے میں ذمہ داریوںسے بری ہیں۔ اصل یہ ہے کہ اللہ کے ہاں جو مرتبہ و مقام بھی ہے ، وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو خدا سے باندھے ہوئے عہد کو پورا کریں اورہر طرح کے حالات میں اس عہد کے تحت قائم کردہ حدود کی نگہداشت کریں ۔ جن لوگوں کی روش یہ ہوگی ، وہ اللہ کے نزدیک متقی ہیں اور اللہ ایسے ہی متقی بندوں کو دوست رکھتا ہے۔جو لوگ خدا کے عہد اور اس کے حدود کو توڑنے میں بے باک ہیں اوراس کے باوجود تقویٰ اورمحبوب الہٰی ہونے کے مدعی ہیں ، وہ محض خیالی پلاؤ پکارہے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۲۴)
[باقی]
ـــــــــــــــــــ