HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اہل کفر سے قتال

عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال لما توفی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم واستخلف ابوبکر رضی اﷲ عنہ بعدہ وکفر من کفر من العرب قال عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ لأبی بکر رضی اﷲ عنہ کیف نقاتل الناس وقد قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم امرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ فمن قال لا الہ الا اﷲ فقد عصم منی مالہ ونفسہ الا بحقہ وحسابہ علی اﷲ. فقال ابو بکر رضی اﷲ عنہ واﷲ، لأقاتلن من فرق بین الصلاۃ والزکاۃ. فإن الزکاۃ حق المال. واﷲ لو منعونی عقالا کانوا یؤدونہ الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لقاتلتہم علی منعہ. قال عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ فواﷲ ما ہو الا أن رأیت اﷲ عزوجل قد شرح صدر أبی بکر رضی اﷲ عنہ القتال. فعرفت أنہ الحق.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ ہوئے اور انھوں نے کفر اختیار کیا جنھوں نے کفر اختیار کیا تھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم ان لوگوں سے کیسے قتال کریں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر چکے ہیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک یہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہہ دیں۔ چنانچہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی، الا یہ کہ اس پر کوئی حق قائم ہوجائے۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا، میں ان سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرتے ہیں۔ کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم، اگر انھوں نے ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں اس روکنے پر ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا یہ ایسے شخص ہیں جن کا سینہ اللہ نے قتال کے لیے کھول دیا ہے۔میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔‘‘
عن سعید ابن مسیب أن أبا ہریرۃ أخبرہ أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: أمرت أن أقاتل الناس حتی یقول: لا إلہ إلا اﷲ. فمن قال: لا إلہ إلا اﷲ عصم منی مالہ ونفسہ إلا بحقہ. وحسابہ علی اﷲ.
’’حضرت سعید ابن مسیب بیان کرتے ہیں کہ انھیں ابوہریرہ نے بتایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک یہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہہ دیں۔ چنانچہ جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنی جان بچا لی، الا یہ کہ اس پر کوئی حق قائم ہو جائے۔ اور اس کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘
عن أبی ہریرۃ عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال: أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلٰہ إلا اﷲ ویؤمنوا بی وبما جئت بہ. فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دماۂم واموالہم إلا بحقہا. وحسابہم علی اﷲ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور مجھ پر اور اس چیز پر ایمان نہ لے آئیں جو میں لے کر آیا ہوں۔ پھر جب وہ یہ کر لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے، الا یہ کہ ان پر کوئی حق قائم ہو جائے۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘
عن جابر رضی اﷲ عنہ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا: لا إلہ إلا اﷲ.فإذا قالوا: لا إلہ إلا اﷲ عصموا منی دماۂم وأموالہم الا بحقہا. وحسابہم علی اﷲ. ثم قرأ انما أنت مذکر لست علیہم بمسیطر.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیں۔ پھر جب وہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے، الا یہ کہ ان پر کوئی حق قائم ہو جائے۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ’انما أنت مذکر لست علیہم بمسیطر‘، تم تو بس یاددہانی کرنے والے ہو ان پر داروغہ نہیں ہو۔‘‘
عن عبد اﷲ بن عمر قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أمرت أن أقاتل الناس حتی یشہدوا أن لا إلہ إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ ویقیموا الصلاۃ ویؤتوا الزکاۃ. فإذا فعلوا ذلک عصموا منی دماۂم وأموالہم إلا بحقہا وحسابہم علی اﷲ.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک یہ اس بات کی گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کا اہتمام کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کر نے لگیں۔ جب وہ یہ کر لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اموال بچا لیں گے الا یہ کہ کوئی حق ان پر قائم ہو جائے۔ اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔ ‘‘
لغوی مباحث

کفر من کفر من العرب: اہل عرب میں سے جس نے کفر اختیار کیا اس نے کفر اختیار کیا۔ یہ عربی زبان میں ایجاز کا اسلوب ہے۔ اس میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل عرب کے قبائل کے دین سے انحراف کی صورت میں پیش آیا تھا۔ مختصراً یہ کہ کچھ لوگ بت پرستی کی طرف پلٹ گئے تھے۔ کچھ نے نئے مدعیان نبوت کی پیروی اختیار کر لی تھی اور کچھ لوگوں نے باقی دین کو مانتے ہوئے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ معاملہ عوامی نہیں تھا۔ قبائل کے سرداروں نے اپنے عوام کو زکوٰۃ دینے سے روک دیا تھا۔ مثلاً بنو یربوع نے زکوٰۃ جمع کر رکھی تھی ، لیکن ان کے سردار نے مرکز بھجوانے سے روک دیا۔ اس سارے معاملے کی طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مختصر اسلوب سے اشارہ کر دیا ہے۔

أمرت:مجہول کا صیغہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی نسبت سے بالکل واضح ہے کہ امر دینے والا کون ہے۔ امر کا فعل اردو کے لفظ کہنا کی طرح محض مشورے اور حکم کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں آیا ہے۔

یقیمواالصلوٰۃ : اقامت صلوٰۃ کے ایک معنی تو تعدیل ارکان اور نماز کے آداب وواجبات کو کما حقہ اداکرنے کے ہیں۔اس کی دلیل اس کے استعمال ’اقام العود‘ (اس نے لکڑی کو سیدھا کر دیا)میں ہے۔ دوسرے معنی مداومت کے ہیں۔ اس کی دلیل ’قامت السوق‘ میں ہے۔ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب بازار میں خریدوفروخت کی گہما گہمی ہو۔ تیسرے معنی سرگرمی اور انہماک کے ہیں اور اس کی دلیل ’قامت الحرب علی ساقہا ‘میں ہے۔ یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب جنگ میں لڑائی شدت سے ہو رہی ہو۔ قرآن مجید میں جس طرح یہ لفظ نماز کے ساتھ آیا ہے اسی طرح دین کے ساتھ بھی آیا ہے۔ یہاں اس کے سوا کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ دین کو پوری طرح اختیار کر لیا جائے۔ نماز کے ساتھ بھی اس کے معنی یہی ہیں اور ظاہر ہے اس میں تعدیل ارکان، آداب وواجبات کا لحاظ، مداومت اور سرگرمی سب چیزیں شامل ہیں۔

دم :خون کے معنی میں یہ ایک معروف لفظ ہے۔ البتہ اس کے اشتقاق کے بارے میں اختلاف ہے۔ ’ دماء‘ کے طریقے کی جمع ’ دمی ‘سے بھی بن سکتی ہے اور ’دمو ‘سے بھی ۔ جیسے ’ظبی‘کی جمع ’ظباء ‘آتی ہے اور ’دلو ‘کی جمع ’دلاء ‘آتی ہے ۔ سیبویہ اور مبرد دونوں کے نزدیک اس کا مادہ ’دمی ‘ہی ہے۔

عقالا، عناقا: عقال اس رسی کو کہتے ہیں جو اونٹ کو باندھنے کے کام آتی ہے۔ ایک دوسری روایت میں عناق کا لفظ بھی آیا ہے۔ عناق بکری کے اس بچے کو کہتے ہیں جس کی عمر سال سے کم ہو۔ اگرچہ دونوں لفظ اس جملے میں درست قرار دیے جاسکتے ہیں ، لیکن جس غرض سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بولا ہے اس کے اعتبار سے عقال ہی موزوں ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں حضرت ابوبکر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ زکوٰۃ کی مد میں آنے والا ایک پیسہ بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔عقال کا لفظ عام زکوٰۃ کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس سیاق و سباق میں یہ اس معنی میں بھی نہیں آیا۔

معنی

پہلی روایت میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک مکالمے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قول بطور دلیل زیر بحث آیا ہے۔ اس کے بعد مسلم رحمہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مختلف متون نقل کیے ہیں۔اس مکالمے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں تردد تھا کہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف قتال درست ہے یا نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ وہ لوگ کلمۂ توحید پڑھ چکے ہیں ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھانے چاہییں۔ اس کے لیے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد بھی بطور دلیل پیش کیا۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ وہ نماز اور زکوٰۃ میں فرق نہیں کریں گے۔ حضرت ابوبکر کی یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مطمئن ہو گئے۔ ظاہر ہے یہ مکالمہ نا مکمل ہے۔ یہ سوال پوری تفصیل سے زیر بحث آیا ہو گا کہ کسی مسلمان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے کیا شرائط ہیں اور مانعین زکوٰۃ کے خلاف یہ شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استدلال ہی سے مطمئن ہوئے ہوں گے۔ شارحین کی یہ بات کہ حضرت عمر کے سامنے وہ روایت نہیں تھی جس میں ایمان کے علاوہ نماز اور زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے، اس لیے انھوں نے اختلاف کیا محل نظر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کے ایمان نہ لانے کی صورت میں انھیں مار دینے کا حکم سورۂ توبہ میں دیا گیا ہے۔ اور وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کے لیے موت سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ ایمان لائیں، نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں۔ ظاہر ہے سورۂ توبہ کی یہ آیات دونوں اصحاب کے مابین زیر بحث آئی ہوں گی اور انھی کے تحت یہ کارروائی کی گئی ہو گی۔ یہ بات ان جلیل القدر ہستیوں سے کیسے مخفی رہ سکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ انھیں اہل کفر کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا ہے قرآن مجید کی کس آیت کے تحت ہے۔ شارحین کی یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے قیاس کو روایت کے مقابلے میں پیش کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سامنے قرآن مجید کا صریح حکم تھا اور انھوں نے یقیناًیہی فرمایا ہو گا کہ آپ کا یہ ارشاد قرآن مجید کے اسی حکم کا بیان ہے۔ لہٰذا میں منشاے خداوندی کے تحت ایمان ، نماز اور زکوٰۃ میں سے کسی فرق کو روا نہیں رکھوں گا۔ یہی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اطمینان کا باعث بنی ہو گی۔

شیخین کے مکالمے والی اس روایت میں اگرچہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر نہیں ہے ، لیکن امام مسلم نے اس کے دوسرے متون جمع کر کے واضح کر دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی ہے جس کا حکم انھیں سورۂ توبہ میں دیا تھا۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ .(۹: ۵)
’’جب حرام مہینے گزر جائیں تو ان مشرکوں کو جہاں پاؤ ، قتل کرو ، انھیں پکڑو ، انھیں گھیرو اور ہر گھات میں ان کی تاک لگاؤ ۔ ہاں ، اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ بے شک ، اللہ بخشنے والا ہے، وہ سراسر رحمت ہے۔ ‘‘

اس آیت کے موقع نزول کو واضح کرتے ہوئے استاد محترم نے لکھا ہے:

’’مشرکین عرب جب مغلوب ہو گئے تو سورۂ توبہ میں اعلان کر دیا گیا کہ اب ان کے ساتھ آیندہ کوئی معاہدہ نہیں ہو گا اور ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ، اس کے بعد رسوائی کا عذاب ان پر مسلط ہو جائے گا جس سے نکلنے کی کوئی راہ وہ اس دنیا میں نہ پا سکیں گے ۔ چنانچہ مکہ فتح ہوا اور جس طرح ان کے بعض معاندین بدر اور احد کے قیدیوں میں سے قتل کیے گئے تھے ، اسی طرح اس موقع پر بھی قتل کر دیے گئے ۔ اس سے پہلے سورۂ توبہ کا یہ حکم ان کے بارے میں نازل ہو چکا تھاکہ حج اکبر کے موقع پر اس بات کا اعلان کر دیا جائے کہ حرام مہینے گزر جانے کے بعد مسلمان ان مشرکین کو جہاں پائیں گے ، قتل کر دیں گے ، الاّ یہ کہ وہ ایمان لائیں ، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ قرار دیے گئے جن کے ساتھ متعین مدت کے معاہدات تھے ۔ ان کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ اگر وہ کوئی خلاف ورزی نہیں کرتے تو ان معاہدات کی مدت تک انھیں پورا کیا جائے گا ۔ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ مدت پوری ہو جانے کے بعد یہ معاہدین بھی اسی انجام کو پہنچیں گے جو جزیرہ نماے عرب کے تمام مشرکین کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے ۔‘‘ (میزان ۲۶۸)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کیا مراد ہے۔ اس روایت کے ایک متن میں الناس کی جگہ المشرکین کا لفظ آیا ہے۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الناس کا لفظ ہی بولا ہو تب بھی اس دوسری روایت سے واضح ہے کہ اس زمانے میں اس سے مشرکین ہی سمجھے گئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر جب ان آیات کے حکم کا حوالہ دیا ہو تو کبھی مشرکین اور کبھی الناس کا لفظ بولا ہو۔ صورت کچھ بھی ہو یہ بات متعین ہے کہ آپ اس روایت میں وہ بات بیان فرما رہے ہیں جو سورۂ توبہ میں آئی ہے۔چند شارحین کو چھوڑ کر عام طور پر اس روایت کو سورۂ توبہ کے اس حکم کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا گیا۔ ہمارے نزدیک حدیث کو سمجھنے کا یہ طریقہ محل نظر ہے۔ قرآن مجید میں جب ایک بات بیان ہوگئی ہو تو حدیث کو اس کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ اس صورت میں اس کا اندیشہ بہت کم ہو جاتا ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کا اصل محل نہ سمجھ سکیں۔

اس تفصیل سے چند باتیں متعین ہو جاتی ہیں:

ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق آپ کی قوم سے تھا۔ سورۂ توبہ کی محولہ آیت کے سیاق و سباق سے بالکل واضح ہے کہ حکم بنی اسماعیل کے مشرکین سے متعلق ہے۔

دوسری یہ کہ ان مشرکین کے لیے زندگی کی ضمانت صرف ایک صورت میں تھی کہ یہ ایمان لائیں اور نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں۔ اس سلسلے میں کسی ایک چیز کے بارے میں کمی کرنے کا اختیار کسی کو نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس معاملے میں کوئی کمی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

تیسری یہ کہ قرآن مجید کا یہ حکم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان آیندہ نسلوں کے لیے حکم جہاد کا ماخذ نہیں ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اس سے واضح ہے کہ یہ محض قتال نہ تھا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الہٰی کے عین مطابق اور ایک فیصلۂ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہودونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا ۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیردست بنا کر رکھنے کا حق اس کے بعد ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے ۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کر نے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے ، اور وہ ظلم و عدوان کے خلاف جنگ ہے ۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی ۔ ‘‘(۲۷۰)

چوتھی بات یہ کہ جان سے مار دینے کی یہ ہدایت صرف مشرکین سے متعلق تھی۔ یہودو نصاریٰ کو اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت تھی۔ ان کے لیے سزا محکومی اور جزیہ تھی۔

ان نکات کے متعین ہو جانے سے وہ بحثیں غیر اہم ہو جاتی ہیں جوبعض شارحین نے ان الفاظ کو عموم پر لے کر کی ہیں۔ ہمارے نزدیک انھی شارحین کا نقطۂ نظر درست ہے جو اس روایت کو سورۂ توبہ کے حکم کا بیان سمجھتے ہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے آخر میں دو باتیں مزید واضح کی ہیں۔ایک یہ کہ جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کردیں گے ، وہ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو جائیں گے جو ان پر قصاص ودیت وغیرہ کی صورت میں عائد ہوں گی۔جو مسلمان جرائم میں ماخوذ ہو گا ، اسے اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے گی۔ اس طرح آپ نے واضح کردیا کہ اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اپنی جانب سے غیر مشروط طور پر زکوٰۃ اور نمازکے سوا کسی چیز کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔دوسری یہ کہ ہمارا یہ معاملہ ظاہر سے متعلق ہے۔ اس سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ منافقت اختیار کرکے اگر کوئی معاملہ کرتا ہے تو وہ دنیا کی طرح آخرت میں بھی اپنے آپ کو بچا لے گا۔ ہماری ذمہ داری تو پوری ہو جائے گی ، جب ہم اس کے ساتھ اس کے ظاہر کے مطابق معاملہ کر لیں گے، لیکن اسے اس معاملے میں باخبر رہنا چاہیے کہ آخرت کا معاملہ اللہ پر ہے۔ اس کا اسلامی حکومت کے کسی فیصلے سے یہ تعلق نہیں کہ وہ محض اس بنا پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہماری حکومت نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

متون

اس روایت کے اہم متون مسلم میں آگئے ہیں۔ان میں دوفرق تو بہت نمایاں ہیں۔ایک یہ کہ حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے جس روایت کو بناے استدلال بنایا ہے ، اس میں صرف ایمان کا ذکر ہے اور اس روایت کے باقی متون میں ایمان کے ساتھ نماز اور زکوٰۃ کا بھی ذکر ہے۔اس سے واضح ہے کہ مکمل بات یہی ہے۔ حضرت عمر نے جس بات کا حوالہ دیا ہے ، وہ اسی کا ایک مختصر بیان معلوم ہوتا ہے۔ جب قرآن مجید میں ایک بات بیان ہو گئی ہے تو اس کے بعد ہم بآسانی طے کر سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری بات کیا تھی۔اس سلسلے کی ایک روایت وہ بھی ہے جس میں یہی بات بالکل دوسرے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ بخاری میں ہے:

عن أنس بن مالک رضی اﷲ عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم أمرت أن أقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ فاذا قالوہا وصلوا صلاتنا واستقبلوا قبلتنا وذبحوا ذبیحتنا فقد حرمت علینا دماؤہم وأموالہم إلا بحقہا وحسابہم علی اﷲ. (رقم ۳۸۵)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے جنگ کروںیہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں ۔ پھر جب یہ اقرار کرلیں اور ہماری نمازیں پڑھنے لگیں، ہمارے قبلے کی طرف رخ کرنے لگیں اور ہمارے طریقے پر جانور ذبح کرنے لگیں تو ہم پر ان کا خون اور مال حرام ہو گیا۔ الا یہ کہ ان پر کوئی حق قائم ہو جائے اور ان کا حساب اللہ پر ہے۔‘‘

روایت کا یہ متن اس بات کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سے زیادہ موقعوں پر سورۂ توبہ میں عائد شدہ ذمہ داری کا ذکر کیا تھا۔ کبھی محض اس کی طرف حوالہ کا جملہ بول کر ، کبھی اسے من وعن بیان کرکے اور کبھی اس طرح کہ ماننے والے پر وہ علامتیں ظاہر ہو گئی ہیں کہ وہ اسلامی سوسائٹی کا پوری طرح حصہ بن گیا ہے۔

ان کے علاوہ اس روایت کے دوسرے متون میں لفظی فرق بھی ہیں۔مثلاً مسلم میں جو بات ’ کفر من کفر‘ کے اسلوب میں آئی وہ ایک دوسری روایت میں ’ ارتدت العرب ‘ کے اسلوب میں آئی ہے۔اسی طرح ’ أقاتل الناس ‘ کے بجائے ’ أقاتل المشرکین ‘ بھی آیا ہے۔کسی روایت میں ’حتی یقولوا لا الہ الا اﷲ ‘ کسی میں ’حتی یشہدوا ان لا الٰہ الا اللّٰہ ویومنوا بی وبما جئت بہ ‘ اورکسی میں ’حتی یشہدوا أن لا الٰہ الا اللّٰہ و أن محمدا رسول اللّٰہ ‘ آیا ہے۔ایک روایت میں یہ بات کہ ’’ان کا مال اور جان محفوظ ہو گئے ‘‘ایک دوسرے اسلوب میں آئی ہے۔ آپ نے فرمایا : ’لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علیہم‘۔بعض روایات میں ’عقال‘ کی جگہ ’عناق ‘کا لفظ آیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی لفظی فرق ہیں۔ اہم فرق ہم نے بیان کر دیے ہیں۔

کتابیات

بخاری، رقم۲۵، ۳۸۵، ۱۳۳۵، ۲۷۸۶، ۶۵۲۶، ۶۸۵۵۔ مسلم ، رقم۲۱، ۲۲۔ ابوداؤد، رقم ۱۵۵۶، ۱۵۵۷، ۲۶۴۰، ۲۶۴۱، ۲۶۴۲۔ ترمذی، رقم ۲۶۰۶، ۲۶۰۷، ۲۶۰۸، ۳۳۴۱۔ نسائی، رقم ۲۴۴۳، ۳۰۹۰ تا ۳۰۹۵، ۳۹۶۶ تا ۳۹۸۳، ۵۰۰۳۔ ابن ماجہ، رقم ۷۱، ۷۲، ۱۳۴۵، ۱۷۶۰، ۳۹۲۷، ۳۹۲۸۔ دارمی، رقم ۲۴۴۶۔ ابن حنبل، رقم۶۷، ۱۱۷، ۲۳۹، ۳۳۵، ۸۱۴۸، ۸۵۲۵، ۸۸۹۱، ۹۴۶۹، ۹۶۵۹، ۱۰۱۶۱، ۱۰۱۶۲، ۱۰۲۵۹، ۱۰۵۲۵، ۱۰۸۳۴، ۱۰۸۵۲، ۱۳۰۷۸، ۱۴۱۷۴، ۱۴۲۴۷، ۱۴۶۰۰، ۱۴۶۹۱، ۱۵۲۷۸، ۱۶۲۰۵، ۱۶۲۱۱، ۱۹۰۴۳۔ ابن حبان، رقم ۱۷۴، ۱۷۵، ۲۱۶ تا ۲۲۰، ۵۸۹۵۔ ابن خزیمہ، رقم ۲۲۴۷، ۲۲۴۸۔ مستدرک، رقم ۱۴۲۷، ۱۴۲۸، ۳۹۲۶۔ صحیفہ ہمام، رقم ۵۰۔ ابویعلیٰ، رقم ۶۸، ۲۲۸۲، ۶۱۳۴۔

_______________

B