شرح موطا
[۹] وحدثنی عن مالک عن یزید بن زیاد عن عبد اللّٰہ بن رافع مولی ام سلمۃ زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: انہ سأل ابا ہریرۃ عن وقت الصلاۃ. فقال: ابو ہریرۃ: انا اخبرک:
صَلِّ الظُّہْرَ اِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَکَ، وَالْعَصْرَ اِذَا کَانَ ظِلُّکَ مِثْلَیْکَ، وَالْمَغْرِبَ اِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَالْعِشَاءَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، وَصَلِّ الصُّبْحَ بِغَبَشٍ یَعْنِی الْغَلَسَ.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ .محترمہ ام سلمٰی کے آزاد کردہ غلام عبد اللہ بن رافع نے ابو ہریرہ سے نمازوں کے اوقات کے بارے میں پوچھا، تو انھوں نے کہا میں تمھیں بتائے دیتا ہوں:
’’ظہر اس وقت پڑھو، جب تمھاراسایہ تمھاری قامت کے برابر ہو،اور عصر اس وقت پڑھو جب تمھارا سایہ تمھاری قامت سے دگنا ہو۔ مغرب سورج ڈوبنے پر پڑھو،اور عشا اس کا وقت ہونے سے لے کر ایک تہائی رات کے درمیان میں پڑھو۔اور صبح کی نمازتاریکی میں پڑھو۔‘‘
یہ روایت ابو ہریرہ کا اثر ہے۔ اس میں وہی اوقات بتائے گئے ہیں۔ جو پچھلی تمام روایتوں میں بتائے جارہے ہیں۔البتہ ظہر اورعصر کے وقت کے بیان کے لیے انھوں نے سایے کے مثل اور مثلین ہونے کا اسلوب استعمال کیا ہے ۔ یہ اسلوب امامت جبریل والی روایتوں میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔
جواب کی نوعیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبد اللہ بن رافع نے پسندیدہ اوقات کے خاتمہ سے متعلق سوال کیے تھے ۔یہی رائے صاحب المنتقی شرح موطا امام مالک نے اختیار کی ہے۔البتہ انھوں نے پسندیدہ اور غیر پسندیدہ اوقات کا امتیاز نہیں کیا۔
’اذاکان ظلک مثلک، اذاکان ظلک مثلیک‘میں ’مثل‘کا مضاف الیہ حذف ہے۔ مراد ہے ’ اذا کان ظلک مثل قامتک‘اور اسی طرح دوسرے جملے میں ہے ۔ ہم نے ترجمہ میں اسے بیان کردیا ہے۔
اس روایت میں ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کے غلام نے ابو ہریرہ سے وقت پوچھا ہے۔ یہ بات اچنبھے کی ہے اس لیے کہ روایت تو وہ ابو ہریرہ سے کرسکتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ام سلمیٰ کے مولیٰ ہوتے ہوئے ، مدینہ میں رہتے ہوئے ، جہاں شب وروز نمازپڑھی جا رہی ہے انھیں سوال پوچھنے کی حاجت کیوں پیش آئی؟ اس کی یقیناًکوئی وجہ ہوگی ، جو روایت میں موجود نہیں ہے اور نہ کوئی قرینہ ہی ایسا ہے کہ جس سے ہم اس سبب تک پہنچ سکیں۔
البتہ ابو ہریرہ کے جواب کی بنیاد پریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انھیں بتائے گئے پسندیدہ اوقات میں اواخر کے بارے میں کوئی اشتباہ ہوگا، جسے انھوں نے ابوہریرہ سے پوچھ کر دور کیا ہو۔
ایک طریقے میں عشا کے وقت کو بتانے کے بعد ابو ہریرہ کے یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں:
...فان نمت الی نصف اللیل فلا نامت عیناک... (مصنف عبد الررزاق، رقم ۲۰۴۱)
’’...تو اگر تم آدھی رات تک سوتے رہے تو اللہ کرے تیری آنکھ نہ سوئے...‘‘
یہ الفاظ وہی ہیں جو سیدنا عمر نے بھی اپنے خط میں لکھے تھے ۔ ممکن ہے دونوں بزرگوں نے ایک ہی اسلوب اختیار کیا ہو، یا راویوں نے التباس کردیا ہو۔
_______
[۱۰] وحدثنی عن مالک عن اسحاق بن عبد اللّٰہ بن ابی طلحۃ عن انس بن مالک انہ قال:
کُنَّا نُصَلِّی العَصْرَ ثُمَّ یَخْرُجُ الاِنْسَانُ اِلَی بَنِیْ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ فَیَجِدُہُمْ یُصَلُّوْنَ الْعَصْرَ.
انس بن مالک کہتے ہیں کہ
’’ہم عصر پڑھتے پھر ہم میں سے کوئی آدمی بنوعمر و بن عوف کے مساکن کی طرف جاتا، وہاں پہنچتا تو دیکھتا کہ وہ عصر پڑھ رہے ہوتے تھے۔‘‘
[۱۱] وحدثنی عن مالک عن ابن شہاب عن انس بن مالک انہ قال:کُنَّا نُصَلِّی الْعَصْرَثُمَّ یَذْہَبُ الذَّاہِبُ اِلَی قُبَاءٍ فَیَاْتِیْہِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَۃٌ.
انس بن مالک کہتے ہیں:’’ہم عصر پڑھتے اور کوئی قبا جانے والا قبا جاتا تو جب وہاں پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا۔‘‘
یہ دونوں روایتیں بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اول وقت ہی میں ادا کرلیتے تھے۔ اور اتنا وقت ہوتا تھا کہ ایک نمازی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ کر نکلتا تو، وہ بنوعمرو بن عوف کے علاقے میں آکر دیکھتا کہ وہ ابھی نماز پڑھ رہے ہوتے تھے ۔ مدینہ سے بنو عمرو کے اس دیار کا فاصلہ شارحین نے دو میل بتایا ہے۔(شرح الزرقانی ۱: ۲۴)اسی طرح دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آدمی قبا پہنچتا تو سورج ابھی روشن ہوتا۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ دور نبوی ہی میں عصرکی نماز کا معمول مختلف مقامات پرمختلف تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے، تو مسلمانوں کی دوسری بستیوں میں نماز اس کے بعد ہوتی تھی۔ بنو عمرو کا دیار انھی نواحی بستیوں میں سے ایک بستی ہے۔ یہ مدینہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔
سنت میں متعین کردہ وقت میں نماز پڑھنے کے ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اسوہ قائم کیا ہے کہ اس کے اول وقت میں نماز پڑھی جائے الا یہ کہ اس میں کوئی مانع ہو۔ اس روایت میں عصر کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ آپ اسے بالعموم بہت جلدی ادا کر لیتے تھے۔پچھلی روایت میں ہم عصر کی تعجیل میں پیش نظر مسائل پرگفتگو کر چکے ہیں۔
یہ روایت انس بن مالک کی ہے اور اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی بات کر رہے ہیں یا بعد کے زمانے کی۔ لیکن چونکہ یہ ایک صحابی ہیں اس لیے یہ غالب امکان ہے کہ ان کی یہ روایت دورنبوی ہی سے متعلق ہوگی اور کئی روایات ، جو مدینہ سے عصر پڑھ کر اس کے نواحی علاقوں میں جانے کے مضمون کی حامل ہیں ، ان میں سے بعض میں یہ ذکر موجود ہے کہ ایسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔مثلاً انس بن مالک ہی کی روایت ہے :
عن انس بن مالک قال:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی العصر والشمس مرتفعۃ حیۃ فیذہب الذاہب الی العوالی فیاتیہم والشمس مرتفعۃ (وبعض العوالی من المدینۃ علی اربعۃ امیال او نحوہ). (بخاری ،رقم ۵۲۵)
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھایا کرتے اور سورج ابھی بلند اور روشن ہوتا ، چنانچہ جانے والا مدینہ کی نواحی بستیوں میں جاتا اور سورج ابھی اونچا ہی ہوتا۔ ( مدینہ کی یہ نواحی بستیاں تین یا چار میل کے فاصلے پر تھیں)۔‘‘
یہ مضمون بہت سی روایتوں میں بیان ہوا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ امامت جبریل والی روایت میں جو وقت بیان کیا گیا ہے ، صحابہ اس کے دوران میں کسی بھی وقت نماز ادا کرلیتے تھے۔ اسی لیے یہ ممکن تھا کہ وہ مدینہ سے نماز پڑھ کر نکلتے ، اور دو تین میل چل کر کسی نواحی علاقے میں پہنچتے تو تب بھی انھیں عصر پڑھتے ہوئے پاتے۔ ظاہر ہے یہ تبھی ممکن تھا جب وہ مسجد نبوی کے وقت سے تاخیر کرکے عصر پڑھتے ہوں ۔
اس سے یہ بات معلوم ہو رہی ہے کہ جس نے پسندیدہ وقت کے آغاز و اختتام کے مابین جب بھی نماز پڑھ لی، وہ پسندیدہ ہوگی۔پھر اس میں آدمی کی نیت اور اس کا تقویٰ ہی فرق ڈال سکتا ہے۔
اگر ان دونوں روایتوں کا باہمی موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عوف کی بستی دو میل کے فاصلے پر ہے اور قبا تقریباً تین میل، یعنی دو میل کے فاصلے پر وہ لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے پاتے ہیں اور تین میل کے فاصلے پر وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ سورج ابھی بلند ہوتا۔اس کے معنی یہ ہیں کہ سورج بلند ہے ، مگر اتنا بھی بلند نہیں کہ لوگوں کو باجماعت نماز پڑھتے ہوئے پانا ممکن ہو۔ہم نے سیدنا عمر کے خطوط میں فرسخین کے حوالے سے جو بات کہی ہے ، اس کی بھی اس سے تائید ہوتی ہے کہ دو یا تین فرسخ ایک اندازہ کے لیے ہیں نہ کہ تعین کے لیے۔
________________