انبیا کی زندگی حصول صبر کے لیے ہمارے لیے اسوہ ہے۔ ان کی داستان ہاے حیات اپنے اندر ہمارے لیے ایسی مثالیں رکھتی ہیں کہ جن سے ہمیں حوصلہ حاصل ہوتا اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں ایسا موقع نہیں کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں، طالب اس کے لیے ان سیرتوں کے مطالعہ کو پیش نظر رکھے۔
ان کی تاثیر قرآن کے جیسی تو نہیں ہے ، مگرہمیں یہ فائدہ ضرور دیتی ہے کہ ان سے ہمیں انسانی زندگی کی مثالیں اور اس میں صبر کے اطلاقات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انبیا سے ہماری محبت ہمارے دلوں میں چونکہ ایک تقدس سا پیدا کرتی ہے ، جس وجہ سے ان کے واقعات اگر صحیح ہوں تو وہ بہت ہی زیادہ موثر بن جاتے ہیں۔ مگر یہاں ایک بات واضح کردوں کہ واقعات سے دین اخذ نہیں کرنا چاہیے بس یہ چیز دیکھنی چاہیے کہ نیکی کرنے میں ان کا رویہ کیا تھا۔ دین کا ماخذ قرآن اور سنت ہیں ۔ قصے کہانیاں نہیں ۔ اس لیے کہ قصے کہانیاں محفوظ ہاتھوں سے ہم تک نہیں پہنچے ۔ ان میں لوگوں نے بہت کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے۔ اس لیے اب وہ حق اور باطل ، دونوں کا مجموعہ ہیں۔
قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بدووں میں منافقت کو ختم کرنے کے لیے انھیں یہ مشورہ دیا کہ ’کونوا مع الصادقین‘کہ ان لوگوں کے ساتھ رہا کرو جو قول و فعل میں سچے اور اپنے ایمان و عمل میں پختہ ہیں۔ان کی صحبت اٹھانے سے درج ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ ان کا فہم دین ہمیں حاصل ہوتا ہے۔
۲۔ ان کا لگاؤ ، ہمارے اندر منتقل ہوتا ہے۔
۳۔ان کی دنیا میں رہنے اور عمل کرنے کی بصیرت ہمیں حاصل ہوتی ہے۔
یہاں ، البتہ ایک امکان اس بات کا ہے کہ آپ ایسے آدمی کا انتخاب کرلیں کہ جو صادق نہ ہو۔ اس چیز سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ پہلے قرآن کے ساتھ اوپر بیان کردہ تعلق مطالعہ قائم کرچکے ہوں۔وگرنہ ہر آنے والا آپ کو اپنے بہاؤ میں بہا لے جائے گا۔ اس لیے کہ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں، والی حالت آپ کو ہر راہ رو کے پیچھے لگا دی گی۔ قرآن کا ترجمہ باربار پڑھنے سے وہ ذہن بن جائے گا کہ وہ آپ کو اس مشقت سے بچالے گا کہ آپ ہر آدمی کی بات کے پیچھے لگ جائیں۔
صبر کے حوالے سے ہر طبقہ میں مختلف پہلووں سے بے صبری یا برداشت پائی جاتی ہے۔ مثلاً متوسط طبقے کی عورت گھر کے کام کاج نہ کرے تو یہ ناقابل برداشت ہے۔ اور ایلیٹ کلاس کی عورت کام کرنا عار سمجھتی ہے اور اگر وہ کرلے تو یہ بڑا کارنامہ ہے۔اس تربیت سے ، جو ہر طبقہ اپنے لوگوں کی کرتا ہے ، مختلف طبقات میں مختلف رویے وجود پزیر ہوتے ہیں۔ ایک دیہاتی غریب خاندان کے لوگ شاید ایک روٹی کے ٹکڑے پر لڑپڑیں۔ مگر وہ ہو سکتا ہے کہ طوفان آنے پر آرام سے اپنے گھر کو گرتے ہوئے دیکھتے رہیں۔
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بڑے پیمانے پر ایسی تربیت صبر کے پیداکرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ہر خاندان کے سربراہ کو اپنے گھر میں تربیت کا ماحول بنانا چاہیے ۔ جذبات کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ان کا اظہار کب ہونا چاہیے وغیرہ جیسی باتیں ہر گھر کو اپنے ماحول میں تازہ رکھنی چاہییں۔
مثال کے طور پر ، ہمارے اکثرلوگوں کی یہ تربیت ہی نہیں کی جاتی کہ کسی کا مذاق اڑا دینا، اس پر کوئی تبصرہ سا کر دینا کتنی بری بات ہے۔ ہمارے ہاں عام طور سے یہ بیماری ہر جگہ دیکھنے کو ملے گی۔ لوگوں کی معذوری پر ان کے نام تک پڑ جائیں گے۔ اس طرح کی چیزیں ہادم صبر ہیں۔ اس لیے کہ ان کا عام ہونا تکلیف کا باعث ہے۔ یہ تکلیف انتقام پر ابھارتی ہے اور معاشر ے میں پھر تلخیاں وجود پزیر ہوتی ہیں۔ یہ تلخیاں چغلی، غیبت وغیرہ پر ابھارتی ہیں اور انسان آہستہ آہستہ حق کے جادۂ مستقیم سے ہٹتا جاتا ہے۔
اس مقصد کے لیے ہمارے پیش نظر ایک تربیت گاہ کا قیام بھی ہے۔ جس میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایک بڑے پیمانے پر لوگوں کو ایسی تعلیم سے گزارا جائے کہ ان کے غلط بت ٹوٹ جائیں اور صحیح عقائد اور نظریات وجود میں آئیں۔ان کو مہذب انسان بنایا جائے۔ان کے کردار و سیرت کو سنوارا جائے۔
اس باب میں ہم وہ اہم چیزیں زیر بحث لائیں گے جو ہمیں صبر کرنے میں ہمارے لیے مانع ہوتی ہیں۔
توکل اللہ پر اپنے معاملات کو ڈال کر اس کے فیصلوں پر مطمئن رہنے کا نام ہے۔جس آدمی میں توکل نہیں ہو گا ، وہ صبر نہیں کرسکے گا۔ اس لیے کہ خدا پر بھروسہ ہی وہ سہارا ہے ، جس سے نفس مشکلات میں مطمئن رہتا ہے۔ ’رضیت باللّٰہ ربا‘ کی منزل جس نے پا لی ہو وہ مشکلات میں گھبراتا نہیں ۔ اس نے دراصل ایسی مضبوط چیز کوتھام رکھا ہے کہ جو اسے ہر اس وقت تھامے رکھتی ہے جب اس کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔
اللہ ہمارے بارے میں فیصلہ کرتے وقت کبھی ہمیں مشکل سے دو چار کرتے ہیں اور کبھی آسانی سے۔ ان دونوں طرح کے فیصلوں میں اپنے معاملات کا والی وراث اللہ کو سمجھنا اور اس کی رضا پر قائم رہنے کی کوشش کرنا ہی وہ چیز ہے جس کوہم توکل کہتے ہیں۔ یہی چیز دراصل صبر کی سب سے بڑی مؤیدو معاون ہے۔ کیونکہ ایمان باللہ میں اصلاً مطلوب یہ ہے کہ:’ قل آمنت باللّٰہ ثم استقیم‘،اس بات کے قائل ہو جاؤ کہ میں ایمان لایا اور پھر اس پر قائم رہو۔
خدا کی ذات ا س دنیا میں ہر نیکی کے لیے ایک بڑاسہارا ہے ۔اس کے انکار اور اس پر بے اعتمادی کی بنا پر شاید ہی کوئی شخص نیکی پر قائم رہ سکے۔ خدا پر اعتماد دراصل بے عقلی اور اندھے اعتقاد سے پیدا نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے لیے خدا پر سوچا سمجھا ایمان اس کی ذات کاتعارف ، اس کی صفات و سنن کا علم ناگزیر ہے۔اگر یہاں پر غلطی ہو گئی تو آدمی وقتاً فوقتاً صبر سے محروم ہوتا رہے گا۔ مثلاً بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ نیکی کریں گے تو ہم پر مصیبت نہیں آئے گی۔ یہ خدا کے بارے میں اس کی سنن کا غلط علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انعام کے لیے نہیں بنائی ، بلکہ آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ اس میں کسی نیکی کا لازماً اجر دینا نیکی کے بارے میں ایسی دلیل بن جانا ہے کہ جس کے بعد آزمایش آزمایش نہیں رہتی۔ خدا نے نیکی کو بس ایک عمومی سا غلبہ دے رکھا ہے، جو اس کائنات کے قائم بالخیر ہونے کی دلیل ہے ، مگر یہ لازم نہیں ہے کہ کسی فرد کی نیکی کے بعد اس پر کوئی آزمایش نہیں آئے گی ۔ انبیا کی زندگی اس کی بہترین مثال ہے۔ یہ لوگ معصوم عن الخطا تھے ، مگر ان پر مصیبت کے ایسے ایسے پہاڑ ٹوٹے ہیں کہ قرآن کے مطابق رسول اور اس کے ساتھی پکار اٹھتے رہے کہ مدد کب آئے گی ؟ (البقرہ ۲: ۲۱۴)
وہ آدمی جو نیکی اس لیے کر رہا تھا کہ اس پر کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔ جب اس پر خدا کی کوئی آزمایش آئے گی تو وہ ایک طرف تو یہ کہ خدا سے مایوس ہوگا، اور دوسری طرف نیکیوں کو بھی فضول سمجھتے ہوئے ترک کردے گا۔صبر تو دور کی بات ہے ، نیکی کا نام بھی شاید اس کے لیے فضول ہوگا۔ اس طرح کے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت ہیں جنھوں نے کاروبار کی بہتری کے لیے نماز روزہ شروع کیا، مگر فائدہ نہ پا کردین سے بددل ہوئے۔
اس لیے لازم ہے کہ قرآن کی روشنی میں اللہ کی صفات کو سمجھا جائے اور اس کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے۔ یہ لازم ہے وگرنہ آہستہ آہستہ آپ کے دل سے ایمان نکلتا جائے گا۔
ان لوگوں کو عموماً بے صبر اور جذباتی دیکھا گیا ہے ، جو خدا کو صحیح تصور کے ساتھ نہیں جانتے ۔ مثلاً بعض خدا کو یوں سمجھتے ہیں جیسے نعوذ باللہ کوئی رشوت لینے والا ہو ، ادھر آپ نے نیکی کی رشوت دی ادھر وہ رام ہو گیا۔حالانکہ خدا بے نیاز اور غیر محتاج ہے۔ اسے اگر (نعوذ باللہ) ضرورت ہو بھی تو وہ خودہر شے بنا سکتا ہے ۔ اسے ہماری عبادت و ریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔ہم ان شاء اللہ اسی سلسلۂ معالم السبیل کے ضمن میں ایک کتاب ’اللہ کون ہے ؟‘کے نام سے تحریر کریں گے۔ جس میں پاکستانی مسلمانوں کے خدا کے بارے میں غلط خیالات کی اصلاح ہو گی اور ان کو وہ معلومات ملیں گے جو زندگی کو صحیح معنی میں گزارنے کے لیے ضروری ہیں ۔
خدا اس دنیا میں اجتماعیت کو نیکی کا اجر لازماً دیتا ہے ۔ مثلاً اگر کوئی قوم اپنے اندر اجتماعی سطح پرحق کو قائم کرلیتی ہے تو اس سے اس میں خدا کی نعمتیں وافر ملنے لگیں گی اور دوسری اقوام میں اس کا سر اونچا ہو گا۔ لیکن ایک فرد کے ساتھ اللہ کا معاملہ یوں نہیں ہے ۔ اس کی نیکیوں کا اجر اسے صرف آخرت میں ملے گا۔ یہاں بس اللہ اسے اتنا ہی دیں گے جتنا اس نے اس کے لیے لکھ رکھا ہے ۔نیکی کرنے سے دنیا میں اجر صرف یہ ہے کہ اس سے معاشرت میں خیر زندہ رہتا اور پنپتا ہے ۔لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ اسے دنیا میں اجرملنے لگے۔ یہ اسی صورت میں لازم ہوتا ہے ، جب آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہو۔
اللہ کی رضا کے بجائے ہمارا مطمح نظر اگر یہ بن جائے کہ ہم نے دنیا والوں کو خوش کرنا ہے ، اور ہم نیکی کریں تو لوگ بھی اس کے جواب میں ہمارے ساتھ نیکی کریں ، یہ چیز بھی ہادم صبر ہے۔اس لیے کہ آپ ہر وقت نیکی پر قائم نہ رہ سکیں گے جب لوگ آپ کے ساتھ آپ کی توقع کے مطابق پیش نہیں آئیں گے۔ خود یہ چیز بھی کوئی نیکی نہیں ہے کہ آپ دنیا میں صلہ و اجر کے لیے نیکی کریں۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ آپ اللہ کی رضا کے لیے نیکی کریں، تاکہ آپ آگے کی توقع میں دنیا سے بے نیاز رہیں۔اور یہ بے نیازی یقیناًزیادہ باعث اجر اور حوصلہ و تقویت کے لیے بہت مفید ہے ۔
قرآن مجیدنے حج کو جانے والے دو گروہوں کا ذکر کیا ہے ،ایک وہ جو دنیا کے لیے ہی سفر کرتے ہیں، اور دوسرے وہ جو آخرت کی فلاح کے لیے سفر کرتے ہیں اور اللہ سے دنیا میں خیر اور بھلائی کے طالب رہتے ہیں۔ یہی دوسرے لوگ ہی اصل میں ثابت قدم لوگ ہیں۔انھیں دنیا میں اجر پانے کی توقع چونکہ نہیں ہو تی ، وہ آخرت کے لیے عمل کررہے ہوتے ہیں، اس لیے اگر کہیں غربت و تنگ دستی ستاتی بھی ہے تو ان کی نیکیوں میں ازدیاد ہی کا باعث بنتی ہے۔
صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب جنگ کا موقع آتا تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا، مگر منافقین جن کی نظر دنیوی منفعت پر لگی رہتی ہے ، وہ اس سے گھبرا تے اور اس ظاہری ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے، جس کے سہارے پر وہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوئے ہوتے تھے۔ ٹھیک یہی حالت دنیا میں طالب اجر کی ہے ، جیسے ہی منفعت ختم ہوتی ہے تو وہ نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ہم آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ ہمیشہ اپنے اندر اس محرک عمل کو زندہ رکھیں کہ ہمیں اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ہے ۔ یہی چیز عند اللہ باعث اجر ہے، اور اسی سے ایما ن و عمل میں صبر و استقامت آتی ہے۔
قرآن مجید میں بے شمار مواقع پر صبر عجلت کے متضادمعنی میں آیا ہے ۔ ہم جن مواقع پر عجلت کا شکار ہو جاتے ہیں ، وہاں بالعموم بے صبری دکھاتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ادھر ہم دعا کریں اور ادھر پوری ہو جائے۔اسی طرح کسی سے کوئی تقاضا ہو، کوئی کام نکالنا ہو، جب ہم جلدی میں پڑ جائیں تو بے صبری کی خطا سرزد ہو تی ہے۔ مثلاً ہمارے کسی بھائی نے کوئی غلط بات ہم سے منسوب کردی تو ہم فوراً اس سے انتقام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ پہلے لازم ہے کہ ہم یہ جانیں کہ بات کیا ہے ، کس نے کہی ہے ، ہمیں غلط بات تو نہیں پہنچی۔ یا اسی طرح خدا کی طرف سے جو مصیبت اور غم نازل ہوا ہے وہ جلدی نہ ٹلنے پر ہم مایوس ہو جاتے ہیں حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں ہمارا ہی قصور رہا ہو۔ پرہیز اور حفظان صحت کا ہم خیال نہ رکھیں اور خیال کریں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے ۔ اس نے مجھے ہی اس مصیبت کے لیے چن لیا ہے ۔ وغیرہ۔
اپنے اندر سے ایسے داعیات کو قابو میں رکھنا چاہیے ، جو ہمیں عجلت میں مبتلا کرتے ہیں۔مثلاً حرص، طمع ، غصہ ، نفرت اور غیرمتوازن محبت وغیرہ ان داعیات میں سے ہیں جو انسان کو عجلت میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ عجلت ہم سے ایسے اقداما ت کرادیتی ہے کہ ہم مؤقف خیر و حق سے ہٹ جاتے ہیں۔کسی کو مارنا، ظلم کرنا، خدا کی حدود سے متجاوز ہونا ، یہ سب پھر وجود میں آتا ہے۔
صبر کو نقصان پہنچانے والے امور میں سے ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہمیں ہر معاملہ کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا۔ ہم اس کے بہت سارے پہلووں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہم غصہ میں آسکتے ہیں اگر ہمیں اس کی حقیقت کا علم ہو جائے تو ہمیں نہ اتنا دکھ ہواور نہ اتنی بے صبری ہی پیدا ہو۔ یہ عام طور سے دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی اتنہائی تکلیف کے بعد وفات پاتا ہے تو لوگ بالعموم یہ کہتے ہیں شکر ہے کہ اس کی تکلیف سے جا ن چھوٹ گئی۔ حالانکہ وہی آدمی اگر حالت صحت میں دنیا سے رخصت ہوتاتو انھی لوگوں کا بین کئی دن جاری رہتا۔
وفات پانے والے بیمار کی اس تکلیف کا ہمیں علم ہوتا ہے ، مگر ایسی بہت سی تکالیف ، مشکلات اور معاملات ہوتے ہیں جو ہمارے لیے پردۂ غیب میں ہوتے ہیں۔ ان کا پوشیدہ رہنا خود ہمارے بھلے کے لیے ہوتا ہے ۔ جیسے واقعۂ موسیٰ و خضر میں کچھ چیزیں غیب کی آپ علیہ السلام پر کھول دی گئی ہیں، جو ہم پر بالعموم غیب میں رہتی ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ مرنے والے کو کس عذاب سے بچا لیا گیا ہے۔ وہ کون سی مشکل میں پڑنے والا تھا، یا وہ کیا کر گزرنے والا تھا وغیرہ ۔
قرآن نے قصۂ خضر سنا کر ہمیں یہی بات سکھائی ہے کہ حادثات بھی اپنے بطن میں خیر کے حامل ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی چیز بھی الل ٹپ نہیں ہو رہی ہوتی ۔ ہر چیز ایک قاعدے ضابطے اور حکمت الہٰی کے تحت اور اسی کے اذن سے ہورہی ہوتی ہے۔ وہ جس چیزکو وجود بخشتا ہے ، وہ آزمایش سمیت کئی قسم کے خیر وجود پزیر کرتی ہے۔
اسی کی روشنی میں ہمیں یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ خدا کے معاملات کی طرح دنیا میں انسانوں کے معاملات میں سے بھی بیش تر پردۂ غیب میں ہوتے ہیں۔ کسی کے دل کے خیالات، اس کے محرکات اور دبے جذبات کا صحیح ادراک ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ہم اٹھتے ہیں اور ناراض ہوجاتے ہیں، حالانکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ معاملہ کیسا ہے ، کیوں ہوا ہے۔ میرے ساتھ ایک معاملہ ایسا ہوا کہ جس سے مجھ پر زندگی کی کئی گرہیں کھلیں۔ مجھ سے میرے ایک شاگرد نے میری ایک کتاب کے بارے میں پوچھا کہ کہاں سے لی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ مجھے کسی نے تحفہ دیا ہے۔ ایک اور شاگر د نے اسی کتاب کے بارے میں پوچھا کہ یہ کتاب کتنے کی لی ہے۔میں نے کہا پانچ سو روپے کی۔ دوسرے جواب سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید یہ کتاب میں نے خود خریدی ہے۔ ان دونوں شاگردوں سے کسی موقع پر جب بات ہوئی تو انھیں لگا کہ شاید میں نے جھوٹ بولا ہے۔چنانچہ کچھ عرصہ تک یہ بات ان کے دلوں میں چھپی رہی، مگر کسی موقع پر انھوں نے اس کی وضاحت طلب کرلی تو میں ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ اس لیے کہ دونوں جملے سچ بھی ہیں اور ایسے بھی ہیں کہ متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ پوچھنے کا عمل تم نے بہت اچھا کیا ہے۔ دراصل میں اور میرا ایک دوست بازار میں تھے کہ یہ کتاب اس نے مجھے خرید کرتحفۃً دی۔ اب چونکہ میرے سامنے ہی خریدی گئی تھی اس لیے مجھے قیمت کا بھی علم تھا۔ اس لیے جس نے مجھ سے قیمت پوچھی اس کو میں نے قیمت بتادی۔ لیکن قیمت بتانے سے ان کو یہ لگا کہ شاید میں نے خود خریدی ہے۔ جبکہ میں نے دوسرے شاگرد کو بتایا تھا کہ مجھے یہ تحفہ میں ملی ہے۔
اس واقعہ سے یہ حقیقت مجھ پر کھلی کہ دنیا میں کتنے ہی ایسے سچ ہوں گے ، جن پر جھوٹ کا گمان ہوا ہو گا، جن سے لڑائیاں اور ناچاقیاں وجود میں آئی ہوں گی۔کتنے ہی کام نیکی کی نیت سے کیے گئے ہوں ، مگر برے لگنے کی وجہ سے برائی شمار کر لیے گئے ہوں گے۔ کتنے ہی محبت کے بول ہوں گے جن میں نفرت کو محسوس کیا گیا ہوگا، کتنے ہی نصیحت کے جملے ہوں گے جن کو محض نقد و اعتراض کے معنی میں لیا گیا ہوگا۔ کتنی ہی امداد کی کوششیں ہوں گی جن کو احسان کرنے کے مفہوم میں لیا گیا ہوگا۔ کتنے ہی منصفانہ فیصلے ہوں گے جن کو جانب داری کے معنی میں لیا گیا ہو گا۔ غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا غیب ہاے گونا گوں کا مجموعہ ہے۔ جس کی حقیقت قیامت ہی کو کھلے گی۔یا کچھ ان لوگوں پر جو قرآن میں سورۂ حجرات کے حکم کے مطابق کوئی اقدام کرنے سے پہلے تحقیق کرلیا کرتے ہیں۔
اس تفصیل سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کے بے صبرے ہونے کے بجائے کوشش کرنی چاہیے کہ جن معاملات سے ہمیں رنج و تکلیف پہنچی ہے ، ان کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں شایدوہ حادثہ حادثہ نہ ہو ، بلکہ ایک خوش گوار عمل ہو جو ہمارے لیے بہت سے خیر اپنے ہمراہ لا رہا ہو۔
دنیا میں معاملات کرتے وقت ہمیں صبر سے ہٹانے والی ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کے حقوق کا صحیح شعور نہیں رکھتے اور ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے بھی انسان ہیں، ان کے بھی احساسات و جذبات ہیں ، وہ بھی غلطی کرسکتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی دنیوی ضروریات لگی ہیں۔ ان کے بھی بیوی بچے اور مشکلات ہیں ، ان کے اندر بھی تمناؤں کے سمندر حدود شکنی کو بے تاب ہیں۔ دوسرے سے معاملہ کرتے وقت ہمیشہ ان امور کا خیال رکھیں کہ وہ بھی ہماری طرح ان چیزوں سے دوچار ہیں۔
نقد و اصلاح اور تادیب و تنبیہ میں ہمیشہ اس بات کو خیال میں رکھیں کہ ہمیں ایک انسان سے معاملہ ہے۔ بعض لوگ اپنے ملازمین اور ماتحتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے بھلے لوگ جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔
اسی طرح لین دین اور دوسرے معاملات میں بھی ہم ہمیشہ حدود سے نا آشنا رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ اوپر گزر چکا ہے ، جس میں آپ نے قرض دینے والے کا یہ حق تسلیم کیا کہ جس کا کچھ لینا بنتا ہے ، اسے کچھ کہنے کا حق ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ حق بھی حق کے دائرے ہی میں ہو ناچاہیے۔ اس آدمی نے حدود سے تجاوز کیا ، مگر آپ نے اس کے باوجود یہ کہا کہ ایسا کرنے و کہنے کا اسے حق تھا۔اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جگہ پر ہوتے تو یقیناًمانگنے ہی نہ جاتے ، لیکن جو مانگنے آگیا ہے ، اسے مانگنے کا تو حق ضرور ہے ، مگر اذیت دینے اور تنگ کرنے کا نہیں ہے۔آپ نے چونکہ اس کے پیسے دینے تھے ، اس لیے آپ نے اس کی اس اذیت کو بھی معاف کردیا۔
تجربہ اس بات پر گواہ ہے کہ جو لوگ نیکیوں کو بے پروائی سے لے لیتے ہیں ، وہ شروع میں تو چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے بے پروائی کرتے ہیں ، مگر آہستہ آہستہ وہ بڑ ی نیکیوں سے بھی بے پروا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ان میں نیکی کا رجحان اور اس کی طرف میلان کا خاتمہ غالب آتا چلا جاتا ہے۔ پھر آدمی کا ذہن کچھ اور طرح سے سوچنے لگ جاتا ہے۔ پھر ایک وقت وہ بھی آجاتاہے کہ ہر نیکی اسے اس کے راستے کی رکاوٹ دکھائی دیتی ہے۔ اور ہر چیز کو وہ حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پھر نیکی کی جگہ بدی آتی چلی جاتی ہے اور ہر چیز کو وہ الٹ نگاہ سے دیکھنے لگ جاتا ہے کسی منصب پر ہو تو فرعون بن جاتا ہے اور عوام میں سے ہوتو غنڈہ و بدمعاش بن جاتا ہے۔ اس سب کچھ کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب اس نے پہلے پہل کسی نیکی کو حقیر خیال کیا تھا۔
دراصل جب آدمی ایک نیکی چھوڑتا ہے تو خانۂ خالی را دیو می گیرد کے اصول پر برائی اس کی جگہ لیتی چلی جاتی ہے۔آدمی کے سینے میں اللہ نے ہر نیکی کے لیے ایک غیرت(نفس لوامہ) رکھی ہے۔یہ غیرت پہلے پہل بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مگر بار بار برائی کرنے سے یہ غیرت آہستہ آہستہ کم موثرہوتی چلی جاتی ہے۔یہاں تک کہ ہم ضمیر کی سرزنش کا بالکل اثر قبول نہیں کرتے۔اس غیرت کی بے تاثیری دراصل ساری برائیوں کی جڑ ہے۔اسی سے بعد ازاں صبر میں کمی آتی ہے اور آدمی ویسابن جاتا ہے جیسا ہم نے لکھا ہے ۔
اگر آدمی کچھ نیکیوں کے بارے میں غیور رہے اور کچھ کے بارے میں غیرت میں کمی آجائے تو اس صورت میں وہ ایک غیر متوازن آدمی بن کر رہ جاتاہے۔جوبعض معاملات میں صابر نظر آئے گا اور بعض میں غیر صابر۔
جب آدمی پر مشکلات آجائیں ، اور وہ گردشوں میں گھرجائے تو اسے سب سے زیادہ جس بات کا دھیان رکھنا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت سے یقیناًمیرا بھلا چاہتے ہیں۔ یہ بات ہم اوپر کی بحث میں اچھی طرح سمجھ آئے ہیں کہ مشکلات سے اللہ ہمارا بھلا کس طرح چاہتے ہیں۔ مشکلات آئیں تو ہمیں اللہ کے اور قریب لے جائیں۔ اسی بات کو احادیث مبارکہ میں ’رضیت باللّٰہ ربا‘ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔
اوپر والے مطلوب رویے ہی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آدمی شرک میں مبتلا نہ ہو۔ مشکلات میں کبھی کبھی آدمی پر یہ وقت آجاتا ہے کہ جب لوگ اسے یہ بتاتے ہیں کہ فلاں شخص ہر مراد پوری کردیتا ہے اورفلاں’’ بابا جی ‘‘ ہر مشکل حل کردیتے ہیں تو آدمی یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ شاید اللہ تو یہ نہیں کرے گا تو یہ بزرگ یقیناًایسا کردیں گے۔ یہیں سے شرک کا وہ سارا بازار گرم ہوتا ہے جس سے حق کی شاہ راہ سے ضلالت کی پگڈنڈیاں نکلتی ہیں۔
مشکلات سے بارہا یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ ہمارا موقف کسی بات کے بارے میں غلط تھا۔ اس کی غلطی واضح ہونے کے بعد آدمی کا صبر یہ ہے کہ حق پر قائم رہنے کے لیے غلط رائے کو ترک کردے۔ اور یہ خیال ہر گز نہ کرے کہ میں نے اتنے لوگوں کے سامنے یہ بات کئی مرتبہ دہرائی ہے تو آیا اب میں اس سے رجوع کر لوں۔ نہ یہ کہے کہ میں نے اتنی محنت سے یہ سلسلہ چلایا تھا،کیا اب اسے ختم کردوں، یا یہ سوچے کہ میں نے پچھلے سالوں سے اسی نہج پر اتنا بڑا ادارہ قائم کر رکھا ہے یا اتنے لوگوں کو اس بات پر جمع کرلیا ہے تو حق کا اعتراف تو کر لوں ، لیکن یہ سب کچھ کہیں بکھر نہ جائے۔
یہود کا قضیہ قرآن میں بڑی تفصیل سے آیا ہے۔ ان کی مذہبی پیشوائی عربوں میں مسلم تھی۔ انھوں نے قریش کو امی کہہ کہ انھیں اپنے تابع بنا رکھا تھا۔ تاکہ وہ ان کے زیر اثر رہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد یہود کے لیے یہی سوال ابھر کر سامنے آیا کہ اگر انھوں نے اس نبی امی کو مان لیا تو ان کی مشیخت و پیشوائی جاتی رہے گی۔ چنانچہ قرآن نے ان سے کہا کہ حق پر قائم رہنا چاہتے ہو تو صبر اور نماز سے مدد لو۔ یعنی مشیخت و پیشوائی جاتی ہے تو اس پر صبر کرو، اس لیے کہ اس کے بعد تمھیں حق پر قیام کی نعمت حاصل ہوگی۔
حق پر قائم رہنے میں صبر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم اپنے محرکات عمل کو درست رکھیں۔ جو کام دنیا کے لیے کرنا ہے اسے دنیا کے لیے کریں اور جو کام آخرت یا رضاے الہٰی کے لیے کرنا ہے ، اسے اسی نیت سے کریں۔ اگر آپ کی نیت درست نہیں ہے تو گویا آپ نے صبر کا ایک بڑا حصہ ہاتھ سے جانے دیا۔آپ نے مشکلات میں صبرکیا ، مگر محض اس لیے کہ آپ کو دنیا صابرکہے ، تو آپ دراصل حق پرقائم نہیں رہے۔
مشکلات میں بعض اوقات ایسی مشکل بھی سر پر آپڑتی ہے جیسی مشکل سیدنا یوسف علیہ السلام کے بھائیوں پر آئی جب انھیں سیدنا یوسف کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ ان کے وہی بھائی ہیں جنھوں نے انھیں کنویں میں پھینکا تھا۔ اور خود ان کے سامنے ان پر الزامات لگائے تھے۔ ایسے موقع پر صبر کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف متعلقہ لوگوں کے سامنے کر لیا جائے ۔
قرآن مجید میں مایوس ہونے کو کفر کرنے والوں کا عمل بتایا گیا ہے۔ اور مصائب و مشکلات میں کفر وہی شخص کرتا ہے، جسے خدا کے بارے میں صحیح علم نہ ہو۔ وہ جذبات میں آکر بھول جائے کہ اللہ اس سے کیا چاہتا ہے۔ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی مصائب میں اللہ کے اگلے فیصلے کا مایوس ہوئے بغیر انتظار کرے۔ آج وہ جس مصیبت میں مبتلا کیا گیا ہے ، وہ کل ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے ایک روشن مستقبل لے کر آرہی ہو۔اور اگر کل روشن مستقبل نہ بھی آئے تو اس کا مطلب یہ ہے اگر وہ خدا کے ایمان سے محروم نہ ہوااور ایسی مشکل میں بھی حق پر قائم رہا، اخلاق اور نیکی کو ضائع نہ کیا تو اسے پھر جنت میں ایسا اجر ملنے والا ہے کہ دنیا کے کئی خوش حال اس پر رشک کریں گے۔
جب ہمیں کوئی تکلیف اپنے قریب رہنے والے لوگوں سے ملتی ہے توہم ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سوچنے لگتے ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات دوسرے لوگ ہماری بھلائی میں کچھ کرنا چاہتے ہیں ، مگر ان کی بھلائی ہمارے لیے نقصان دہ ہوجاتی ہے۔ تو ایسے موقع پر ہمیں ان کے بارے میں برے گمان نہیں کرنے چاہییں۔ صرف اسی حد تک ہمیں ان کے بارے میں رائے بنانی چاہیے جتنی معلومات ہمارے پاس ہوں۔ قرآن مجید نے اس بارے میں ہمیں یہ فرمایا ہے :
وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُ اُوْلٰءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً. (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۶)
’’وہ موقف مت اختیار کرو جس کا تمھارے پاس نہ علم ہو، (اور نہ بنیاد)۔اس لیے کہ کان آنکھ اور دل سب سے بازپرس ہو نی ہے۔‘‘
دوسرے موقع پرقرآن مجید نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رائے ان معلومات پر مبنی ہونی چاہیے، جو تحقیق شدہ ہوں۔ سنی سنائی باتوں پر عمل نہیں ہونا چاہیے۔نہ کسی پر تحقیق کیے بغیرالزام دھرنا چاہیے اور نہ اس کے خلاف کوئی اقدام اس عمل کے بغیر ہونا چاہیے۔
اگر آدمی یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتا تو اس عقیدہ کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ دوسروں کے ہاتھوں زک پہنچنے پر آدمی اخلاقی رویوں میں کمزور نہ ہو۔
وہ دوسروں کی صریح غلطی کے باوجود غم و غصہ کا اظہار بھی کرے تو اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے کرے اور وہ آداب کو ملحوظ رکھے ، دین و شریعت کا پابند رہے، عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔
اخلاق کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کو گالی نہ دے۔ سورۂ حجرات میں ہمیں دوسروں کے برے نام رکھنے اور ان پر اتہام لگانے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ گالی انھی دونوں کے بیچ میں آتی ہے۔ کبھی گالی کی نوعیت برے نام کی سی ہوتی ہے اور کبھی الزام و اتہام کی سی۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ قرآن کے نزدیک برے نام رکھنا فسق و فجور کے درجے کی چیز ہے۔ گالی بھی اسی دائرے میں آئے گی۔
غیبت و چغلی بھی آدمی کے بغض و کینہ اور بری رائے کاہی اظہار ہے۔ اگر آدمی صابر ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ ان سے بھی گریز کرے۔ وہ ہمہ وقت اس سے بچا رہے ۔اگر کبھی شدت جذبات سے ایسا ہو جائے تو تلافی کی کوشش کرے۔
آدمی کو اللہ تعالیٰ اگر نعمتیں عطا کریں، اچھی شکل و صورت اسے دیں، اعلیٰ صلاحیتوں سے اسے نوازیں تو وہ مغرور ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی مشکل میں صحیح رویہ اختیار کرلے اور اسے محسوس ہو کہ وہ آزمایش میں کامیاب ہوا ہے۔ تو یہ چیز بھی باعث تکبر وغرور ہو سکتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسے موقعوں پر ہوشیاری سے اپنی حفاظت کرے۔
غرور و تکبر کا مطلب صرف اکڑ کر چلنا ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد دوسروں کو حقیر سمجھنا بھی ہے۔ مثلاً اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر آدمی اس شخص کو حقیر سمجھے جس کو اللہ ہی نے ان نعمتوں سے محروم رکھا ہے، تو یہ بات ایسی سنگین ہے کہ آدمی کو دوزخی بھی بنا دیتی ہے۔
صبر کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کو ان کی خطاؤں پر معاف کردیا کرے۔ ان سے بدلہ نہ لے ۔ دوسروں سے بدلہ لینا ایک دنیوی عمل ہے۔ جس نے پورا پورا بدلہ لیا ، وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے ایک سودا دے کر اس کی قیمت وصول کرلی۔ اس پر وہ کسی اجر کا مستحق نہیں ہے۔
لیکن جو شخص دوسرے کو معاف کردے ، وہ ایک دینی عمل سرانجام دیتا ہے۔ اسے اجر عظیم عطا ہو گا۔ جتنی بڑی خطا کو اس نے معاف کیا ہوگا ، اتنا بڑا اجر اسے حاصل ہوگا۔قرآن مجید کا مطالبہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف معاف کردیں ، بلکہ اس کی برائی کا بدلہ بھلائی سے دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کی عادت حسنہ تھی کہ آپ گالیاں دینے والوں کو دعائیں دیتے ، ان کی تیمار داری کو جاتے ، ان کی خیر خواہی کرتے ، ان کے کام آتے ، چنانچہ وہ لوگ آپ کے اخلاق ہی کی وجہ سے مسلمان ہو جاتے تھے۔قرآن مجید نے اس بات کو یوں واضح کیا ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّءَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ، فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ، وَمَا یُلَقَّہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا، وَمَا یُلَقَّہَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ. (حم السجدہ ۴۱: ۳۴۔۳۵)
’’برائی اوربھلائی برابر نہیں ہو سکتیں ، تم برائی کو اس چیز سے دفع کرو جو بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہ ،جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے ، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔اور یہ (دانائی) نہیں ملتی مگر انھی لوگوں کو جو صابر(ثابت قدم ) ہوتے ہیں، اور یہ (حکمت )نہیں ملتی مگر انھی کو جو بڑے نصیبہ ور ہوتے ہیں۔‘‘
ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ صبر کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی برائی کا بدلہ نیکی سے دے۔ بعض لوگ اس آیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ نصیبہ وری اللہ تعالیٰ کے انتخاب کا نام ہے۔ایسا نہیں ہے ۔ ہر وہ شخص نصیبہ ور ہو سکتا ہے کہ جو آخرت کی کامیابی کے لیے جینا سیکھ لے۔ قرآن مجید سورۂ عصر میں یہی کہتا ہے کہ جو ایمان لایا ، اور اس نے نیک اعمال کیے اور ’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘ کا فریضہ سرانجام دیا تو وہ خسارے سے بچ گیا ۔ یعنی وہی اچھے نصیبہ والا ہے۔ چنانچہ آدمی اگر آخرت کے لیے جینے لگے تو وہی نصیبہ ور ہے اور اسی کو وہ دانائی مل جاتی ہے جو اسے صابر بنادیتی ہے۔ صبر اور آخرت کے لیے جینے والا ہی اس آیت کا نصیبہ ور اور صابر و حکیم ہے۔
اس درگزر اور صبر و دانائی کا نتیجہ آخرت کی نصیبہ وری ہے اور دنیا میں یہ کہ دشمن دوست بن جائے گا۔ اور اس دشمن کا خوف امن میں بدل جائے گا۔
اس درگزر کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم بس معاف کردیں۔ بدلہ نہ لیں ، مگر ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیں ۔یہ غلط ہو گا۔ آپ کے دل میں اس کے بارے میں خیالات کیسے بھی ہوں ، آپ اسے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اسی کو حدیث میں صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ جو آپ کے ساتھ نیکی کرتا ہے اور آپ اس کو مسکرا کر ملتے ہیں تو یہ تو ہر کوئی کرلیتاہے۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ ہم ان سے بھی مسکرا کر ملیں جو ہمارے لیے برائی کرتے پھرتے ہیں۔اور دوسری طرف براہ راست یا بالواسطہ ان کی اصلاح کی کوشش بھی جاری رکھیں تاکہ وہ اپنی غلطی پر عادی نہ ہوں۔ یہ ’تواصی بالحق ‘کا تقاضا ہے۔ اس سے گریز کرنا بھی عدم صبر ہے ، مگر یہ سب حکمت و دانائی سے ہونا چاہیے۔
صبر کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آدمی جب بھی کسی صدمے سے دو چار ہو، یا دوستوں اور عزیزوں کی طرف سے برا سلو ک اس کے ساتھ کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ ضبط نفس سے کام لیتے ہوئے اپنا احتساب کرے۔ یہ دیکھے کہ اس پریہ ابتلا جو آئی ہے ، وہ کیوں کر آئی ہے۔ اس کی کوئی غلطی ہے جس کی بنا پر خدا نے اسے بیدار کرنا چاہا ہے۔ یا اس سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔ جس پر خدا چاہتا ہے کہ ہم توبہ کرکے اس کی طرف رجوع کریں۔ یا میرے دوستوں اور عزیزوں کو میرے کسی رویے اور میرے کسی اقدام یا قول سے تکلیف پہنچی ہے۔ اگر آدمی ایسا نہیں کرے گا تو یا وہ کڑھنے میں لگا رہے گایا دوسروں کے لیے ایسا ماحول بنا چھوڑے گا کہ وہ اس کے ہدف نقد اور طعن و تشنیع ہوں گے۔
وہ معاشرے میں بھی ایک تکلیف دہ شخص کی طرح جیے گا ۔ اور آخرت میں دوسروں کو تکلیف دینے والا بنے رہنے کی وجہ سے سزا کا مستحق ہو گا۔دوسروں پر زبان کھولنے سے پہلے اپنے دامن کے داغ شمار کرنے چاہییں۔ اور دوسروں پر نقد کرنے سے پہلے اپنے اوپر تنقید کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ ہم خود بھی خطاؤں سے پاک نہیں ہیں۔
جیسے ہی ہمارے سامنے ہماری خطا آئے تو اسے درست کریں، معلوم ہو کہ ہم نے گنا ہ کیا تھا تو توبہ کریں۔ اور اگر ہمیں معلوم ہو کہ لوگوں نے میرے ساتھ یہ برا رویہ اس لیے اختیار کیا ہے کہ میں نے بھی ان کے ساتھ یوں اور یوں کیا تھا، تو ان سے معذرت کریں۔ اور اگر معلوم نہ ہوسکے کہ میرے بھائیوں نے میرے ساتھ جو برا سلوک کیا ہے ، وہ کیوں کیا ہے تو پھر ان سے محبت اور عاجزی کے ساتھ پوچھ لیں کہ آپ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ہے۔ اگر ان کی غلط فہمی ہو تو اسے دور کردیں ، اگر وہ کسی غلطی کی نشان دہی کریں تو اسے تسلیم کرتے ہوئے معذرت کرلیں۔اس رویے سے آپ کی زندگی میں ایک سکون آئے گا۔ آپ لوگوں کے لیے ایک اسوہ بنیں گے اور اگر آپ کی نیت درست ہوگی ، آخرت میں اجر پانے کے لیے یہ سب کچھ کریں گے تو پھر آپ کے لیے آخرت میں ایک اجر عظیم منتظر ہو گا۔
احتساب نفس میں صبر کے تقاضوں میں سے یہ بھی ایک تقاضا ہے کہ اگر آپ کا عقیدہ و عمل درست ہے۔ اور کچھ لوگ بلاوجہ یا اپنے نظریے کی بنا پر آپ کے درپے ہوگئے ہیں، تو اس صورت میں ان کے ساتھ الجھنے اور ان کے ساتھ لگے رہنے کے بجائے لازم ہے کہ آپ ان کی صحیح بات سمجھنے کی کوشش کریں، ان کے نقد کو اچھی طرح سمجھ لیں اگر اس میں کوئی جان ہے تو ضرور اپنی اصلاح کرلیں وگرنہ محض مذاق اور ٹھٹھوں پر نہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اور نہ دل جلانے کی۔ بہتیرے لوگ اپنا وقت اسی میں ضائع کردیتے ہیں کہ اس نے یہ کہا ہے اور اس نے وہ۔ پھر اس کی صفائی دینے میں لگے رہتے ہیں ۔ اگر ہم خود صحیح چل رہے ہیں، تو اس فکر میں نہیں پڑنا چاہیے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اگر کسی کو غلط فہمی بھی ہو گی تو جلد یا بدیر دور ہو جائے گی۔ اگر آپ نے ویسا کیا ہے تو آپ کی صفائی اور اس کے لیے آپ کی جدو جہد رائیگاں جائے گی۔اس لیے کہ اگر آپ غلطی کرتے ہیں ، تو جلد یا بدیر سامنے آجائے گی۔
دوسروں کی خیر خواہی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا بھی صبر کا تقاضا ہے۔ بندۂ مومن دوسروں کے لیے بے ضرر ہے۔اسے دوسروں کی برائی کے باوجود ان کے لیے خیر خواہ رہنا ہے۔اس کے تقاضے درج ذیل ہیں:
۱۔ صحیح مشورہ دینا
۲۔ مشکل میں مدد کرنا
۳۔ حق اور صبر کی نصیحت کرنا وغیرہ
۴۔ ہمیشہ بھلا چاہنا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’الدینُ النَّصِیحَۃُ لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہِ وَلِرَسُولِہٖ وَلأَءِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَعَامَّتِھِمْ‘ دین اللہ ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا نام ہے۔یعنی ہماری خیر خواہی ان سب کے لیے ہے۔
یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ ہمارا اصلی امتحان صبر ہی کا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم ہر حالت میں صحیح عقیدہ و عمل اور صحیح رویہ و سلوک پر قائم رہیں۔ صبر ہی کا صلہ جنت ہے۔ اسی صبر کا دوسرا پہلو شکر ہے۔ یہ دونوں مل کر دینی رویے کی تکمیل کرتے ہیں۔شکر بندگی پر ابھارتا ہے اور صبر بے بندگی سے روکتا ہے۔شکر نیکی کرنے کانام ہے اور صبر برائی سے بچنے کا۔ شکر نیکی میں آگے بڑھنے کا نام ہے تو صبر اس پر قائم رہنے کا۔
دین اسلام کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے۔ یہ اصل میں دین پر قائم رہنے ، اخلاق کو قائم رکھنے اور صحت عقیدہ و عمل کو برقرار رکھنے کا نام ہے۔ یہی دراصل دین ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ جب اللہ کی طرف سے آزمایش آئے توہم
۱۔ اسے امتحان سمجھیں۔
۲۔ یہ تسلی رکھیں کہ اس کا امتحان ہماری ہمت سے بڑھ کرنہیں۔
۳۔ یہ آزمایش ہمیںیا ہمارے ایمان کو ضائع کرنے نہیں آئی بلکہ اگر ہم ثابت قدم رہے تو دنیا میں ہمارے اندر کی خامیوں کو دور کرنے ، اعلی اوصاف پیدا کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے آئی ہے ۔ اگر ہم ثابت قدمی دکھاتے ہیں تو آخرت میں بھی اجر عظیم کا باعث ہو گی۔
ہم لوگوں کے معاملات میں ان کے رویوں کو اپنے لیے اللہ کی طرف سے امتحان سمجھیں ۔ اوپر والے نکات کے ساتھ ساتھ درج ذیل نکات کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے سارے معاملے پر غور کریں:
۱۔ اگر غلطی ہماری طرف سے ہے تو اسے درست کرلیں، اور ان سے مل کر اصلاح احوال کی کوشش کریں۔اگر غلطی ان کی ہے تو ان سے درگزر کریں۔
۲۔ اگر آپ صحیح تھے تو اپنے کام ، رویے اور نظریہ پر قائم رہیں۔
۳۔ برے رویوں ، تبصروں میں الجھنے اور ان پر کڑھتے رہنے کے بجائے ان سے اعراض کریں، جذباتی قسم کے لوگوں سے جب معاملہ پڑے تو ان سے اعراض کریں۔
_______________