بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
قُلْ: یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ، تَعَالَوْا اِلٰیکَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ، اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ، وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا، وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا: اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ{۶۴}
یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ، وَمَآ اُنْزِلَتِالتَّوْرٰۃُوَالْاِنْجِیْلُ اِلَّامِنْ بَعْدِہٖ، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ{ ۶۵} ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ، فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ، وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ{۶۶} مَاکَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا، وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا، وَمَاکَانَ مِنَ المُشْرِکِیْنَ{۶۷} اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ، وَھٰذَا النَّبِیُّ، وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ {۶۸}
وَدَّتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْیُضِلُّوْنَکُمْ، وَمَا یُضِلُّوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَہُمْ، وَمَا یَشْعُرُوْنَ{۶۹} یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ، وَاَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ{۷۰ } یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ، لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ، وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ، وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ {۷۱}
(اِن سے) کہہ دو ، اے اہل کتاب ، ۱۲۲ اُس بات کی طرف آئو جو ہمارے اورتمھارے درمیان یکساں ہے ۔۱۲۳ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اُس کے ساتھ کسی کوشریک ٹھیرائیں اورنہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ ۱۲۴ پھر وہ اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم ہیں ۔ ۵ ۱۲ ۶۴
اے اہل کتاب، تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو، دراں حالیکہ تورات وانجیل تو اس کے بعد ہی نازل ہوئی ہیں۔پھر کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟ ۱۲۶ یہ تمھی لوگ ہو کہ اُن باتوں میں تو جھگڑ چکے جن کے بارے میں تمھیں کچھ علم تھا، مگر اب یہ اُس بات میں کیوں جھگڑ رہے ہو جس کا تمھیں کچھ بھی علم نہیں ہے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ اِن سب حقائق کو ) اللہ جانتا ہے ، مگر تم نہیں جانتے۔ ابراہیم نہ یہودی تھا اورنہ نصرانی، بلکہ ایک مسلم حنیف تھا ۱۲۷ اوروہ اِن مشرکوں میں سے بھی نہیں تھا۔ ۱۲۸ ابراہیم کے ساتھ نسبت کا زیادہ حق اُن لوگوں کو پہنچتا ہے جنھوں نے اُس کی پیروی کی ۔ پھر یہ پیغمبر (اِ س کے حق دار ) ہیں اورجو اِن پر ایمان لائے اور اللہ تو اِنھی ایمان والوں کا ساتھی ہے۔ ۱۲۹ ۶۵۔۶۸
(ایمان والو) ، اِن اہل کتاب کے ایک گروہ کی تمنا ہے کہ کسی طرح تمھیں صحیح راستے سے ہٹا دے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح ) وہ اپنے آپ ہی کو گمراہی میں ڈال رہے ہیں، مگر نہیں سمجھتے۔ اے اہل کتاب، تم اللہ کی آیتوں کے منکر کیوں ہوتے ہو، دراں حالیکہ تم اُن کے گواہ ہو ؟ ۱۳۰ اے اہل کتاب ، ۱۳۱ تم حق کو باطل میں کیوں ملاتے ہواور کیوں حق کو چھپاتے ہو، دراں حالیکہ تم جانتے ہو؟ ۱۳۲ ۶۹۔۷۱
۱۲۲؎ یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن پیچھے کے مضمون سے واضح ہے کہ روے سخن نصاریٰ کی طرف زیادہ ہے۔
۱۲۳؎ قرآن نے یہ دعوت ٹھیک اس طریقے کے مطابق دی ہے جس کی تلقین اس نے خود فرمائی ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف حکمت اوراچھی نصیحت کے ذریعے سے بلانا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...اس طریقۂ حکمت کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اگر مخاطب سے بحث کے لیے کوئی مشترک بنیاد مل سکتی ہو تو اسی پرگفتگو کو آگے بڑھایا جائے، خواہ مخواہ اپنی انفرادیت کی دھونس جمانے کی کوشش نہ کی جائے۔ چنانچہ قرآن نے یہاں یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔ اہل کتاب آسمانی صحیفوں کے حامل ہونے کے سبب سے توحید کی تعلیم سے اچھی طرح آشنا بھی تھے اور اس کے علم بردار ہونے کے مدعی بھی تھے۔ ان کے صحیفوں میں نہایت واضح الفاظ میں توحید کی تعلیم موجود تھی۔انھوں نے اگر شرک اختیار کیا تھا تو اس وجہ سے نہیں کہ ان کے دین میں شرک کے لیے کوئی گنجایش تھی ،بلکہ اپنے نبیوں اورصحیفوں کی تعلیمات کے بالکل خلاف محض بدعت کی راہ سے انھوں نے یہ چیز اختیار کی اورپھر متشابہات کی پیروی کرکے ، جیسا کہ ہم اوپراشارہ کر آئے ہیں، اس کے حق میں الٹی سیدھی دلیلیں گھڑنے کی کوشش کی ۔ قرآن نے ان کودعوت دی کہ یہ بات ہمارے اورتمھارے درمیان یکساں مسلم ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی کی بندگی کی جائے، نہ اس کا کسی کو ساجھی ٹھیرایا جائے اورنہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کورب ٹھیرائے ، پھر اس مسلم و مشترک حقیقت کے برخلاف تم نے خداکی عبادت میں دوسروں کو شریک کیوں بنا رکھا ہے اوراپنے احبارو رہبان اور فقیہوں صوفیوں کو ’ اربابًا من دون اللّٰہ‘ کادرجہ کیوں دے دیا۔ ‘‘(تدبرقرآن۲/ ۱۱۲)
۱۲۴؎ یعنی اپنے عقائد کا جائز ہ لیں اورجو باتیں محض بدعات ومتشابہات کی پیروی میں عقیدہ بنا لی گئی ہیں، انھیں چھوڑ کر تو حید خالص کو اختیار کریں جس کی تعلیم تمام انبیاعلیہم السلام نے دی ہے ۔ یہاں خاص طور پر یہ بات جو آئی ہے کہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے، اس سے اشار ہ تحلیل و تحریم کے ا ن اختیارات کی طرف ہے جو اہل کتاب نے اپنے احبار و رہبان کو دے رکھے تھے ۔ اس لیے کہ کسی کو اپنی ذات میں شارع و حاکم سمجھ کر اس کی اطاعت بھی درحقیقت اس کی عبادت ہی ہے۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی ہے کہ یہ انھیں رب بنا دیناہے۔
۱۲۵؎ یہ اظہار برأت کے الفاظ ہیں ۔ یعنی اس بات کے گواہ رہو کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اورتمھیں بتا دیا کہ اسلام کی حقیقت یہی توحید ہے۔اس سے محرومی کے بعد کسی شخص کو خدا حاصل نہیں ہوسکتا۔
۱۲۶؎ یہودو نصاریٰ اورمشرکین ، تینوں ہی اپنی گمراہیوں کی حمایت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا نام استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ قرآن نے ان کے اس جھگڑے کا حوالہ دیا ہے کہ ان میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ ابراہیم ہمارے طریقے پر تھے، دراں حالیکہ تورات اورانجیل ، دونوں ان کے صدیوں بعد نازل ہوئی ہیں، پھر وہ یہودیت یا نصرانیت پر کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ فرمایا ہے کہ حق کی عداوت کا یہ کیسا جنون ہے کہ اتنی سی بات بھی ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔
۱۲۷؎ یعنی اپنے پروردگار کے فرماں بردار اور پوری یک سوئی کے ساتھ توحید کی راہ پر گامزن تھے۔ اس سے ہٹ کر کج پیچ کے یہ مشرکانہ راستے انھوں نے کبھی اختیار نہیں کیے تھے۔
۱۲۸؎ یعنی ابراہیم علیہ السلام کو جس طرح یہودیت اورنصرانیت سے کوئی تعلق نہ تھا ، اسی طرح بنی اسمٰعیل کے ان مشرکین سے بھی کوئی واسطہ نہ تھا ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... یہ بات جملے کے عام سیاق سے الگ کرکے اس لیے فرمائی کہ یہ مشرکین بنی اسمٰعیل کی تردید میں ہے جو اس سورہ میں براہ راست مخاطب نہیں ہیں ۔ اس سورہ کا خطاب ، جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی ہے ، اہل کتا ب بالخصوص نصاریٰ سے ہے، مشرکین کی تردید میں اگراس میںکوئی بات آئی ہے تو وہ ضمناً ہی آئی ہے۔ یہ بات بھی ضمنی باتوں ہی میں سے ہے، اوراس کے ذکرکی ضرورت ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، اس لیے تھی کہ جس طرح یہود اورنصاریٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کو اپنی گمراہیوں کی تائید میں پیش کرتے تھے ، اسی طرح ، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ زورو شور کے ساتھ قریش کے مشرکین ان کے نام کو اپنی حمایت میں پیش کرتے تھے ،بلکہ ان کا تویہ دعویٰ تھا کہ جس دین پر وہ ہیں، یہ دین ان کو حضرت ابراہیم ہی سے وراثت میں ملاہے۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۱۱۵)
۱۲۹؎ یعنی ساتھی ہے تو یقیناً ان کی مدد بھی کرے گا اور ان کے مخالفوں پر انھیں غلبہ بھی عطا فرمائے گا۔
۱۳۰؎ یعنی ان میں جو حقائق بیان ہوتے ہیں، انھیں تم پہلے سے جانتے ہو اوردنیا کے آگے ان کی شہادت دینے کا اقرارکر چکے ہو ۔
۱۳۱؎ یہ تکرار اظہار حسرت وملامت کے لیے ہے کہ افسوس، تم اہل کتاب ہو کر لوگوں کو اس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہو ۔
۱۳۲؎ یہ اشارہ ہے ان تحریفات کی طرف جو ان لوگوں نے بیت الحرام سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تعلق کی روایا ت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنے نبیوں کی پیشین گوئیوں میں کی تھیں ۔ آیت میں ’ وانتم تعلمون‘ کے الفاظ سے واضح ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں یہود کے علما ان تحریفات سے پوری طرح واقف تھے ۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــ