HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

بو والی سبزیاں کھاکرمجالس میں آنے سے متعلق ایک رخصت

قال۱ مغیرۃ بن شعبۃ رضی اللّٰہ عنہ: أکلت ثوما فأتیت مصلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وقد سبقت برکعۃ فلما دخلت المسجد وجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ریح الثوم. فلما قضی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاتہ قال :من أکل من ہذہ الشجرۃ فلا یقربنا حتی یذہب ریحہا. فلما قضیت الصلاۃ جئت إلی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقلت یا رسول اللّٰہ واللّٰہ لتعطینی یدک. قال: فأدخلت یدہ فی کم قمیصی إلی صدری فإذا أنا معصوب الصدر. قال : إن لک عذرا.
’’مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:(ایک مرتبہ)میں لہسن کھانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر اس وقت پہنچا جب ایک رکعت گزر چکی تھی۔ جونہی میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کی بو محسوس کر لی۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کی تو فرمایا:جو یہ سبزی کھائے، اسے چاہیے کہ اس کی بو ختم ہونے تک ہمارے قریب نہ آئے ۔ اپنی نماز مکمل کرنے کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول، خدا کے لیے آپ اپنا ہاتھ مجھے دیجیے (تاکہ میں آپ کولہسن کھانے کی وجہ بتا سکوں)۔ چنانچہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنی قمیض کے نیچے سینے کی طرف داخل کیا تو میرا سینہ بندھاہوا تھا۔(یہ محسوس کرتے ہی)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں تمہارے پاس (لہسن کھاکر مسجد میں آنے کا )عذر ہے۱ ۔

ترجمے کے حواشی

۱۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے اپناسینہ اور پیٹ بھوک کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے باندھ رکھاتھا اور یہ صور ت حال محسوس کرتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا لہسن کھاکر مسجد میں آنے کا عذر قبول کرلیا۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ ابوداؤد کی روایت، رقم ۳۸۲۶ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:

احمد بن حنبل ، رقم ۱۸۲۰۱، ۱۸۲۳۰۔ بیہقی، رقم ۴۸۴۰۔ ابن حبان ، رقم ۲۰۹۵۔ ابن خزیمہ ، رقم ۱۶۷۲۔ ابن ابی شیبہ ، رقم ۸۶۵۶، ۲۴۴۸۶۔

بعض روایات مثلاًبیہقی، رقم ۸۴۰ میں ’أکلت ثوما‘( میں نے کچھ لہسن کھایا)کے بجائے ’اکلت الثوم علی عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘( میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لہسن کھایا)کے الفاظ روایت ہوے ہیں۔

بعض روایات مثلاًاحمد بن حنبل، رقم ۱۸۲۳۰میں ’وقد سبقت برکعۃ‘( ایک رکعت گزر چکی تھی)کے بجائے ’قد سبقنی برکعۃ‘(آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت مجھ سے آگے تھے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ ابن حبان ، رقم ۲۰۹۵میں ’فوجدتہ قد سبقنی برکعۃ ‘(میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ ایک رکعت مجھ سے آگے تھے )کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۴۸۴۰میں ’فلما دخلت المسجد‘(جب میں مسجد میں داخل ہوا)کی جگہ ’فدخلت معہم فی الصلاۃ‘(چنانچہ میں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا)کے الفاظ روایت ہوے ہیں۔

احمد بن حنبل، رقم ۱۸۲۳۰میں ’فلما دخلت المسجد وجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ریح الثوم‘ (جب میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کی بو محسوس کی )کے بجائے ’فلما صلی قمت أقضی فوجد ریح الثوم‘(جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے اور میں اپنی نماز مکمل کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو آپ نے لہسن کی بو محسوس کی )کا مضمون نقل ہوا ہے۔

بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۱۸۲۳۰میں ’من أکل من ہذہ الشجرۃ‘(جو اس درخت میں سے کھائے) کے بجائے ’من أکل ہذہ البقلۃ‘(جو یہ پودا کھائے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ بیہقی ، رقم ۴۸۴۰میں ’من أکل من ہذہ الشجرۃ الخبیثۃ‘(جو اس مکروہ درخت میں سے کھائے)کے الفاظ اور ابن حبان ، رقم ۲۰۹۵میں ’من أکل من ہذہ البقلۃ‘(جو اس پودے میں سے کھائے )کے الفاظ نقل ہوے ہیں۔

احمد بن حنبل، رقم ۱۸۲۳۰میں ’فلا یقربنا‘(تو اسے ہمارے قریب نہیں آنا چاہیے)کے بجائے ’فلا یقربن مسجدنا‘(اسے ہماری مسجد کے قریب نہیں آنا چاہیے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ بیہقی ، رقم ۴۸۴۰میں ’فلا یقربن مصلانا‘(تو اسے ہماری نماز کی جگہ کے قریب نہیں آنا چاہیے)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

ابوداؤد ، رقم۳۸۲۶میں ’ریحہا‘(اس کی بو )کے بجائے ’ریحہ‘(اس کی بو)بھی روایت ہوا ہے۔

بعض روایات مثلاً بیہقی ، رقم۴۸۴۰میں ’فلما قضیت الصلاۃ‘(تو جب میں نے اپنی نماز پڑھ لی)کے بجائے ’فأتممت صلاتی فسلمت‘( تو میں نے اپنی نماز مکمل کر لی اور سلام پھیر دیا)کے الفاظ نقل ہوے ہیں۔

بعض روایات مثلاًبیہقی ، رقم ۴۸۴۰میں ’واللّٰہ لتعطینی یدک‘(خدا کے لیے آپ مجھے اپنا ہاتھ دیجیے)کے بجائے ’أقسمت علیک لما أعطیتنی یدک‘(میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے اپنا ہاتھ دیجیے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً ابن حبان ، رقم ۲۰۹۵میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ یوں نقل ہوا ہے’یا رسول اللّٰہ إن لی عذرا. فناولنی یدک فناولنی فوجدتہ واللّٰہ سہلا فأدخلتہا فی کمی إلی صدری‘(اے اللہ کے رسول،بے شک میرے پاس ایسا کرنے کی وجہ ہے۔آپ اپنا ہاتھ مجھے دیجیے تاکہ میں آپ کو یہ وجہ دکھا سکوں ۔ چنانچہ آپ نے اپنا ہاتھ مجھے دیا، خداکی قسم وہ انتہائی نرم تھا، اور میں نے اسے اپنی قمیض میں اپنے سینے کی طرف داخل کیا)۔

احمد بن حنبل، رقم ۱۸۲۳۰میں ’فإذا أنا معصوب الصدر‘(تو میراسینہ بندھاہواتھا)کے بجائے ’فوجدہ معصوبا‘(تو آپ نے اسے بندھا ہوا پایا)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔

بعض روایات مثلاً بیہقی ، رقم ۴۸۴۰میں ’إن لک عذرا‘(بے شک تمھارے پاس ایسا کرنے کی وجہ ہے)کے بجائے ’أری لک عذرا‘(میں دیکھتا ہوں کہ تمھارے پاس اس کاجواز ہے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔

تخریج : محمداسلم نجمی

کوکب شہزاد

ترجمہ و ترتیب :اظہار احمد

_____________

B