HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

نماز کے اوقات

شرح موطا

حضرت عمر کا خط

[۷] وحدثنی عن مالک عن عمہ ابی سہیل عن ابیہ ان عمر بن الخطاب کتب الی ابی موسی:

اَنْ صَلِّ الظُّہْرَ اِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَاءُ نَقِیَّۃٌ قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَہَا صُفْرَۃٌ وَالْمَغْرِبَ اِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَاَخِّرِ الْعِشَاءَ مَا لَمْ تَنَمْ وَصَلِّ الصُّبْحَ وَالنَّجُوْمُ بَادِیَۃٌ مُشْتَبِکَۃٌ وَاقْرَأْ فِیْہَا بِسُوْرَتَیْنِ طَوِیْلَتَیْنِ مِنَ الْمُفَصَّلِ.

عمر بن الخطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ:
’’ظہر پڑھو، جب سورج نصف النہار سے جھکے، اور عصر پڑھو، جب سورج ابھی سفید روشن ہو، زرد نہ ہوا ہو، مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھو، اور عشا کو اپنے سونے تک موخر کرو، صبح اس وقت پڑھو، جب ابھی ستارے خوب روشن اور باہم گتھم گتھا ہوں، فجر کی نماز میں مفصلات میں سے دو لمبی سورتیں پڑھا کرو۔‘‘
[۸] وحدثنی عن مالک عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ:ان عمر بن الخطاب کتب الی ابی موسی الاشعری ان:
صَلِّ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَیْضَاءُ نَقِیَّۃٌ قَدْرَ مَا یَسِیْرُ الرَّاکِبُ ثَلاَثَۃَ فَرَاسِخَ وَاَنْ صَلِّ الْعِشَاءَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثِ اللَّیْلِ فَاِنْ اَخَّرْتَ فَاِلَی شَطْرِ اللَّیْلِ، وَلاَ تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِیْن.
عمر بن الخطاب نے ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ:
’’عصر اس وقت پڑھو، جب ابھی سورج روشن ہواورزر د نہ ہوا ہو،(غروب سے) اتنا پہلے کہ ایک مسافر تین فرسخ فاصلہ طے کرسکے، اور عشا کو اپنے اور ایک تہائی رات کے درمیان میں پڑھ لو، اور اگر تاخیر کرنا چاہو تو بس آدھی را ت تک، اور (نماز میں تاخیر کر کے )غافلوں میں سے نہ بنو۔‘‘

شرح

مفہوم و مدعا

یہ دو روایتیں ہیں، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ابو موسیٰ اشعری کے نام خط کا مضمون بیان ہوا ہے ۔دونوں میں خط کا مضمون ایک سا ہی ہے۔ان میں اور ان سے پہلی روایت میں مذکورعمال کے نام خط کے مضمون میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ نمازوں کے اوقات ایک جیسے ہی ہیں۔

دوسرے خط میں عشا کو نصف رات تک موخر کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اس لیے کہ اس کا آخری وقت سنت میں یہی مقررکیا گیا ہے۔

اوقات کی تفصیل وہی ہے جو پچھلی روایتوں میں پسندیدہ اوقات کی چلی آرہی ہے۔ اس لیے یہاں ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔

لغوی مسائل

المفصل: ہر وہ چیزجس کو اس طرح سے بنایا گیا ہو کہ اس کے اجزا ٹکڑیوں کی صورت میں الگ الگ دکھائی دیں، جیسے جڑاؤ ہار۔ قرآن مجید کی آخری سورتیں چونکہ بہت زیادہ اور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی صورت میں ہیں اور بار بار بسم اللہ الرحمن الرحیم کے نگینوں کا جڑاؤ دکھائی دیتا ہے،اس لیے قرآن کایہ حصہ مفصل کہلاتا ہے۔ قرآن کے اس حصے کی سورتیں مفصلات کہلاتی ہیں۔ سورۂ حجرات سے اختتام تک مختلف حصوں پر اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ حضرت عمر کی مراد یہ ہے کہ فجر میں سورۂ.حجرات سے آگے کے قرآن میں سے کوئی لمبی سورتیں تلاوت کیا کرو۔

اس خط میں ’ ثلاثۃ فراسخ ‘ہے ،جبکہ عمال کے نام خط میں جو پیچھے گزر ا’ فرسخین أو ثلاثۃ‘ اندازہ سا بتانے کے لیے ہے۔ میرے خیال میں اس خط میں بھی یہ تحدید کے لیے نہیں ،بلکہ اندازے و تخمین ہی کے لیے ہے۔اور دوسرے خطوط کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس خط میں بھی دراصل ’فرسخین او ثلاثۃ‘ ہی کہنا پیش نظر تھا ۔ راویوں نے اس میں حذف و اسقاط سے کام لیا ہے۔

مابینک و بین ثلث اللیل: اس سے مراد دو باتیں ہو سکتی ہیں ، ایک یہ کہ ’مابین وقتک و بین ثلث اللیل‘ یعنی جو تمھارا معمول کا وقت ہے، جس پر تم نماز پڑھتے ہو ، اس سے لے کر ایک تہائی رات تک، اور دوسرے یہ معنی ہو سکتے ہیں’مابین دخولک العشاء و بین ثلث اللیل‘کہ تیرے عشا کے وقت میں داخل ہونے سے لے کر تہائی رات تک۔ یہی دوسرے معنی موقع ومحل کے لحاظ سے درست ہیں۔

درایت

یہ روایت بھی سیدنا عمر کا اثر ہے۔ عمال کے نام ان کے خط میں اور اس میں اصلاً کوئی فرق نہیں ہے ،اس لیے قرآن و سنت کے ساتھ اس کے تعلق کی وضاحت پچھلی روایت کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔

دیگر طرق
عن ابی العالیۃ الریاحی ان عمر بن الخطاب کتب الی ابی موسی : ان صل الظہر اذا زالت الشمس عن بطن السماء وصل العصر اذا تصوبت الشمس وہی بیضاء نقیۃ وصل المغرب اذا وجبت الشمس وصل العشاء اذا غاب الشفق الی حین شئت فکان یقال: الی نصف اللیل درک وما بعد ذلک افراط. وصل الصبح والنجوم بادیۃ مشتبکۃ واطل القراء ۃ واعلم ان جمعا بین الصلاتین من غیر عذر من الکبائر. (مصنف عبد الرزاق ، رقم ۲۰۳۵)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ ظہر سورج کے آسمان کے وسط سے نیچے آنے پر پڑھو، اور عصر اس وقت پڑھو ،جب سور ج نیچے آجائے، لیکن وہ سفید روشن ہو۔مغرب سورج کے ڈوبنے پر پڑھو، اور عشا شفق کے غائب ہو نے سے لے کر جتنی تاخیر سے چاہے پڑھو، کہا جاتا تھا: ’’آدھی رات تک عشا کو پانے کا وقت ہے، اس کے بعد پڑھنا تو نماز کوچھوڑ ناہے‘‘۔ فجر اس وقت پڑھو جب ستارے روشن اور گھنے ہوں، اور اس میں قرأت لمبی کیا کرو۔ اور یاد رکھو نمازوں کو بلا عذر جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘

مصنف عبد الرزاق کی اس روایت میں وقت عصر کے لیے’ تصوبت الشمس‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ جو اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ وہ وقت مراد ہے جب سورج نیچے آجاتا ہے۔ یہ وہی وقت ہے جسے ہم نے اس باب کی پہلی روایت کے تحت سورج کے مرای العین پر آنے کے ا لفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی جب سورج اتنا نیچے آجائے کہ ہم سراٹھا ے بغیر اسے دیکھ سکیں۔

موطا کی ان دونوں روایتوں میں یہ فرق ہے کہ پہلی روایت میں تمام نمازوں کاذکر ہے ،جبکہ دوسرے خط میں صرف عصراور عشا کا ۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ، ایک یہ کہ ممکن ہے کہ سیدنا عمر کو معلوم ہوا ہو کہ عمال عصر اور عشا میں کچھ کوتاہی کررہے ہیں تو انھوں نے ان دونوں نمازوں کے لیے الگ سے تنبیہ کے لیے ایک خط لکھا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ایک ہی خط ہو، مگرعروہ نے کسی موقع پر صرف عصر اور عشا والے حصہ ہی کو بیان کیا ہو اور باقی حصہ کو ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے بیان نہ کیا ہو وغیرہ۔

احادیث باب پر نظر

اس اثر میں عشا کی تاخیر کا مشورہ دیا گیا ہے۔آگے ابو برزہ کی جو روایت آرہی ہے ،اس سے پتا چلتا ہے کہ عشا کے ایک تہائی رات تک موخر کرنے کے عمل کو ایسا عموم حاصل تھا کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اس وقت کی عشا کا نام ’عتمۃ‘الگ سے پڑ گیا تھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عشا میں تاخیر ایک عمومی عمل تھا جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تاخیر پسندیدہ ہے۔

یہاں بظاہر سبقت الی الخیر کے اصول کے خلاف نماز کی تاخیر کو پسندکیا گیا ہے۔ہمارے خیال میں یہ ایسا نہیں ہے۔ امامت جبریل والی روایت میں پسندیدہ وقت میں آخر ی وقت ایک تہائی رات ہی بتایا گیا ہے۔ اس لیے اس وقت تک تاخیر پسندیدہ اوقات کے خلاف نہیں ہے۔ہاں، البتہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسے پسندیدہ وقت کے آخر تک کیوں موخر کیا گیا ہے؟

ہم امامت جبریل والی روایت(رقم۱) میں یہ بات لکھ آئے ہیں کہ کسی چیز کی فضیلت و انتخاب شارع کے کسی فرمان سے بھی نکلتی ہے، جیسے جمعہ کے دن کی فضیلت ، یا حج کے لیے ذوالحج کا انتخاب اور کبھی یہ فضیلت شارع کے کسی بیان کردہ اصول سے اور کبھی ہمارے عقلی و فطری مسلمات سے نکلتی ہے۔ جیسے ہم نے تعجیل کے اصول کو دیکھا کہ نماز کا وقت ہوتے ہی اسے ادا کرنا افضل عمل ہو گا۔ پھر ہم نے یہ بھی دیکھا کہ فجر میں عامۃ الناس کی رعایت سے تغلیس کی فضیلت کو نباہتے ہوئے اسے اسفار کے قریب لے جایا گیا۔ اسی طرح عشا میں کچھ اور حکمتوں کے تحت پسندیدہ وقت کے اختتام تک اس کی تاخیر کو پسند کیا گیا ہے۔

ان حکمتوں میں سے ایک کی طرف اشارہ سیدنا عمر کے اس قول سے مل رہا ہے کہ اسے سونے تک موخر کرو۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ عشا کی نماز بندہ مؤمن کا آخری عمل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد گپ شپ اور بات چیت کو پسند نہیں فرمایا:

عن ابی برزۃ الاسلمی... وکان یستحب ان یؤخر العشاء التی تدعونہا العتمۃ وکان یکرہ النوم قبلہا والحدیث بعدہا...(بخاری،رقم ۵۲۲ )
’’ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے کہا ...نبی صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے تھے کہ نماز عشا کو موخر کرکے پڑھیں،جسے تم ’العتمۃ‘ (تہائی رات والی نماز) کہتے ہو۔آپ کو اس سے پہلے سونا اور اس کے بعد بات چیت کرنا ،نا پسندتھا ...۔ ‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز اگر آدمی کا آخری عمل ہو اور پھر صبح اٹھ کر وہ فجر کی نماز میں شامل ہوا ہو تو اس کی ساری رات گویا نماز میں گزری، اس لیے کہ سونے سے اس کا عمل منقطع ہو گیا تھا۔ اس انقطاع سے پہلے بھی وہ نماز میں تھا اور اس کے بعد بھی۔اسی بات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

عن عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال :من صلی العشاء فی جماعۃ فکانما قام نصف اللیلومن صلی الصبح فی جماعۃ فکانما صلی اللیل کلہ. (مسلم ، رقم۶۵۶)
’’سیدنا عثمان سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت کے ساتھ عشا پڑھی تو وہ یوں سمجھوکہ آدھی رات قیام میں رہا، اور پھراس نے اگرصبح بھی جماعت کے ساتھ ادا کی تو وہ گویا پوری رات قیام میں رہا۔‘‘

ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز اتنی موخر کی کہ آدھی رات کے قریب وقت آگیا، پھر آپ نکلے اور نماز پڑھائی اور اس وقت کی نماز کی فضیلت بتائی۔ اس فضیلت کے جو مختلف پہلو کچھ روایتوں میں آئے ہیں، ان میں سے ایک انتظار ہے۔ یعنی جب ایک نمازی عشا سے پہلے نہ سوئے اور صرف اس لیے جاگتا رہے کہ وہ عشا موخر کر کے پڑھے گا تو آپ نے فرمایا کہ وہ جتنی دیر تک انتظار میں رہا حالت نماز میں رہا۔(بخاری، رقم ۵۷۵) اسی طرح آپ نے فرمایا کہ تاخیر کرکے نماز پڑھنا اس وقت نماز پڑھنا ہے، جب دوسری ملتوں کے لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ (بخاری، رقم۵۴۶) تیسرا پہلو یہ بیان فرمایا کہ پہلی امتوں نے بھی عشا کے لیے اتنا انتظار نہیں کیاتمھیں اس پہلو سے یہ فضیلت حاصل ہے۔(مسند احمد ،رقم ۲۲۱۱۹)

یہ وہ پہلو ہیں جن کی وجہ سے عشا کی تاخیر پسندیدہ ہے۔میرے خیال میں ان ساری فضیلتوں کا خلاصہ یہ ہے : قدیم معاشرت ہو یا جدید، رات کا ابتدائی وقت فراغت اور گپ شپ کا وقت ہے۔عرب اس وقت میں رات کی مجلسیں سجاتے، قصے کہانیاں اور قصیدے سناتے۔ دین کو ان تفریحات سے دشمنی نہیں ہے۔ لیکن وہ چاہتا ہے کہ بندہ اس لہوو لعب کے بعد خدا کی طرف لوٹے۔ چنانچہ یہ بات پسندیدہ نہیں ہوگی کہ آدمی عشا کے ہوتے ہی فٹا فٹ نماز پڑھ کر فارغ ہو چکے اور پھر گپ شپ اور ادھر ادھر کی چیزوں میں جاگ کر وقت گزارے۔یہ نماز سے جان چھڑانے کا سا رویہ محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ پسندیدہ یہ ہے کہ وہ سب امور سے فارغ ہو کر تسلی سے عشا ادا کرے، اور اس کے لیے انتظار کرے، تاکہ اس نماز میں تعجیل عجلت بن کر نہ رہ جائے۔

آپ نے عشا کے ساتھ دو امور کا اہتمام کیا ، ایک تو یہ کہ اسے ایک تہائی رات تک موخر کیا۔ یہ انبیا کے پسندیدہ اوقات میں سے عشا کا آخر ی وقت ہے۔ اس سے زیاد تاخیر صرف دو مواقع پر ہوئی۔ ان مواقع پر عشا نصف لیل سے ذرا پہلے ادا کی گئی۔

دوسرے آپ جب نماز موخر کرتے تو اس میں تخفیف کرتے، یعنی قیام وغیرہ زیادہ لمبا نہ کرتے۔ اس لیے کہ نماز کے انتظار میں جاگنے والوں کے لیے یہ اکتاہٹ کا باعث نہ بنے:

عن جابر بن سمرۃ قال:کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی الصلوات نحوا من صلاتکم وکان یؤخر العتمۃ بعد صلاتکم شیئا وکان یخف الصلاۃ. (مسلم ،رقم ۶۴۳)
’’جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساری نمازیں ویسی ہی پڑھتے جیسی تم لوگ پڑھتے ہو، مگر عشا کو وہ تمھاری نماز سے ذرا زیادہ تہائی رات تک موخر کرتے، اور وہ ذرا اس میں تخفیف کرتے۔‘‘

دونوں خطوط میں عصر پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے وقت کو بیان کرنے میں نہایت تفصیل کی گئی ہے ۔ جیسے پہلی روایت میں دیکھیں تو الفاظ یہ ہیں:

’’جب سورج ابھی سفید روشن ہو، زرد نہ ہوا ہو۔‘‘

دوسری روایت کو دیکھیں تو الفاظ میں مزید تاکید ہے:

’’جب ابھی سورج روشن ہواور زرد نہ ہوا ہو،(غروب سے) اتنا پہلے کہ ایک مسافر تین فرسخ فاصلہ طے کرسکے۔‘‘

ان الفاظ سے اندازہ ہورہا ہے کہ عصر کی تعجیل پر کچھ زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ غالباًیہ تھی کہ قدیم معاشرت میں عصر کا وقت کاموں کے نبٹانے اور سمیٹنے کا وقت ہوتا تھا۔ اس لیے یہ امکان تھا کہ عمال یا تاجر وغیرہ اسے غروب کے وقت تک ٹال دیتے اور آخر وقت میں نماز ادا کرتے ۔ یہی اندیشہ ہے جس وجہ سے حضرت عمر جماعت کی نماز کا وقت عمال کے ذریعے سے سورج کے سفیدہونے تک مقرر کررہے تھے۔ اور دوسری طرف وہ اس پر زور دے رہے تھے کہ اس کا اتنا خیال رکھو کہ عصر کے بعد آدمی تین فرسخ تک کا فاصلہ طے کرسکے۔عصر کے بارے میں یہی ٹال مٹول ہے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا:

عن انس قال : سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول تلک صلاۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فنقرہا اربعا لا یذکر اللّٰہ فیہا الا قلیلا. (مسلم ،رقم ۶۲۲)
’’حضرت انس فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایاکہ یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کو دیکھتا رہے کہ جب وہ ڈوبنے والا ہو تواٹھ کرچار ٹھونگے مارلے، اور اس میں تلاوت و تسبیحات مختصر کرے۔‘‘

دوسرے پہلوسے دیکھیں تو یہ دکان داروں کے شدید مشغولیت میں پڑ کر نماز ضائع کربیٹھنے کے مسئلہ کا حل بھی ہے کہ عصر کا وقت ہوتے ہی نماز پڑھ لو ، تاکہ بازار میں رش ہوتے ہوتے تم نماز پڑھ کر فارغ ہو چکو۔اور پھر مغرب تک گاہکوں کے لیے اپنے کام پر موجود رہو۔

_________________

B