بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
ذٰلِکَ نَتْلُوْہُ عَلَیْکَ مِنَ الْاٰیٰتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ{۵۸}اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ،کَمَثَلِ اٰدَمَ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ، ثُمَّ قَالَ لَہٗ: کُنْ فَیَکُوْنُ{۵۹} اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ{۶۰} فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ: تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآئَ نَا وَاَبْنَآئَ کُمْ، وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآئَ کُمْ، وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ، ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ{۶۱} اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ، وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ ، وَاِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ{۶۲}فَاِنْ تَوَلَّوْا، فَاِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِالْمُفْسِدِیْنَ {۶۳}
یہ ہماری آیتیں اور بڑی پر حکمت یاددہانی ہے جو ہم تمھیں سنا رہے ہیں۔ ۱۱۴؎ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال آدم کی سی ہے۔ اللہ نے اُسے مٹی سے بنایا، پھر حکم دیا کہ ہو جا تو وہ ہوجاتا ہے ۔ ۵ ۱۱؎ تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ،۱۱۶؎ لہٰذا تم کسی شبہے میں نہ رہو۔ ۱۱۷؎ پھریہ علم تمھارے پاس آجانے کے بعد بھی جواِس معاملے میں تم سے جھگڑیں تو کہہ دو کہ آؤ ہم بھی اپنے بچوں کو بلائیں اورتم بھی اپنے بچوں کو لے آؤ ، اورہم بھی اپنی عورتوں کو بلائیں اورتم بھی اپنی عورتوں کو لے آؤ اورہم اورتم خود بھی آجائیں، ۱۱۸؎ پھر دعا کریں ۱۱۹؎ اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ ۱۲۰؎ اِس میں شبہ نہیں کہ یہی سچی بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اوراللہ ہی عزیز و حکیم ہے۔ ۱۲۱؎ پھر وہ اعراض کریں تو ( اِن کی ہٹ دھرمی لوگوں پر بھی واضح ہوجائے گی) ، اِ س لیے کہ اللہ تو اِن فساد کرنے والوں سے واقف ہی ہے۔ ۵۸۔ ۶۳
۱۱۴؎ یہ خاتمۂ بحث کے موقع پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف التفات ہے تاکہ مخاطبین جورویہ اختیار کر رہے ہیں، اس کے مقابل میں آپ کو تسلی دی جائے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں حق وہی ہے جو آپ کو بتایا جارہا ہے۔ نصاریٰ کے تصنیف کردہ اساطیر اس کے برخلاف محض گمراہی ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
۱۱۵؎ یعنی آدم علیہ السلام اگر ماں باپ ، دو نوں کے بغیر پیدا ہو کر معبود نہیں بن گئے تو سیدنا مسیح کو یہ لوگ آخر کیوں معبود بنا بیٹھے ہیں ؟
۱۱۶؎ اصل الفاظ ہیں : ’ الحق من ربک‘ ۔ اس جملے میں مبتدا محذوف ہے ۔ یہ اس موقع پرکیا جاتا ہے، جب مخاطب کی ساری توجہ خبر پر مرکوزکرانا پیش نظرہو۔
۷ ۱۱؎ اس میں خطاب ، بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، لیکن روے سخن ، اگر غور کیجیے تو عام مسلمانوں کی طرف ہے کہ انھیں اب اس معاملے میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ سیدنا مسیح علیہ السلام سے متعلق اصل حقیقت یہی ہے جو قرآن نے بیان کردی ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے ، وہ سب نصاریٰ کی افسانہ طرازی ہے ۔ چنانچہ جملے میں جو عتاب محسوس ہوتا ہے، اس کا تعلق انھی افسانہ طرازی کرنے والوں سے ہے۔
۱۱۸؎ یہ جملہ اصل میں جس طرح آیا ہے، اس میں عربی زبان کے اسلوب کے مطابق بعض چیزیں حذف ہوگئیں ہیں۔ انھیں ظاہر کردیا جائے تو پوری بات گویا اس طرح ہے : ’ ندع نحن ابناء نا وانتم ابنائکم، ونحضر نحن انفسنا وانتم انفسکم، ثم نبتھل نحن وانتم۔‘ہم نے ترجمے میں انھیں کھول دیا ہے۔
۱۱۹؎ اصل میں لفظ ’ نبتھل‘ آیا ہے۔ اس کے معنی دعا اورتضرع کے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ترک کا جو مفہوم اس میں پایا جاتا ہے، اس وجہ سے یہ ایک دوسرے پر لعنت کی بددعا کے لیے معروف ہوگیا ہے۔
۱۲۰؎ اس طرح کی بددعا سے حق وباطل کے فیصلے کا چیلنج وہی دے سکتا ہے جسے اپنے موقف کی صحت و صداقت کا پور ا یقین ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ چیلنج نصاریٰ کو اسی اذعان کے ساتھ دیا گیا، مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انھوں نے اسے قبول کرنے کی جرأت نہیں کی جس سے یہ بات آخری درجے میں واضح ہوگئی کہ وہ خودبھی اپنے موقف کو صحیح نہیں سمجھتے تھے، بلکہ محض بات کی پچ اور اپنی ہٹ دھرمی کی آن قائم رکھنے کے لیے اس پر اڑے ہوئے تھے۔
۱۲۱؎ یعنی الوہیت صرف اللہ ہی کو سزا وار ہے۔ اس میں مسیح کاکوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا جو درجہ و مرتبہ بھی ہے ، اللہ کے ایک بندے اوراس کے رسول کی حیثیت سے ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــ