عن معاذ رضی اﷲ عنہ بعثنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. قال: تاتی قوما من اہل الکتاب. فادعہم الی شہادۃ ان لا الہ الا اﷲ وانی رسول اﷲ. فان اطاعوا لذلک. فاعلمہم ان اﷲ افترض علیہم خمس صلوات فی کل یوم ولیلۃ. فان ہم اطاعوا لذلک فاعلمہم ان اﷲ افترض علیہم صدقۃ ، تؤخذ من اغنیاۂم فترد فی فقراۂم. فان ھم اطاعوا لذلک، فایاک وکرائم اموالہم. واتق دعوۃ المظلوم، فانہ لیس بینہا وبین اﷲ حجاب.
’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن بھیجا تو فرمایا: تم اہل کتاب کے ایک گروہ کے پاس جارہے ہو۔ لہٰذا انھیں اس بات کی دعوت دینا کہ وہ اس بات کا برملا اقرار کریں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ یہ بات مان لیں تو انھیں آگاہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔اگر وہ یہ بات مان لیں تو انھیں آگاہ کرنا کہ اللہ نے ان پر ایک صدقہ واجب کیا ہے جو ان کے مال داروں سے لیا جائے گا پھر ان کے ضرورت مندوں کو لوٹا دیا جائے گا۔ اگر وہ یہ بات مان لیں توان کے بہترین مال کو لینے سے بچنا۔ مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کی بددعا اور اللہ کے مابین کوئی روک نہیں ہے۔‘‘
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم بعث معاذا الی الیمن . فقال انک ستاتی قوما بمثل حدیث وکیع.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ کو یمن کی طرف بھیجا تو ان سے کہا: تم ایک قوم کی طرف جارہے ہو ۔ باقی تفصیل (اوپر درج)حدیث وکیع کے مطابق ہے۔‘‘
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لما بعث معاذا الی الیمن. قال انک تقدم علی قوم اہل کتاب فلیکن اول ما تدعوہم الیہ عبادۃ اﷲ عزوجل.فاذا عرفوا اﷲ فاخبرہم ان اﷲ فرض علیہم خمس صلوات فی یومہم ولیلتہم. فاذا فعلوا فاخبرہم ان اﷲ قد فرض علیہم زکاۃ تؤخذ من اغنیاۂم فترد علی فقراۂم. فاذا اطاعوا بہا فخذ منہم. وتوق کرائم اموالہم.
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ کو یمن بھیجا تو فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔ چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کو تمھاری پہلی دعوت اﷲکی بندگی کی ہو۔جب وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر ہر دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ یہ کرنے لگیں تو انھیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر زکوٰۃ فرض کی ہے جو تمھارے اغنیا سے لی جائے گی پھر تمھارے ضرورت مندوں کو لوٹا دی جائے گی۔جب وہ تمھاری یہ بات مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کرو اور ان کے بہترین مال کو لینے سے بچو۔ ‘‘
کرائم اموالہم:’ کرائم کریمۃ‘کی جمع ہے۔ ’ کریمۃ ‘اس شے یا شخص کے لیے آتا ہے جو اعلیٰ صفات سے متصف ہو۔ کہا جاتاہے: ’فلانکریمۃ قومہ‘، فلاں اپنی قوم کا بہترین آدمی ہے۔ اسی طرح جانوروں میں کریمہ اسے کہتے ہیں جو دودھ، گوشت اور خوب صورتی وغیرہ کے پہلو سے بہترین ہو۔ یہاں یہ اموال کی صفت ہے جو مضاف ہو کر آئی ہے۔ اموال کا لفظ یہاں جانوروں کے لیے آیا ہے۔چنانچہ اس سے بہترین جانور مراد ہیں۔
حجاب: حجاب کا لفظ پردے اور رکاوٹ کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں آیا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا فوراً سن لیتے ہیں۔
امام مسلم نے اس روایت پر’’ اسلام کی شریعت اور شہادتین کی طرف دعوت‘‘ کا عنوان باندھا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اس روایت کا اصل مضمون دعوت دین میں ترتیب سے متعلق ہے۔ امام بخاری نے اسے ’’صدقہ اغنیاسے لیا جاتا اور فقراکو دیا جاتا ہے‘‘ ، ’’وجوب زکوٰۃ‘‘ اور’’لوگوں سے اچھا مال زکوٰۃ میں نہیں لیا جائے گا‘‘ کے عنوانات کے تحت نقل کیا ہے۔ دوسرے محدثین نے بھی اس سے ملتے جلتے عنوانات قائم کیے ہیں۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں کئی نکات مضمر ہیں۔
اس روایت کا سب سے اہم اور بنیادی پہلو وہی ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اس کے عنوان سے واضح کیا ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک ایسے علاقے میں بھیجا جارہا تھا جس میں ان کا واسطہ غیر مسلموں سے پڑنے والا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان سے معاملہ کرنے کے لیے ضروری رہنمائی دی۔ یہ رہنمائی ایک اصول پر مبنی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ دین قبول کرانے کے معاملے میں تدریج کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ سب سے پہلے ایمان کی دعوت دی جائے گی ۔ جب ایمان یعنی توحید اور رسالت کے عقائد کی اصلاح ہو جائے گی ۔ اس کے بعد نماز اور زکوٰۃ کے احکام کی تعمیل کا مطالبہ کیا جائے گا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تدریج کا طریقہ ضرور اختیار کیا تھا۔ اب دین مکمل ہونے کے بعد ہمارے لیے لازم ہے کہ سارے کے سارے دین کو بیک وقت نافذ کریں اور مسلمان ہونے والوں سے روز اول ہی سے سارے دین کی تعمیل کا مطالبہ کریں۔ استاد گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے اس روایت کا درس دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ یہ دلیل درست نہیں ہے۔ شراب کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہاکہ بے شک ، اس کی حرمت مدینے میں آنے کے بھی بہت بعدنافذ کی گئی ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شراب کسی زمانے میں حلال بھی تھی۔ قرآن مجید نے اسے نجس قرار دیا ہے اور کوئی نجس چیز خدا کے دین میں کسی بھی مرحلے میں حلال نہیں ہو سکتی۔ اصل یہ ہے کہ دین میں ایک تدریج ہے جو ہمیشہ ملحوظ رہنی چاہیے۔
روایت کے اس حصے کے حوالے سے کچھ ضمنی مباحث بھی کتب شروح میں اٹھائے گئے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ، جبکہ یمن میں دوسرے غیر مسلم بھی موجود تھے۔ شارحین نے اس کی وضاحت یہ کی ہے کہ یمن میں غالب آبادی اہل کتاب کی تھی۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کا ذکر کیاتاکہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ذہنی طور پر تیار ہو جائیں کہ ان کا واسطہ کس گروہ سے پڑنے والا ہے اور انھیں کس نوع کے سوالات یا اعتراضات سے نمٹنا ہو گا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ نماز اور زکوٰۃ میں ترتیب مطالبے میں ترتیب پر دلالت کرتی ہے یا نہیں۔ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی امور کا ذکر کیا ہے جن کا ذکراللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ (آیت ۵، ۱۱)میں ایک غیر مسلم سے مسلمان بننے کے تقاضے کی حیثیت سے کیا ہے۔ استاد گرامی کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے وہ مطالبات متعین کر دیے ہیں جو اسلامی ریاست کے فرماں روامسلمان شہریوں سے ریاست کی سطح پر کریں گے۔ (میزان، ص۱۰۷)ان آیات سے یہ بالکل واضح ہے کہ نماز اور زکوٰۃ میں مطلوب ہونے کی حیثیت سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس روایت میں ترتیب محض بیان کی ضرورت سے پیدا ہوئی ہے۔ شارحین نے اگرچہ سورۂ توبہ کی ان آیات سے مطابقت کا ذکر نہیں کیا ،لیکن ان کی اکثریت بھی ترتیب کو اسی معنی میں لیتی ہے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے باقی اوامر ونواہی کا ذکر کیوں نہیں کیا۔عام طور پر شارحین نے اسے راویوں کے اختصار پر محمول کیا ہے۔ یا اسے ایک اصولی بات قرار دیا ہے یعنی مدعو کو اہم فالاہم کے اصول پر دین کے تمام اوامر ونواہی سے آگاہ کیا جائے گا۔اگرسورۂ توبہ کی محولہ آیات کی روشنی میں اس روایت کو سمجھا جائے تو ایمان اور نماز اور زکوٰۃ تک تحدید ضروری ہے ۔ حضرت معاذ ایک سرکار ی عہدے دار کی حیثیت سے جب دین کے مطالبات بیان کریں گے تو وہ یہی تین ہیں۔دین کے باقی اوامرو نواہی داعیانہ ترغیب وترہیب ہی سے مدعو کے دل میں اتارے جائیں گے۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ دعوت کے بغیر قتال کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ یمن میں موجود لوگوں کو تو دعوت دینے اور اگر وہ مان لیں تو دین نافذ کرنے کی ہدایت دی جارہی ہے۔لیکن بعض قبائل پر ان کی بے خبری میں حملہ کیا گیا اور ان کے لوگوں کو مار دیا گیا۔ شارحین نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جن لوگوں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی ان کو پہلے دعوت دینے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ وہ قبائل جنھیں دعوت پہنچ چکی تھی ، انھیں نئے سرے سے دعوت دینے کی ضرورت نہیں تھی۔یہ ایک معقول بات ہے ، لیکن اس کا صورت معاملہ سے کوئی تعلق نہیں۔ سورۂ توبہ ہی سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخاطب قوم یعنی بنی اسماعیل پر سزاے موت نافذ کی گئی تھی اور ان کے لیے جان بچانے کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ جن قبائل پر اس نوعیت کے حملے کیے گئے ، ان کا تعلق بنی اسماعیل سے تھااور حج میں اعلان کرکے انھیں بتا دیا گیا تھا کہ مہلت گزرنے کے بعد وہ جہاں بھی پائے جائیں گے ، انھیں مار دیا جائے گا۔ یہودو نصاریٰ کے لیے ماتحت ہو کر رہنے اور جزیہ دینے کی سزا تھی۔ لہٰذا ان کے خلاف دین قبول کرانے کے لیے قتال کسی طرح بھی جائز نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کی کوئی بات نہیں کی۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دل سے مسلمان ہو جائے اور اس کا اعلان نہ کرے تو کیا اسے مسلمان مان لیا جائے گا۔ اس روایت میں شہادتین کا مطالبہ کرنے اور اس کے بعد نماز وزکوٰۃ کا تقاضا کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سے یہ نکتہ اخذ کیا گیا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنے توحید اور رسالت محمدی پر ایمان کا باقاعدہ اعلان نہ کرے، اسے مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس جملے سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اسے بولتے ہوئے متکلم کا منشا یہ نہیں تھا۔ لہٰذااس سے یہ استنباط درست نہیں ہے۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے ایمان ویقین کا برملا اقرار کرنا چاہیے۔
چھٹا سوال یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق کفار شریعت کے اس وقت مخاطب بنیں گے جب وہ ایمان قبول کرلیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالنا چاہیے کہ اسلامی ریاست کے کفار شہری شریعت پر عمل نہ کرنے پر ماخوذ نہیں ہوں گے۔کچھ شارحین کے ہاں اس کا جواب اثبات میں اور کچھ شارحین کے ہاں نفی میں ہے۔بعض شارحین کے نزدیک دنیا میں تو ان کفار سے مواخذہ نہیں کیا جائے گا ،لیکن آخرت میں وہ اس پر ماخوذ ہوں گے۔ اصل یہ ہے کہ اسلامی شریعت کے کچھ احکامات کا تعلق صرف مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کے وہ احکام جو افراد کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت اور ریاست کے قیام واستحکام کے لیے دیے گئے ہیں ، ان کا تعلق اس کے سارے شہریوں سے ہے۔ان کے معاملے میں غیر مسلموں پر بھی وہی سزائیں نافذ ہوں گی جو مسلمانوں پر نافذ کی جائیں گی۔
اس روایت میں بصراحت پانچ نمازوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ احناف وتر کے وجوب کے قائل ہیں۔ چنانچہ ان کی رائے کے رد میں اس روایت کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بات قرآن مجید ہی سے واضح ہے کہ وتر یعنی نماز تہجد صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لازمی تھی۔ باقی مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک نفلی عبادت کی حیثیت سے یہ نماز پڑھتے ہیں۔ چنانچہ وتر کے عدم وجوب کی بحث کا اس روایت سے استشہاد تحصیل حاصل ہے۔
اس روایت کے ایک متن میں’ فإذا عرفوا اللّٰہ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اس سے یہ نکتہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ کو اللہ کی صحیح معرفت حاصل نہیں تھی۔ نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض کے حوالے سے ان غلطیوں کو بیان کیا ہے جو ان میں پائی جاتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اہل کتاب اس معاملے میں غلطیوں میں مبتلا تھے۔ لیکن یہ انھی کا خصوص نہیں خود مسلمانوں کے مختلف گروہ بھی ان سے ملتی جلتی غلطیوں میں مبتلا ہیں۔لہٰذا یہودونصاریٰ کے بارے میں علی الاطلاق معرفت کی نفی تجاوز ہے۔ مزید برآں یہ طے کرنا ناممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل الفاظ کیا تھے۔ لہٰذا روایت کے الفاظ سے اتنا بڑا نتیجہ اخذ کرنا موزوں نہیں۔
اس روایت کا دوسرا حصہ زکوٰۃ سے متعلق ہے۔اس حصے سے کچھ فقہی آرامستنبط ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ زکوٰۃ نہ کافر سے لی جائے اور نہ اسے دی جائے گی۔ اس رائے کا پہلا حصہ سمجھ میں آتا ہے۔ قرآن مجید سے بالکل واضح ہے کہ یہ ایک عبادت ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب قانون عبادات میں اس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔(دیکھیے ص۱۰۹)لہٰذا یہ عبادت صرف مسلمان ہی کریں گے اور سورۂ توبہ سے واضح ہے کہ ریاست اس کی تعمیل کا تقاضا بھی صرف مسلمانوں سے کرے گی۔لیکن یہ بات کہ زکوٰۃ کی رقم صرف مسلمانوں ہی پر صرف کی جائے گی، محل نظر ہے۔ اس روایت سے یہ استنباط درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ روایت اسلوب بیان ہی سے واضح ہے کہ زکوٰۃ کے بارے میں کوئی قانونی بیان نہیں ہے۔
ایک رائے یہ ہے کہ زکوٰۃ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل نہیں کی جائے گی ، اسی علاقے کے غربا میں تقسیم کر دی جائے گی۔اسی طرح ایک رائے یہ ہے کہ غنی کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی۔ایک استنباط یہ ہے کہ بچے سے بھی زکوٰۃ لی جائے گی۔جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے یہ روایت ان استدلالات کا موزوں محل نہیں ہے۔ استاد محترم کی رائے یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف جس طرح قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، اس سے بالکل واضح ہے کہ یہ رقوم ریاست کے تمام امور چلانے میں استعمال کی جائیں گی۔ اسی طرح قرآن مجید نے اسلامی ریاست کو خرچ کرنے کی ترجیحات قائم کرنے میں بھی کسی خاص طریق کار کا پابند نہیں کیا۔یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے عملی اقدامات سے معلوم ہوتی ہے۔اصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت معاذ کو یہ ہدایات اسلامی ریاست کے مزاج کی آئینہ دار تو ضرور ہیں اور انھیں ہر حاکم کوگرہ میں باندھ لینا چاہیے ،لیکن ان سے قانون کا استنباط کسی طرح مناسب نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات کہ زکوٰۃ امرا سے لے کر غربا کو دے دی جائے گی ، ریاست کے کارپردازان کی طرف سے اس بات کا اعلان ہے کہ وہ لوگوں کا مال غصب کرنے والے نہیں ہیں ، بلکہ ریاست اپنے شہریوں سے جو کچھ لے گی، وہ شہریوں ہی کی فلاح میں خرچ کر دیا جائے گا۔
روایت کے اس حصے میں اگرچہ مخاطب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ہیں ،لیکن ان کی وساطت سے اس کے مخاطب تمام ارباب حل وعقد ہیں۔ ارباب حل وعقد کو متنبہ رہنا چاہیے کہ وہ اگر رعایا پر ظلم کریں گے تو وہ اپنے ظلم کی پاداش سے بچ نہیں سکیں گے۔ مظلوم کی صدا کے لیے ارباب حل وعقد تو اپنے دروازے بند کر سکتے ہیں،لیکن خدا کی بارگاہ میں ان کی شنوائی میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ اس زمانے میں اجناس اور جانوروں کی صورت میں زکوٰۃ لی جاتی تھی۔ چنانچہ آپ نے نصیحت فرمائی کہ بہترین مال پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ بلکہ زکوٰۃ دینے والے کے سارے مال کی نوعیت کے پیش نظر موزوں مال بطور زکوٰۃ وصول کیا جائے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو انھیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مظلوم کا استغاثہ کائنات کے پروردگار، اللہ تعالیٰ براہ راست سنتے ہیں۔
اس بات کے تعین میں کچھ اختلاف ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کس سال یمن بھیجے گئے تھے۔ بخاری نے کتاب المغازی میں تصریح کی ہے کہ یہ واقعہ ۱۰ ہجری کو حج سے پہلے کا ہے۔ واقدی نے ۹ ہجری تبوک سے واپسی کے بعد کا واقعہ قرار دیا ہے۔ابن سعد کے نزدیک حضرت معاذ ۱۰ ہجری ربیع الآخرمیں بھیجے گئے۔ البتہ اس بات پر مورخین کا اتفاق ہے کہ یہ یمن میں حضرت ابوبکر کے دور تک رہے ۔ پھر انھیں شام بھیج دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوئی۔ اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ آپ والی کی حیثیت سے بھیجے گئے تھے یا قاضی کی حیثیت سے۔ دراں حا لیکہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہی سے واضح ہے کہ آپ کی حیثیت والی کی تھی۔
سیرت کے حوالے سے بھی اس روایت میں قابل توجہ نکات بیان ہوئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مختلف علاقے زیر کمان آئے تو صحابہ کو ان کا نظام چلانے کے لیے بھیجا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح حکمران ہونے کے باوجود کس طرح عدل پسند ہیں اور اپنے عمال کو بھی اسی کی تلقین کرتے ہیں۔ دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو جب ایسے علاقے میں بھیجا جہاں ان کا واسطہ غیر مسلموں سے پڑنے والا تھا تو آپ نے ان کو دعوت کی ذمہ داری بھی دی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان حکمران جہاں اپنی رعایا کے امن وامان کا ذمہ دار ہے وہیں اس کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ ان کے حق پر قائم رکھنے اور حق کی طرف بلانے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔
مسلم میں یہ روایت دو اسلوبوں میں نقل ہوئی ہے۔ایک میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ متکلم کے صیغے میں نقل ہوا ہے اور دوسرے میں غائب کے صیغے میں۔ زیادہ تر محدثین نے دوسرے اسلوب کی روایت کو ترجیح دی ہے۔ چنانچہ متن کے اختلافات زیادہ تر دوسرے متن ہی سے متعلق ہیں۔کچھ فرق لفظی ہیں۔ مثلاً ’ تقدم ‘کے بجائے ’تأتی ‘یا’ ستأتی ‘کا آنا،’عرفوا‘ کی جگہ’ اطاعوا ‘یا ’ فعلوا ‘کا آنا، ’فرض ‘کے بدلے میںْ افترض‘ کا ہونا، ’زکاۃ‘ کے لیے ’صدقۃ ‘کا لفظ استعمال ہونااور’ یومہم ولیلتہم ‘کے بجائے ’فی کل یوم ولیلۃ ‘کا اسلوب وغیرہ۔ اسی طرح کچھ روایات میں کچھ اجزا نقل نہیں ہوئے۔ مثلاً مسلم نے اس دوسرے اسلوب کے متن میں دعوت مظلوم والا جملہ نقل نہیں کیا ، جبکہ بعض متون میں یہ نقل ہوا ہے۔ اسی طرح بعض روایات میں’ توخذ من اغنیاۂم ‘ والا حصہ بیان نہیں کیا گیا۔ مسلم کی روایت میں ’فلیکن أول ما تدعوہم الیہ عبادۃ اللّٰہ ‘کے جملے میں آغاز دعوت کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسری روایات میں یہی بات پورے کلمۂ شہادت کی صورت میں مذکور ہے۔
اس روایت کے بارے میں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ حضرت معاذ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین محض یہی بات نہیں ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو دینی اور اجتماعی امور کی تفصیلی ہدایات دی ہوں گی۔ کتب حدیث میں اسی موقع کا ایک اور مکالمہ بھی موجود ہے جس میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے قائم کرنے کے طریقے کو بیان کیا ہے۔
بخاری ، رقم۱۳۸۹، ۱۴۲۵، ۴۰۹۰۔ ابوداؤد، رقم۱۵۸۴۔ ترمذی، رقم۶۲۵۔ نسائی، رقم۲۴۳۵۔ ابن ماجہ ، رقم ۱۷۸۳۔ احمد، رقم۲۰۷۱۔ ابن حبان، رقم ۱۵۶، ۲۴۱۹، ۵۰۸۱۔ ابن خزیمہ، رقم۲۲۷۵۔ بیہقی، رقم۷۰۶۸، ۱۲۸۹۱، ۱۲۹۰۷، ۱۲۹۱۵۔ مسند الحارث، رقم۴۳۶۔ عبدالرزاق، رقم۹۴۲۰۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۹۸۳۱۔
______________