بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ ، قَالَ: مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ؟ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ: نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ، اٰمَنَّا بِاللّٰہِ ، وَاشْھَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ{۵۲} رَبَّنَآ، اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ، وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ، فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰھِدِیْنَ {۵۳}
پھرجب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ (میری قوم کے) یہ لوگ ہر حال میں آمادۂ انکار ہیں تو اُس نے (حواریوں۱۰۲ سے) کہا : کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتاہے ؟ ۱۰۳ حواریوں نے جواب دیا : ہم ہیں اللہ کے مددگار، ۱۰۴ ہم اللہ ۱۰۵ پر ایمان لائے ہیں اورآپ گواہ رہیے کہ ہم نے سرتسلیم خم کردیا ہے۔ پروردگار، ہم نے اُسے مان لیا ہے جو آپ نے نازل کیا ہے اور (اِس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ) رسول کی پیروی اختیار کرلی ہے۔ سو آپ ہمیں اس کی گواہی دینے والوں میں لکھ لیں۔ ۰۶ ۱ ۵۲۔۵۳
۱۰۲؎ یہ لفظ غالباً عبرانی سے عربی زبان میں آیا ہے۔ اس کے معنی قریب قریب وہی ہیں جو ہمارے ہاں لفظ انصار کے ہیں۔ یعنی حامی ، ناصر اور مددگار۔ یہاں یہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے ان خاص شاگردوں کے لیے استعمال ہوا ہے جو آپ پر ایمان لائے، ہر قسم کے سرد و گرم حالات میں آپ کی مدد کی اور بالآخر آپ کی دعوت کے نقیب بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچ گئے۔
۱۰۳؎ یعنی مسیح علیہ السلام نے جب بنی اسرائیل کے علما اور سرداروں کے رویے سے یہ محسوس کر لیا کہ ان پتھر وں میں جونک لگانا ممکن نہیں ہے اوراب یہ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اپنے ساتھیوں سے مدد چاہی کہ اللہ تعالیٰ آگے کے مراحل میں جو ذمہ داری بھی انھیں دیں، اس کو پورا کرنے میں وہ ان کے مددگار بن کر کھڑے ہوں۔ اس کے لیے جو جملہ ان کی زبان سے نکلا ہے، اس سے ، اگر غور کیجیے تو استاذ اما م کے الفاظ میں جس طرح جوش دعوت کا اظہار ہورہا ہے ، اسی طرح یہ بات بھی نمایاں ہو رہی ہے کہ اس دعوت کے ساتھ وہ گویا یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میں تو اپنے رب کی راہ پر ، یہ دیکھو، چل کھڑا ہوا ہوں ۔ اب جس کے اندر حوصلہ ہو، وہ اس وادی پر خار میں میرا ساتھ دے۔
۱۰۴؎ اصل الفاظ ہیں : ’نحن انصار اللّٰہ ‘۔ سیدنامسیح علیہ السلام کی طرف سے ’من انصاری الی اللّٰہ‘ کی دعوت کے جواب میں ’ نحن انصارک الی اللّٰہ ‘کہنے کے بجائے یہ الفاظ جس مدعا پر دلالت کرتے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے:
’’سیدنا مسیح کے ارشاد میں ’الی‘ اس مسافت کو واضح کررہا ہے جو راہ اور منزل کے درمیان واقع ہے اور ایک داعی کی حیثیت سے ان کے شایان شان یہی تھاکہ اس راہ کی مشکلات اور درمیان کی مسافت سے آگاہ کردیں ، لیکن حواریین نے جواب میں جوش فدویت کی ایک ہی جست میںگویا ساری مسافت طے کرلی ہے اوردعوت حق کے اس نازک مرحلے میں ان کے جذبۂ ایمان واسلام کے شایان شان بات یہی تھی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲ / ۹۹)
۱۰۵ ؎ اس سے آگے ان تضمنات کی تفصیل ہے جو’من انصاری الی اللّٰہ ‘ کے اجمال میں چھپے ہوئے تھے۔ اس سے واضح ہے کہ حواری اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اللہ کے انصار ہونے سے کیا مراد ہے اورآدمی کو اس کے لیے کیا کچھ کرنا چاہیے۔
۱۰۶؎ مطلب یہ ہے کہ یہ حق ہم پر واضح ہوا ہے توا ب ہم اس کے چھپانے والے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے اس کی گواہی دینے والے بن کررہیں گے۔ لہٰذا قیامت کے دن ہمارا نام انھی لوگوں میں لکھا جائے، حق کو چھپانے والوں میں نہ لکھا جائے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــ