[۵] وحدثنی عن مالک عن زید بن اسلم عن عطاء بن یسار وعن بسر بن سعید وعن الاعرج کلہم یحدثونہ عن أبی ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:
مَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الصُّبْحِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الصُّبْحَ وَمَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ اَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ اَدْرَکَ الْعَصْرَ.
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پوری پڑھ لی، اس نے فجر کی نماز (وقت پر)پالی۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لی، اس نے عصر کی نماز (وقت پر)پالی۔ ‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے تین سوالوں کے جواب مل رہے ہیں جو ان دونوں روایتوں کی مدد سے سمجھ میں آتے ہیں ، جنھیں ہم نے دیگر طرق کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔
پہلا یہ کہ یہ روایت اس مسئلے کا حل بتاتی ہے کہ اگر آدمی کبھی حالات کی آپا دھاپی میں نماز میں تاخیر کر بیٹھے تو وہ کون سا آخری وقت ہے کہ جس میں وہ اگر نماز پڑھ لے تو اس کی وہ نماز ادا ہو گی۔وہ وقت اس روایت کے مطابق یہ ہے کہ جس نے وقت کے ختم ہونے سے پہلے نماز کی ایک رکعت مکمل کرلی ہے ،اس نے نماز وقت پر ادا کرلی۔
دوسرے یہ کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنے سے روکا ہے۔ تو ایک نمازی کے ذہن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آیا اگر وہ کسی وقت اس صورت حال کا شکار ہو کہ اس نے نماز شروع کردی، اور ایک یا دورکعت پڑھ کرمعلوم ہوا کہ سورج طلوع ہورہا ہے یا غروب ہو رہا ہے تو آپ نے فرمایا :اس صورت میں باقی نماز پڑھ کر اسے مکمل کرے۔آگے آنے والی ابو ہریرہ کی روایت میں اس بات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی ایک رکعت سورج کے طلوع یا غروب سے پہلے پا لے تو نماز مکمل کرے۔
تیسرے یہ کہ عصر کے آخری وقت کا پتا چل رہا ہے کہ وہ دومثل سایہ نہیں،بلکہ غروب آفتاب ہے۔ او ریہی بات سنت ثابتہ کے مطابق ہے۔
فقد ادرک الصلٰوۃ: تواس نے نماز پالی۔ یہ مجاز کا اسلوب ہے اس میں نماز بول کر نماز کا وقت مراد لیا گیا ہے۔ یہ زبان کا عام اسلوب ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس نے ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پڑھ لی تو اس نے نماز کا وقت پالیا،لیکن یہ کہنے کے بجائے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس نے نماز پالی اس لیے کہ اصل چیز نما ز کا ادا ہونا تھا نہ کہ وقت کا ملنا۔اس لیے مقصود کا ذکر کردیا گیا۔
اس لیے یہ منطقی بحث درست نہیں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز پالی۔
یہ روایت فقہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باب سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کا جواب دیا ہے کہ اگر آدمی کو اتنی دیر ہو جائے کہ وہ نماز کے وقت کے خاتمہ کے قریب نمازپڑھے تو اس کی حد کیا ہے؟ یعنی کتنی تاخیر ہو جانے پر اس کی نماز قضاہوجائے گی اور کب پڑھ لے تو اس کی نماز ادا ہو گی؟آپ نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت پڑھنے کا وقت پا لیا ، اس کی نماز قضا ہونے سے بچ گئی۔
ہماری مراد یہ ہے کہ یہ بیان شریعت نہیں ، بلکہ شریعت پر عمل کے دوران میں پیدا ہونے والے مسئلے کا حل ہے ،جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فقیہانہ بصیرت سے دیا ہے۔ اس حل میں ٹھیک وہی اصول کارفرما ہے جو جماعت میں ایک رکعت پانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملحوظ رکھاہے۔ یعنی جس نے ایک رکعت امام کے پیچھے پالی اس نے جماعت پالی۔
یہاں ایک ضمنی سوال پیدا ہوتا ہے کہ رکعت پانے سے کیا مراد ہے ۔ دوسری روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی متعین کردی ہے کہ رکعت پانے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس رکعت کے سجودبھی طلوع آفتاب سے پہلے کرلے:
عن ابی ہریرۃ قال: قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اذا ادرک احدکم سجدۃ من صلاۃ العصر قبل ان تغرب الشمس فلیتم صلاتہ واذا ادرک سجدۃ من صلاۃ الصبح قبل ان تطلع الشمس فلیتم صلاتہ.(بخاری، رقم۵۳۱)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی سورج ڈوبنے سے پہلے نمازعصر (کی پہلی رکعت) کے سجدے کر لیتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ نماز مکمل کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی طلوع آفتاب سے پہلے نمازفجر (کی پہلی رکعت )کے سجدے کرلیتاہے، تو اسے چاہیے کہ وہ نماز مکمل کرے۔‘‘
سجدہ پانے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے پہلی رکعت کا قیام ،رکوع اور سجدے طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے کر لیے ہوں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہیے کہ اس نے پوری رکعت پڑھی ہو۔ ایک رکعت سے ہم بالعموم یہی سمجھتے ہیں کہ وہ سجدوں پر جاکر مکمل ہوتی ہے۔اسی بات کو اس روایت میں بیان کیا گیا ہے۔
مسند احمد میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے:
عن أبی ہریرۃ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی رکعۃ من صلاۃ الصبح قبل أن تطلع الشمس فلم تفتہ ومن صلی رکعۃ من صلاۃ العصر قبل أن تغرب الشمس فلم تفتہ.(مسند احمد، رقم ۷۴۵۱)
’’ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی، تو اس کی فجر قضا نہیں ہوئی۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی، تو اس کی عصر قضا نہیں ہوئی۔‘‘
بخاری میں یہ روایت ان الفاظ میں آئی ہے:
عن أبی ہریرۃ قال: قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أدرک أحدکم سجدۃ من صلاۃ العصر قبل أن تغرب الشمس فلیتم صلاتہ، وإذا أدرک سجدۃ من صلاۃ الصبح قبل أن تطلع الشمس فلیتم صلاتہ.(بخاری ، رقم۵۳۱ )
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی سورج ڈوبنے سے پہلے نمازعصر (کی پہلی رکعت )کے سجدے کر لیتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ نماز مکمل کرے۔ اور جب تم میں سے کوئی طلوع آفتاب سے پہلے نمازفجر (کی پہلی رکعت) کے سجدے کرلیتاہے، تو اسے چاہیے کہ وہ نماز مکمل کرے۔‘‘
یہ دونوں روایتیں موطا کی زیر بحث روایت سے درج ذیل پہلووں سے مختلف ہیں۔
مسند احمد کی روایت میں’ فلم تفتہ‘ کے الفاظ یہ بتار ہے ہیں کہ جس نے اس وقت نماز پڑھی اس کی نماز فوت نہیں ہوگی۔ یہ الفاظ موطا کے مضمون پر اضافہ ہیں۔
صحیح بخاری کی روایت میں’ ادرک سجدۃ‘ کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ رکعت پانے کا مطلب یہ ہے کہ تکبیرتحریمہ سے لے کر سجدہ کرنے تک کا عمل سورج طلوع یا غروب ہونے سے پہلے کر لیا جائے۔
اسی روایت میں’ فلیتم صلاتہ‘ کے الفاظ اس آدمی کے لیے تسلی کے کلمات ہیں ، جو اس تردد میں تھا کہ سورج ڈوبنے اورچڑھنے کے اس ممنوع وقت میں کیا نماز کو جاری رکھے؟یا وہ اس وقت میں نماز کا آغاز کرے، جب کہ تھوڑی دیر بعد ممنوع وقت شروع ہونے والا ہے؟ ان سوالات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔
امامت جبریل والی حدیث میں عصر کا آخری وقت دو مثل سایہ تک ہے،جبکہ اس میں آخری وقت غروب آفتاب کا وقت ہے، اور وہ بھی اتنا کہ آدمی ایک رکعت پالے۔ اسی طرح اس میں فجرکا آخری وقت اسفار ہے، جبکہ اس روایت میں طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالینے کوآخری وقت قرار دیا گیاہے۔ اس اختلاف پر ہم موطا کی پہلی روایت کے تحت تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔ یہاں بس اتنا جان لیجیے کہ حدیث جبریل میں ان اوقات کا بیان ہے، جو اولوالعزم انبیا نے نمازوں کے لیے اپنائے رکھے ۔ اس حدیث میں عصر اور فجر کا آخری وقت بتایا جارہا ہے، جن کے بعد اگر آدمی نماز پڑھے تو وہ قضا ہوگی۔
فجر کی نماز کی طرح فقہا نے عصر کے وقت میں بھی اختلاف کیا ہے۔ اس میں فقہا تین گروہوں میں بٹ گئے ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں، جنھوں نے دو مثل سایہ کے وقت کو عصر کا آخری وقت قرار دیا ، دوسرے گروہ نے سورج کے زرد ہونے کو اور تیسرے گروہ نے غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ سکنے کے وقت کو اس کا آخری وقت قرار دیا ہے۔ جمہور فقہا نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ جن روایتوں میں سورج کے زرد ہونے کو آخری وقت قرار دیا گیا ہے، ان میں اور ان روایتوں میں جن میں دو مثل وقت کی بات کی گئی ہے ، کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ جو روایت غروب آفتاب سے ایک رکعت پہلے تک کے وقت والی ہے، وہ صاحب عذر اور مجبورکا وقت ہے نہ کہ عام حالات کا وقت۔
ہمارے خیال میں ان سب روایتوں کی تاویل سنت ثابتہ کی روشنی میں ہونی چاہیے۔پچھلی روایتوں میں ہم تفصیل سے اس موضوع پربات کرآئے ہیں۔سنت ثابتہ میں نمازوں کے اوقات ان کے ناموں کے ذریعے سے متعین کیے گئے ہیں ۔یہی معاملہ نمازعصر کا ہے۔ امامت جبریل ’’دو مثل سائے‘‘ اور’’ سورج کے زرد ہونے تک ‘‘والی تمام روایتیں دراصل متعین کردہ وقت کے بارے میں کچھ بیان نہیں کررہی ہیں، بلکہ یہ روایتیں نمازعصر کے پسندیدہ وقت کا تعین کررہی ہیں۔ اسی رائے سے تمام روایات اپنی اپنی جگہ قائم رہتے ہوئے بھی باہم متعارض نہیں رہتیں۔
ٹھیک یہی حل فجر کی نماز کا ہے جسے ہم پچھلی روایت کے تحت تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔ ہمارا وہ استدلال جو فجر کے بارے میں ہے وہی یہاں عصر کے بارے میں ملحوظ رہنا چاہیے ۔اس لیے کہ فجر اور عصر کا معاملہ روایتوں میں بالکل ایک جیسا ہے۔ پچھلی روایت میں اورموطا کی پہلی روایت میں ہمارا سارا استدلال بیان ہو گیا ہے۔اس لیے یہاں طول کلام کی ضرورت نہیں ہے۔
______________