روی ۱ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قا ل : من بدل دینہ۲ فاقتلوہ. ۳
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(مشرکین بنی اسماعیل میں سے مسلمان ہونے کے بعد) جو اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو۔ ۱
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف خداکے نبی ، بلکہ رسول بھی تھے اور قرآن مجید کے مطابق جب کوئی رسول کسی قوم کی طرف بھیجا جاتا ہے تو اس کے انکار کی صورت میں اس کی قوم کے مشرکین کو خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں رہتا۔ایسے لوگوں کو رسول کی دعوت سمجھنے اور اس کے خلاف اپنے اعتراضات پیش کرنے کی پوری مہلت دی جاتی ہے ۔اور جب خداتعالیٰ کی علیم وخبیر ذات یہ جان لیتی ہے کہ رسول خدا کا سچا ہوناان پر ہر لحاظ سے واضح ہو چکا ہے اور ان کے پاس رسول کو جھٹلانے کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا اور ان کا جھٹلانا محض انانیت اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے تو خدا اپنے رسول اور اس کے ماننے والوں کو اس قوم کا علاقہ چھوڑ دینے کا حکم دیتا ہے اور رسول کا انکار کرنے والے مشرکین کو کسی نوعیت کی قدرتی آفت بھیج کر تباہ کر دیتا ہے۔قرآن مجید نے پچھلے رسولوں نوح ، ہود، شعیب، صالح اور موسیٰ علیہم السلام کی قوموں کا ذکر کر کے رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کا حوالہ دیا ہے ۔ قرآن مجید محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین یعنی مشرکین بنی اسماعیل کو بھی خبر دار کرتا ہے کہ اگر انھوں نے خداکے رسول کو نہ ماننے کی روش اپنائے رکھی تو ان کا انجام بھی انھی اقوام کی طرح ہو گا ۔ (دیکھیے سورۂ قمر خصوصاً آیات ۴۳۔۴۵) چنانچہ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ جب خدا کسی قوم کی طرف رسول بھیجتا ہے تو اس قوم کے مشرکین کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا کہ وہ ایمان لائیں یا مرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے مشرکین کے خلاف اس موت کی سزا کا نفاذ کس طرح ہوا۔ اس کے مطابق پچھلی مشرک قومیں رسول کی تکذیب کے نتیجے میں اگرچہ مختلف قدرتی آفات کے ذریعے سے تباہ کی گئیں ، تاہم رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کو اہل ایمان کے ہاتھوں سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا (التوبہ ۹: ۱۴۔۱۶)۔ چنانچہ اہل ایمان کو یہ حکم دیا گیا کہ مشرکین اگر اسلام قبول نہ کریں تو انھیں بلا استثنا قتل کردیا جائے(۹: ۵)، جبکہ دوسری طرف یہودونصاریٰ (جو کہ اصلاً مذہب شرک کے دعوے دار نہ تھے)ان کے بارے میں کہا گیا کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں مسلم علاقوں میں جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر دست زندہ رہنے کی آزادی حاصل رہے گی(۹: ۲۹)۔
چنانچہ قرآن مجید کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم بنی اسماعیل کے مشرکین اگر آپ پر ایمان نہ لاتے تو رسولوں کی بعثت کے بارے میں قانون خداوندی کے مطابق انھیں لازماً موت کی سزا دی جاتی۔اس بات کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر وہ ایمان لانے کے بعد اپنا دین بدل لیتے تو انھیں پھر بھی وہی موت کی سزا ملنی چاہیے تھی ۔ مذکورہ بالا روایت میں یہی بات بیان ہوئی ہے کہ مشرکین بنی اسماعیل اگر ایمان لانے کے بعد دین اسلام چھوڑیں تو لازماً قتل کیے جائیں۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اس روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم مشرکین بنی اسماعیل کے ساتھ خاص تھی۔
۱۔ یہ بخاری کی روایت، رقم ۲۸۵۴ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری ، رقم ۲۸۵۴، ۶۵۲۴،۶۵۲۵۔ مسلم، رقم ۱۷۳۳۔ موطا، رقم ۱۴۱۳۔ ترمذی ، رقم ۱۴۵۸۔ ابن ماجہ ، رقم ۲۵۳۵۔ ابوداؤد، رقم ۴۳۵۱ ، ۴۳۵۴۔ نسائی، رقم ۴۰۵۹، ۴۰۶۰، ۴۰۶۱، ۴۰۶۲، ۴۰۶۳، ۴۰۶۴،۴۰۶۵، ۴۰۶۶۔ سنن الکبریٰ ، رقم ۳۵۲۲، ۳۵۲۳، ۳۵۲۴، ۳۵۲۵، ۳۵۲۶، ۳۵۲۷، ۳۵۲۸، ۳۵۲۹۔ بیہقی، رقم ۱۶۵۹۷، ۱۶۵۹۸، ۱۶۵۹۹، ۱۶۶۳۵، ۱۶۶۳۶، ۱۶۶۳۷، ۱۶۶۵۴، ۱۶۶۵۸، ۱۷۸۴۱۔ احمد بن حنبل، رقم ۱۸۷۱، ۲۵۵۱، ۲۵۵۲، ۲۹۶۸، ۱۹۶۸۱، ۲۲۰۶۸۔ ابویعلیٰ، رقم ۲۵۳۲، ۲۵۳۳۔ مصنف عبدالرزاق، رقم ۹۴۱۳، ۱۸۷۰۵، ۱۸۷۰۶ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۸۹۹۲، ۲۹۰۰۶، ۳۲۷۲۸، ۳۳۱۴۳، ۳۶۴۹۱۔ ابن حبان ، رقم ۴۴۷۵، ۵۶۰۶ ۔ حمیدی ، رقم ۵۳۳۔
۲۔ بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل، رقم ۲۲۰۶۸ میں ’من بدل دینہ‘(جو اپنا دین بدل لے)کے بجائے ’من رجع عن دینہ‘(جو اپنے دین سے پلٹ جائے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ موطا، رقم ۱۴۱۳ میں یہی مضمون ’من غیر دینہ‘(جو اپنا دین تبدیل کر لے)کے الفاظ میں بیان ہوا ہے، اور عبدالرزاق، رقم ۱۸۷۰۶میں ’من بدل عن دینہ‘(جو اپنے موجودہ دین سے پلٹ کر اپنا دین تبدیل کر لے)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۳۔ بعض روایات مثلاً موطا، رقم ۱۴۱۳میں ’فاقتلوہ‘(تواسے قتل کر دو)کے بجائے ’فاضربوا عنقہ‘ (تو اس کی گردن مار دو)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
_______________