(مسلم ، کتاب الایمان ۱۵)
عن جابر رضی اﷲ عنہ قال: أتی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم النعمان بن قوقل. فقال: یا رسول اﷲ، أرأیت إذا صلیت المکتوبۃ وحرمت الحرام وأحللت الحلال، أأدخل الجنۃ. فقال النبی صلی اﷲ علیہ وسلم: نعم.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نعمان بن قوقل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: آپ کی کیا رائے ہے ، جب میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور حرام کو حرام اور حلال کو حلال رکھوں تو کیا میں جنت میں چلا جاؤں گا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔‘‘
ایک دوسرے متن میں نعمان بن قوقل کے قول میں:’ولم أزد علی ذلک شیئا‘ (اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کروں) کا جملہ بھی نقل ہوا ہے۔
عن جابر رضی اﷲ عنہ: أن رجلا سأل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. فقال: أرأیت إذا صلیت الصلوات المکتوبات وصمت رمضان وأحللت الحلال وحرمت الحرام ولم أزد علی ذلک شیئا، أأدخل الجنۃ؟ قال: نعم. قال: واﷲ لا أزید علی ذلک شیئا.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کی کیا رائے ہے، جب میں فرض نمازیں ادا کرتا رہوں، رمضان کے روزے رکھتا رہوں ، حلال کو حلال اور حرام کو حرام رکھوں اور اس پر کسی چیز کا اضافہ نہ کروں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: میں اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کروں گا۔‘‘
سوال یہاں بھی وہی ہے جو پچھلی روایتوں میں پوچھا گیا ہے۔فرق یہ ہے کہ یہاں کچھ دینی امور بیان کرکے جنت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے اور پچھلی روایتوں میں سوال براہ راست تھا۔ وہاں جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کے بعض بنیادی اعمال کا ذکر کیا تھا۔ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال میں بیان کیے گئے اعمال پر جنت ملنے کی خبر دی ہے۔ ان روایات میں جہاں اس بات کا احتمال ہے کہ پوری بات روایت نہ ہوئی ہو۔ وہاں یہ بات بھی ممکن ہے کہ اتنی ہی بات ہوئی ہوجو بیان کر دی گئی ہے۔ جنت کے حصول کی بنیادی شرط ایمان اور عمل صالح ہے۔ اعمال صالحہ میں وہ اعمال جنھیں فرض کر دیا گیا ہے ایک مسلمان پر لازم ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے ہر شخص پر واضح تھی۔ چنانچہ روایات میں ان میں سے چند کا ذکر بطور علامت ہے۔ گویا ان روایات کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایمان میں درست ہو گا ۔ دین کے اوامرونواہی کی تعمیل کرے گا۔ وہ جنت میں جانے کی راہ پر گام زن ہے۔اگر اس کے نامۂ اعمال میں نیکیاں غالب ہوئیں تو یقیناًجنت میں جائے گا۔
اس طرح کی روایتوں سے ایک معنی یہ اخذکیے جاتے ہیں کہ ترک نوافل میں کچھ حرج نہیں ہے ۔ اس سے پہلے ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ان روایتوں میں منشاے کلام یہ نہیں ہے۔ نوافل کی اپنی اہمیت ہے اور وہ دوسری روایتوں میں بصراحت بیان ہوئی ہے۔ سائل کا منشا صرف اپنے ارادے کی پختگی کا اظہار ہے۔
اس روایت کے تین متن تو مسلم ہی نے جمع کر دیے ہیں ۔ ان کے علاوہ متون میں ترتیب اجزا مختلف ہے۔ ایک روایت میں رمضان کے روزوں کا ذکر ہے ۔ روایات کے متون میں اس طرح کے فرق سے اندازہ ہوتا ہے کہ راوی بسا اوقات اپنا فہم بھی روایت میں شامل کر دیتے ہیں۔
دیگر متون کے لیے دیکھیے: احمد، رقم۱۴۴۳۴، ۱۴۷۸۹۔ مستدرک، رقم ۶۴۹۶۔ بیہقی، رقم۱۹۴۸۹۔ ابویعلیٰ، رقم ۱۹۴۰، ۲۲۹۵۔المعجم الاوسط، رقم۷۸۶۰۔
عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ عن النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال: بنی الإسلام علی خمسۃ، علی أن یؤحد اﷲ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصیام رمضان والحج. فقال رجل: الحج وصیام رمضان. قال: لا، صیام رمضان والحج. ہکذا سمعتہ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے: اس بات پر کہ اللہ کو ایک مانا جائے، نماز کے اہتمام پر، زکوٰۃ کی ادائیگی پر، رمضان کے روزوں پر، اور حج پر۔ ایک آدمی نے پوچھا: حج اور رمضان کے روزے؟ انھوں نے کہا: نہیں، رمضان کے روزے اور حج۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی سنا ہے۔‘‘
اصل میں ’بنی الاسلام علیخمسۃ‘ ہے۔’بنی ‘کا فعل تعمیر کرنے کے معنی میں آتا ہے۔یہ ایک متعدی فعل ہے اور یہاں مجہول استعمال ہواہے ۔ اسلام اسی کا نائب فاعل ہے۔ یہاں یہ جملہ نحوی اعتبار سے مکمل ہے۔ا س کے بعد’ علی خمسۃ ‘ہے۔سوال یہ ہے کہ ’علی ‘کس مفہوم میں ہے۔اگر اسے اس کے عام مفہوم میں لیا جائے تواس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اسلام کی اصل عمارت ان پانچ چیزوں کے اوپر کھڑی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات متکلم کا منشا نہیں ہو سکتی ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اسے’ من ‘کے مفہوم میں لیا جائے۔ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام ان پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔
روایت میں پانچ ’خمسۃ‘ کا معدود مذکور نہیں ہے۔ عربی میں جب معدودکی تفصیل آگے آرہی ہو تو اسے بالعموم حذف کر دیا جاتا ہے۔ بعض روایات میں ’خمس ‘بھی آیا ہے۔ معدود اگر مذکر ہو تو عدد مونث اور مونث ہو تو مذکر آتا ہے۔ جب معدود محذوف ہو تو متکلم خیال میں موجود معدود کے اعتبار سے صیغہ اختیار کرتا ہے۔ یہاں معدود معنوی چیزیں ہیں اس لیے مذکر عدد کے ساتھ خصال یا دعائم کے جیسا کوئی لفظ اور مونث عدد کے ساتھ ارکا ن یا اشیا جیسا کوئی لفظ محذوف مانا جائے گا۔
عدد کے حوالے سے بعض شارحین نے یہ بحث بھی کی ہے کہ آیا اس سے پانچ کے علاوہ کی نفی ہو جاتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ عام بول چال میں عدد محض نمایاں کرنے کے لیے بول لیا جاتا ہے۔ اس سے بعض اوقات تحدید مراد نہیں ہوتی،لیکن اس روایت میں یہ پہلو نہیں ہے یہاں تحدید ہی مراد ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل میں یہی پانچ چیزیں بیان کی ہیں۔
اصل میں حرف عطف واؤ ہے۔ ایک متن میں بیان ہوا ہے کہ ایک سننے والے نے جب ارکان کی ترتیب کو بدلا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خاص ترتیب پر اصرار کیا۔ اس سے بعض شارحین نے یہ بحث کی ہے کہ واؤ ترتیب کے معنی پر ہے۔ واؤ کے بارے میں یہ واضح ہے کہ یہ ترتیب کو لازم نہیں کرتی ۔ یہ ارکان احادیث میں مختلف ترتیب سے آئے ہیں ان میں سے ہر ترتیب میں کوئی نہ کوئی معنویت پیدا کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا اس پہلو سے روایت پر غور محض تکلف ہے۔
عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بنی الإسلام علی خمس علی أن یعبد اللّٰہ ویکفر بما دونہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان .
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے: اس چیز پر کہ اللہ کی بندگی کی جائے اور اس کے سوا ہر چیز کا انکار کیا جائے، نماز کے اہتمام پر، زکوٰۃ کی ادائیگی پر، بیت اللہ کے حج پراور رمضان کے روزوں پر۔‘‘
عن عبد اللّٰہ بن عمر قال: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بنی الاسلام علی خمس شہادۃ أن لا إلٰہ الا اللّٰہ وأن محمدًا عبدہ ورسولہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کے برملا اظہار پرکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز کے اہتمام پر، زکوٰۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کے حج پر اور رمضان کے روزوں پر۔ ‘‘
یحدث طاوسا أن رجلا قال: لعبد اللّٰہ بن عمر: ألا تغزو. فقال: انی سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: ان الاسلام بنی علٰی خمس شہادۃ ان لا إلٰہ الا اللّٰہ واقام الصلاۃ وایتاء الزکاۃ وصیام رمضان وحج البیت.
’’طاوس بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی ۱ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کا برملا اظہار کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، نماز کا اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے اور بیت اللہ کا حج۔‘‘
اس روایت میں ان امور کی نشان دہی کی گئی ہے جو اسلام کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہی وہ امور ہیں جن کا اہل اسلام سے اصل کی حیثیت سے تقاضا کیا گیا ہے۔ باقی امور اخلاق اور عقل عام پر مبنی ہیں، یا دین کے وہ تقاضے ہیں جو خاص حالات میں سامنے آتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ دین کے وہ تقاضے جو حالات کے تحت سامنے آتے ہیں، بسا اوقات اس طرح لازم ہوجاتے ہیں کہ ان سے گریز ایمان کی نفی کر دیتا ہے۔ استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیا ہے:
’’ایمان جب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دل میں اترتا اور اس سے اپنی تصدیق حاصل کر لیتا ہے تو اپنے وجود ہی سے دو چیزوں کا تقاضا کرتا ہے۔
ایک عمل صالح
دوسرے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر
...عام حالات میں دین کے تقاضے یہی ہیں لیکن انسان کو اس کے خارج کے لحاظ سے جو حالتیں اس دنیا میں پیش آسکتی ہیں، ان کی رعایت سے ان کے علاوہ تین تقاضے بھی اس سے پیدا ہوتے ہیں:
ایک ہجرت،
دوسرے نصرت،
تیسرے قیام بالقسط۔‘‘(میزان۸۷۔۸۸)
اس سے پہلے دین کے ظاہر وباطن کی تفصیل کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ اسلام کا لفظ جس طرح پورے دین کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح دین کے ظاہر کو بھی بعض اوقات اسی لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے اس ظاہر کے لحاظ سے یہ پانچ چیزوں سے عبارت ہے:
۱۔ اس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی ا لہٰ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔
۲۔ نماز قائم کی جائے۔
۳۔زکوٰۃ ادا کی جائے۔
۴۔ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔
۵۔ بیت الحرام کا حج کیا جائے ۔‘‘ (۸۵)
استاد محترم کی پہلی بات سورۂ عصر سے ماخوذ ہے اور دوسری بات بعینہٖ حدیث جبریل میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور اسلام کے اجزا کو الگ الگ بیان کیا ہے اور اسلام کے تحت وہی امور بیان کیے ہیں جو ایک مسلمان کی روز مرہ کی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں۔
زیر بحث روایت کو اگر حدیث جبریل کی روشنی میں سمجھا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ دین کے مشمولات یہی ہیں۔ اب ہم ان سوالات کو زیر بحث لاتے ہیں جو اس کے معنی طے کرنے کے ضمن میں پیدا ہوتے ہیں۔ایک سوال یہ ہے کہ جب’ بنی علی ‘کے ساتھ بات بیان ہوئی ہے تو اس میں ایمانیات کیوں شامل نہیں کی گئیں۔ استاد محترم کی تحقیق کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین اپنے ظاہر میں انھی پانچ چیزوں پر مشتمل ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان بھی اسی پہلو کو واضح کرتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ دین کے بہت سے دوسرے اہم احکام اس میں بیان نہیں ہوئے۔ شارحین کو سب سے زیادہ مشکل جہاد کے عدم بیان کو سمجھنے میں پیش آئی ہے۔قرآن مجید میں جہاد کی غیر معمولی دینی اہمیت بیان ہوئی ہے اور اس میں بے عذر شرکت نہ کرنے والوں کو کہہ دیا گیا ہے کہ ان کا ایمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔شارحین نے اسے فرض عین اور فرض کفایہ کے فرق سے حل کیا ہے۔ یہ فرق فرد واحد کے حوالے سے ہے۔ استاد محترم کی تقسیم دین کے تقاضے کے پہلو سے ہے۔’’میزان‘‘ سے دیے گئے اقتباس سے واضح ہے کہ جہاد دین کے ان مطالبات میں سے ہے جو خاص حالات ہی میں سامنے آتا ہے۔ چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب دین کے ان اعمال کا ذکر کیا جائے گا جو دین میں اصلاً مطلوب ہیں تو یہی پانچ چیزیں بیان کی جائیں گی۔
بعض شارحین نے اس روایت سے یہ معنی اخذ کیے ہیں کہ یہ گھر کی تمثیل ہے۔جس طرح گھر کسی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اسی طرح دین بھی ان امور پر قائم ہے۔ ’بنی‘ کے لفظ سے یہ معنی تو اخذ کیے جا سکتے ہیں ، لیکن دوسری روایات اور خود دین کے مشمولات پر غور سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ یہ تفسیر درست نہیں ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر یہی روایت ایک سوال کے جواب میں بھی بیان کی تھی۔ فتنے کے زمانے میں ان سے کسی نے جنگ میں شرکت کا تقاضا کیا تو انھوں نے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد پڑھ کر سنا دیا۔گویا ان کے نزدیک، جس نے ان امور کا اہتمام کر دیا اس نے اپنے پورے اسلام کا اظہار کر دیا۔ ابن عمر کے اس استشہاد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی روایت کو اسی معنی میں لیا ہے جو معنی ہم نے اوپر بیان کیے ہیں۔یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کی بات اطلاقی نہیں ہے۔ قرآن مجید سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اگر دین کو مدد کی ضرورت ہو تو اس سے گریز کا نتیجہ ایمان وعمل کے حبط کی صورت میں نکلتا ہے۔
قرآن مجید سے بھی اس روایت میں بیان کیے گئے امور کی یہی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ پہلی چیز اسلام اور کفر میں اصولی فرق کی حیثیت رکھتی ہے۔چاروں عبادات قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بطور واجب بیان ہوئی ہیں۔سورۂ توبہ (۹: ۵) میں قبول ایمان ، نماز اور زکوٰۃ کو مسلمان ہونے کی شرط قرار دیا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ(۲: ۱۸۳) میں روزوں کا وجوب اور آل عمران (۳: ۹۷) میں حج کی فرضیت بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو ایک جامع کلمے کی صورت میں بیان کر دیا ہے۔
اس روایت کے متون میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ کچھ متون آپ کے سامنے ہیں۔ ان میں بھی معمولی فرق ہے۔شہادت کا بیان جن روایات میں ہوا ہے ان میں کچھ روایات میں صرف توحید والا جزہے۔ بعض میں دونوں ہیں لیکن ’رسولہ ‘کے ساتھ ’عبدہ‘ کا لفظ نہیں ہے۔
’بنی الاسلام‘ کی روایت تمام کتب حدیث میں ’علی خمس ‘یا ’خمسۃ‘ ہی کے ساتھ نقل ہوئی ہے لیکن مصنف عبد الرزاق نے اسے ثمانیہ کے عدد کے ساتھ روایت کیا ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن حذیفۃ رضی اﷲ عنہ قال: بنی الإسلام علی ثمانیۃ. أسہم شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اﷲ وأن محمدا رسول اﷲ وإقام الصلوۃ وایتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم شہر رمضان والجہاد والأمر بالمعروف والنہی عن المنکر وقد خاب من لاسہم لہ.(مصنف عبدالرزاق ، رقم۵۰۱۱)
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کی بنا آٹھ چیزوں پر ہے۔ ان میں سے اولین اس بات کی گواہی ہے اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ نماز کی پابندی، زکوٰۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج، ماہ رمضان کے روزے، جہاد ، امر بالمعروف اورنہی عن المنکر۔ جس نے ان میں کچھ نہ پایا وہ برباد ہو گیا۔‘‘
یہ روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے نقل نہیں ہوئی۔ قرین قیاس یہی ہے کہ حضور کا قول وہی ہے جسے سب محدثین نے نقل کیا ہے اور یہ حضرت حذیفہ کا اپنا استنباط ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کے ہاں سب سے زیادہ اہمیت کن امور کو حاصل تھی۔
مسلم رحمہ اللہ کے ایک متن میں’ بنی الاسلام‘ والا جملہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے خلفشار کے زمانے میں جنگوں میں عدم شرکت کی دلیل کے طور پر نقل ہوا ہے۔ مسند احمد کی ایک روایت میں اس کے ساتھ جہاد کے بارے میں ان کی رائے بھی نقل ہوئی ہے:
عن ابن عمر رضی اﷲ عنہ قال بنی الاسلام علی خمس شہادۃ أن لا إلٰہ إلا اﷲ وإقام الصلاۃ وإیتاء الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان قال: فقال لہ رجل والجہاد فی سبیل اﷲ؟ قال ابن عمر: الجہاد حسن. ہکذا حدثنا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم. (رقم۴۷۹۸)
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام کی بنا پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں، نماز کی پابندی ، زکوٰۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج اور رمضان کے روزے۔ ان سے ایک آدمی نے پوچھا: اور جہاد فی سبیل اللہ؟ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: جہاد اچھا ہے۔ حضور نے بات اتنی ہی کہی تھی۔‘‘
ممکن ہے یہ آدمی بھی وہی ہو جس کا ایک سوال امام مسلم کی روایت میں نقل ہو گیا ہے اور دوسرا اس روایت میں بیان ہو گیا ہے۔
بخاری، رقم۸، ۹۲۸۰۔ترمذی، رقم ۲۶۰۹۔ نسائی، رقم ۵۰۰۱۔ مسند احمد، رقم ۴۷۹۸، ۶۰۱۵، ۶۳۰۱، ۱۹۴۰، ۱۹۲۴۶۔ابن حبان، رقم۱۵۸، ۱۴۴۶۔ابن خزیمہ، رقم۳۰۸، ۳۰۹، ۱۸۸۰، ۲۵۰۵۔ سنن کبریٰ،رقم۱۱۷۳۲، ۱۵۶۱۔ بیہقی، رقم ۱۵۶۱، ۷۰۱۳، ۷۶۸۰۔ ابویعلیٰ، رقم۵۷۸۸، ۷۵۰۲، ۷۵۰۷۔ معجم صغیر، رقم ۷۸۲۔ معجم کبیر،رقم ۲۳۶۳ تا ۲۳۶۸، ۱۲۸۰۰، ۱۳۲۰۳، ۱۳۵۱۸۔ المسند، رقم ۷۰۳۔ مسند عبد بن حمید ، رقم ۷۲۳۔ مسند شامیین، رقم۱۳۴۷۔ معجم اوسط، رقم۶۲۶۴، ۶۷۷۰۔ مصنف عبدا لرزاق ۵۰۱۱، ۹۲۸۰۔
———————
۱ نووی رحمہ اللہ نے اس کا نام خطیب بغدادی کی کتا ب ’’الاسماء المبہمۃ‘‘ کے حوالے سے یزید بن بشر سکسکی دیا ہے۔ جبکہ صاحب فتح الملہم نے بیہقی کے حوالے سے اس کا نام حکیم دیا ہے۔