بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْْ ، وَلاَاَوْلاَدُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا، وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ وَقُوْدُالنَّارِ{۱۰} کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ، وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ، کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَاَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ، وَاللّٰہُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۱۱}
قُلْ لِّلَّذِینَ کَفَرُوْا سَتُغْلََبُوْنَ وَتُحْْشَرُوْنَ اِلٰی جَھَنَّمَ ، وَبِئْسَ الْمِھََادُ{۱۲} قَدْکَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِئَتَیْنِ الْتَقَتَا، فِئَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ ، یَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَیْھِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ، وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِھٖ مَنْ یَّشَآئُ، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ{۱۳}
( اِس کتاب کے ) منکروں کو اللہ کے حضور میں اُن کا مال کچھ کام دے گا اور نہ اُن کی اولاد ، ۱۴ اور یہی ہیں جو دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ اِن کا معاملہ بھی وہی ہے جوفرعونیوں اور اُن سے پہلے کے لوگوں کا تھا۔ ۱۵ اُنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا تو اللہ نے اُن کے گناہوں کی پاداش میں اُنھیں پکڑ لیا اور حق یہ ہے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے ۔ ۱۶ ۱۰۔ ۱۱
اِن منکروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم بھی ( اِسی طرح ) مغلوب ہو جاؤ گے اور ( اِس کے بعد) دوزخ کی طرف ہانکے جاؤ گے، اور وہ کیا ہی برا ٹھکانا ہے، اور ( تمھیں اگر ہماری اِس بات میں کوئی تردد ہے تو) جن دو گرہوں میں مڈ بھیڑ ہوئی، اُن کی سرگزشت میں تمھارے لیے ایک بڑی نشانی ہے۔۱۷ ایک ( ماننے والوں کا ) گروہ جو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا نہ ماننے والوں کا ( جو شیطان کی راہ میں لڑ رہا تھا)۔۱۸ وہ ( بدر کے میدان میں) ماننے والوں کو کھلم کھلا اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے ۔ ۱۹
( یہ حقیقت ہے کہ ) اللہ جس کی چاہتا ہے ( اِسی طرح) اپنی تائید سے مدد فرماتا ہے۔ اِس میں اُن کے لیے یقیناً بڑی بصیرت ہے جو آنکھوں والے ہوں۔ ۲۰ ۱۲۔۱۳
۱۴؎ یہ ان منکروں کی اصلی بیماری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ درحقیقت مال واولاد کی محبت ہی ہے جو انھیں قرآن کے پیش کردہ حقائق کے سامنے سرافگندہ ہونے سے روک رہی ہے، لیکن اس کو چھپانے کے لیے وہ متشابہات کے درپے ہوتے اور ان کے اندر سے کچھ اعتراضات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی یہ کمزوری بے نقاب نہ ہونے پائے۔
۱۵؎ اصل میں ’کداب آل فرعون‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس جملے کی تالیف ہمارے نزدیک یہ ہے: ’ دابہم کداب آل فرعون‘۔ چنانچہ ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۱۶؎ اصل میں لفظ ’شدید العقاب ‘آیا ہے۔ اس میں دو مفہوم موجود ہیں: ایک یہ کہ سزا عمل کا بدلہ ہے۔ دوسرا یہ کہ قانون طبیعی کی طرح اللہ تعالیٰ کے اخلاقی قانون کا نتیجہ بھی لازماً سامنے آتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کے ظہور کا ایک دن مقرر ہے اور طبیعی قانون کے نتائج اسی دنیا میں اور بالعموم فوراً ظاہر ہو جاتے ہیں۔
۱۷؎ یعنی اس بات کی نشانی کہ حق کو غلبہ حاصل ہو گا اور قرآن کے منکرین سر زمین عرب میں لازماً مغلوب ہو جائیں گے۔ بدر میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت جس شان کے ساتھ ظاہر ہوئی، اس سے یہ بات قرآن کے تمام مخاطبین پر واضح ہو گئی۔ اس لیے کہ یہود اپنے ہاں طالوت کی جنگ میں تائید الہٰی کا یہ منظر صدیوں پہلے دیکھ چکے تھے ، نصاریٰ یوحنا عارف کے مکاشفے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق پیشین گوئی میں اسے پڑھ چکے تھے اور قریش خود اس جنگ کو حق وباطل کا فیصلہ قرار دے کر میدان میں اترے تھے۔
۱۸؎ اس جملے میں مقابل کے الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئے ہیں۔ انھیں کھول دیجیے تو پوری بات اس طرح ہے: ’ فئۃ مومنۃ تقاتل فی سبیل اللّٰہ ، واخری کافرۃ تقاتل فی سبیل الطاغوت‘۔ جملے کے پہلے حصے میں لفظ ’ مومنۃ‘ محذوف ہے جس کا پتا دوسرے میں ’ کافرۃ‘ کی صفت دے رہی ہے اوردوسرے میں ’ تقاتل فی سبیل الطاغوت‘ جس پر ’ تقاتل فی سبیل اللّٰہ‘ کے الفاظ دلالت کرتے ہیں۔
۱۹؎ چنانچہ یہی چیز قریش کی مرعوبیت اور اس کے نتیجے میں ان کی شکست کا باعث بن گئی۔ یہ واقعہ ظاہر ہے کہ اس وقت پیش آیا، جب جنگ شروع ہونے کے بعد فرشتوں کی کمک پہنچ گئی اور ان کی شرکت سے تین سو تیرہ کا لشکر دفعتہ حملہ آوروں کی تعداد سے دوگنا، یعنی کم وبیش دو ہزار نظر آنے لگا۔ قرآن نے اسی بنا پر اسے اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قرار دیا ہے اور خاص طور پر صراحت فرمائی ہے کہ کافروں نے اس نشانی کو اپنے سر کی آنکھوں سے بالکل اسی طرح دیکھا جس طرح وہ میدان بدر کو دیکھ رہے تھے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ سورئہ انفال میں جس واقعے کا ذکر ہوا ہے کہ دونوں لشکر ایک دوسرے کی نگاہ میں کم کرکے دکھائے گئے تھے، وہ جنگ شروع ہونے سے پہلے کا ہے اور اس کی مصلحت اللہ تعالیٰ نے وہاں بیان کر دی ہے۔ لہٰذا قرآن کے ان دونوں بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
۲۰؎ استاذ امام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ ایک صاحب بصیرت اور ایک بلیدمیں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ ایک اپنی ناک سے آگے نہیں دیکھتا، لیکن دوسرے کے لیے ایک معمولی سی نشانی، ایک ادنیٰ سی تنبیہ اور ایک سرسری سا اشارہ حقائق کا ایک دفتر کھول دیتا ہے۔ ایک دروازہ اس کے لیے کھل جائے تو دوسرے دروازے کھولنے کے لیے کلید ہاتھ آ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن ’ اولو الابصار‘ کہتا ہے، کیونکہ ان کی آنکھوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت کا نور بھی ہوتا ہے جو جزو میں کل اور قطرے میں دجلہ کے مشاہدے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۰)
[باقی]
ـــــــــــــــــــ