HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۲۴۶-۲۴۸ (۵۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ ) 


اَلَمْ تَرَاِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْ اِسْرَآئِ یْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی، اِذْ قَالُوْا لِنَبِّیٍ لَّھُمُ: ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا، نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ. قَالَ : ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا. قَالُوْا : وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ، وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا ، وَاَبْنَآئِ نَا ، فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ، تَوَلَّوْا اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْھُمْ ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ .{۲۴۶}  

وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ : اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا. قَالُوْآ : اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا، وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ، وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ. قَالَ: اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰہٗ عَلَیْکُمْ، وَ زَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ، وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآئُ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ .{۲۴۷}  وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّھُمْ: اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمْ التَّابُوْتُ، فِیْہِ سَکِیْنَۃٌمِّنْ رَّبِّکُمْ، وَ بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَ اٰلُ ھٰرُوْنَ، تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ. اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.{۲۴۸}  

تم ۶۴۳ نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب اُنھوں نے اپنے ایک نبی ۶۴۴ سے کہا : آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں ۶۴۵ تاکہ ہم (اُس کے حکم پر) اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ اِس پر نبی نے کہا : ایسا نہ ہو کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے اور پھر تم جہاد نہ کرو؟ ۶۴۶ وہ بولے : ہم کیوں اللہ کی راہ میں جہاد نہ کریں گے ، جب کہ ہمیں ہمارے گھروں اور ہمارے بچوں سے دور نکال دیا گیا ہے ۔ لیکن (ہوا یہی کہ) جب اُن پر جہاد فرض کیا گیا ۶۴۷ تو اُن میں سے تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب پھر گئے ، اور (حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ اِن ظالموں سے خوب واقف تھا۔ ۲۴۶ 

اور (اُن کے اِس مطالبے پر) اُن کے نبی نے اُنھیں بتایا کہ اللہ نے طالوت ۸۴۶ کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کر دیا ہے ۔ ۶۴۹ بولے : اُس کی بادشاہی ہم پر کس طرح ہو سکتی ہے ، جب کہ ہم اِس بادشاہی کے اُس سے زیادہ حق دار ہیں اور وہ کوئی دولت مند آدمی بھی نہیں ہے ؟ ۶۵۰  نبی نے جواب دیا : اللہ نے اُسی کو تم پر حکومت کے لیے منتخب کیا ہے اور (اِس مقصد کے لیے) اُسے علم اور جسم ، دونوں میں بڑی کشادگی عطا فرمائی ہے ۔ ۶۵۱ (یہ سلطنت اللہ کی ہے) اور (اپنی حکمت کے مطابق) اللہ اِس کو جسے چاہے ، بخش دیتا ہے ۔(تم معاملات کو اپنی تنگ نظروں سے دیکھتے ہو) اوراللہ بڑی وسعت رکھنے والا ہے ، وہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ اور اُن کے نبی نے مزید وضاحت کی کہ (اللہ کی طرف سے ) اُس کے بادشاہ مقرر کیے جانے کی نشانی یہ ہے کہ (تمھارا) وہ صندوق ۶۵۲ (تمھارے دشمنوں کے ہاتھ سے نکل کر) تمھارے پاس آ جائے گا جس میں تمھارے پروردگار کی طرف سے (تمھارے لیے ہمیشہ) بڑی سکینت رہی ہے ۶۵۳اور جس میں وہ یادگاریں بھی ہیں جو موسیٰ اور ہارون کی ذریت نے (تمھارے لیے) چھوڑی ہیں ۔ اِسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ ۶۵۴اِس میں ، لاریب ایک بڑی نشانی ہے تمھارے لیے ، اگر تم ماننے والے ہو ۔ ۶۵۵ ۲۴۷۔۲۴۸

۶۴۳؎  یہ اسی واقعے کی تفصیل فرمائی ہے جس کا ذکر اوپر بالاجمال ہوا ہے کہ برسوں کی مردنی کے بعد اللہ تعالیٰ نے کس طرح بنی اسرائیل کو ان کی طرف سے توبہ اور رجوع کے بعد دوبارہ ایک زندہ قوم بنا دیا ۔

۶۴۴؎  بائیبل میں وضاحت ہے کہ یہ ان کے نبی سموئیل علیہ السلام تھے ۔

۶۴۵؎  یہاں موقع کلام دوسرا ہے ، اس لیے ذکر نہیں ہوا ، لیکن بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ مقرر کرنے کے اس مطالبے کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور انھیں توجہ دلائی کہ وہ اپنے ہاتھوں محکومی کا یہ طوق اپنی گردن میں نہ ڈالیں ۔ سموئیل میں ہے :

’’یہ بات سموئیل کو بری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دعا کی اور خداوند نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں ، تو اس کو مان کیوں کہ انھوں نے تیری نہیں ، بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں ان کا بادشاہ نہ رہوں ... اور سموئیل نے ان لوگوں کو جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے ، خداوند کی سب باتیں کہہ سنائیں اور اس نے کہاکہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا ، اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ وہ تمھارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اور اپنے رتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمھاری بیٹیوں کو لے کر گندھن اور باورچن اور نان پز بنائے گا اور تمھارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو ، جو اچھے سے اچھے ہوں گے ، لے کر اپنے خدمت گاروں کا عطا کرے گا اور تمھارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمھارے نوکر چاکروں اور لونڈیوں اور تمھارے شکیل جوانوں اور تمھارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمھاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصہ لے گا ۔ سو تم اس کے غلام بن جاؤ گے اور تم اس دن اس بادشاہ کے سبب سے ، جسے تم نے اپنے لیے چنا ہو گا ، فریاد کرو گے ، پر اس دن خداوند تم کو جواب نہ دے گا ۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سنی اور کہنے لگے : نہیں ، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں جو ہمارے اوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے ۔ ‘‘ (۸: ۶۔۲۰)

۶۴۶؎  اصل میں ’ ھل عیستم ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یعنی کیا اس بات کا اندیشہ نہیں ہے ؟ اردو زبان میں ’ایسا نہ ہو‘ کی تعبیر اسی مفہوم کے لیے اختیار کی جاتی ہے ۔

۶۴۷؎  یہ جہاد فلستیوں کی جارحیت کے مقابلے کے لیے فرض کیا گیا تاکہ بنی اسرائیل ان کے ظلم و عدوان سے اپنے دین و مذہب اور عزت و ناموس کی حفاظت کریں اور اپنے وہ شہر ان سے واپس لے لیں جن پر انھوں نے قبضہ کر لیا تھا۔

۶۴۸؎  بائیبل میں ان کا نام ساؤل آیا ہے ۔ یہ غالباً ان کا لقب ہے جس سے وہ اپنے غیر معمولی قدوقامت کی وجہ سے لوگوں میں مشہور رہے ہوں گے ۔ سموئیل میں ہے :

’’اور جب وہ لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تو ایسا قدر آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے ۔ ‘‘ (۱۰: ۲۳)

۶۴۹؎  اصل میں لفظ ’ بعث‘ استعمال ہوا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بائیبل اور قرآن کی تصریحات کے مطابق سموئیل علیہ السلام نے اس بادشاہ کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق منتخب کیا تھا اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت گویا خدا کے مبعوث کی تھی۔

۶۵۰؎  بنی اسرائیل کے بعض شریروں نے یہ اعتراض اپنی عادت کے مطابق کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ طالوت بنیامین کے قبیلہ سے تھے ۔ بنی اسرائیل کے قبیلوں میں یہ سب سے چھوٹا قبیلہ تھا اور طالوت اس کے سب سے چھوٹے گھرانے سے تھے ۔ پھر ، جیسا کہ بیان ہوا ، وہ کوئی مال دار آدمی بھی نہیں تھے ۔ سموئیل میں ہے :

’’پر شریروں میں سے بعض کہنے لگے کہ یہ شخص ہم کو کس طرح بچائے گا ؟ سو انھوں نے اس کی تحقیر کی اور اس کے لیے نذرانے نہ لائے ۔ پروہ ان سنی کر گیا ۔‘‘(۱۰: ۲۷)

۶۵۱؎  یعنی یہ خدا کا انتخاب ہے اور اہلیت کی بنیاد پر ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے علم میں بھی وسعت دی ہے اور عمل کی قوت بھی عطا فرمائی ہے ، لہٰذا جس طرح کی قیادت اس وقت تمھیں چاہیے ، اس کے لیے یہ شخص نہایت موزوں ہے ۔

۶۵۲؎  اصل میں لفظ ’ التابوت ‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہا ں اس سے مراد بنی اسرائیل کا وہ صندوق ہے جسے بائیبل میں ’خدا کا صندوق‘ یا ’خدا کے عہد کا صندوق‘ کہا گیا ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے زمانے سے لے کر بیت المقدس کی تعمیر تک اسی صندوق کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت حاصل رہی ۔ وہ اس کو اپنے خیمۂ عبادت میں ایک مخصوص مقام پر نہایت مخصوص اہتمام کے ساتھ پردوں کے بیچ میں رکھتے اور تمام دعا و عبادت میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے ۔ ان کے ربی اور کاہن غیبی رہنمائی کے لیے بھی اسی کو مرجع بناتے ۔ مشکل حالات ، قومی مصائب اور جنگ کے میدانوں میں بھی بنی اسرائیل کا حوصلہ قائم رکھنے میں اس صندوق کو سب سے بڑے عامل کی حیثیت حاصل رہی ۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک تو اس میں تورات اور صحرا کی زندگی کے دور کی بعض یادگاریں محفوظ کی گئیں ، لیکن پھر اس میں حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور ان کے خاندان کے بعض اور تبرکات بھی محفوظ کر دیے گئے۔‘‘ (تدبر قرآن۱/ ۵۷۱) 

۶۵۳؎  اس صندوق کے ساتھ بنی اسرائیل کو غیر معمولی عقیدت تھی ۔ چنانچہ ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، مشکل کے وقت اور جہاد و قتال کے موقع پر ان کے حوصلے کو قائم رکھنے میں اس کو بڑا دخل تھا۔ ’ فیہ سکینۃ من ربکم ‘ کے الفاظ سے قرآن نے اسی طرف اشارہ کیا ہے ۔

۶۵۴؎  یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور فلستیوں نے غالباً طالوت کے بعض جنگی اقدامات اور ان میں کامیابی سے مرعوب ہو کر اپنے آپ کو جنگ کے خطرے سے بچانے کے لیے اس صندوق کو ایک گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا ۔ یہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان اور بغیر کسی محافظ کے دو ایسی گائیوں کے ذریعے سے جن کے دودھ پیتے بچے گھروں پر روک لیے گئے تھے ، دہنے بائیں مڑے بغیر اپنی منزل پر پہنچ گئی ۔ یہ سب ، ظاہر ہے کہ فرشتوں کی مدد ہی سے ہو سکتا ہے ۔ سموئیل میں اس کی تفصیلات یہ ہیں :

’’اب تم ایک نئی گاڑی بناؤ اور دو دودھ والی گائیں جن کے جوا نہ لگا ہو، لو اور ان گایوں کو گاڑی میں جوتو اور ان کے بچوں کو گھر لوٹا لاؤ اور خداوند کا صندوق لے کر اس گاڑی پر رکھو اور سونے کی چیزوں کو جن کو تم جرم کی قربانی کے طور پر ساتھ کرو گے ، ایک صندوقچہ میں کر کے اس کے پہلو میں رکھ دو اور اسے روانہ کردو کہ چلا جائے اور دیکھنے رہنا ...سو ان لوگوں نے ایسا ہی کیااور دو دودھ والی گائیں لے کر ان کو گاڑی میںجوتا اور ان کے بچوں کو گھر میں بند کر دیا اور خداوند کے صندوق اور سونے کی چُہیوں اور اپنی گلٹیوں کی مورتوں کے صندوقچہ کو گاڑی پر رکھ دیا ۔ ان گایوں نے بیت شمس کا سیدھا راستہ لیا۔ وہ سڑک ہی سڑک ڈکارتی گئیں اور دہنے یا بائیں ہاتھ نہ مڑیں اور فلستی سردار ان کے پیچھے پیچھے بیت شمس کی سرحد تک ان کے ساتھ گئے اور بیت شمس کے لوگ وادی میں گیہوں کی فصل کاٹ رہے تھے ۔ انھوں نے جو آنکھیں اٹھائیں تو صندوق کو دیکھا اور دیکھتے ہی خوش ہو گئے۔‘‘ (۶: ۷۔۱۳)            

۶۵۵؎  یہ صندوق جب فلستیوں نے چھینا تو بنی اسرائیل کے بزرگوں نے اسے اسرائیل کی ساری حشمت کے چھن جانے سے تعبیر کیا اور پوری قوم کم و بیش بیس سال تک اس حادثے کا ماتم کرتی رہی ۔ لہٰذا طالوت کے انتخاب کے خدائی انتخاب ہونے کی اس سے بہتر کوئی علامت نہیں ہو سکتی تھی ۔ پھر اس میں یہ بشارت بھی مضمر تھی کہ بنی اسرائیل نے خدا کی طرف رجوع کیا ہے تو ان کی حشمت بھی اب اللہ کی مدد سے اسی طرح واپس آ جائے گی ، جس طرح صندوق واپس آ گیا ہے ۔

              بائیبل کا بیان اس معاملے میں قرآن سے مختلف ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ فلستیوں نے طالوت کے انتخاب سے بہت پہلے ہی صندوق کو گاڑی میں رکھ کر بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا تھا۔ لیکن اس بیان کی خود بائیبل ہی کے دوسرے بیانات سے تردید ہوتی ہے ۔ استاذ امام کے الفاظ میں ، اگر واقعہ یہی ہے کہ فلستیوں نے سات مہینے کے بعد ہی صندوق کو اس کی کرامات اور اس کے خوارق سے ڈر کر واپس کر دیا تھا تو بائیبل کے اس بیان کے کوئی معنی نہیں رہتے :

’’اور جس دن سے صندوق قریت یعریم میں رہا ، تب سے ایک مدت ہوگئی ، یعنی بیس برس گزرے اور اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کرتا رہا ۔ ‘‘ (سموئیل ۷: ۲)

              وہ لکھتے ہیں :

’’سوال یہ ہے کہ قریت یعریم اگر بنی اسرائیل ہی کے علاقے میں شامل تھا اور تابوت انھی کی حفاظت میں تھا تو بیس برس تک اسرائیل کا سارا گھرانا خداوند کے پیچھے نوحہ کیوں کرتا رہا ؟ اور اس ’’خداوند کے پیچھے ‘‘ کے الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟

اصل یہ ہے کہ سموئیل میں یہود نے متضاد روایات کا اتنا انبار لگا دیا ہے کہ اس کے اندر حق و باطل کا امتیاز ناممکن ہے ۔ یہ قرآن کا احسان ہے کہ اس نے بعض واقعات کے صحیح پہلو نمایاں کیے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۷۶)

[باقی]

ــــــــــــــــــ

B