[اس روایت کی ترتیب و تدوین اور شرح و وضاحت جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی میں اُن کے رفقا معزا مجد ، منظور الحسن ، محمد اسلم نجمی اور کوکب شہزاد نے کی ہے ۔]
روی ۱ انہ قال عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنھما: حدثنی ابی عمر بن الخطاب قال بینما نحن عند رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم. ۲ اذ طلع علینا رجل ۳ شدید بیاض الثیاب شدید سواد الشعر. لا یری علیہ أثر السفر ولا یعرفہ منا احد. ۴ حتی جلس الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم. فاسند رکبتیہ الی رکبتیہ ووضع کفیہ علی فخذیہ. ۵ وقال : یا محمد اخبرنی عن الاسلام ؟ ۶ فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : الاسلام ان تشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا رسول اللّٰہ و تقیم الصلاۃ و توتی الزکاۃ وتصوم رمضان و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا. ۷ قال : صدقت. ۸ قال (عمر): فعجبنا لہ یسالہ و یصدقہ.
قال : فاخبرنی عن الایمان ؟ قال : ان تؤمن باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاخر وتومن بالقدر خیرہ و شرہ. ۹ قال : صدقت.
قال : فاخبرنی عن الاحسان ؟ قال : ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک. ۱۰
قال : فاخبرنی عن الساعۃ ؟ قال : ما المسؤل عنھا باعلم من السائل. ۱۱ قال : فاخبرنی عن امارتھا؟ قال : ان تلد الامۃ ربتھا وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ رعاء الشاء یتطاولون فی البنیان. ۱۲
قال (عمر) : ثم انطلق فلبثت ملیا. ۱۳ ثم قال لی : یا عمر ، اتدری من السائل ؟ قلت : اللّٰہ و رسولہ اعلم. قال : فانہ جبریل اتاکم یعلمکم دینکم.
روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایاکہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ۔ (ہم نے دیکھا کہ ) اس دوران میں ایک ایساشخص نمودار ہواجس کے کپڑے نہایت اجلے اور بال نہایت سیاہ تھے ۔ نہ اس پر سفر کے کوئی آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا ۔ (وہ آگے بڑھا) یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پاس آ کر بیٹھ گیا۔پھر اس نے اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملادیے او راپنے ہاتھ اپنے زانووں پر رکھ لیے او ر آپ سے پوچھا: اے محمد ، مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اوربیت اللہ کا حج کرو، اگر تم اس کی استطاعت رکھتے ہو۔ ۱ ا س نے (یہ جواب سنا تو) کہا: آپ نے بالکل درست فرمایا ہے ۔ سیدنا عمرکا بیان ہے کہ ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ پوچھ بھی رہا ہے اور خود ہی (آپ کے جواب کی) تصدیق بھی کر رہا ہے۔
اس نے پھر سوال کیا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے؟ آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو مانو اور اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانو، اور آخرت کے دن کو مانو، ۲ اور اس بات کو مانو کہ اچھے اور برے حالات اللہ پروردگار عالم ہی کی طرف سے ہوتے ہیں ۔ ۳ (اس پر بھی ) اس نے کہا: آپ نے بالکل درست فرمایا ہے۔
پھر پوچھا: احسان کے بارے میں بتائیے؟ آپ نے جواب دیا : یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ ر ہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو (کیا ہوا)، وہ توبہرحال تمھیں دیکھ رہا ہے۔ ۴
اس نے پوچھا: یہ بتائیے کہ قیامت کب آئے گی ؟آ پ نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ ۵ اس نے کہا: (اچھا)، اس کی علامتیں۶ ہی بیان کر دیجیے۔ آپ نے فرمایا:لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی ۷ اور تم(عرب کے) ان ننگے پاؤں، ننگے بدن بکریاں چرانے والے غریب چرواہوں کو دیکھو گے کہ عالی شان عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ۸
عمر کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیااور میں اس کے بعد بھی کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھا رہا ۔ پھر آپ نے فرمایا: عمر، جانتے ہو، یہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: یہ جبریل امین تھے ۹ جو تمھیں تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔
[۱] ’’ اسلام‘‘ کا لفظ جس طرح پورے دین کے لیے استعمال ہوتا ہے، اسی طرح دین کے ظاہر کو بھی بعض اوقات اسی لفظ اسلام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اپنے ظاہر کے لحاظ سے یہ انھی پانچ چیزوں سے عبارت ہے ۔ یعنی توحید و رسالت کی شہادت دینا، نمازقائم کرنا، زکوٰۃادا کرنا،رمضان کے روزے رکھنا اور بیت الحرام کا حج کرنا۔
[۲] ’’ایمان‘‘دین کا باطن ہے ۔ یہ انھی پانچ چیزوں سے عبارت ہے۔ یعنی اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، نبیوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان اور روز جزا پر ایمان۔ ایمان کے یہ اجزاقرآن میں اس طریقے سے بیان ہوئے ہیں:
’’رسول اس چیز پر ایمان لایا جو اس کے پروردگار کی طرف سے اس پر اتاری گئی اور اس کے ماننے والے بھی۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اُس کے فرشتوں پر ، اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں پر۔ ان کا اقرار ہے کہ ہم اُس کے پیغمبروں میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے اور (اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قیامت میں ہم سب کو) تیری ہی طرف پلٹنا ہے ۔‘‘ (البقرہ۲: ۲۸۵)
[۳] ’’ تقدیر کے خیروشر پر ایمان‘‘ ایمان باللہ ہی کی ایک فرع ہے۔
[۴] ’’احسان ‘‘کے معنی کسی کام کو اس کے بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں ۔ دین میں جب کوئی عمل اس طرح کیا جائے کہ اس کی روح اور قالب ، دونوں پورے توازن کے ساتھ پیش نظر ہوں، اس کا ہر جز بہ تمام و کمال ملحوظ رہے اور اس کے دوران میں آدمی اپنے آپ کو خدا کے حضور میں سمجھے تو اسے احسان کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور اس سے بہتر دین کس شخص کا ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے، اس طرح کہ وہ ’’احسان‘‘ اختیار کرے اور ملت ابراہیم کی پیروی کرے جو بالکل یک سو تھا ۔‘‘ (النسا۴: ۱۲۵)
[۵] یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے وقت کے بارے میں اپنی لا علمی کا اظہار کیا ہے۔ جبرئیل علیہ السلام کا قیامت کے وقت کے بارے میں سوال اسی مقصد سے ہو سکتا ہے کہ وہ لوگوں پر یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس علم غیب سے پیغمبر بھی آگاہ نہیں ہیں۔ قرآن میں کئی مقامات پر اس بات کی وضاحت کی گئی ہے۔ سورۂ اعراف میں ہے:
’’وہ تم سے قیامت کے باب میں سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا ؟ کہہ دو کہ اس کا علم تو بس میرے رب ہی کے پاس ہے ۔ وہی اس کے وقت پر اس کو ظاہر کرے گا ۔ آسمان و زمین اس سے بوجھل ہیں ، وہ تم پر بس اچانک ہی آ دھمکے گی۔ وہ تم سے پوچھتے ہیں گویا تم اس کی تحقیق کیے بیٹھے ہو ۔ کہہ دو ، ا س کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے ، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے ۔ کہہ دو ، میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع و نقصان پر کوئی اختیار نہیں رکھتا ، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو خیر کا بڑا خزانہ جمع کر لیتا او رمجھے کوئی گزند نہ پہنچ پاتا۔ میں تو بس ان لوگوں کے لیے ایک ہوشیار کرنے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں جو ایمان لائیں۔‘‘ (۷ : ۱۸۴۔۱۸۸)
[۶] یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی علامتوں میں سے دو بیان فرمائی ہیں۔ قرآن و حدیث میں ان کے علاوہ بعض دوسری علامتیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض امورمتشابہات میں سے ہیں اوربعض مجازی اور تمثیلی اسلوب میں بیان ہوئی ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں یہ دو باتیں واضح رہنی چاہییں۔ ایک یہ کہ ان کے اطلاق کے بارے میں قیاس تو کیا جا سکتا ہے، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور دوسرے یہ کہ ان کے علم سے دین و ایمان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔
[۷] یہ غلامی کے خاتمے کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ گویا غلامی کے بطن سے آزادی جنم لے گی۔یعنی قیامت کے قریب یہ واقعہ رونما ہو گا کہ لونڈیوں سے جنم لینے والے بچے آزاد ہوں گے۔ یہ واقعہ ظہور پزیر ہو چکا ہے ۔ ۲۵ ستمبر ۱۹۲۶ کو لیگ آف نیشنزکے زیر اہتمام دنیا کی تمام اقوام نے غلامی کے خاتمے کی قرار داد پر دستخط کیے ۔ اس موقع پر انھوں نے یہ طے کیا کہ اب دنیا میں انسان پر انسان کی ملکیت کا حق یکسر ختم ہو جائے گا ۔
[۸] یعنی عرب میں دولت و ثروت کا یہ عالم ہو گا کہ اس زمانے کے یہ بے سروسامان اور خانہ بدوش اہل بدو عظیم الشان عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مگن ہوں گے۔ یہ واقعہ بھی حال ہی میں رونما ہوا ہے ۔ عرب میں تیل نکلنے سے وہاں دولت کی بے پناہ فراوانی ہوئی ۔ اہل بدو نے چراگاہوں سے اٹھ کر جدید ترین شہر آباد کر دیے اور دنیا نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جو لوگ خیموں میں بس رہے تھے ، یک بہ یک فلک بوس عمارتوں میں منتقل ہو گئے ہیں اور فی الواقع بلند و بالا عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے میں کوشاں ہیں ۔
[۹] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریل امین اللہ کا پیغام لے کر بشری صورت میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔
ا۔ اپنی اصل کے اعتبار سے یہ مسلم کی روایت ، رقم ۸ ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ یہ حسب ذیل مقامات پر نقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۴۸، ۴۴۰۴۔ مسلم ، رقم ۹، ۱۰، ۱۱۔ ترمذی ، رقم ۲۵۳۵۔ نسائی ، رقم۴۹۰۴، ۴۹۰۵۔ ابو داؤد، رقم ۴۰۷۵۔ ابن ماجہ ، رقم ۶۲، ۶۳ ۔ احمد ابن حنبل ، رقم ۱۷۹، ۳۴۶، ۳۵۲، ۲۷۷۵، ۵۵۹۲، ۹۱۳۷، ۱۶۵۴۱، ۱۶۸۵۱۔ ابن حبان ، رقم ۱۵۹، ۱۶۸، ۱۷۳۔ ابن خزیمہ، رقم ۲۲۴۴، ۲۵۰۴۔ مسند ابو حنیفہ۱/۱۵۲ ۔ بہیقی ، رقم ۸۳۹۳ ، ۲۰۶۶۰ ۔ دارقطنی، رقم ۴۹۔ بن ابی شیبہ ، رقم ۳۰۳۰۹، ۳۷۵۵۷، ۳۷۵۵۸ ا۔
۲۔ بعض روایات مثلاً مسلم ، رقم ۱۰ میں راوی نے بات ان الفاظ سے شروع کی ہے: ’ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سلونی فھابوہ ان یسئلوہ فجاء رجل فجلس عند رکبتیہ...‘ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ (دینی امور کے بارے میں) سوال کریں۔مگر لوگ سوال کرنے سے خائف تھے ۔ اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور آپ کے زانووں کے پاس آ کر بیٹھ گیا...)۔
۳۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں ’اذ طلع علینا رجل‘ (ہمارے سامنے ایک شخص نمودار ہوا) کی جگہ ’اذ اتاہ رجل یمشی‘ (ایک شخص چلتا ہوا آپ کے پاس آیا) کے الفاظ آئے ہیں۔جبکہ بعض روایات مثلاً بخاری ، رقم ۵۰ میں ’فاتاہ جبریل فقال‘ (توجبریل آئے اور انھوں نے کہا) کے الفاظ آئے ہیں۔
احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷ میں یہ بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’جاء جبریل علیہ السلام فی غیر صورتہ یحسبہ رجلاً من المسلمین‘ ( جبریل علیہ السلام اپنی اصل صورت پر نہیں آئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ وہ مسلمانوں ہی سے کوئی فرد ہیں)۔
۴۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں یہ الفاظ نقل نہیں ہوئے ہیں: ’رجل شدید بیاض الثیاب شدید سواد الشعر. لا یری علیہ أثر السفر ولا یعرفہ منا احد.‘ (ایک شخص جس کے کپڑے نہایت اجلے اور بال نہایت سیاہ تھے ۔ نہ اس پر سفر کے کوئی آثار نظر آ رہے تھے اور نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا ) ۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ یہ اوصاف ان الفاظ میں نقل ہوئے ہیں: ’اقبل رجل احسن الناس وجھا و اطیب الناس ریحا کان ثیابہ لم یمسھا دنس.‘ (ایک نہایت خوب صورت چہرے والا اور بہترین خوشبو والا شخص آیا۔ اس کا لباس اس قدر سفید تھا کہ اسے میل نے چھوا تک نہیں تھا)۔
بعض روایات مثلاً ابن ماجہ، رقم ۶۳ میں ’شدید سواد الشعر‘ ( بال نہایت سیاہ تھے) کے بجائے ’شدید سواد شعر الراس‘ (سر کے نہایت سیاہ بال) کے الفاظ آئے ہیں۔
احمد ابن حنبل، رقم ۱۸۴ میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’جاء ہ رجل یمشی حسن الوجہ حسن الشعر علیہ ثیاب بیاض فنظر القوم بعضھم الی بعض ما نعرف ھذا وما ھذا بصاحب سفر.‘ (ایک آدمی چلتا ہوا آیا جس کا چہرہ اور بال نہایت خوب صورت تھے اور اس نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ (وہ کہہ رہے تھے کہ) نہ ہم میں سے اسے کوئی جانتا تھا اور نہ وہ مسافر معلوم ہوتا تھا)۔
۵۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں ’جلس الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم . فاسند رکبتیہ الی رکبتیہ ووضع کفیہ علی فخذیہ.‘ (وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پاس آ کر بیٹھ گیا۔پھر اس نے اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملادیے او راپنے ہاتھ اپنے زانووں پر رکھ لیے) کے الفاظ نقل نہیں ہوئے۔ جبکہ بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۲۶۱۰ میں ان کے بجائے ’فالزق رکبتہ برکبتہ‘ (اس نے اپنا زانو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زانو سے جوڑ دیا) کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہونے کی اجازت طلب کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ آپ کے بالکل قریب ہو گیا۔ الفاظ یہ ہیں: ’سلم فی طرف البساط، فقال: السلام علیک، یا محمد، فرد علیہ السلام. فقال: ادنو، یا محمد؟ قال: ادنہ. فما زال یقول ادنو مرارا، و یقول لہ ادن حتی وضع یدہ علی رکبتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.‘ ( اس نے مجلس کے کونے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہوئے کہا: السلام علیکم اے محمد۔ آپ نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ پھر اس نے پوچھا: اے محمد کیا میں آپ کے قریب ہو سکتا ہوں؟ آپ نے اسے قریب ہونے کی اجازت دی۔ مگر وہ بار بار قریب ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے اور ہر بار آپ اسے اجازت دیتے رہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زانووں پر رکھ دیے)۔
اس کے برعکس احمد ابن حنبل، رقم ۳۷۴ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس شخص کو قریب ہونے کا حکم دیا۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ادنہ. فدنا. فقال : ادنہ. فدنا. فقال: ادنہ. فدنا حتی کاد رکبتاہ تمسان رکبتیہ.‘ ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ وہ قریب ہو۔ وہ قریب ہو گیا۔ آپ نے پھر فرمایاکہ قریب ہو۔ وہ اور قریب ہو گیا۔ آپ نے ایک مرتبہ پھر فرمایا کہ قریب ہو۔ اس پر وہ اتنا قریب ہو گیا کہ اس کے زانو آپ کے زانووں کو چھونے لگے)۔ جبکہ احمد ابن حنبل ہی کی روایت رقم ۱۸۴ کے مطابق حضرت جبرئیل نے ان الفاظ میں آپ سے قریب ہونے کی اجازت طلب کی: ’یا رسول اللّٰہ، آتیک؟‘ (اے اللہ کے رسول، کیا میں آپ کے قریب آ جاؤں) ؟
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’وضع یدہ علی رکبتی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم.‘ (اس نے اپنے ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زانووں پر رکھے)۔ تاہم یہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بعد کے بعض راویوں نے غلط فہمی سے ’وضع کفیہ علی فخذیہ‘ (اس نے اپنے ہاتھ اپنے زانووں پر رکھے ) میں ضمیروں کو خلط ملط کر دیا ہے ۔
۶۔ بعض روایات میں پہلے دو سوالوں کی ترتیب مختلف ہے۔ مثال کے طور پر بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں سوال کرنے والے نے پہلے ایمان اور پھر اسلام کے بارے میں سوال کیا ہے۔ اسی طرح سوال کے الفاظ میں بھی کچھ فرق ہے۔ مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں سوالات کا اسلوب یہ ہے: ’ما الایمان؟‘ (ایمان کیا ہے)؟ ’ما الاسلام؟‘ (اسلام کیا ہے؟) ’ما الاحسان؟‘ (احسان کیا ہے)؟ ’متی الساعۃ؟‘ ( قیامت کب آئے گی) ؟جبکہ احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶میں سوالوں کا اسلوب یہ ہے: ’حدثنی ما الایمان؟‘ (مجھے بیان فرمائیے کہ ایمان کیا ہے) ؟’حدثنی ما الاسلام؟‘ (مجھے بیان فرمائیے کہ اسلام کیا ہے) ؟’حدثنی ما الاحسان؟‘ (مجھے بیان فرمائیے کہ احسان کیا ہے)؟ ’حدثنی متی الساعۃ؟‘ (مجھے بیان فرمائیے کہ قیامت کب آئے گی)؟
۷۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں اسلام کے بارے میں سوال کا جواب ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’ان تعبد اللّٰہ ولا تشرک بہ شیئا وتقیم الصلاۃ و تؤتی الزکاۃ المفروضۃ وتصوم رمضان‘ (یہ کہ تم اللہ کی عبادت کرواور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو) ۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۹ میں’ وتقیم الصلاۃ‘ (نماز قائم کرو) کی جگہ ’ وتقیم الصلاۃ المکتوبۃ‘ (فرض نماز قائم کرو) کے الفاظ آئے ہیں، اور ’وتودی الزکاۃ‘ (اور زکوٰۃ ادا کرو) کا جملہ ’وتودی الزکاۃ المفروضۃ‘ (اور فرض زکوٰۃ ادا کرو) کی صورت میں روایت ہوا ہے۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۹ میں ’و تحج البیت ان استطعت الیہ سبیلا ‘(اوربیت اللہ کا حج کرو، اگر تم اس کے لیے سفر کی استطاعت رکھتے ہو) کے الفاظ نقل نہیں ہوئے۔ جبکہ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم۴۹۹۱ میں ’ان استطعت الیہ سبیلا ‘ (اگر تم اس کے لیے سفر کی استطاعت رکھتے ہو) کے الفاظ درج نہیں ہیں۔جبکہ کچھ روایات مثلاً بیہقی، رقم ۲۰۶۶۰ میں یہی بات ان الفاظ میں آئی ہے: ’ان استطعت السبیل‘ (اگر تم اس کے لیے سفر کی استطاعت رکھتے ہو) ۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۰میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:’لا تشرک باللّٰہ شیئا وتقیم الصلاۃ وتؤتی الزکوٰۃ وتصوم رمضان‘ (اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو)۔
بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۲۶۱۰میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’شھادۃ ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ ورسولہ واقام الصلاۃ وایتا الزکاۃ وحج البیت وصوم رمضان‘ (اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنااور بیت اللہ کا حج اور رمضان کے روزے)۔
بعض روایات مثلاً ابن ماجہ، رقم ۶۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’ شہادۃ ان لا الہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ‘ (اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں)۔
ابو داؤد، رقم ۴۶۹۷میں اضافی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ بھی روایت ہوئے ہیں: ’الاغتسال من الجنابۃ‘ (غسل جنابت)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۳۷۴میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’اقام الصلاۃ وایتا الزکاۃ وحج البیت وصیام شہر رمضان وغسل من الجنابۃ کل ذلک‘ (نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور بیت اللہ کا حج اور ماہ رمضان کے روزے اور غسل جنابت، یہ سب کچھ اسلام ہے)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶ میں یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’الاسلام ان تسلم وجھک للّٰہ وان تشہد لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ‘ (اسلام یہ ہے کہ تو اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور یہ کہ تو شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہٰ نہیں ہے اور وہ تنہا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں)۔
ابن حبان، رقم ۱۷۳میں یہ الفاظ اضافی طور پر نقل ہوئے ہیں:’وتعتمر وتغسل من الجنابت و ان تتم الوضوء‘ (اور تو عمرہ ادا کرے اور غسل جنابت کرے اور یہ کہ وضو کرے)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۳۷۴ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب سننے کے بعد سوال کرنے والے نے جس اسلوب میں توثیق کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت تعظیم کے ساتھ آپ سے مخاطب ہو رہا تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’قال القوم ما رأینا رجلا أشد توقیرا لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من ھذا، کانہ یعلم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘ ( لوگوں نے کہا کہ ہم نے اس شخص سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔گویا کہ وہ آپ کو پوری طرح جانتا تھا)۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے بعد یہ مکالمہ نقل ہوا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: ’اذا فعلت ذلک فقد اسلمت؟‘ (اگر میں یہ کروں تو کیا میرا اسلام مکمل ہو گیا)؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’نعم‘ (ہاں) ۔ احمد ابن حنبل ، رقم ۲۹۲۶ کے مطابق اس موقع پر جبرئیل علیہ السلام کا سوال ان الفاظ میں تھا: ’فاذا فعلت ذلک فانا مسلم؟‘ (اگر میں یہ کروں تو کیا میں مسلمان ہو جاؤں گا)؟ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے الفاظ یہ تھے:’اذا فعلت ذلک فقد اسلمت؟‘ (اگر تو یہ کرے گا تو تو اسلام میں داخل ہو جائے گا)؟
۸۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۹ میں سوال کرنے والے کی طرف سے ’صدقت‘ (آپ نے بالکل درست فرمایا) کے تصدیقی الفاظ نقل نہیں ہوئے۔
۹۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں ایمان کے بارے میں سوال کا جواب ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’ان تومن باللّٰہ و ملائکتہ وکتبہ ورسلہ ولقاۂ وتؤمن بالبعث الاخر‘ (اور یہ کہ تو ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس سے ملنے پر اور آخرت میں زندہ ہونے پر) یہاں ’بالقدر خیرہ و شرہ‘(تقدیر کے خیر و شر پر) کے الفاظ نقل نہیں ہوئے، جبکہ ’ولقاۂ‘ (اور اس سے ملنے پر) کے الفاظ اضافی طور پر نقل ہوئے ہیں۔ بعض روایتوں مثلاً بخاری، رقم ۵۰ میں ’بالبعث الاٰخر‘ (آخرت میں زندہ ہونے پر) کے الفاظ ’الاخر‘ (آخرت )کے لفظ کے بغیر نقل ہوئے ہیں ۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم۹ میں ’کتبہ‘ (اس کی کتابوں) کے بجائے ’کتابہ‘ (اس کی کتاب) کے الفاظ آئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۰ میں ’وتؤمن بالقدر خیرہ و شرہ‘(اور تو اچھے اور برے حالات کے اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان لائے) کے الفاظ اس طریقے سے روایت ہوئے ہیں: ’وتؤمن بالقدر کلہ‘(اور تو تقدیر کے ہر معاملے پر ایمان لائے)۔ جبکہ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۰ میں اس بات کے لیے ’ولقدر خیرہ وشرہ حلوہ ومرہ‘ (اور تقدیر کے خیر و شر اور تلخ و شیریں پر) کا جملہ نقل ہوا ہے۔ اس کے برعکس بعض روایات مثلاً ابن حبان، رقم ۱۵۹ میں ’والقدر خیرہ و شرہ‘ (اور تقدیر کا خیر و شر)کے الفاظ نقل نہیں ہوئے۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۱۸۴ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’ان تؤمن باللّٰہ وملائکتہ والجنۃ والنار والبعث بعد الموت والقدر کلہ‘ (یہ کہ تو ایمان لائے اللہ پر اور فرشتوں پر اور جنت ودوزخ پر اور مرنے کے بعد اٹھنے پر اور تقدیر کے ہر معاملے پر)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں: ’الایمان ان تؤمن باللّٰہ والیوم الاخر والملائکۃ والکتاب والنبیین ، وتؤمن بالموت وبالحیاۃ بعد الموت ، وتؤمن بالجنۃ والنار والحساب والمیزان ، وتومن بالقدر کلہ خیرہ و شرہ‘(ایمان یہ ہے کہ تو ایمان لائے اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر اور ایمان لائے موت پر اور موت کے بعد زندگی پر اور ایمان لائے جنت و دوزخ پر اور حساب اور میزان پر اور ایمان لائے اچھے اور برے حالات کے اللہ کی طرف سے ہونے پر)۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے بعد جبرئیل علیہ السلام سے یہ سوال بھی نقل ہوا ہے: ’اذا فعلت ذلک فقد امنت؟‘(جب میں یہ کروں گا توکیا میرا ایمان مکمل ہو گیا)؟ اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ’نعم‘ (ہاں) کا لفظ روایت ہوا ہے۔ جبکہ احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶ میں ’اذا فعلت ذلک فقد امنت‘ (جب تو یہ کرے گا تو ایمان اختیار کرے گا) کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح احمد ابن حنبل، رقم ۵۸۵۶ میں ’فاذا فعلت ذلک فانا مومن؟‘ (جب میں یہ کروں گا تو کیا مومن ہوں گا)؟ کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
۱۰۔ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۹ میں احسان کے بارے میں سوال کا جواب ان الفاظ میں نقل ہوا ہے: ’ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ ، فانک ان لا تراہ ، فانہ یراک.‘ ( یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ ر ہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو (کیا ہوا)، وہ توبہرحال تمھیں دیکھ رہا ہے)۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۰ میں یہ بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’تخشی اللّٰہ ، کانک تراہ ، فانک ان لا تکن تراہ ، فانہ یراک.‘ (تم اللہ سے اس طرح ڈرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو بہرحال تمھیں دیکھ رہا ہے)۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۱۸۴ میں اس ضمن میں ’ ان تعمل للّٰہ ، کانک تراہ ، فان لم تکن تراہ ، فانہ یراک‘.(تم اللہ کے لیے اس طرح عمل کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو بہرحال تمھیں دیکھ رہا ہے۔) یہی جواب احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶میں ’فان لم تراہ‘ ( اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے) کے الفاظ کے بغیر نقل ہوا ہے۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ روایت ہوئے ہیں: ’ان تعبد اللّٰہ ، کانک تراہ ، فانک ان کنت لا تراہ ، فھو یراک.‘ ( یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ ر ہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو (کیا ہوا)، وہ توبہرحال تمھیں دیکھ رہا ہے)۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۵۸۵۶ میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’تخشی اللّٰہ تعالیٰ ، کانک تراہ ، فان لا تک تراہ فانہ یراک.‘ (تم اللہ سے اس طرح ڈرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اس لیے کہ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے)۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۵۸۵۶ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کے بعد یہ مکالمہ نقل ہوا ہے کہ جبرئیل علیہ السلام نے پوچھا: ’فاذا فعلت ذلک ، فانا محسن؟‘ (اگر میں یہ کروں تو کیا میں محسن ہو جاؤں گا)؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’نعم‘(ہاں) ۔ معمولی فرق کے ساتھ احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷میں یہ سوال اس طرح نقل ہوا ہے: ’فاذا فعلت ذلک، فقد احسنت؟‘ (اگر میں نے ایسا کیا تو کیا میں نے احسان اختیار کیا) ؟
۱۱۔ بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۵۸۵۶ میں قیامت اور اس کی علامات کے بارے میں سوال نقل ہی نہیں ہوا۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ کے مطابق جب جبرئیل علیہ السلام نے قیامت کے وقت کے بارے میں سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا۔انھوں نے دوبارہ پوچھا تو آپ نے پھر بھی جواب نہ دیا ۔ پھر تیسری مرتبہ انھوں نے اپنا سوال دہرایا تواس بار بھی آپ خاموش رہے۔ بالآخر آپ نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’قال : یا محمد، اخبرنی متی الساعۃ؟ قال: فنکس، فلم یجبہ شیئا، ثم اعاد فلم یجبہ شیئا، ثم اعاد فلم یجبہ شیئا، ورفع راسہ، فقال : ماالمسؤل عنھا باعلم من السائل.‘ (اس نے پوچھا: اے محمد، مجھے بتائیے کہ قیامت کب آئے گی؟ راوی کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے سوال دہرایا تو آپ پھر خاموش رہے۔ اس نے پھر پوچھا تو اس بار بھی آپ خاموش رہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶ کے مطابق قیامت کے بارے میں سوال کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ یہ تھے: ’سبحان اللّٰہ، فی خمس من الغیب، لا یعلمھن الا ھو، ان اللّٰہ عندہ علم الساعۃ، ویترل الغیث ویعلم ما فی الارحام، وما تدری نفس ماذا تکسب غدا، وما تدری نفس بای ارض تموت، ان اللّٰہ علیم خبیر.‘ (اللہ ہر خطا سے پاک ہے۔ غیب کی ان پانچ چیزوں کے بارے میں وہ جانتا ہے۔ بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے (اور کوئی نہیں جانتا کہ کب برسائے گا) اور جو کچھ رحموں میں ہے اُسے جانتا ہے (اور تم میں سے کوئی اُس سے واقف نہیں ہوتا) اور کوئی نہیں جانتا کہ اس نے اگلے روز کیا کمانا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس نے کس جگہ مرنا ہے۔ بے شک، اللہ علیم و خبیر ہے)۔
۱۲۔ بخاری، رقم ۴۴۹۹ کے مطابق قیامت کی علامات کے بارے میں سوال ہی نہیں کیا گیا ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے از خود علامات قیامت بھی بیان فرما دیں۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں پہلی علامت اس طرح بیان ہوئی ہے: ’اذا ولدت المراۃ ربتھا فذاک من اشراطھا،‘ (جب یہ عورت اپنی مالکہ کو جن دے گی تو یہ اس کی علامات میں سے ہے)۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۰ میں یہ بات ’اذا ولدت الامۃ ربھا‘ (جب لونڈی اپنے مالک کو جن دے گی) کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ بعض روایات مثلاً مسلم،رقم ۱۰ میں ’اذا رایت المراۃ تلد ربتھا‘(جب تو دیکھے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے) کا جملہ درج ہے ، جبکہ احمد ابن حنبل، رقم ۱۸۴ میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:’وولدت الاماء رباتھن.‘ (اور یہ لونڈیاں اپنی مالکاؤں کو جنیں گی)۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ میں دوسری علامت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’کان الحفاۃ العراۃ رؤوس الناس فذاک من اشراطھا.‘ (اور تم ان ننگے پاؤں، ننگے بدن والوں کو لوگوں کے حکمران دیکھو گے) ۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۵۰ میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’واذا تطاول رعاۃ الابل البھم فی البنیان.‘ (اور جب تم اونٹوں کے ان گونگے چرواہوں کو دیکھو گے کہ عالی شان عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں)۔
احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷ میں اس سلسلے میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’ویطول اھل البنیان بالبنیان، وکان العالۃ الجفاۃ روؤس الناس.‘ (عمارتیں بنانے والے عالی شان عمارتیں بنائیں گے اور یہ مفلس اور گنوار افراد لوگوں کے حکمران ہوں گے)۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۹ میں دو کے بجائے تین علامتیں بیان ہوئی ہیں۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’اذا ولدت الامۃ ربھا ، فذاک من اشراطھا ، واذا کانت العراۃ الحفاۃ رؤوس الناس ، فذاک من اشراطھا ، واذا تطاول رعاء البھم فی البنیان ، فذاک من اشراطھا۔‘(جب لونڈی اپنے مالک کو جن دے گی تو یہ اس کی علامات میں سے ہے۔ اور جب یہ ننگے بدن اور ننگے پاؤں والے افراد لوگوں کے حکمران ہوں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے اور جب مویشیوں کے چرواہے عالی شان عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گے تو یہ اس کی علامات میں سے ہے)۔
مسلم ، رقم۱۰ میں بھی یہی اسلوب بیان ہے، تاہم وہاں دوسری علامت کے لیے ’واذا رایت الحفاۃ العراۃ الصم البکم ملوک الارض‘ (اور جب تم ان ننگے پاؤں، ننگے بدن والے گونگے اور بہرے لوگوں کو زمین کے حکمران دیکھو گے) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶ میں ’الحفاۃ العراۃ العالۃ‘ (ننگے پاؤں ننگے بدن والے غریب) کے ساتھ ’الجیاع‘ (بھوکے) کا لفظ بھی آیا ہے۔ جبکہ احمد ابن حنبل، رقم ۹۴۹۷ میں لفظ ’الجفاۃ‘ (گنوار) کا اضافہ ہے۔
احمد ابن حنبل، رقم ۲۹۲۶میں سوال کرنے والے کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’یا رسول اللّٰہ ومن اصحاب الشاء والحفاۃ والجیاع العالۃ؟‘ ( اے اللہ کے رسول یہ چرواہے، یہ ننگے پاؤں والے بھوکے کون ہیں)؟ اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ’العرب‘ (عرب) کا لفظ نقل ہوا ہے۔ جبکہ احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷ میں اس مقام پر ’العریب‘ (عرب) کا لفظ درج ہے۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ میں ان علامات کی ترتیب مختلف ہے۔
احمد ابن حنبل، رقم ۱۷۲۰۷ کے مطابق جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کرنے والے کو یہ بتایا کہ قیامت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے سوال کرنے والے ہی نے قیامت کی بعض علامات سے آگاہ کیا:
یا رسول اللّٰہ، ان شئت حدثتک بعلامتین تکونان قبلھا. فقال: حدثنی. فقال: اذا رایت الامۃ تلد ربھا، ویطول اھل البنیان بالبنیان، وعاد العالۃ الحفاۃ روؤس الناس. قال: ومن اولئک یا رسول اللّٰہ؟ قال: العریب.
’’اے اللہ کے رسول، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو دو ایسی علامتیں بتاؤں جو قیامت سے پہلے ظاہر ہوں گی۔ آپ نے فرمایا: ہاں مجھے بتائیں۔ اس نے کہا: جب آپ دیکھیں کہ لونڈی نے اپنے مالک کو جنا ہے اور عمارتیں بنانے والے عالی شان عمارتیں بنا رہے ہیں اور یہ گنوار اور ننگے پاؤں والے افراد لوگوں کے حکمران ہو گئے ہیں۔ کسی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے جواب دیا: عرب‘‘۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹میں قیامت کی علامات نقل کرنے کے بعد راوی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت واضح کیے بغیر یہ جملہ نقل کیا ہے: ’فی خمس لا یعلمھن الا اللّٰہ، ان اللّٰہ عندہ علم الساعۃ، ویترل الغیث ویعلم ما فی الارحام‘ ( ان پانچ چیزوں کے بارے میں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بے شک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہ بارش برساتا ہے (اور کوئی نہیں جانتا کہ کب برسادے گا) اور جو کچھ رحموں میں ہے ، اسے جانتا ہے (اور تم میں سے کوئی اس سے واقف نہیں ہوتا) ۔ تاہم بعض روایات مثلاً بخاری ، رقم ۵۰ میں یہ الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے منسوب کیے گئے ہیں۔ مسلم، رقم ۹ میں اس بات پر ان الفاظ کا اضافہ بھی موجود ہے: ’وما تدری نفس ماذا تکسب غدا، وما تدری نفس بای ارض تموت‘ (کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس نے اگلے روز کیا کمانا ہے اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس نے کس جگہ مرنا ہے)۔
۱۳۔ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ کے مطابق آنے والے شخص نے رخصت ہونے سے پہلے یہ الفاظ کہے: ’لا، والذی بعث محمدا بالحق ھدی و بشیرا، ما کنت باعلم بہ من رجل منکم‘ (نہیں ، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ رہنما اور بشارت دینے والا بنا کر بھیجا، میں اس کے بارے میں تم میں سے کسی شخص سے زیادہ واقف نہیں ہوں)۔
بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۲۶۱۰ میں ’قال: ثم انطلق، فلبثت ملیا ، ثم قال لی: یا عمر اتدری من السائل؟‘ (عمر کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیااور میں اس کے بعد بھی کچھ دیر آپ کے پاس بیٹھا رہا ۔ پھر آپ نے فرمایا: عمر، جانتے ہو، یہ پوچھنے والا کون تھا؟) کے بجائے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:’قال عمر: فلقینی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بعد ذلک بثلاث، فقال: یا عمر ھل تدری من السائل؟‘ (عمر کہتے ہیں: تین روز بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہوئی۔پھر آپ نے فرمایا: عمر، جانتے ہو، یہ پوچھنے والا کون تھا)؟ جبکہ بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۰ میں یہ بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’قال عمر: فلبثت ثلاثا ثم قال لی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : یا عمر ھل تدری من السائل؟‘ (عمر کہتے ہیں: تین روز گزر گئے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: عمر، جانتے ہو، یہ پوچھنے والا کون تھا)؟
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۴۴۹۹ کے مطابق اس شخص کے چلے جانے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ اسے واپس بلا کر لائیں۔ مگر لوگ اسے تلاش نہ کر سکے۔ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو دین کے بعض پہلو سکھانے کے لیے آئے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’ثم انصرف الرجل. فقال: ردوا علی. فاخذوا لیردوا ، فلم یروا شیئا، فقال: ھذا جبریل جاء لیعلم الناسدینھم‘ (پھر وہ شخص چلا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اسے میرے پاس واپس لاؤ۔ لوگ اس کی تلاش میں نکلے، مگر اس کا کوئی نشان نہ پا سکے۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ جبریل امین تھے جو لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔) جبکہ بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۲۶۱۰ میں ’ذاک جبریل اتاکم یعلمکم معالم دینکم.‘ (یہ جبریل امین تھے جو تمھیں دین کے بعض اہم پہلو سمجھانے آئے تھے۔) بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’فانہ جبریل علیہ السلام ، اتاکم لیعلمکم امر دینکم.‘ (یہ جبریل تھے جو تمھارے پاس تمھیں دین کا معاملہ سمجھانے آئے تھے)۔
بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۰ میں نقل ہوا ہے کہ جب لوگ اس شخص کے بغیر آپ کے پاس واپس پہنچے تو آپ نے فرمایا: ’ھذا جبریل اراد ان تعلموا اذا لم تسئلوا.‘ (یہ جبریل تھے ، جب تم سوال نہیں کر رہے تھے تو انھوں نے چاہا کہ تمھیں سکھا دیں) ۔ احمد ابن حنبل، رقم ۱۸۴ میں جبرئیل علیہ السلام کے جانے کے بعد یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’قال: علی الرجل ، فطلبوہ فلم یروا شیئا فمکث یومین او ثلاثۃ.‘ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو میرے پاس واپس لاؤ۔ لوگوں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا، مگر تلاش نہ کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین دن تک انتظار کیا)۔
بعض روایات مثلاً نسائی، رقم ۴۹۹۱ میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جبرئیل علیہ السلام ایک صحابی دحیہ کلبی کی صورت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ اس کے برعکس احمد ابن حنبل کی روایت رقم ۳۷۴ کے الفاظ یہ ہیں: ’ھذا جبریل جاء کم یعلمکم دینکم ما اتانی فی صورۃ الا عرفتہ غیر ھذہ الصورۃ.‘ (یہ جبریل تھے جو تمھیں تمھارا دین سکھانے کے لیے آئے تھے۔ اس موقع کے سوا یہ جس صورت میں بھی آئے ہیں ، میں نے انھیں پہچان لیا ہے)۔
____________