بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ )
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ، فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ، اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ، وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۔{۲۳۰}
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ، وَّلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا، وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ، وَلَا تَتَّخِذُوْآ اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُواً ، وَّاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ، یَعِظُکُمْ بِہٖ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ ، وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ۔ {۲۳۱}
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ ، فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ، ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۔ ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْھَرُ ۔ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔ {۲۳۲}
پھراگر (دو مرتبہ طلاق سے رجوع کے بعد) شوہر نے (اِسی رشتۂ نکاح میں) بیوی کو (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اب وہ اُس کے لیے جائز نہ ہوگی ، جب تک اُس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ لیکن اگر اُس ـ(دوسرے شوہر) نے بھی طلاق دے دی تو پہلے میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ، اگر یہ توقع رکھتے ہوں کہ (اب) وہ حدود الہٰی پر قائم رہ سکیں گے ۔ ۶۱۱ اور یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں جنھیں وہ اُن لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے جو علم حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ ۶۱۲ ۲۳۰
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو اُنھیں بھلے طریقے سے روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو اوراُنھیں نقصان پہنچانے کے ارادے سے ہرگز نہ روکو کہ (اس طرح) اُن پر زیادتی کرو۔ اور (جان لو کہ)جو ایسا کرے گا، وہ اپنی ہی جان پر ظلم ڈھائے گا ۔ اور اللہ کی آیتوں کو مذاق نہ بناؤ ، اور اپنے اوپر اللہ کی عنایت کو یاد رکھو، اور اُس قانون اور حکمت کو یاد رکھو جو اُس نے اتاری ہے ، جس کی وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ ۶۱۳ ۲۳۱
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو اب اِس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے ہونے والے شوہروں سے نکاح کر لیں، جب وہ معاملہ بھی آپس میں دستور کے مطابق طے کریں ۔ یہ نصیحت تم میں سے اُن لوگوں کو کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہی تمھارے لیے زیادہ شایستہ اور زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے ۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ ۶۱۴ ۲۳۲
۶۱۱؎ اس طلاق کے بعد رجوع کا حق تو باقی نہیں رہتا ، لیکن وہی میاں بیوی اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو اس کے لیے قرآن نے یہاں تین شرطیں بیان فرمائی ہیں :
ایک یہ کہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے ۔
دوسری یہ کہ اس سے بھی نباہ نہ ہو سکے اور وہ اسے طلاق دے دے ۔
تیسری یہ کہ وہ دونوں سمجھیں کہ دوبارہ نکاح کے بعد اب وہ حدود الہٰی پر قائم رہ سکیں گے ۔
پہلی اور دوسری شرط میں نکاح سے مراد عقد نکاح اور طلاق سے مراد وہی طلاق ہے جو آدمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا فیصلہ کر لینے کے بعد اپنی بیوی کو دیتا ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’اصل یہ ہے کہ لفظ نکاح شریعت اسلامی کی ایک معروف اصطلاح ہے جس کا اطلاق ایک عورت اور مرد کے اس ازدواجی معاہدے پر ہوتا ہے جو زندگی بھر کے نباہ کے ارادے کے ساتھ زن و شو کی زندگی گزارنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اگر یہ ارادہ کسی نکاح کے اندر نہیں پایا جاتا تو وہ فی الحقیقت نکاح ہی نہیں ہے ، بلکہ وہ ایک سازش ہے جو ایک عورت اور ایک مرد نے باہم مل کر کر لی ہے ۔ نکاح کے ساتھ شریعت نے طلاق کی جو گنجایش رکھی ہے تو وہ اصل اسکیم کا کوئی جزو نہیں ہے ، بلکہ یہ کسی ناگہانی افتاد کے پیش آ جانے کا ایک مجبورانہ مداوا ہے ۔ اس وجہ سے نکاح کی اصل فطرت یہی ہے کہ وہ زندگی بھر کے سنجوگ کے ارادے کے ساتھ عمل میں آئے ۔ اگر کوئی نکاح واضح طور پر محض ایک معین و مخصوص مدت تک ہی کے لیے ہو تو اس کو متعہ کہتے ہیں او رمتعہ اسلام میں قطعی حرام ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اس نیت سے کسی عورت سے نکاح کرے کہ اس نکاح کے بعد طلاق دے کر وہ اس عورت کو اس کے پہلے شوہر کے لیے جائز ہونے کا حیلہ فراہم کرے تو شریعت کی اصطلاح میں یہ حلالہ ہے اور یہ بھی اسلام میں متعہ ہی کی طرح حرام ہے ۔ جو شخص کسی کی مقصد بر آری کے لیے یہ ذلیل کام کرتا ہے ، وہ درحقیقت ایک قرم ساق یا بھڑوے یا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ’کرایے کے سانڈ‘ کا رول ادا کرتا ہے اور ایسا کرنے والے اور ایسا کروانے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۷)
تیسری شرط اس لیے عائد کی گئی ہے کہ نکاح و طلاق کو لوگ بچوں کا کھیل نہ سمجھیں اور متنبہ رہیں کہ کسی عورت کو طلاق دینی ہے تو خدا سے ڈرتے ہوئے اور نباہ کی کوئی صورت نہ پا کر دی جائے ، اور اس سے نکاح کرنا ہے تو یہ لازماً دل کے سچے ارادے اور سازگاری کی مخلصانہ خواہش کے ساتھ کیا جائے ۔ اس سے مختلف کوئی رویہ اختیار کرنا کسی بندۂ مومن کے لیے اس معاملے میں جائز نہیں ہے ۔
۶۱۲؎ اصل میں ’لقوم یعلمون‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ عربی زبان میں فعل جس طرح ظاہری یا حقیقی مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اسی طرح ارادۂ فعل کے لیے بھی آتا ہے ۔ یہاں یہ اسی مفہوم میں ہے اور ہم نے ترجمہ اسی کے لحاظ سے کیا ہے ۔
۶۱۳؎ یہ بھلے طریقے سے روکنے کی وضاحت فرمائی ہے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’مثبت پہلو سے بات اوپر کہہ چکنے کے بعد منفی پہلو سے بھی اس کی وضاحت ا س لیے کر دی گئی کہ ظالم لوگ طلاق اور طلاق کے بعد مراجعت کے شوہری حق کو اس ظلم کے لیے استعمال کر سکتے تھے ۔ حالانکہ یہ صریح اعتدا ، یعنی اللہ کے حدود سے تجاوز اور اس کی شریعت کو مذاق بنانا ہے ۔ فرمایا کہ جو ایسی جسارت کرتے ہیں ، بظاہر تو وہ ایک عورت کو نشانۂ ظلم بناتے ہیں ، لیکن حقیقت میں وہ سب سے بڑا ظلم اپنی جان پر کرتے ہیں ، کیونکہ اللہ کے حدود کو پھاندنے اور اس کی شریعت کو مذاق بنانے کی سزا بڑی ہی سخت ہے ۔
آخر میں فرمایا کہ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو کہ اس نے تمھیں ایک برگزیدہ امت کے منصب پر سرفراز فرمایا ، تمھاری ہدایت کے لیے تمھارے اندر اپنا نبی بھیجا، تمھیں خیر و شر اور نیک و بد سے آگاہ کرنے کے لیے تمھارے اوپر اپنی کتاب اتاری جو قانون اور حکمت ، دونوں کا مجموعہ ہے ۔ اللہ کی ایسی عظیم نعمتیں پانے کے بعد اگر تم نے ان کا یہی حق ادا کیا کہ خدا کے حدود کو توڑا اور اس کی شریعت کو مذاق بنایا تو سوچ لو کہ ایسے لوگوں کا انجام کیا ہو سکتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ وہ تمھاری ہر بات سے باخبر ہے ، یعنی وہ لوگوں کی شرارتوں کے باوجود ان کو ڈھیل تو دیتا ہے ، لیکن جب وہ پکڑے گا تو اس کی پکڑ سے کوئی بھی چھوٹ نہ سکے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۳۹)
۶۱۴؎ طلاق کے بعد جو چیزیں باعث نزاع ہو سکتی ہیں ، یہ ان کا حکم ہے ۔ فرمایا کہ جب ایک عورت کو طلاق دے دی گئی ہے تو اب اس کے کسی فیصلے میں رکاوٹ بننے کا حق پہلے شوہر کے لیے باقی نہیں رہا، عام اس سے کہ وہ صریح ممانعت کی صورت میں ہو یا کسی سازش اور جوڑ توڑ کے انداز میں ۔ طلاق کے بعد عورت جب چاہے اور جہاں چاہے شادی کر سکتی ہے ۔ اس کا یہ فیصلہ اگر دستور کے مطابق ہے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجایش نہیں ہو سکتی ۔ اس کے لیے اصل میں ’بالمعروف‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ عورت اور مرد ، دونوں اپنے معاملات طے کرنے میں آزاد ہیں ، لیکن اتنی بات بہرحال ضروری ہے کہ اس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو شرفا کی روایات کے خلاف ہو اور جس سے پہلے شوہر یا ہونے والے شوہر یا خود عورت کے خاندان کی عزت اور شہرت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو ۔
آیت کے آخری حصے کی وضاحت میں استاذ امام نے لکھا ہے :
’’فرمایا کہ یہ نصیحتیں ان لوگوں کو کی جا رہی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی جن لوگوں کے اندر خدا اور آخرت پر ایمان موجود ہے ، ان کے ایمان کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ ان نصیحتوں پر عمل کریں ۔ پھر فرمایا کہ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ اور ستھرا طریقہ ہے ۔ یعنی اگر عورت کی حسب مرضی نکاح کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی گئی تو اس سے خاندان اور پھر معاشرے میں بہت سی برائیاں پھیلنے کے اندیشے ہیں ۔ یہیں سے خفیہ روابط، پھر زنا ، پھر اغوا اور فرار کے بہت سے چور دروازے پیدا ہوتے ہیں اور ایک دن ان سب کی ناک کٹ کے رہتی ہے جو ناک ہی اونچی رکھنے کے زعم میں فطری جذبات کے مقابل میں بے ہودہ رسوم کی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آخر میں فرمایا کہ : اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے۔ یعنی تمھارا علم اور تمھاری نظر بہت محدود ہے ، تمھارے لیے زندگی کے تمام نشیب و فراز کو سمجھ لینا بڑا مشکل ہے ، اس وجہ سے جو کچھ تمھیں خدا کی طرف سے حکم دیا جا رہا ہے ، اس پر عمل کرو۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۴۴)
[باقی]
ــــــــــــــــــــــ