HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۱۸۶-۱۸۷ (۳۷)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ) 


وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْابِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ{۱۸۶}

اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ، ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ ، فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَاعَنکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوھُنَّ وَابْتَغُوْا مَاکَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ، ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ، وَلاَ تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیَتِہِ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُونَ{۱۸۷}

اور (میری اِس ہدایت کے بارے میں ، اے پیغمبر)، جب میرے بندے تم سے کوئی سوال کریں تو (اِن سے کہہ دو کہ اِس وقت) میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ ۴۹۴ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی پکار کا جواب دتیا ہوں ۔ ۴۹۵  لہٰذا اُن کو چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں ۴۹۶ تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں ۔ ۱۸۶

(تم ۴۹۷ پوچھنا چاہتے ہو تو لو ہم بتائے دیتے ہیں کہ) روزوں کی رات میں اپنی بیویوں کے پاس جانا ۴۹۸  تمھارے لیے جائز کیا گیا ہے ۔ ۴۹۹ وہ تمھارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو ۔ ۵۰۰ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے ۵۰۱ تو اُس نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے درگزر کیا ۔ ۵۰۲  چنانچہ اب (بغیر کسی تردد کے) اپنی بیویوں کے پاس جاؤ اور (اِس کا جو نتیجہ) اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے ، اُسے چاہو ، ۵۰۳ اور کھاؤ پیو ، یہاں تک کہ رات کی سیاہ دھاری سے فجر کی سفید دھاری تمھارے لیے بالکل نمایاں ہو جائے ۔ ۵۰۴ پھر رات تک اپنا روزہ پورا کرو۔ اور (ہاں) ، تم مسجد میں اعتکاف ۵۰۵ بیٹھے ہو تو (پھر رات کو بھی ) اُن کے پاس نہ جانا۔ ۵۰۶ یہ اللہ کی مقررکی ہوئی حدیں ہیں ، سو اِن کے قریب نہ جاؤ ۔ ۵۰۷ اللہ اِسی طرح اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ۔ ۵۰۸ ۱۸۷ 

۴۹۴؎ یعنی اس وقت جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے ، تم ان کے درمیان موجود ہو اور تمھاری وساطت سے وہ جب چاہیں ، مجھ سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ ان سوالات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے جو شریعت کی شرح و تبیین کے لیے ضروری تھے ۔ اس سے مراد وہ غیر ضروری سوالات نہیں ہیں جن سے قرآن میں دوسری جگہ لوگوں کو منع کیا گیا ہے ۔

۴۹۵؎ یہ اگرچہ عام حالات میں بھی ایک حقیقت ہے ، لیکن یہاں اس سے مراد بالخصوص وہ جواب ہے جو زمانۂ نزول قرآن میں لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے فوراً مل جاتا تھا۔ اس طرح کے متعدد سوالوں کے جوابات اس سے آگے اسی سورہ میں بیان ہوئے ہیں ۔

۴۹۶؎ یعنی میں جب ان کے قریب بھی ہوں اور ان کی ذہنی الجھنوں کو دور کرنے کے لیے ان کے سوالوں کا جواب بھی دے رہا ہوں تو میرے ساتھ ان کو کوئی منافقانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے اور نہ میرے کسی حکم کو شبہات و اعتراضات کا ہدف بنانا چاہیے ، بلکہ پورے ایمان و یقین کے ساتھ اس کی پیروی کرنی چاہیے ۔

۴۹۷؎ یہ تبیین کی آیت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اوپر کی تمہید لوگوں کی اسی الجھن کے پیش نظر اٹھائی گئی تھی جسے اس آیت میں دور کیا گیا ہے ۔ آگے کی آیات سے واضح ہو گا کہ اس سے حوصلہ پا کر انھوں نے پے در پے سوالات کیے اور قرآن نے با ر بار سلسلۂ بیان کو روک کر ان سوالوں کا جواب دیا ہے ۔ اس طرح کی آیات کو ہم نے ہر جگہ اصل مضمون سے الگ اسی طرح نمایاں کر دیا ہے ۔

۴۹۸؎ اصل میں لفظ ’الرفث‘ آیا ہے ۔ اس کے معنی شہوانی باتوں کے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ’الی‘ کے صلے نے اس کے اندر بیویوں سے اختلاط کا مضمون پیدا کر دیا ہے ۔

۴۹۹؎ یعنی یہ اگرچہ پہلے ہی جائز تھا ، لیکن تمھارے تردد کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ روزوں کی رات میں تم بیویوں کے پا س جا سکتے ہو ۔

۵۰۰؎ مطلب یہ ہے کہ تم دونوںمیں ایسا چولی دامن کا رشتہ ہے اور باہم دگر تم فطرت کے ایسے بندھن میں بندھے ہوئے ہو کہ ناگزیر ضرورت کے سوا تمھیں کسی حالت میں بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں رکھا جا سکتا ۔ میاں بیوی کے تعلق کو بیان کرنے کے لیے لباس کا یہ استعارہ ، اگر غور کیجیے تو نہایت بلیغ استعارہ ہے ۔ لباس کے تین پہلو ہیں : پردہ پوشی ، حفاظت اور زینت۔ مردو عورت ان تینوں ہی پہلووں سے ایک دوسرے کے لیے لباس کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے جنسی جذبات اور داعیات کے لیے باہم دگر پردہ بھی فراہم کرتے ہیں ، شیطان کے حملوں سے ایک دوسرے کی حفاطت کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور باہمی ربط و تعلق سے زندگی کو وہ تمام رونقیں اور بہاریں بھی عطا کر دیتے ہیں جن سے دنیا میں تہذیب و تمدن کا حسن نمایاں ہوتا ہے ۔

۵۰۱؎ یعنی اپنے خیال کے مطابق یہ سمجھتے ہوئے کہ رمضان کی راتوں میں بیویوں کے پاس جانا جائز نہیں ہے ، اس کی خلاف ورزی کر رہے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہود کے ہاں روزہ افطار کے بعد معاً پھر شروع ہو جاتا تھا اور وہ روزے کی رات میں کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ مسلمانوں نے اس سے گمان کیا کہ ان کے لیے بھی یہی قانون ہو گا ، لیکن پھر ان میں سے بعض لوگ یہ گمان اپنے دلوں میں رکھتے ہوئے اس کی خلاف ورزی کر بیٹھے ۔ قرآن نے اسے اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا ہے ۔ یہ ایک بدیہی بات ہے ۔ آدمی اگر اپنے اجتہاد یا گمان کے مطابق کسی چیز کو دین و شریعت کا تقاضا سمجھتا ہے تو اس سے قطع نظر کہ وہ فی الواقع شریعت کا حکم ہے یا نہیں ، اس کی خلاف ورزی اس کے لیے جائز نہیں ہے ۔ اسے ضمیر کے ساتھ خیانت ہی سے تعبیر کیا جائے گا ۔

۵۰۲؎ یعنی اس خیانت پرگرفت ہو سکتی تھی ، لیکن یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تمھیں معاف فرما دیا ۔

۵۰۳؎ اس طرح کے معاملات میں لوگ چونکہ ہر لحاظ سے واضح ہونا چاہتے ہیں ، اس لیے نہایت بلیغ اسلوب میں بتا دیا کہ اگر چاہو تو اس تعلق سے اولاد بھی پیدا کرو۔ نتیجہ اور عمل ، دونوں کے لحاظ سے اب اس معاملے میں تمھیں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔

۵۰۴؎ اس سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کی یہ اجازت صبح صادق کے اچھی طرح نمایاں ہو جانے تک ہے ۔ اس وجہ سے معمولی تقدیم و تاخیر پر اپنے یا دوسروں کے روزے مشتبہ قرار دے بیٹھنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ۔

۵۰۵؎ یہ ایک دینی اصطلاح ہے جس سے مراد ہر چیز سے الگ ہو کر کسی معبد میں یاد الہٰی کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ہے۔ اس کی حیثیت ایک سنت ثابتہ کی ہے جو انبیا علیہم السلام کے دین میں ہمیشہ جاری رہی ہے ۔ قرآن کے مخاطبین اس سے پوری طرح واقف تھے ، لہٰذا اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کی تفصیل کی جائے ۔ قرآن کے الفاظ سے اتنی بات ، البتہ واضح ہے کہ روزوں کے مہینے سے اس عبادت کو خاص مناسبت ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کے ارشادات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔

۵۰۶؎ اس عبادت سے مقصود چونکہ ’تبتل الی اللّٰہ‘ ہے اور اس میں آدمی کو پورے دل سے اپنے پروردگار ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ، پھر یہ بھی ضروری ہے کہ انسانی حاجات کے لیے باہر نکلنے کے سواوہ مسجد ہی میں قیام کرے ، اس وجہ سے اس کے دوران میں بیویوں سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

۵۰۷؎ یعنی حدود الہٰی کی خلاف ورزی سے اپنے آپ کو بچائے رکھنے کے لیے ان سے ذرا دور ہی دور رہنا چاہیے تاکہ بھولے سے بھی قدم کہیں معصیت کی حد میں نہ جا پڑے ۔

۵۰۸؎ یہ الفاظ قرآن میں بالعموم ان آیات کے بعد آتے ہیں جو کسی حکم کی وضاحت کے لیے نازل ہوئی ہیں ۔ قرآن سے متعلق یہ اللہ تعالیٰ کے ا س وعدے کی تکمیل ہے جس کا ذکر سورۂ قیامہ میں ہوا ہے کہ ’ثم ان علینا بیانہ‘ (پھر ہمارے ہی ذمے ہے کہ ہم اس کی وضاحت کر دیں) ۔ اس طرح کی وضاحت سے مقصود یہی ہوتا ہے کہ حکم میں کوئی تردد باقی نہ رہے اور بندۂ مومن کا قدم تقویٰ میں مزید راسخ ہو جائے ۔

(باقی)      

              ـــــــــــــــ              ـــــــــــــــ

B