حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بہت سے صحابہ جمع تھے کہ آپ نے فرمایا : تم میرے ہاتھ پر بیعت (یعنی عہد) کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھیراؤ گے ، زنا نہیں کرو گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے ، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے بارے میں (یعنی جھوٹ بولتے ہوئے اور جنسی معاملات میں ایک دوسرے پر) بہتان نہیں لگاؤ گے اور معروف (یعنی نیکی اور خیر ) کے کاموں میں اطاعت کا رویہ اپناؤ گے اور نافرمانی نہیں کرو گے ۔
یاد رکھو ، جو شخص (اس بیعت میں مذکور چیزوں کے بارے میں) اپنا وعدہ پوراکرے گا ، اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے اور جو شخص ان میں سے کسی چیز کی نافرمانی کرے گا ، اسے اگر دنیا میں اس کے کیے کی سزا مل گئی تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی اور کسی نے نافرمانی کی اور اللہ نے (اس کی پردہ پوشی کی اور) اسے ڈھانپ لیا تو (تم بھی اس کا پردہ رکھو اور اس کے گناہ کا اشتہار نہ دیتے پھرو ، کیونکہ اب) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے ، وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے ۔
صحابۂ کرام فرماتے ہیں کہ ہم نے (ان ساری باتوں پر) آپ کی بیعت کی ۔ (مشکوٰۃ، رقم ۱۸)
یہ اس بیعت کا بیان ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کا پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنے پیروکاروں سے لی ۔
حدیث اپنے مضامین و معانی کے اعتبار سے بالکل واضح ہے ۔ البتہ یہ بات کہ کسی گناہ کی دنیا میں سزا آخرت میں ا س کے لیے کفارہ بن جائے گی ، اس کے لیے ضروری ہے کہ بندہ توبہ کرے ۔ وہ اپنے کیے پر نادم ہو ، آیندہ ایسے گناہوں سے باز رہنے کا عہد کرے اور اگر کسی کی حق تلفی ہوئی ہے تو جہاں تک ہو سکے اس کی تلافی کرے ۔ اس کے بعد وہ خدا کا سچا فرماں بردار، مخلص اور اطاعت شعار بندہ بن کر جینے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لے ۔
آخرت میں کسی گناہ سے نجات پانے اور توبہ قبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دنیا میں خدا کی طرف سے ملنے والی سزا کو دل کی رضا مندی کے ساتھ ایسے قبول کرے جیسا کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کیا کرتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ یقین رکھے کہ اگرچہ یہ سزا دنیا میں اپنے ظاہر کے اعتبار سے ناپسندیدہ اور تکلیف دہ ہے ، مگر آخرت کے حوالے سے سراپا خیر اور اللہ کی رحمت ہے ۔ وہ اسے اللہ کی عنایت اور احسان سمجھے کہ اس نے دنیا میں سزا دے کر حشر کی رسوائی سے بچا لیا اور آخرت میں اس کی نیکیوں کا اجر محفوظ ہو گیا۔ احادیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے ان اہل ایمان کو مفلس اور کنگال قرار دیا ہے جو نماز پڑھتے ، روزے رکھتے ، زکوٰۃ دیتے اور اس طرح کے بہت سے نیک کام کرتے ہیں ،مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کا حق مارتے ہیں ، بہتان لگاتے ہیں ، گالی دیتے ہیں ، ناجائز طریقوں سے اپنے بھائیوں کا مال کھا جاتے ہیں اور بعض اوقات قتل ناحق جیسے بھیانک جرم کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ۔ موت کے بعد جب قیامت آئے گی اور ایسے لوگوں کا حساب و کتاب ہو گا تو ان کی نیکیاں مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی ۔ اور اگر دوسروں کا حق ان پر ابھی باقی تھا اور ان کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو حق داروں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور اس طرح وہ دنیا میں بہت سی نیکیاں کرنے کے باوجود ان کے اجر سے محروم ہو جائیں گے اور جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی کی پردہ پوشی کرنا اللہ کو بہت پسند ہے ۔ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسری حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے کہ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی (سے جرم سرزد ہوجانے پر اس کے گناہ) کی پردہ پوشی کی ، اللہ قیامت کے روز اس کا پردہ رکھے گا۔
____________